فراست شاہ، جماعت اسلامی پاکستان کے اسسٹنٹ جنرل سیکرٹری ہونے کے ساتھ ساتھ توانائی کے شعبے میں ایک ماہر کی حیثیت میں اچانک سامنے آئے ہیں۔ خاص طور پر بجلی کے بلوں اور آئی پی پیز (انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز) کے پیچیدہ معاملات پر ان کی گہری نظر ہے، اور اس پس منظر میں ان کی فہم و فراست کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ فراست شاہ صاحب نے جماعت اسلامی کے اسلام آباد دھرنے کے دوران مذاکراتی ٹیم میں بھی اہم کردار ادا کیا، جہاں انہوں نے توانائی کے بحران کے حل کے لیے مختلف پہلوؤں پر گفت و شنید میں اپنے دلائل و مشورے بھی دیے۔
ان کی پیشہ ورانہ زندگی کا ایک بڑا حصہ امریکا، اور بعد ازاں افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں گزرا۔ پاکستان میں پی پی ایل میں اہم عہدے کے ساتھ خدمات انجام دیں جہاں انہوں نے توانائی کے شعبے میں متعدد اہم کامیابیاں حاصل کیں۔
اس کے بعد بلوچستان انرجی کمپنی کے CEO کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، بعد وہ ایک عالمی سطح کے ادارے MOl Group میں Country Director Exploration کے طور پر کام کرتے رہے۔ واضح رہے کہ اسی گروپ نے حال ہی میں ضلع کوہاٹ میں تیل اور گیس کی تلاش کے سلسلے میں ایک اہم کامیابی حاصل کی ہے۔ آج کل اسی کمپنی میں وہ ایڈوائزر ایکسپلوریشن اینڈ نیو وینچر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
متفرق موضوعات پر فراست شاہ صاحب کی لکھی ہوئی متعدد کتابیں اور تراجم اردو اور انگریزی زبان میں چھپ چکے ہیں۔ انہوں نے مولانا مودودیؒ کی ”الجہاد فی الاسلام“ کے انگریزی ترجمے کے پروجیکٹ کو بھی بحسن و خوبی مکمل کیا۔
فراست شاہ نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد، اور پھر امریکا سے اپنی تعلیم مکمل کی ہے۔
پاکستان کے توانائی کے مسائل، جیسے کہ آئی پی پیز کے معاہدے، تیل اور گیس کے بحران اور انرجی پروڈکشن پر ان کی گہری نظر اور تجربہ قابلِ ذکر ہے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن اور معدنی وسائل جیسے موضوعات کا بھی انہوں نے قریب سے مشاہدہ کیا ہے، اور ملکی و بین الاقوامی سطح کی پیچیدگیوں سے بھی بخوبی واقف ہیں۔
اسی پس منظر کی وجہ سے فراست شاہ صاحب سے پاکستان کے توانائی کے بحران کو سمجھنے اور اس کے ممکنہ حل پر گفتگو کی گئی، جو نذرِ قارئین ہے۔
سوال : پاکستان میں آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدے پاکستان کے توانائی کے مسائل حل کرنے کے لیے تھے۔ پھر معلوم ہوا یہ پاکستان کے لیے ٹھیک نہیں،آخر یہ قصہ کیا ہے؟
فراست شاہ: دراصل ہماری منصوبہ بندی میں مسائل رہے ہیں، ہم ایک مربوط حکمتِ عملی کے تحت اپنے منصوبے نہیں بنا سکے۔ جب برقی توانائی کی کمی محسوس ہوئی تو ہم ہر طرح سے بس بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بڑھانے پر لگ گئے۔ 20 ویں صدی کی آخری اور اِس صدی کی پہلی دہائی میں لگائے جانے والے بجلی گھروں کو جن منصوبوں کے تحت لگایا گیا تھا وہ بھی بے نقص نہیں تھے، اور ان سے ہونے والے نقصانات کا خمیازہ بھی یہ ملک اور اس ملک کے عوام بھگت چکے اور بھگت رہے ہیں۔ تاہم 2013ء کے بعد جو ناقص منصوبہ بندی کی گئی اُس کے تحت لگنے والے آئی پی پی پراجیکٹس سے ان کے بڑے حجم کے سبب زیادہ نقصان ہوا، جبکہ ہم اپنی غلطیوں سے سبق بھی حاصل نہ کرپائے اور پہلے سے بڑی غلطیوں کا ارتکاب کیا۔
سوال :کیا آئی پی پیز کی پالیسیوں نے پاکستان کے توانائی کے بحران کو مزید بڑھا دیا ہے؟
فراست شاہ: ہماری پیداواری صلاحیت 2010ء میں 22 ہزار میگاواٹ سے 2021ء میں 93 ہزار 700 سو میگاواٹ سے زیادہ ہوگئی۔ ہم اپنے انرجی مکس کو درست نہ رکھ سکے۔ دنیا رینیویبل انرجی کی طرف جارہی تھی اور ہم مہنگی درآمد شدہ انرجی سورس مثلاً RLNG اور کوئلے کی طرف چلے گئے۔ مزید یہ کہ بجلی کی ترسیل کے نظام کو اپ گریڈ نہیں کیا گیا، نیز صنعتی ترقی کے جو اہداف رکھے گئے تھے وہ پورے نہیں ہوئے جس کے لیے نون لیگ اور پی ٹی آئی کے حامی ایک دوسرے کو الزام دیتے ہیں۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہم مربوط منصوبہ بندی نہ کرسکے جس میں بجلی کی پیداوار کے منصوبے کے مطابق دیگر امور کو بھی ملحوظ رکھنا ضروری تھا۔
ایک اور پہلو جو ان منصوبوں کے ملکی معیشت پر ایک بوجھ بن جانے میں اہم ہے وہ ان معاہدوں کا غیر معمولی طور پر آئی پی پی مالکان کی طرف جھکاؤ ہے، جن میں سارا رسک حکومت کے حصے میں آیا، اور اسی وجہ سے ہم کیپیسٹی پیمنٹ اور ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کا شکار ہوئے۔ اور بھی معاملات ہیں جو شاید ان معاہدوں میں صرف لاعلمی اور نااہلی تک محدود نہ ہوں اور ان میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آئیں۔ ان پردہ نشینوں کا تعلق اُن مشہور پارٹیوں سے ہے جو پچھلی تین دہائیوں میں ملک کی لیڈنگ حکومتی پارٹیاں رہی ہیں۔
IGCEP کے تحت 2021ء سے 2030ء تک کے لیے ایک مربوط منصوبہ بندی کی کوشش کی گئی ہے۔ اس میں بھی کچھ مسائل ہیں اور اس پر عمل درآمد میں بھی سنجیدگی نظر نہیں آرہی۔ مزید یہ کہ آئی پی پیز کے مسائل کا کوئی آسان حل نہیں یہ ہم مانتے ہیں،تاہم اس مسئلے کے حل کے بغیر گزارا بھی نہیں یہ حکومت کو مان لینا چاہیے۔اس بناء پر ہمیں کچھ بڑے اقدامات بادلِ نخواستہ ہی سہی، کرنے ہوں گے،ورنہ اس طرح لیپا پوتی سے تو یہ ملک نہیں چلے گا۔
ان اقدامات میں پہلا اور سب سے اہم قدم آئی پی پیز کا فرانزک آڈٹ ہے، جس سے حکومت بوجوہ کترا رہی ہے۔ اس آڈٹ کے ذریعے ان معاہدوں کی پوشیدہ بے ضابطگیاں ثابت کی جا سکتی ہیں.اور ان معاہدوں کو منسوخ یا ری نگوشیئٹ کیا جا سکتا ہے۔ جب مصر اور بنگلہ دیش نے آئی پی پیز سے 7 ڈالر فی کلوواٹ کیپیسٹی پیمنٹ کے معاہدے کیے، ہم نے اُسی زمانے میں 18 ڈالر پر ویسے ہی معاہدے کیے۔ ایسے میں ہمیں انٹرنیشنل لیٹیگیشن سے نہ ڈرائیں۔ بہت ممکن ہے کہ فرانزک آڈٹ کے اعلان کے ساتھ ہی بہت سے آئی پی پی مالکان ری نگوسیئشن کے لیے آمادہ ہوجائیں۔
دوسرا اہم کام اپنی موجودہ انڈسٹری کو میکسیمم کیپیسٹی پر چلانا ہے۔ عمران حکومت نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو جو سبسڈی دی وہ اسی طرح کا انتظام تھا۔ شاید ایسے ہی کچھ قدم اٹھانے ہوں گے۔ ہماری حالت یہ ہے کہ ہم مزید ٹیکس لگا کر اور بجلی اور گیس مہنگی کرکے انڈسٹریل یونٹ بند کروا رہے ہیں۔
تیسرا کام وار فٹنگ پر نئی انڈسٹری لگانا ہے، بالخصوص ایسی انڈسٹری موجودہ پاور جنریشن کے پراجیکٹس کے قریب ہو اور ٹرانسمیشن لائن اس تک بجلی پہنچانے میں رکاوٹ نہ بنے۔
پھر یہ کہ ٹرانسمیشن نیٹ ورک کو وسیع اور بہتر کرنا ہوگا۔ NTDC کے پلاننگ اور ڈیزائننگ کے سائیکل کو 4 سے 5 سال نہیں 4 سے 5 ماہ ہونا چاہیے۔ ہمارے فیصلے اور اس پر عمل کے درمیان اتنا عرصہ ہوتا ہے کہ اس میں دنیا ہی بدل جاتی ہے۔ مثلاً کراچی جس کے لیے ونڈ کاریڈور سے سستی بجلی بناکر ٹراسمٹ کرنے کے لیے جو نیٹ ورک چاہیے اُس میں اتنی تاخیر ہوئی اور اس کی جگہ آئی پی پیز کو، جو کوئلے وغیرہ جیسے قیمتی ایندھن سے چلنے تھے، ترجیح دی گئی۔ حبکو اس کی مثال ہے۔ سولر کے منصوبے بھی لسبیلہ اور قریب کے علاقوں میں موجودہ نیٹ ورک کے قریب لگائے جا سکتے ہیں، ان پر بھی خاطرخواہ کام نہیں ہوا۔ بہت سے منصوبے بلوچستان میں مختلف وجوہ کی بناء پر التوا کا شکار ہیں، ان میں کوئٹہ شہر کے قریب مجوزہ منصوبے بھی شامل ہیں۔
سوال : پاکستان کے انرجی سیکٹر میں بین الاقوامی کمپنیوں کا کردار کتنا اہم ہے، اور کیا ان کے ساتھ معاہدے پاکستان کے لیے فائدہ مند ہیں؟
فراست شاہ: بین الاقوامی کمپنیاں اور ان کے ساتھ کیے گئے معاہدے اہم تو ضرور ہیں کیونکہ ان کے ذریعے ایک اہم سیکٹر میں بین الاقوامی سرمایہ کاری ہوئی ہے جس کی ہمیں ضرورت تھی۔
تاہم ان سے ہی زیادہ بڑا دباؤ ہماری معیشت پر آیا ہے۔ اس بنا پر ان پر نظرثانی، اور ان کمپنیوں سے گفت و شنید اور اگر ضرورت ہو تو ان ممالک کی حکومتوں سے مصالحت کی درخواست کرنی چاہیے۔ کاروباری دنیا میں ایسا ہوتا رہتا ہے اور یہ معاہدے کوئی شجرِ ممنوعہ نہیں ہیں۔ کسی ون-ون صورت تک پہنچا جا سکتا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ دو اہم مملک جن سے اس سلسلے میں مدد حاصل کرنی ہے یعنی چین جس سے آئی پی پیز اور اس کے لیے مہیا کیے گئے قرضے کے سلسلے میں، اور قطر جس سے ایل این جی کی درآمد کو کم کرنے کے لیے بات کرنا ہوگی، ہمارے بہت قریبی دوست ممالک ہیں اور ان کے ساتھ ہمارے ہمہ جہت تعلقات ہیں جو دونوں فریقوں کے لیے اہم ہیں۔
سوال: حکومت نے 1994ء والے آئی پی پیز کے معاہدوں کو توسیع نہ دینے کا اعلان کیا ہے، مگر 2015ء کے بعد والے معاہدوں کے خاتمے کا کوئی امکان کیوں نہیں؟ کیا پاکستان چین سے تعلقات بگاڑنے کا متحمل نہیں ہوسکتا؟ آپ کے تجربے کے مطابق بین الاقوامی مسائل کو کیسے بہتر طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے، تاکہ پاکستان کے انرجی مسائل حل ہوسکیں؟
فراست شاہ: جماعت اسلامی کی تجویز ہے کہ بجلی کے بلوں میں ٹیکسوں میں کمی جائے۔ حکومت کہتی ہے کہ آئی ایم ایف ہمیں ٹیکس کم کرنے کی اجازت نہیں دیتا، لیکن ہمارا اندازہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کو ناراض کیے بغیر کچھ چیزوں کی قیمتوں میں کمی کی جاسکتی ہے، اور اگر آئی ایم ایف ناراض ہوتا بھی ہے تو عوام کی ناراضی کا بھی تھوڑا خیال کریں۔ حکومت کچھ آئی پی پیز کو بند کرنا چاہتی ہے اور ہم نے آئی ایم ایف سے معاہدے میں یہ لکھوا لیا تھا کہ اس سے جو رقم بچے گی وہ بجلی کے بل میں کمی کرنے کے لیے استعمال ہوگی، بجائے اس کے کہ وہ کسی اور طرف divertکردی جائے۔ اور اگر حکومت اس میں سنجیدہ ہے تو ریلیف آپ کو نظر آتا رہے گا، اور زیادہ جو فائدہ ہوگا وہ 2015ء کے بعد والے آئی پی پیز جس میں ساہیوال کا ایک آئی پی پی ہے، جس کی کیپیسٹی پیمنٹ 1994ء اور 2001ء کے تمام آئی پی پیزکے برابر ہے، چائنا سے آپ گفت وشنید کرسکتے ہیں۔ جن لوگوں نے یہ معاہدے لکھے تھے اور ان میں اتنی بڑی بڑی غلطیاں چھوڑ دیں اور پاکستان کو اتنے مسائل میں پھنسادیا ان کی نشاندہی ہونی چاہیے، فارنزک آڈٹ ہونا چاہیے۔
سوال: پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے پر موجودہ صورتحال کیا ہے؟ اس پر ہونے والے بین الاقوامی دباؤ کو کس طرح سے ڈیل کیا جا سکتا ہے؟
فراست شاہ: پاک ایران گیس پائپ لائن کے حوالے سے ایران کی طرف سے یہ دعویٰ آتا ہے کہ وہ اگر اسے عالمی عدالت میں لے گئے تو 18بلین ڈالر کا جرمانہ عائد ہوسکتا ہے، تاہم ایران عالمی طور پر ایک مشکل حالت میں ہے، اس حوالے سے آئی ایم ایف، امریکا وغیرہ آپ کو کچھ رعایت دے سکتے ہیں، ایران سے دوسرے ممالک بھی تو تجارت کرتے ہیں، اُن پر تو پابندیاں نہیں ہیں، پھر پاکستان پر پابندیاں کیوں ہیں؟
سوال: آپ کی نظر میں یہ منصوبہ پاکستان کے توانائی کے بحران کے لیے کتنا اہم ہے، اور اس کے فوائد و نقصانات کیا ہوسکتے ہیں؟
فراست شاہ: پاکستان کے توانائی بحران کے لیے یہ اہم ہے، انہوں نے اپنی طرف سے پائپ لائن بچھادی ہے، ہمیں اپنی طرف سے اسے مکمل کرنا ہے، اور تیل اور گیس کے حوالے سے امریکا سے بات کرکے اسے قانونی کیا جاسکتا ہے۔ اگر یہ ہوجائے تو اس سے تقریباً ڈھائی سو ارب روپے کے نقصان سے بچا جاسکتا ہے۔
پاکستان کے انرجی کرائسز کو حل کرنے کے لیے تیل اور گیس کی exploration کرنی ہوگی، اس کے ذریعے پاکستان سستی بجلی پیدا کرسکے گا، تھرمل انرجی کی پیداوارکو بڑھانا اور ایل این جی کو کوشش کرے کم سے کم پر لانا چاہیے۔
سوال: بلوچستان کے معدنی وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کے لیے کیا اقدامات ضروری ہیں؟
فراست شاہ: بلوچستان معدنیات سے بھرپور خطہ ہے، اس کے معدنی وسائل کے بہترین استعمال کے لیے اس سے متعلقہ صنعتیں وہاں لگنی چاہئیں۔ GSP جیسے اداروں نے معدنیات کی دریافت کے سلسلے میں ماضی میں بہت اچھا کام کیا ہے، ایسے اداروں پر توجہ دے کر دوبارہ فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ صرف بلوچستان کے زمینی علاقوں ہی میں نہیں بلکہ یہاں کے سمندر میں بھی معدنیات کی تلاش کے سلسلے میں اچھے امکانات موجود ہیں جس میں NIO ایک ایسا قومی ادارہ ہے جو اہم کردار ادا کر سکتا ہے اگر اس پر توجہ دی جائے۔ افسوس کی بات ہے کہ ایسے اہم ادارے میں پچھلے کئی ماہ سے کسی ڈی جی کو تعینات ہی نہیں کیا گیا، اس سے حکومت کی سنجیدگی کا پتا چلتا ہے۔ بلوچستان میں 1952ء میں گیس نکلی تھی، لیکن ان کے بڑے شہروں کو گیس نہیں ملتی، یہ آئین کی بھی خلاف ورزی ہے، اس کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں، اس سے بلوچستان کے حالات بہتر ہوں گے، وہاں صنعتیں لگیں گی۔ ورچوئل پائپ لائن کے ذریعے بلوچستان کے دور دراز اور ایک دوسرے سے دور دور واقع شہروں تک گیس پہنچانا اب ٹیکنالوجی کی ترقی نے ممکن بنادیا ہے، جہاں پر اب تک اس کے اقتصادی طور پر feasible نہ ہونے کے سبب پائپ لائن سے گیس نہیں پہنچائی گئی ہے۔ سیکورٹی کے معاملات کے حوالے سے بھی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ بلوچستان میں انویسٹمنٹ آئے اور معدنیات کا اہم شعبہ ترقی کرے۔ بجلی کی رسد اور طلب کے حوالے سے اقدامات کرنے چاہئیں۔ سولر انرجی کے لیے بلوچستان پورے پاکستان میں بہترین خطہ ہے،اسی طرح یہاں پاکستان کے بہترین ونڈ کاریڈور موجود ہیں۔
سوال: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جماعت اسلامی کا دھرنا اچانک ختم ہوگیا اور حکومت پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا؟
فراست شاہ: جماعت اسلامی کے کامیاب دھرنے کی وجہ سے حکومت پر دباؤ بڑھا ہے، جو لوگ بولتے تھے کہ آئی پی پیز شجر ممنوعہ ہیں اب وہ لوگ بھی کچھ نہ کچھ کرنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں، اب تقریباً 15 آئی پی پیز کی جانچ پڑتال اور 6آئی پی پیز کو بند کرنے کا ارادہ کرلیا گیا ہے۔ زرعی ٹیکسوں کے حوالے سے بھی سوچا جارہا ہے، جماعت اسلامی نے دھرنے کو ختم نہیں کیا، مؤخر کیا ہے۔