مہک کا راز

119

فاطمہ کو اپنی ٹیم کا حصہ بنانے کی منظوری انھیں مل چکی تھی۔ اس بات پر جمال اور کمال تو خوش تھے ہی کہ فاطمہ کی شمولیت سے ان کی ٹیم کو اور استحکام ملے گا لیکن خود فاطمہ کو بھی بہت خوشی تھی کہ اسے ایک بار پھر سے اعتماد کے قابل سمجھا گیا۔ یہ بات کسی کے لیے بھی اعزاز کا باعث ہوتی ہے کہ اس کی صلاحیت کو، اس کی دیانت داری کو اور اس کا ملک و ملت کے ساتھ مخلص ہونا تسلیم کیا جائے۔ بس اسی لیے فاطمہ کو جب یہ خبر ملی کہ اس کو ایک بار پھر جمال اور کمال کی کسی مہم میں شریک کر لیا گیا تو وہ اپنے دل میں بہت ہی خوشی محسوس کر رہی تھی اور اپنے رب کے حضور سجدہ ریز تھی کہ تونے جس بندی کو صلاحیتوں سے نوازا ہے اب ان ہی صلاحیتوں، جرأتوں اور توانائیوں کو وہ تیرے راہ میں نچھاور کرنے کے لیے میدانِ عمل میں کود رہی ہے۔ اے میرے رب اب یہ تیرے اختیار میں ہے کہ میں کامیابیوں سے بھی ہمکنار ہو سکوں۔ آمین ثم آمین۔
سب سے پہلے تو یہ طے کیا گیا کہ وہ اپنی تحقیق کا آغاز سینڑل جیل سے کریں گے اور کوشش کریں گے وہ قیدی نمبر 1103 سے تنہائی میں ملاقات کر سکیں تاکہ اس سے اس کے خیالات معلوم کر سکیں۔ جمال اور کمال کو جیل کی کال کوٹھڑی کے قریب سے گزرتے ہوئے ایسا لگا تھا جیسے قیدی نمبر 1103 جسمانی طور پر تو سلاخوں کے پیچھے موجود تھا لیکن ذہنی طور پر وہ وہاں موجود نہیں تھا اور وہ عجیب سی مہکار کیا تھی جو اس کے لباس یا سانسوں سے آ رہی تھی۔
فاطمہ! جمال نے فاطمہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ایسے موقع پر تمہارے دو طرح کے کام ہونگے، ایک تو یہ کہ جو مہک ہمیں قیدی نمبر 1103 کی جانب سے آتی ہوئی ہمیں محسوس ہوئی تھی اس کو اپنی یادداشت میں محفوظ کرنا ہے نیز وہاں قیدی، یا جیلر یا جیلر کے ساتھ اگر اور لوگ بھی ہوئے، ان تمام کی جسمانی مہک کو بھی اس طرح اپنی یادداشت میں اتار لینا ہے کہ اگر ان میں سے کہیں بھی کوئی بھی دیکھ لیا جائے تو تم اس کو پہچان سکو۔ اس جدید دور میں یہ بات بھی بہت شدت سے سامنے آتی جا رہی ہے کہ لوگ اپنا حلیہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اس حد تک بدل لیا کرتے ہیں کہ ایک نظر میں ان کو پہچان لینا ممکن نہیں رہتا۔ قدرت نے ہم دونوں یعنی مجھے اور کمال کو ’’پہچان‘‘ لینے کی بے انتہا صلاحیت دے رکھی ہے مگر اس کے باوجود بھی اکثر ہم کسی کو پہچان لینے میں مشکل محسوس کرتے ہیں ایسے موقع پر تمہاری خداداد صلاحیت ہمارے لیے بہت ہی مددگار ثابت ہوگی۔
فاطمہ نے اقرار میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ میں اپنی جانب سے اس بات کی بھر پور کوشش کرونگی تمام خوشبوئیں یا مہکاریں چہروں اور شخصیات کے ساتھ اپنے ذہن میں محفوظ رکھ سکوں۔
اور ہاں، جمال نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہماری اطلاع کے مطابق قیدی نمبر 1103 اعلیٰ حکام کے نزدیک حقیقتاً بے گناہ ہے۔ بے شک وہ اپنے ذرائع سے بھی قیدی کو جیل سے رہائی دلوا سکتے تھے لیکن وہ ایک جانب تو یہ چاہتے ہیں کہ فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق ہو دوسرے یہ کہ انھیں اس بات کا قوی یقین ہے کہ قیدی کے اقبال جرم کے پیچھے کوئی اور ہاتھ ہے۔ لہٰذا وہ ضروری سمجھتے ہیں کہ اصل حقائق ٹھوس شواہد کے ساتھ منظرِ عام پر آنے چاہئیں۔
اس سلسلے میں ہم دونوں یعنی میری اور کمال کی بھی ایک الگ رائے ہے جو ممکن ہے غلط بھی ہو۔ جمال نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ وہ رائے یہ ہے کہ ہماری اعلیٰ خفیہ ایجنسی کسی چھوٹے موٹے کیس کے سلسلے میں کبھی نہیں الجھا کرتی اس لیے ہمیں یہ بھی اپنی نظروں میں رکھنا ہوگا کہ ممکن ہے اس کیس میں یا تو کوئی بڑی شر پسند تنظیم کا ہاتھ ہو سکتا ہے یا پھر بیرونی ملک کا ہاتھ بھی شامل ہونے کے امکانات ہیں اس لیے ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہوگا وہ بہت سوچ سمجھ کر، محتاط انداز میں اور ہوشیاری سے کرنا ہوگا۔ یاد رہے کہ یہ ہم دونوں بھائیوں کی رائے ہے اس لیے امکان ہے کہ یہ سب اندازے غلط بھی ہوں۔
اعلیٰ حکام کی اجازت ہمیں مل چکی ہے اور ہم کسی بھی وقت سینٹرل جیل کا دورہ کر سکتے ہیں۔ فی الحال ہماری رائے کا احترام کرتے ہوئے وہاں کے جیلر کے علم میں یہ بات نہیں لائی جا رہی ہے کہ ہم قیدی سے بھی ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے علم میں صرف اتنا ہی ہے کہ فلاں اسکول کے تین طالبعلم، جن میں ایک طالبہ بھی شامل ہے، آپ سے ملاقات کے خواہاں ہیں۔ ان کو ان کے اسکول کی جانب سے جو اسائنمنٹ دیا گیا ہے اس سلسلے میں انھیں آپ کی جیل میں دورے کے لیے بھیجا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں آپ طالبعلوں کے ساتھ ہر ممکن تعاون کریں۔ ممکن ہے کہ وہ جیل میں قید مجرموں سے بھی ملنا چاہیں تو آپ اس سلسلے میں بھی ان سے تعاون کیجئے گا۔
سینٹرل جیل کے ویزٹ کے سلسلے میں کوئی خاص دن کا تعین تو نہیں کیا گیا تھا کہ وہ جب بھی آنا چاہیں گے، آپ کو مطلع کردیں گے۔
آنے والی کل کے لیے سینٹرل جیل جانا طے کر لیا گیا تھا اور جیلر صاحب کو بھی اپنی آمد اور وقت سے آگاہ کر دیا گیا تھا۔ جیل کے گیٹ سے ہی ان کا استقبال شروع ہو گیا تھا۔ ان کے ساتھ ایک خصوصی گارڈ جیلر کے آفس تک آیا تھا اور ان تینوں کو آفس میں بٹھا کر واپس ہو گیا تھا۔ جاتے جاتے وہ ان تینوں سے اتنا کہہ گیا تھا کہ جیلر صاحب پندہ بیس منٹ کے اندر اندر آ جائیں گے اس وقت تک وہ آپ کے متعلق ہمیں آرڈر دے گئے ہیں کہ آپ ان کی آفس میں بٹھا کر رکھیں اور توضع کریں۔ جمال اور کمال کیونکہ پہلے بھی یہاں آ چکے تھے اس لیے بہت ساری چیزیں ان کی نگاہ میں تھیں۔ کون سا قید خانہ کہاں ہے، کس قسم کے قیدیوں کے لیے کون سے کمرے کہاں بنے ہوئے ہیں وغیرہ۔ وہ چاہتے تو کسی بہانے قیدی نمبر 1103 سے جیلر کے آنے سے قبل بھی اکیلے میں ملاقات کر سکتے تھے لیکن شاید یہ بات خلافِ ادب اور ناگواری کا سبب بھی ہو سکتی تھی۔ پچھلی مرتبہ جب وہ یہاں انسپکٹر حیدر علی کے ساتھ آئے تھے تو احتیاطاً انھوں نے اپنے حلیے اور لباس کو اس حد تک ضرور بدلہ ہوا تھا کہ دوبارہ ملاقات پر وہ پہچانے نہ جا سکیں۔ چہرہ چھپانے کے لیے انہوں نے ’’فیس ماسک‘‘ اپنے چہروں پر لگائے ہوئے تھے۔ ان کو توقع تھی کہ جیلر صاحب ان کو یہاں دوبارہ دیکھ کر نہیں پہچان سکیں گے لیکن وہ ذہنی طور پر ہر قسم کے حالات سے تمٹنے کے لیے تیار تھے۔ ویسے بھی وہ انسپکٹر حیدر علی کے ساتھ ہی آئے تھے۔ پہچان بھی لیے گئے تو کوئی ایسی بات تو بہر کیف نہیں ہو سکتی تھی جو ان کی تحقیق میں کسی قسم کی رکاوٹ بن سکتی ہو البتہ ان کے تحفظ کے لیے ضروری تھا کہ کسی ایسے کی نظر میں نہ آئیں جو ان کے لیے خطرے کا سبب بن سکے۔

حصہ