کچے دھاگے

193

ہمارے گھر سے کچھ فاصلے پر نئے کرایہ دار شفٹ ہوئے۔ اکبر صاحب کا گھرانہ اچھا خاصا کھاتا پیتا معلوم ہوا۔ دو بیٹوں اور ایک بیٹی پر مشتمل پانچ افراد کا گھرانہ ہے۔ بیٹی کی شادی وہ پہلے ہی کرچکے تھے۔ اس محلے میں شفٹ ہوتے ہی انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں کی بھی شادی کردی۔ ان کی بڑی بہو کا نام سامعہ تھا،کچھ عرصے بعد اڑی اڑی خبر ملی کہ لڑکی نے خلع لے لی ہے۔

اکبر صاحب کی بیگم ریحانہ خالہ سے میری بات چیت بہت اچھی تھی۔ ایک دن سہ پہر کو سخت گرمی میں دروازے پہ مسلسل دستک ہوئی تو دیکھا کہ خالہ کھڑی تھیں۔

میں نے سلام کرتے ہوئے پوچھا ’’خالہ! سب خیر ہے نا، مجھے بلوا لیتیں، ناحق اتنی گرمی میں گھر سے نکلیں۔‘‘

’’ارے بیٹا! دل بڑا گھبرا رہا تھا، سوچا تم سے ہی مل آؤں۔‘‘ انہوں نے اندر آتے ہوئے کہا۔

میں انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھا کر جلدی سے شربت لے آئی۔ سوچا، اچھا ہے یہ خود آگئی ہیں تو ان سے ذہن میں کلبلاتا سوال بھی پوچھ ہی لوں گی۔ تھوڑی دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد میں نے پوچھ ہی لیا ’’خالہ! یہ تو بتایئے سامعہ نے آخر خلع کیوں لی تھی؟‘‘

وہ بڑے دکھ سے کہنے لگیں ’’کیا بتاؤں بیٹا! میں نے سوچا تھا بیٹوں کی بھی شادی کرکے اپنے فرائض سے سبک دوش ہوجاؤں گی، مگر آج کل لڑکوں سے زیادہ لڑکیوں کے دماغ آسمان پر ہیں۔‘‘

میں نے کہا ’’ہاں یہ تو آپ صحیح کہہ رہی ہیں، لیکن کیا آپ نے چھان بین نہیں کی تھی؟‘‘

’’چھان بین کیا کرنی تھا بیٹا! دراصل سامعہ میرے بیٹے اسد کے آفس میں جاب کرتی تھی، پتا نہیں اس نے ایسا کون سا جادو کردیا تھا اسد پر کہ وہ اُس کے سوا کسی کا نام ہی سننا نہیں چاہتا تھا۔‘‘

’’خالہ! آپ کو اپنے بیٹے کو تو سمجھانا چاہیے تھا نا‘‘۔ میں نے انہیں بیچ میں ٹوکا۔

’’کہہ تو تم بھی ٹھیک رہی ہو، مگر وہی بات کہ ’’میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی‘‘۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا، بس میرے بیٹے نے سامعہ کے سامنے ایک شرط رکھی کہ شادی کے بعد تمہیں ملازمت چھوڑنی پڑے گی اس لیے کہ میری امی پرانے خیالات کی مالک ہیں، وہ یہ سمجھتی ہیں کہ ملازمت کی وجہ سے لڑکیاں گھر کو مناسب وقت نہیں دے سکتیں۔ اُس نے اور اُس کے گھر والوں نے یقین دلایا کہ سامعہ تو ملازمت صرف وقت گزاری کے لیے کررہی ہے، شادی کے بعد آپ لوگ جیسا کہیں گے وہ ویسا ہی کرے گی۔ لیکن شادی کے ایک ہفتے بعد ہی وہ آفس جانے کے لیے تیار کھڑی تھی۔ بیٹے نے اسے اس کا وعدہ یاد دلایا تو کچھ دنوں میں چھوڑنے کا کہہ کر ٹال دیا۔ بیٹا خاموش ہوگیا۔ اب گھر کی روٹین یہ تھی کہ میں صبح سب کے لیے ناشتا بناتی اور وہ تیار ہوکر آفس نکل جاتی۔ دوپہر کے کھانے کی ذمے داری چھوٹی بہو کی تھی، جب کہ رات کی چند روٹیاں بنانا اس کے ذمہ تھیں، لیکن وہ تو رات آٹھ بجے گھر لوٹتی، اتنی تھکی ہوتی کہ سیدھی اپنے کمرے میں چلی جاتی۔ اسد آفس سے واپسی پر باہر سے روٹیاں لیتے ہوئے آتا، میں اور میرے شوہر خاموشی سے سب دیکھ رہے تھے۔‘‘

’’سامعہ کے گھر والوں سے آپ لوگوں نے کوئی بات نہیں کی؟‘‘ میں نے افسوس کے ساتھ سوال کیا۔

’’کی تھی بات، مگر اُن لوگوں نے بجائے بیٹی کو سمجھانے کے ہمیں ہی ٹکا سا جواب دے دیا کہ یہ آپ کے گھر کا مسئلہ ہے، آپ جانیں اور سامعہ جانے۔ خیر آگے سنو کیا کہانی ہوئی۔ کچھ ہی دنوں بعد اُس نے ننھے مہمان کی آمد کی خوش خبری سنائی تو ہم مطمئن ہوگئے کہ اب یہ آفس چھوڑ دے گی اور گھر اور بچے پر توجہ دے گی۔

میرے بیٹے نے بار بار اسے اس کا وعدہ بھی یاد دلایا لیکن وہ سنی اَن سنی کرتی گئی۔ جب بچے کی پیدائش کے دن قریب آئے تو وہ میکے چلی گئی اور وہاں جاکر طلاق کا مطالبہ کردیا۔‘‘

’’اوہو! یہ تو ڈھٹائی کی حد ہوگئی۔‘‘ میں نے تاسف سے کہا۔

’’ہاں نا! ہم حیران و پریشان تھے کہ یاخدا! ایسا کیا ماجرا ہوگیا کہ بات اتنی بگڑ گئی! آخر فون کرکے میں نے اس سے پوچھا:

’’بیٹا سامعہ! کوئی ناراضی اگر ہوگئی ہے اسد سے، یا ہماری کوئی بات بری لگی ہے تو بتاؤ۔ یوں اپنا گھر تو برباد نہ کرو۔‘‘ مگر اُس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ کئی بار ہم لوگ اُس کو منانے اُس کے گھر گئے، اسے بہت سمجھایا کہ شادی بیاہ گڈے گڑیا کا کھیل نہیں۔ مگر وہی مرغے کی ایک ٹانگ کہ ’’طلاق دیں ورنہ خلع لے لوں گی کیوں کہ مجھے ہر حال میں جاب کرنی ہے، میں شوہر چھوڑ سکتی ہوں مگر جاب نہیں۔‘‘

ادھر اسد نے بھی ضد باندھ لی تھی کہ طلاق کسی صورت نہیں دوں گا۔ آخرکار بچی کی پیدائش کے بعد اُس نے کورٹ کے ذریعے خلع حاصل کرلی۔

ہم پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی۔ چند دنوں بعد اُن کے خاندان کے ہی کسی فرد کے ذریعے ساری کہانی ہمیں پتا چلی کہ وہ پہلے سے ہی طلاق یافتہ تھی، پہلی شادی اس کی اپنی مرضی کی تھی لیکن ایک دن دونوں میاں بیوی میں کسی بات پر جھگڑا ہوگیا تو شوہر نے غصے میں آکر طلاق دے دی، بعد میں دونوں کو بہت پچھتاوا ہوا، لہٰذا اس نے ’’حلالہ‘‘ کا سوچا اور اس مقصد کے لیے اسد کو استعمال کیا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس سارے منصوبے میں اس کے گھر والے بھی شامل تھے۔ اڑتے اڑتے یہ خبر ہم تک بھی پہنچ ہی گئی ہے کہ سامعہ نے بیٹی کو اپنے والدین کے حوالے کرکے اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرلیا ہے۔

اُف اللہ! یہ کہانی سن کر تو میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔‘‘
’’خالہ یہ تو بڑی ہی غلط بات ہے کہ گھر والے بھی اس منصوبے میں شامل تھے۔ یہ تو ڈراموں اور فلموں والی کہانی ہوگئی۔‘‘
’’اُس نے میرے بیٹے کی تو زندگی تباہ کی ہی، اپنی اولاد کے ساتھ بھی برا کیا۔ تم خود سوچو ہم اگر بچی کو اپنے پاس لائیں بھی تو اسے کون پالے گا؟ میری بوڑھی ہڈیوں میں کہاں اتنی سکت ہے کہ چھوٹی بچی کو سنبھال سکوں! سچ پوچھو تو میرے اسد کا اب عورت ذات سے اعتبار ہی اٹھ گیا ہے۔‘‘
خالہ نے نہایت افسردگی کے ساتھ اپنی بات ختم کی اور تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد چلی گئیں۔
ان کے جانے کے بعد میں سوچ رہی تھی کہ کیا کچھ ہورہا ہے ہمارے معاشرے میں۔ عورت خاص کر ماں، جو کہ محبت اور قربانی کا استعارہ ہے، کیسے اُس سے اپنی چند ماہ کی بچی چھوڑی گئی؟ اس بچی کا آخر کیا قصور؟ نہ اس کو ماں کی محبت ملے گی اور نہ ہی باپ کی شفقت۔ میاں بیوی کے رشتے گویا کچے دھاگوں کی مانند ہوتے جارہے ہیں جو پل میں ٹوٹ جاتے ہیں۔
nn

حصہ