رضیہ سلطانہ

111

حُسن و جمال میں یکتا‘ بہترین شہ سوار اور سپہ سالار… میدان ِجنگ میں شمشیر بکف دشمنوں کے مقابلہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار‘ ہندوستان میں چار سال بادشاہت کرنے والی حسین ترین عورت‘ ہندوستانی تاریخ کا ایک خو ش نما باب جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ کیا آپ اس ماہِ لقا کا نام جاننا چاہتے ہیں؟ تو معزز قارئین کرام اس ماہ ِتاباں کو تاریخ رضیہ سلطانہ کے نام سے یاد رکھتی ہے۔ رضیہ سلطانہ کون تھی یہ جاننے کے لیے ہمیں تاریخ کے اوراق الٹنے پڑیں گے ۔

بات کا آغاز اس غلام سے کریں گے جو ترکستان کے بازار میں ایک بُردہ فروش( بچوں کی تجارت کرنے والے) کے ذریعے فروخت کیا گیا نہ تو اس کے خاندان کا کچھ پتا تھا اور نہ ہی قبیلے کا یہ معصوم کسی طرح افغانستان کے بادشاہ سلطان شہاب الدین غوری تک پہنچ گیا۔ سلطان کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی لہٰذا اس نے اس بچے کی پرورش اپنی اولاد کی طرح کی۔ بڑا ہو کر یہ ایک بہترین سپہ سالار ثابت ہوا اور قطب الدین ایبک کے نام سے تاریخ کا حصہ بنا۔ اس وقت ہندوستان کا راجہ پرتھوی راج تھا۔ 1188ء میں سلطان غوری افغانستان کے شہر غزنی سے ہندوستان آیا اور پرتھوی راج کی فوج سے تراین کے میدان میں ایک تاریخی جنگ لڑی گئی اس جنگ میں پرتھوی راج بدترین شکست سے دوچار ہوا۔ میدانِ جنگ میں قطب الدین ایبک نے نمایاں کارگردگی کا مظاہرہ کیا۔ غزنی واپس جانے سے قبل سلطان نے قطب الدین ایبک کو ہندوستان میں اپنا نائب مقرر کیا بعد ازاں قطب الدین ایبک ہندوستان کا بادشاہ بنا اور چار سال تک بادشاہت کرتا رہا۔

ایک اور غلام:-

قطب الدین ایبک کی طرح التمش بھی ایک غلام تھا جسے اس کے بھائیوں نے اس کی خوب صورتی اور فراست سے جل کر ایک بُردہ فروش کے ہاتھ فروخت کر دیا تھا۔ التمش کو قطب الدین ایبک نے خرید لیا‘ اُس کی بہترین پرورش کی‘ اُسے فوجی تربیت دی اور وہ ایک اچھا سپہ سالار ثابت ہوا۔ قطب الدین ایبک التمش پر اتنا مہربان تھا کہ اس نے التمش سے اپنی بیٹی کی شادی کر دی۔

قطب الدین کے مرنے کے بعد التمش ہندوستان کا بادشاہ مقرر ہوا ہندوستان پر التمش نے 24 سال حکمرانی کی۔ رضیہ سلطانہ اسی عظیم بادشاہ کی بیٹی تھی۔

التمش کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد 1236ء میں بادشاہت کا تاج رضیہ سلطانہ کے سر کی زینت بنا۔ رضیہ ایک پردہ دار خاتون تھی‘ کسی غیر مرد نے اسے کبھی نہ دیکھا تھا لیکن جب تخت ِشاہی پر جلوہ افروز ہوئی اور اپنے چہرے سے نقاب ہٹایا تو دربارِشاہی میں بیٹھے وزرائے سلطنت انگشت بدنداںہوکررہ گئے۔ اتنی حسین و جمیل عورت انہوں نے شاید اس سے قبل نہ دیکھی تھی۔ ہر وزیر کے دل میں خواہشات انگڑائیاں لینے لگیں‘ ہر وزیر اسے حاصل کرنے کا خواہاں تھا۔ ہر کسی نے علیحدہ علیحدہ اپنی آرزوئیں بہ شکل عرضی رضیہ کی خدمت میں پیش کیں۔ ان خواہش مند حضرات کی عمریں 50 اور 70 کے درمیان تھیں جب کہ رضیہ کی عمر اس وقت فقط 31 سال تھی۔

رضیہ بہت سمجھ دار تھی‘ اُسے معلوم تھا کہ اگر خدانخواستہ اس سے نادانی میں کوئی حماقت سرزد ہو گئی اور اس نے ان عشاقِ نامراد میں سے کسی کو بھی موقع دیا تو اِس کے سر کا تاج اُس کے سرتاج کے سر پر ہوگا اور وہ ساری زندگی اس کے زیرِ اثر رہ کر زندگی گزارے گی، بادشاہت بھی ہاتھ سے جائے گی اور پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ لہٰذا تمام امیدواران کو اس نے نا امید کیا۔

اس دور میں میدانِ جنگ میں دو بدو مقابلہ ہوتا تھا۔ تلوار اور نیزے کا استعمال کیا جاتا تھا۔ کبھی وار سامنے سے ہوتا‘ کبھی پیچھے سے۔ تیر انداز تیر پھینکتے تھے‘ تیر کسی کو بھی گھائل کر سکتا تھا۔ جو لوگ مر جاتے تھے ان کی لاشیں زمین پر پڑی ہوتی تھیں، جو زخمی ہوتے تھے ان کا کوئی پُرسانِ حال نہ ہوتا تھا۔ گھوڑے اور پیادے ان کو روندتے ہوئے گزر جاتے تھے۔ میدانِ جنگ کا منظر کتنا خوف ناک ہوتا تھا۔ ہر طرف لاشیں اور سسکتے ہوئے زخمی۔ ایسے خوف ناک حالات میں کسی عورت کا ہاتھ میں تلوار لیے مردوں سے مقابلہ کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ عورت صنفِ نازک ہوتی ہے مگر رضیہ لوہے کی مانند مضبوط تھی۔ میدانِ جنگ میں اس نے بڑے سے بڑے سورمائوں کا گھمنڈ خاک میں ملا دیا۔ وہ نہایت بہادر، نڈر اور بے باک عورت تھی۔

کہتے ہیں ہر انسان چاہے وہ مرد ہو یا عورت‘ اُس کے دل کے کسی گوشے میں محبت کا ایک خاص خانہ ضرور ہوتا ہے اور یہ محبت کم از کم زندگی میں ایک بار ضرور کسی کے عشق میں مبتلا ہونے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ رضیہ بھی انسان تھی اس کے دل میں بھی محبت کا ایک خانہ تھا وہ بھی کسی کے عشق میں گرفتار ہوئی مگر بے سود۔ اسے حاصل نہ کر سکی اس لیے کہ وہ بادشاہ تھی اور اس کا معشوق ایک ادنیٰ حبشی غلام تھا۔

اس حبشی غلام کا نام یاقوت تھا۔ بہترین شہ سوار‘ شمشیر زنی اور نیزہ چلانے کا ماہر تھا۔ بادشاہِ وقت رضیہ سلطانہ کا خیر خواہ تھا۔ حالت یہ تھی کہ جب رضیہ گھوڑے پر سوار ہوتی تو یاقوت اسے سہارا دے کر گھوڑے پر سوار کراتا۔ میدان ِجنگ میں وہ سائے کی طرح رضیہ کے قریب رہتا تاکہ رضیہ کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ رضیہ کے دل میں یاقوت نے گھر کر لیا۔ رضیہ اس کے عشق میں گرفتار ہو گئی مگر اظہار نہ کر سکی۔ اسے اس بات کا خوف تھا کہ امراء سلطنت اس سے ناراض ہو جائیں گے کہ رضیہ نے ایک ادنیٰ حبشی غلام سے شادی کر کے ہم سب امراء سلطنت کو حقیر جانا اور ہماری عزتوں کو پامال کیا ۔

امراء سلطنت کے دلوں میں یاقوت کے لیے نفرت پھیل گئی اور انہوں نے رضیہ کے خلاف بغاوت کی تیاریاں شروع کر دیں۔ امراء سلطنت میں رقابت کی آگ مسلسل بھڑکتی رہی اور انہوں نے ایک جنگ کے دوران موقع ملتے ہی یاقوت کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور رضیہ کو گرفتار کر کے بھٹنڈا کے عامل ملک التونیہ کے حوالے کر دیا۔ ملک التونیہ نے جبرا ًرضیہ سے نکاح کر لیا بعد ازاں رضیہ اور ملک التونیہ دونوں ایک جنگ میں مارے گئے۔

رضیہ سلطانہ نے ہندوستان پر چار سال حکومت کی۔ وہ ایک تعلیم یافتہ اور مدبر حکمران تھی۔ اس نے عوام کی اصلاحات کے لیے بہترین قانون نافذ کیے، ہر نشہ آور اشیا کو ممنوع قرار دیا۔ عدالتی نظام میں بہتری پیدا کی۔ اس بات کو ترجیح دی گئی کہ ہر کسی کو انصاف ملنا چاہیے، چاہے غریب ہو یا امیر، عوام الناس اسے بے انتہا پسند کرتے تھے۔ میدان ِجنگ میں اپنی فوجوں کی کمان بڑی قابلیت کے ساتھ خود ہی سنبھالتی تھی۔ رضیہ میں اس کے سوا اور کوئی کمزوری نہ تھی کہ وہ ایک عورت تھی۔

حصہ