مسلمانوں کی پوری زندگی آزمائشوں سے بھری ہوئی ہے اور یہ ربِ ذوالجلال کی جانب سے بندے کو ہدایت کی اس کسوٹی کے مطابق پرکھنا ہے جو ربِ کائنات نے قرآن میں جا بجا ارشاد فرمایا ہے ۔آزمائشوں سے گزرے بغیر مسلمان کا سرخرو ہونا بڑا مشکل مرحلہ ہوگا۔
الٓمّٓ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ۔
ترجمہ:
کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھاہے کہ انہیں صرف اتنی بات پر چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ کہتے ہیں ہم ’’ایمان لائے‘‘ اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا؟
ان آزمائشوں سے سرخرو ہوکر نکلنا نیکیوں کو معتبر بناتی ہیں اور اللہ کے حضور قبولیت کے درجے تک یہ نیکیاں پہنچتی ہیں۔۔
اس جدید دورِ فتن میں آزمائشوں کی اتنی شکلیں رونما ہو چکی ہیں کہ ایک دیندار فرد بھی اس میں مبتلا نظر آتا ہے کجا یہ کہ ایک عمومی مسلمان کی بات کی جائے۔
سوشل میڈیا جہاں اپنے پیغام،اپنی دعوت،اپنی سرگرمیوں کو پھیلانے کے لئے آج ایک موثر ہتھیار کی شکل اختیار کر گیا ہے اور اس ہتھیار کو موثر اور جائز طریقے سے استعمال کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔اس میدان کو خالی چھوڑنا اور اس tool سے بھرپور فائدہ نہ اٹھانا بھی تنگ نظری ہوگی۔
بات تو مزید طویل بھی ہوسکتی ہے لیکن میں اس جانب توجہ مبذول کرانا چاہ رہا ہوں جو اس وقت میرا موضوع ہے۔۔
برادرانِ عزیز۔۔جو نیکیاں ہم رب کے حضور انجام دیتے ہیں اس کی قبولیت ہماری نیتوں پر منحصر ہوتی ہے۔
ایک طویل حدیث کو مختصر کرکے اس کا مفہوم بیان کر دیتا ہوں۔۔
قیامت کے دن اللہ کے حضور ایک عالم لایا جائے گا اور اللہ فرشتے کو حکم دے گا کہ اسکو جہنم میں ڈال دو کیوں کہ اس کی نیت یہ تھی کہ دنیا میں لوگ اسے بڑا علم والا سمجھیں تو دنیا میں اس کو اجر مل چکا اب آ خرت میں اس کے لئے کچھ نہیں بچا۔اسی طرح ایک ”سخی“ اور ایک ”شہید“ بھی لایا جائے گا۔۔اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو بھی جہنم میں ڈالنے کا حکم دے گا۔۔
نیکیوں کی قبولیت کا انحصار للہیت پر ہے۔خالصتاً اللہ کی رضا کے لئے کیا جانے والا عمل جس میں ذرہ برابر بھی ریا شامل نہ ہو وہ نیکی قابلِ قبول ہوگی بس۔
آج کل ہو کیا رہا ہے ہم بڑی بڑی نیکیاں کر رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ اس کی خوبصورت پکچرز سوشل میڈیا پہ پوسٹ کردیتے ہیں۔
یہ لیجئے جناب دیکھئے ہم حج کی ادائیگی میں مصروف ہیں۔ہم عمرے کی ادائیگی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔دیکھیں ہم کتنی اچھی تقریر اور کتنا اچھا درس دے رہے ہیں۔
ارے صاحب دیکھیں تو سہی ہم دین کے غلبے کی جدوجہد کے لئے دئے گئے دھرنے میں شریک ہیں۔۔اس طرح کی بے شمار نیکیاں ہیں جس کی تشہیر ہو رہی ہوتی ہے۔
اس میں دو باتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔۔پہلی بات یہ کہ نیکی کی ترغیب دلانے کے لئے کسی عمل کو بتایا اور دیکھایا جائے تو بات سمجھ آتی ہے۔مثلاّ پنڈی کے دھرنے میں انفاق فی سبیل اللہ کی اپیل کی گئی،دھرنا فنڈ مانگا گیا ۔ایک صاحب نے امیرِ جماعتِ کا چشمہ ایک کروڑسے زائد میں خرید لیا دیگر لوگوں کے بھی نام لئے گئے۔
دوسری بات یہ کہ صرف دعوت کے ابلاغ اور اپنی قوت کے اظہار کے لئے اس میڈیم کو اختیار کیا جائے،ذمہ داران تو اس پوسٹ میں یقیناَ نظر آرہے ہونگے لیکن ایک عام کارکن اپنا خوبصورت پوز بنا بنا کر تصویر نہ ڈال رہا ہو۔
انفرادی تشہیر کی بجائے اجتماعیت کی تشہیر کیجئے ۔
اللہ رب العالمین ہم سب کو ریا کی اس انتہائی نقصان دہ بیماری سے بچا کر رکھے اس لئے کہ اس کا نتیجہ جب عیاں ہوگا جہاں سے recovery نا ممکن ہے۔
آپ کا خیر خواہ
الف اقبال ۔۔