بنگلہ دیش کے ماضی کو کئی ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اس کا ایک ماضی تو وہ ہے جب اس پر نواب سراج الدولہ کی حکمرانی تھی اور مسلم بنگال کی یہ ریاست خوش حال بھی تھی اور فوجی اعتبار سے نہایت طاقتور بھی، جو غدارِ ملّت میر جعفر کی غداری کی وجہ سے انگریزوں کے قبضے میں چلی گئی۔ اس کے بعد پورے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے لیے یہ انگریزوں کے لیے Gateway of India ہوگیا اور رفتہ رفتہ پورے ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا۔ مگر حریت پسندوں کی یہ سرزمین جدوجہدِ آزادی کا مرکز بنتی گئی۔
1857ء میں پہلی بغاوت اسی سرزمین کے ایک سپاہی منگل پانڈے نے بارک پور کی چھاؤنی میں عَلم بغاوت بلند کرکے کی، اور پھر انقلابی دہلی تک پہنچے۔ مگر تن آسان اور بزدل بہادر شاہ ظفر کی وجہ سے انقلابیوں کو شکست ہوئی اور انگریزوں نے دہلی اور اس کے اطراف میں مسلمانوں اور انقلابیوں کا قتلِ عام کیا۔ 1857ء کے اس انقلاب کو انگریز ’’غدر‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ چند برسوں کے اندر انقلاب کا یہ لاوا پھر شعلہ بنا اور بنگال میں عسکری جدوجہد کا آغاز دودھو بھائی اور تیتو میر کی سالاری میں ہوا اور پے در پے انگریز شکست سے دوچار ہوتے رہے۔ سبھاش چندربوس کی قیادت میں آزاد ہند فوج تشکیل پاتی ہے جس کا سپہ سالار شاہنواز تھا اور اس فوج میں مسلم بنگال کے مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ انگریزوں کے خلاف آزادی کی اس تحریک میں مہاسبھا کے بانی ویر ساورکر جو کہ شدت پسند ہندو نظریات کے حامل تھے اور اس جنگِ آزادی میں شریک نہیں تھے‘ کے سوا ہندو اکثریت اس جدوجہد آزادی میں مسلمانوں کے شانہ بشانہ تھی اور ہندو‘ مسلم مشترکہ پارٹی ’’کانگریس‘‘ کی تشکیل 1885ء میں بمبئی میں سپوتِ بنگال ومیس چندر بنرجی کی صدارت میں ہوئی۔ شروع میں یہ تحریک اتنی زیادہ زورآور نہیں تھی لیکن بنگال اور ہندوستان کے دیگر علاقوں کے مسلمانوں کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔
پہلی جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ کو اپنے قبضہ شدہ ممالک پر قبضہ رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا گیا۔ اس جدوجہد میں نیا موڑ اُس وقت آیا جب کانگریس میں شامل مسلمانوں کے لیڈروں نے سمجھ لیا کہ کانگریس کی ہندو قیادت مسلمانوں کے ساتھ دھوکا کرے گی۔ پھر کیا تھا، 1906ء میں ڈھاکہ میں آغا خان اوّل کی صدارت میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آگیا۔
قائداعظم محمد علی جناح بھی… جو پہلے کانگریس میں تھے، انہوں نے اس حقیقت کے ادراک کے بعد کہ کانگریس کی ہندو قیادت مسلمانوں کے ساتھ مخلص نہیں… کانگریس کو خیرباد کہہ کر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے اور اس تحریک کے روحِ رواں بن گئے۔
1914ء میں پہلی بار علامہ اقبالؒ نے الٰہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کے لیے ایک جداگانہ مسلم ریاست کا مطالبہ کیا۔ پھر کیا تھا، اس مطالبے پر شعلہ بھڑک اٹھا، اور جب 23 مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں (جہاں آج مینار پاکستان قائم ہے) فرزندِ بنگال مولوی فضل الحق نے ’’قراردادِ پاکستان‘‘ پیش کی تو پورے بنگال، بہار، یوپی اور شمالی ہندوستان کے تمام صوبوں میں یہ تحریک کچھ اس طرح برپا ہوئی کہ چترال کی وادیوں سے لے کر خلیج بنگال تک، اور بولان کے صحرا سے راس کماری کے ساحلوں تک ایک ہی نعرہ گونج رہا تھا ’’پاکستان کا مطلب کیا… لاالٰہ الااللہ‘‘۔ پھر شمالی ہندوستان کے شہروں میں ہندو، مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔
1946ء میں پٹنہ کے فسادات میں دس ہزار سے زائد مسلمان شہید کردیے گئے اور بنگال کے مسلمانوں نے اس کے بدلے ہندوؤں کی بڑی تعداد کو نواکھالی میں تہہ تیغ کیا، جس کے بعد مہاتما گاندھی نے ان فسادات کو روکنے کے لیے بھوک ہڑتال کی۔ 1946ء میں ہی حسین شہید سہروردی جب بنگال کے وزیراعلیٰ تھے، کلکتہ میں بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات ہوئے جو تین دن تک جاری رہے۔ یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جب دو قومی نظریہ تناور درخت کی صورت میں برگ و بار لا چکا تھا۔ ادھر دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ کی کمر ٹوٹ چکی تھی اور اسے اچھی طرح سے اندازہ ہوگیا تھا کہ اب وہ ہندوستان پر اپنا قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتا۔ لہٰذا لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے جو ہندوستان کا گورنر جنرل تھا اور مسلمانوں سے پرخاش اور ہندوؤں سے ہمدردی رکھتا تھا‘ تقسیمِ ہند کے لیے قائداعظم اور کانگریسی لیڈروں نہرو، پٹیل اور مہاتما گاندھی کے ساتھ مذاکرات شروع کیے جن میں یہ طے پایا کہ مسلمان اکثریتی صوبے پاکستان کے حصے میں آئیں گے اور ہندوستان میں موجود آزاد ریاستیں وہاں کے عوام اور حکمرانوں کی مرضی سے جس کے ساتھ چاہیں گی، الحاق کریں گی۔ یہ طے ہوتے ہی کلکتہ سے لے کر دہلی اور پورے پنجاب میں مسلم کش فسادات کی ایسی خوف ناک آگ بھڑکائی گئی جس میں لاکھوں مسلمان تہہ تیغ کردیے گئے‘ اس کا ردعمل لاہور تا پشاور ہوا۔
ملک تقسیم ہوگیا، پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک کے طور پر عالم وجود میں آگیا، لیکن تقسیم ہند کے وقت سرحدوں کی تقسیم کا جو فارمولا طے پایا تھا، اُس میں بھی ریڈکلف نے جو باؤنڈری کمیشن کا سربراہ تھا، ہندو قیادت سے مل کر بے ایمانی کی، جس کا بیّن ثبوت یہ ہے کہ پنجاب کا گورداس پور جو تین دنوں تک پاکستان کا حصہ تھا، تین دن بعد بھارت میں شامل کردیا گیا، اس طرح بھارت کو کشمیر تک راہداری مل گئی اور قادیانی محفوظ ہوگئے۔ جہاں تک اثاثوں کی تقسیم کا سوال ہے، وہ پاکستان کو ملے ہی نہیں، اور پاکستان تہی دست ریاست کے طور پر معرضِ وجود میں آیا۔ مشرقی پاکستان کے حصے میں بھی کچھ نہیں آیا سوائے پٹ سن کی مجموعی پیداوار کے۔ پھر بھی مشرقی پاکستان کی مخلص اور ایمان دار قیادت نے پاکستان کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کرنا شروع کردیا۔ لیکن بدقسمتی سے مغربی پاکستان میں وہ لوگ قائداعظم کے ساتھ تھے، جنہوں نے تحریکِ پاکستان میں انگریزوں کی دلالی کی تھی، جن کے بارے میں قائداعظم نے کہا تھا کہ ’’میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں‘‘۔ ان طالع آزماؤں کی اُس وقت چاندی ہوگئی جب قائداعظم محمد علی جناح قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی رحلت فرما گئے۔ پاکستانی فوج کی اکثریت پنجاب پر مشتمل تھی اور بنگال رجمنٹ کی حیثیت ثانوی تھی۔ بنگالیوں میں غیر مساویانہ سلوک، سرکاری نوکریوں اور دیگر وسائل کی تقسیم کی وجہ سے ناراضی بڑھتی جارہی تھی۔
بھارت اوّل دن سے ہی پاکستان کا دشمن ہے، اور یہ دشمنی چار جنگوں کی صورت ظاہر ہوچکی ہے۔ مشرقی پاکستان سے بڑی تعداد میں ہندو بنگالی ہجرت کرکے مغربی بنگال میں سکونت پذیر ہوئے، جن کی اکثریت کمیونسٹ پارٹی مارکسسٹ میں شامل ہوکر مغربی بنگال میں فعال اور پُراثر اپوزیشن کا کردار ادا کررہی تھی۔ یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ اندرا گاندھی پاکستان کو دولخت کرنے کی تمام تر منصوبہ بندی کی سرغنہ تھی۔1971ء میں مغربی بنگال کا وزیراعلیٰ اجے مکھرجی تھا جو تین مرتبہ وزیراعلیٰ رہ چکا تھا اور کٹّر ہندو ذہنیت کا حامل ایک فریڈم فائٹر تھا، جس کی حکومت کو اندرا گاندھی نے جون 1971ء میں برطرف کرکے گورنر راج نافذ کردیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں عوامی بے چینی کو وہاں کے ہندو اساتذہ بڑھا چڑھا کر پیش کررہے تھے۔ ادھر مجیب الرحمن ’’اگرتلہ سازش کیس‘‘ سے آزاد ہوکر اور 1970ء کے عام انتخابات میں غنڈہ گردی اور دھاندلی کرکے بھاری اکثریت حاصل کرچکا تھا۔ انتخابات کے وقت بڑے پیمانے پر مغربی بنگال کے ہندوئوں نے مشرقی پاکستان میں داخل ہوکر مجیب الرحمن کے لیے کام بھی کیا اور ووٹ بھی ڈالے، حالانکہ انتخابات کے دوران پورے مشرقی پاکستان میں ایک ہی نعرہ تھا ’’آمر اللہ‘ تمار اللہ‘ ووٹ دیبو پلہ‘‘ (میرا اللہ تمہارا اللہ‘ ووٹ دیں گے ترازو میں)۔ لیکن مکتی باہنی کی غنڈہ گردی اور نفرت کی وجہ سے انتظامیہ اور پوری مشینری عوامی لیگ کے سامنے بے بس تھی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مولانا بھاشانی نے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا۔
مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کی کامیابی اور ’’اُدھر تم، اِدھر ہم‘‘ کے نعرے اور منتخب نمائندوں کو اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے روکنا اور ٹانگ توڑنے کی دھمکی، اور یحییٰ خان جیسے عیاش جرنیل نے مل کر جلتی پر تیل کا کام کیا، پھر کیا تھا ’’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘‘ کے مصداق 10 مارچ 1971ء کو رمنا کا میدان ’’جے بنگلہ‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھا اور پورے مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں اور سرکاری اداروں پر خونیں حملے شروع ہوگئے اور پاکستانی فوج بیرکوں تک محدود ہوگئی۔ مکتی باہنی کے مسلح جتھوں نے جن کی بڑی تعداد بھیس بدلے ہندوؤں اور انڈین فوجیوں پر مشتمل تھی، مشرقی پاکستان میں ایسی قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا کہ زمین کانپ اٹھی۔ سانتاہاٹ، دیناج پور اور دیگر سرحدی علاقوں میں موجود غیر بنگالیوں کو خون میں نہلا دیا گیا۔
مشرقی پاکستان 24 سال کے بعد ’’بنگلہ دیش‘‘ بن گیا۔ یہ کیسے بنا؟ کیوں کر بنا؟ اس کے بنانے میں مجیب الرحمن، بھارت اور پاکستان کے اقتدار کے حریص حکمرانوں کا کیا کردار رہا؟ اس کی پوری تاریخ اتنی کتابوں کی صورت میں موجود ہے کہ ایک پوری لائبریری بن سکتی ہے۔ ’’حمود الرحمن کمیشن‘‘ کی رپورٹ بھی تمام رازوں سے پردہ اٹھاتی ہے۔
دس دنوں کے اندر پورے مشرقی پاکستان کو مکتی باہنی کے درندوں نے خاک اور خون میں نہلا دیا۔ پھر کیا تھا، 25 اور 26 مارچ کی درمیانی شب فوجی ایکشن شروع ہوا اور ہزاروں کی تعداد میں محبِ پاکستان بنگالی اور جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ اسلامی چھاترو شبر کے طالب علم ’’البدر‘‘ اور ’’الشمس‘‘ کی صورت، اور بہاریوں کی بڑی تعداد جنہوں نے پاکستان بنانے میں جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا، دفاعِ پاکستان میں فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے۔
مشرقی پاکستان کا محلِ وقوع اور پاکستانی فوج کی معلومات میں کمی اور ایسٹ پاکستان رائفلز کی بغاوت کے باوجود پاکستانی فوج اور البدر، الشمس اور بہاری رضاکاروں نے مل کر شورش پر کسی حد تک قابو پا لیا تھا مگر ٹکا خان جیسے بے بصیرت جرنیل کے اس اعلان نے کہ ’’ہمیں زمین چاہیے، آدمی نہیں‘‘ محب پاکستان بنگالیوں کو بھی مایوس کردیا۔ ادھر ہندوستانی فوج کے پنجاب رجمنٹ کے ہندو فوجیوں نے جو پنجابی بولتے تھے، پاکستانی فوج کی وردیوں میں محبِ پاکستان بنگالیوں اور سرکاری عہدوں پر فائز بنگالی افسران کے گھروں میں داخل ہوکر عورتوں کے ساتھ زیادتی اور لوٹ مار شروع کردی جس سے عام بنگالیوں میں بھی نفرت پھیلنے لگی۔
9 ماہ کے فوجی ایکشن میں ہزاروں ہندو اور مکتی باہنی میں شامل بنگالیوں کے گھر والے ہجرت کرکے مغربی بنگال میں پہلے سے قائم کیمپوں میں پناہ لینے لگے جس کا اندرا گاندھی نے پوری دنیا میں واویلا کیا اور بالآخر 3 دسمبر کو ہندوستانی فوج نے براہِ راست مشرقی اور مغربی پاکستان پر حملہ کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یحییٰ خان کی عیاشی، ذوالفقار علی بھٹو کی مکاری اور جنرل نیازی کی بزدلی کے باعث پاکستانی فوج نے 16 دسمبر 1971ئکو ہتھیار ڈال دیے اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ پھر کیا تھا البدر، الشمس، جماعت اسلامی اور بہاریوں کا قتل عام شروع ہوگیا۔ (باقی صفحہ نمبر9پر ملاحظہ فرمائیں)