بچے معصوم ہوتے ہیں، وہ اپنے نفع نقصان کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ان کے دل و دماغ کورے کاغذ کی مانند ہوتے ہیں جن پر خوب صورت نقش و نگار اور گل بوٹے بنانا والدین کے ذمے اہم کام ہوتا ہے۔ وہ جذبات سے بھرپور ہوتے ہیں۔ بچے کی پرورش اور تعلیم و تربیت والدین یا بچوں کے سربراہ کی اوّلین ذمے داری ہوتی ہے جو یقینا نہایت صبر آزما کام ہے۔ اس لیے جب والدین یا سربراہ برسرروزگار نہ ہوں تو یہ ذمے داری وہ احسن طریقے سے ادا نہیں کرپاتے۔ اس لیے بچوں سے پہلے والدین کی تعلیم و تربیت کی بھی اشد ضرورت ہے۔
انسانی زندگی خوب صورت ہے، لیکن اس کا خوب صورت ترین حصہ بچپن ہے۔ بچے پھولوں کی مانند ہوتے ہیں۔ وہ نرم و ملائم ہوتے ہیں اور بڑی احتیاط اور ذمے داری کے ساتھ ان کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کے ساتھ محبت کی ایک بڑی روشن مثال قائم کی۔ آپؐ اپنے نواسوں پر محبت نچھاور کیا کرتے تھے۔ ایک حدیثِ مبارکہ کے مطابق نبی اکرمؐ نے حضرت حسنؓ کو بوسہ دیا۔ اُس وقت آپؐ کے پاس اقرع بن حابس تمیمی بھی بیٹھے تھے، وہ بولے ’’یارسول اللہؐ میرے دس بیٹے ہیں، میں نے تو کبھی اُن میں سے کسی کو نہیں چوما۔‘‘
اِس پرآپؐ نے اُن کی طرف دیکھ کر فرمایا ’’جو رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جاتا۔‘‘ (صحیح بخاری)
پاکستان کا شمار آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ملکوں میں ہوتا ہے لیکن معاشی زبوں حالی نے اس ملک کے ہر باسی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور ایک گھر میں موجود ہر فرد کو کمانے پر مجبور کردیا ہے۔ بچے ہمارا مستقبل ہیں، مقابلے کے اس دور میں معیاری تعلیم و تربیت اُن کا بنیادی حق ہے۔ لیکن اس کمر توڑمہنگائی اور معاشی زبوں حالی نے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل بنادیا ہے، اس طرح معیاری تعلیم توکجا، عام تعلیم و تربیت جو گھر یا محلے کے مدرسے میں ہوجاتی تھی، وہ بھی بچوں کو مشقت پر لگا دینے کے باعث حاصل نہیں رہی ہے۔
معاشی کسمپرسی نے ایسے حالات پیدا کردیے ہیں کہ تعلیم و تربیت سے دور ہماری قوم کی اکثریت کا مقصدِ حیات بدل چکا ہے۔ آج مقابلے کا یہ دور معیار زندگی کو بہتر سے بہتر کرنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کا نام ہے۔ ماضی میں بچوں سے مشقت کی اہم اور بنیادی وجہ صرف پیٹ پوجا تھی، تاہم اب بڑھتی مہنگائی اور بچوں کے والدین یا سربراہ کی بے حسی اور قناعت کی عادت ختم ہوجانا ہے۔
بہرحال سوال پھر بھی یہی ہے کہ مستقبل کی اس نسل کو بہترین اور بامقصد تعلیم و تربیت کی طرف گامزن کرنے اور انہیں معاشی مشقت سے نکالنے کے لیے ریاستی سطح پر کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟
پاکستان میں یتیم بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے ’’یونیسف‘‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 42 لاکھ سے زائد بچے یتیم ہیں۔ پاکستان کا شمار یتیم بچوں کے حوالے سے سرفہرست 10 ممالک میں ہوتا ہے، اور ان میں بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہے جنہیں تعلیم، صحت اور خوراک کی مناسب سہولیات میسر نہیں۔ عام طور پر یتیم بچوں کی کفالت کا اہتمام اُن کے رشتے داروں کے پاس ہوتا ہے یا جان پہچان والوں کے پاس، جنہیں ان بچوں کے سربراہ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ معاشی بوجھ یا معاشرتی بے حسی کے باعث ان بچوں کو جبری مشقت پر ڈال دیا جاتا ہے۔ خاص طور پر گھریلو ملازمین کے طور پر ان سے کام لیے جاتے ہیں۔ بہت سے کیسز میں ان بچوں پر تشدد کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ خاندان کا کفیل نہ ہونے کے باعث ان بچوں کو انتہائی کم اجرت پر دن رات مشقت پر مجبور کیا جاتا ہے۔ جبری مشقت پر مامور بچوں میں یتیم بچوں کی تعداد زیادہ ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں یتیم بچوں کی کفالت کا اہتمام صرف سرکاری یتیم خانے بنانے سے ممکن نہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق حکومتِ پاکستان کے پاس 35 شیلٹر ہومز میں بمشکل500، 3 یتیموں کو جگہ دینے کی گنجائش ہے، جس کے نتیجے میں ملک میں حکومت کے زیر انتظام ان چند یتیم خانوں میں جگہ کے لیے ہزاروں یتیموں کو سالہا سال انتظار کرنا پڑے گا۔ اس ضرورت کے پیشِ نظر ریاست کو پرائیویٹ سیکٹرکی طرز پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ جو کام ریاست کے بنیادی فرائض میں شامل ہیں اُن پر ریاست کی طرف سے کوئی عملی اقدام نظر نہیں آتا۔ اس کے برعکس پرائیویٹ سیکٹر میں لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کئی ایسے فلاحی ادارے قائم کیے ہیں جو تحسین کے مستحق ہیں، جیسا کہ الخدمت کا ’’آغوش پروگرام‘‘، یا ایدھی سینٹر۔ تاہم اتنی بڑی آبادی والے ملک میں جہاں یتیم بچوں کی تعداد زیادہ ہو، پرائیویٹ سیکٹر کا کام آٹے میں نمک کے برابر ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ریاست کو فلاحی تنظیموں کی طرز پر یتیم بچوں کے لیے ملک بھر میں کام کرنے کی ضرورت ہے، لیکن ریاست اس پر سنجیدگی سے کام نہیں کررہی ہے، اس لیے خدشہ ہے کہ یہ یتیم بچے محرومی کی انتہا پر پہنچ جائیں گے اور ان محرومیوں ہی کے باعث جرائم کی لپیٹ میں آئیں گے یا نشے کی عادت اپنا لیں گے۔
جیلوں میں قید اکثر قیدی بچپن میں جبری مشقت کے باعث جرائم کی دلدل میں پھینک دیے گئے تھے۔ یتیمی کی زندگی میں جبری مشقت پر ڈالے جانے کی وجہ سے ان کا استحصال کیا گیا اور پھر یہ معاشرے کا ناکارہ حصہ بن کر رہ گئے۔ جبری مشقت ایسا ناسور ہے جو ہماری نسل کے کارآمد شہری بننے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ جبری مشقت کے خلاف ریاست ٹھوس اور عملی اقدامات بروئے کار لائے۔
قانون کے تحت بچوں سے جبری مشقت لینا ممنوع ہے۔ بین الاقوامی قانون بھی بچوں سے مشقت کے خلاف ہے جس کے تحت 14 سال سے کمر عمر بچے سے مزدوری کرانا بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بچوں سے مشقت لیے جانے کے خلاف کافی آواز اٹھائی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ کون سے بچے جبری مشقت کے زمرے میں آتے ہیں۔
آئی۔ایل۔او کے مطابق چائلڈ لیبر وہ کام ہے جس سے بچے اپنے بچپن کی امنگوں اور باعزت و پُروقار طرزِ زندگی سے محروم ہوجائیں اور جو اُن کی جسمانی، ذہنی اور اخلاقی نشوونما کے لیے نقصان دہ ہو، اور جس سے اُن کی بنیادی تعلیم میں حرج ہو۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم چائلڈ لیبر اور چائلڈ ورک میں فرق کیسے کریں؟ آئی۔ایل۔او کے مطابق اس کا تعین بچے کی عمر، کام کی نوعیت، اوقات، حالاتِ کار اور ممالک کی ڈویلپمنٹ اسٹیج کو سامنے رکھ کر کیا جانا چاہیے۔
یونیسف کے مطابق چائلڈ لیبر دراصل وہ کام ہے جو بچے کی عمر اور کام کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کم از کم متعین اوقات سے زیادہ ہو۔
پاکستان کا آئین اپنے مستقبل کے معماروں کے لیے تحفظ فراہم کرتا ہے جس کے تحت آئین کے آرٹیکل 3 کے تحت مملکت استحصال کی تمام اقسام کا خاتمہ اور اس بنیادی اصول کی تدریجی تکمیل کو یقینی بنائے گی کہ ہر کسی سے اُس کی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے گا اور اس کے کام کے مطابق معاوضہ دیا جائے گا۔
آئین کے آرٹیکل 11 کے تحت 14 سال سے کم عمر بچے کو کسی کارخانے یا کان یا دیگر پُرخطر ملازمت میں نہیں رکھا جائے گا۔
آئین کے آرٹیکل 25-A کے تحت ریاست 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کے لیے لازمی اور مفت تعلیم دینے کا انتظام کرے گی۔
آئین کے آرٹیکل 37کے تحت ریاست منصفانہ اور نرم شرائطِ کار، اس امر کی ضمانت دیتے ہوئے کہ بچوں اور عورتوں سے ایسے پیشوں میں کام نہ لیا جائے گا جو اُن کی عمر یا جنس کے لیے نامناسب ہوں، مقرر کرنے اور ملازم عورتوں کے لیے زچگی سے متعلق مراعات دینے کے لیے احکام وضع کرے گی۔
درج ذیل قوانین خصوصی طور پر چائلڈ لیبر سے متعلق ہیں:
ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 1991ء
ایمپلائمنٹ آف چلڈرن رولز1995ء
ان کے علاوہ دیگر قوانین بھی ہیں جو بچوں کی ملازمت سے متعلق ہیں اور کام کرنے والے بچوں کے حالاتِ کار کو ضابطے میں لاتے ہیں۔
مائنز ایکٹ1923ء
چلڈرن (پلیجنگ آف لیبر) ایکٹ1933ء
فیکٹریز ایکٹ1934ء
روڈ ٹرانسپورٹ ورکرز آرڈیننس1961ء
شاپس اینڈ اسٹیبلشمنٹس آرڈیننس1969ء
مرچنٹ شپنگ آرڈیننس2001ء
ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ / بچوں کی ملازمت کے قانون مجریہ1991ء کی دفعہ 4کے تحت وفاقی حکومت ان تمام پیشوں اور پیداواری شعبوں کے متعلق نوٹیفکیشن جاری کرسکتی ہے جہاں بچوں کی ملازمت پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ وفاقی حکومت نے سال 2005ء میں ان پیشوں اور پیداواری شعبوں کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جہاں بچوں کی ملازمت پر قطعی پابندی ہے۔
اس پابندی کے باوجود بچوں سے جبری مشقت میں کمی کے بجائے اضافہ ہی دیکھا گیا ہے۔ اس صورتِ حال کے مدنظر چلڈرن (پلیجنگ آف لیبر) ایکٹ 1933ء میں ترامیم لائی گئی ہیں اور بچوں سے مشقت کرانے میں ملوث افراد کے لیے قانون کو سخت اور قابلِ سزا بنا دیا گیا ہے۔ ان ترامیم کے ذریعے والدین اور ملازمت فراہم کرنے والوں کے لیے سزائیں سخت کردی گئی ہیں۔ ظاہر ہے یہ سزائیں سخت کرنے کی وجہ یہی ہے کہ بچوں سے مشقت کے خاتمے کو ممکن بنایا جائے۔ لیکن ان قوانین کے ہوتے ہوئے بھی بچے مشقت پر مجبور ہیں تو اس کی وجہ صاف ہے کہ ان قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ دوسری طرف صرف قانون بنادینا ہی کافی نہیں ہے، ریاست کو ہر وہ ضروری قدم اٹھانا ہوگا جو والدین پر معاشی بوجھ کم کرسکے۔ بچوں سے محنت و مشقت لینے کے شیطانی چکر کو ختم کرنے کے لیے معاشی غربت کو جڑ سے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ بچوں کی حفاظت کرتے ہوئے اُن کے لیے تعلیم کے حصول اور مشقت سے تحفظ کے لیے نئے امکانات پیدا کرے۔ کاروباری اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ بچوں اور انسانوں کے بنیادی حقوق کا پورا خیال رکھیں کیوں کہ بچے ہمارا مستقبل ہیں۔
بچوں میں شعور کی کمی ہوتی ہے۔ وہ دنیا کوابھی تازہ دریافت کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ وہ اپنی تمام ضروریات کی تکمیل میں والدین پر انحصار کررہے ہوتے ہیں۔ اس لیے والدین کو صرف سزا دینا کافی نہیں ہے بلکہ جرم کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے ہی ریاستی سطح پر ایسے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کہ والدین یا سربراہ بچوں کو مشقت پر نہ ڈال سکیں۔ والدین کو فی بچہ ہر وہ سہولت بہم پہنچانا حکومت کی آئینی ، قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے جس کے تحت وہ خود معاشی بوجھ اٹھائیں، نہ کہ یہ بوجھ بچوں کو منتقل کریں۔