عوامی جذبات کا سیلاب،۔مزاحمت کی نئی لہر

145

دنیا بھر میں عوام کے جذبات شدید اُبال کی حالت میں ہیں۔ کل کی دنیا اور تھی جس میں سب کچھ کسی نہ کسی نظام کے تحت ہوا کرتا تھا، اب معاملہ یہ ہے کہ لوگ قانون ہاتھ میں لینے میں دیر نہیں لگاتے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ہر چیز کی رفتار تیز ہوگئی ہے۔ انسانی جذبات اور احساسات کی رفتار میں بھی تیزی در آئی ہے۔ اس کے نتیجے میں تحمل کا گراف نیچے آیا ہے۔ لوگوں میں کسی بھی غلط بات کو برداشت کرنے اور منطقی طرزِ فکر و عمل اپنانے کی روش ناپید ہوتی جارہی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ اب دنیا واقعی اُس نہج پر ہے جہاں اُس کے لیے پُرانی اقدار پر عمل پیرا رہنے کی گنجائش نہیں رہی۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا بھر میں عوام کے جذبات بھرپور ابھار کی حالت میں ہیں۔ لوگ کسی بھی بات پر پھٹ پڑتے ہیں اور پھر اُن پر قابو پانا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ دنیا بھر میں معاشرے عوام کے اشتعال سے عبارت ہیں۔ ایک دور تھا کہ سماجی سطح پر انتشار صرف پس ماندہ اور ترقی پذیر دنیا میں ہوا کرتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہے۔ آج کی دنیا میں سب کچھ اِتنا بدل گیا ہے کہ کوئی بھی معاملہ کسی بھی وقت اچانک یوں ابھر کر سامنے آتا ہے کہ تمام ہی معاملات پر چھانے لگتا ہے۔

چند ماہ کے دوران ہم نے بہت کچھ دیکھا ہے۔ ہمارے ارد بھی بہت کچھ ہو رہا ہے اور دور افتادہ خطوں میں بھی۔ اپنے خطے کی بات کریں تو بنگلا دیش کا ذکر لازم ہے۔ وہاں عوامی لیگ نے پندرہ سال تک اقتدار کے مزے لُوٹے اور اس دوران جو بھی جی میں آیا وہ کیا۔ اس کے نتیجے میں جو خرابیاں پیدا ہوسکتی تھیں وہ پیدا ہوئیں اور یوں ایک ایسا ماحول پیدا ہوا جس میں عوامی لیگ سے ہٹ کر کسی کے لیے پنپنے کی گنجائش برائے نام تھی۔

شیخ حسینہ واجد نے جنوری میں مسلسل چوتھی بار وزیرِاعظم کا منصب سنبھالا تو انتہا ہوگئی۔ جو لوگ پندرہ سال یا اِس سے بھی زیادہ مدت سے جذبات کو کسی نہ کسی طور قابو میں رکھے ہوئے تھے اُن کے لیے معاملہ انتہا کا ہوگیا۔ کوئی کب تک کسی بھی نوع کے جبر کو برداشت کرسکتا ہے؟ بنگلا دیش میں بھی یہی ہوا۔ جب عوام نے یہ دیکھا کہ عوامی لیگ تو قیامت تک کا ذہن بناکر حکومت کرنے پر تُلی ہوئی ہے تو طلبہ اُٹھے اور سرکاری ملازمتوں میں کوٹے کو بنیاد پر بناکر ایک ایسی تحریک شروع کی جو شیخ حسینہ واجد اور عوامی لیگ کے اقتدار کے خاتمے پر منتج ہوئی۔

بنگلا دیش میں جو کچھ بھی ہوا وہ اِس بات کا مظہر ہے کہ اگر عوام کسی چیز کا تہیہ کرلیں تو پھر اُنہیں ٹوکنے اور روکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ بنگلا دیش کی طلبہ تحریک کے دوران مجموعی ماحول ایسا تھا کہ کوئی بھی سیاست دان اور بیورو کریٹ آگے نہ بڑھا اور جو کچھ بھی ہو رہا تھا اُسے ہونے دیا گیا۔ عوام جب مشتعل ہوں تو اُنہیں روکنے کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا۔ سبھی جانتے ہیں کہ ایسی حالت میں عوام کو روکنے کی کوشش کرنا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے جیسا ہوتا ہے۔

بنگلا دیش کے عوام نے طلبہ تحریک کا سہارا پاکر میدان میں آنے کی ہمت اپنے اندر پیدا کی اور پھر وہ کر دکھایا جس کے بارے میں کسی نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا۔ عوامی لیگ کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ ہوگی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک ایسا ماحول پیدا ہوگا جس میں اُس کے کارکنوں اور قائدین کے لیے اپنے آپ کو سامنے لانا بھی ممکن نہ ہوگا۔

طلبہ تحریک نے زور پکڑا تو عوام بھی سڑکوں پر نکل آئے اور پھر شیخ حسینہ واجد کے اقتدار کے لیے خطرے کی گھنٹی بجی اور بالآخر اقتدار کی یہ بساط لپیٹ دی گئی۔ جس عوامی لیگ کے سامنے کوئی کھڑا ہونے کی ہمت اپنے اندر نہ پاتا تھا اُسی عوامی لیگ کا اب یہ حال ہے کہ اُس کے قائدین اور کارکن چُھپتے پھر رہے ہیں۔ تیس سے زیادہ قائدین مارے جاچکے ہیں۔ سیکڑوں کارکنوں کی پٹائی ہوئی ہے۔ چند ایک سیاست دانوں اور بیورو کریٹس کو عوام نے برہنہ کرکے مارا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب عوام کا پارہ چڑھتا ہے تو وہ کیا کچھ کر بیٹھتے ہیں۔

برطانیہ بھی میں بھی عوامی طاقت کے مظاہرے عام ہوتے جارہے ہیں۔ انتہائی دائیں بازو کے عناصر کی بھرپور کوشش ہے کہ ملک سے تارکینِ وطن کو نکال باہر کیا جائے اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تب بھی اِتنا ضرور ہو کہ تارکینِ وطن کے اثرات قومی سیاست و معیشت پر کم ہوتے جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ کی نئی نسل میں کام کرنے کا جذبہ برائے نام رہ گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ تارکینِ وطن کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے۔ تعلیم، صحتِ عامہ اور دیگر اہم شعبوں میں غیر ملکی افرادی قوت کی ضرورت اس لیے بڑھ گئی ہے کہ ملک کے لوگ زیادہ پڑھ بھی نہیں رہے اور زیادہ کام بھی نہیں کر رہے۔ تارکینِ وطن سیاست میں بھی نمایاں مقام حاصل کرتے جارہے ہیں کیونکہ اُن کی محنت زیادہ ہے۔ وہ اپنے حصے کے کام میں غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

جو حال برطانیہ کا ہی وہی امریکا کا بھی ہے۔ امریکا میں بھی تارکینِ وطن کی گڈی چڑھی ہوئی ہے۔ اور ایسا نہیں ہے کہ اُنہیں کسی نے پلیٹ میں رکھ کر حلوہ پیش کیا ہے۔ تارکینِ وطن آج امریکا میں نمایاں مقام رکھتے ہیں تو اِس کا ایک اہم سبب یا عامل یہ ہے کہ وہ برسوں بلکہ عشروں تک محنت کرتے ہیں اور اپنے لیے کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

امریکا ہو یا یا یورپ، تارکینِ وطن نے خود کو منوانے کے لیے کم و بیش سو برس تک محنت کی ہے۔ جنوبی ایشیا کے تارکینِ وطن کو بھی مغرب والوں سے اپنا آپ منوانے میں سات آٹھ عشرے لگے ہیں۔ اب یورپ اور امریکا میں انتہائی دائیں بازو کی سیاست ابھر رہی ہے۔ یہ سیاست اس لیے ابھر رہی ہے کہ تارکینِ وطن کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا رونا روکر کچھ لوگ اہلِ وطن کو ورغلانے اور خوفزدہ کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ تارکینِ وطن ایک بڑے خطرے کے روپ میں موجود ہیں۔ اس خطرے کا ڈٹ کر سامنا کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ کوئی بڑی قوت سامنے لائی جائے۔ انتہائی دائیں بازو کے عناصر اور کچھ تو کر نہیں سکتے اس لیے خوف کا ماحول پیدا کرکے معاملات کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ تارکینِ وطن کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے لوگ خوفزدہ تو ہیں۔ اس خوف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کو مزید ڈرایا جاسکتا ہے اور یوں اپنے مذموم مقصد کا حصول یقینی بنایا جاسکتا ہے۔

یورپ کے کئی ممالک میں عوامی سطح پر مزاحمت کا عنصر بڑھ رہا ہے۔ یہ عنصر مثبت بھی ہے اور منفی بھی۔ کسی بھی معاشرے میں عوام کا متحرک ہونا اچھی بات ہے مگر کچھ زیادہ متحرک ہونا کسی بھی طور اچھی بات نہیں۔

بھارت کی مشرقی ریاست مغربی بنگال میں ایک جونیر ڈاکٹر کے قتل پر جس قدر احتجاج کیا گیا ہے اُس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں کوئی بھی معاملہ کب انتہائی سنگین شکل اختیار کرسکتا ہے۔ کولکتہ کے آر جے کار میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل کی جونیر ڈاکٹر کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔ ملزم پولیس اہلکار سنجے رائے کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ اس کے باوجود میڈیکل کمیونٹی نے اس معاملے کو بہت زیادہ اچھالا اور کئی ریاستوں میں شدید احتجاج کرکے لاکھوں افراد (مریضوں) کے لیے مشکلات پیدا کی گئیں۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ چکا ہے۔ مرکزی تفتیشی ادارے سی بی آئی نے بھی اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ جونیر ڈاکٹر سے اجتماعی زیادتی نہیں کی گئی، ہاں پولیس اہلکار سنجے رائے ضرور اس جرم کا مرتکب ہوا ہے۔

مغربی بنگال میں بھی وہی ہوا جو دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا کی طاقت کے ذریعے بہت سے عناصر اپنا کھیل شروع کردیتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک محاذ سا کھڑا ہو جاتا ہے۔ مغربی بنگال کی جونیر ڈاکٹر کے کیس میں بھی یہی ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کھیل میں بھارت کی مرکزی حکومت بھی شریک تھی کیونکہ مغربی بنگال میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی کٹر حریف ترنمول کانگریس کی حکومت ہے۔ مودی سرکار نے میڈیکل کمیونٹی کا بھرپور ساتھ دیا تاکہ مغربی بنگال کو زیادہ سے زیادہ مطعون کیا جاسکے۔ اس کا نتیجہ بھی ہم نے دیکھا۔ اب مغربی بنگال کی وزیرِاعلیٰ ممتا بینرجی کو مرکزی حکومت سے استدعا کرنا پڑی ہے کہ خواتین سے زیادتی کی روک تھام کے لیے سخت قوانین وضع اور نافذ کیے جائیں۔

عوامی مزاحمت کے پنپتے ہوئے عنصر کو صرف حکومت مخالف عناصر استعمال نہیں کرتے بلکہ کبھی کبھی حکومتیں بھی بروئے کار لاتی ہیں۔ دنیا بھر میں ایسا ہو رہا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہے۔ عوامی مزاحمت کا پہلو اب سیاست کا لازمی جُز ہوکر رہ گیا ہے۔

کسی بھی کاز کے لیے عوام کا میدان میں آنا اچھی بات ہے مگر اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ کسی کو کہاں تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ لوگ سڑکوں پر آجائیں اور بھرپور قوت کا مظاہرہ کریں تو پھر اُنہیں کنٹرول کرنا آسان نہیں ہوتا اور کبھی کبھی تو ناممکن ٹھہرتا ہے۔

پاکستان میں بھی عوامی سطح پر مزاحمت کا عنصر سیاست میں رہا ہے اور اب بھی ہے۔ کبھی کبھی کوئی اشو اچانک اٹھ جاتا ہے اور پھر اُسے سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ عوامی جذبات کا سیلاب کبھی کبھی سبھی کچھ بہا لے جاتا ہے۔ بنگلا دیش میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے مگر باٹم لائن کیا ہے یعنی عوام کے لیے کیا حقیقی تبدیلی رونما ہوئی ہے یا ہوگی۔

عوامی سطح پر مزاحمت کا عنصر اور سڑکوں پر آکر معاملات کو اپنے طور پر درست کرنے کا رجحان لازمی طور پر مثبت نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی معاملات بے قابو ہو جاتے ہیں اور پھر معاشرے تلپٹ ہونے لگتے ہیں۔ افریقا اور دوسرے بہت سے خطوں میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ گزشتہ برس سری لنکا میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ حتمی تجزیے میں اس بات کو دیکھنا چاہیے کہ جب عوام سڑکوں پر آکر معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیتےہیں تب کون کون سی حقیقی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ اگر معاشرہ مزید پس ماندگی کی طرف جائے تو ایسی عوامی مزاحمت کس کام کی۔
بنگلا دیش کی صورتِ حال کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوسکتا ہے۔ جو کچھ بنگلا دیش میں ہوا وہ پاکستان میں بھی ہو اِس کا امکان مخدوش ہے۔ بنیادی سبب یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ زبان، رنگ و نسل، مذاہب، مسالک اور ثقافتوں کے حوالے سے بہت متنوع ہے۔ بنگلا دیش میں لوگ بنیادی طور پر ایک نسل کے ہیں، اُن کی زبان بھی ایک ہے اور ثقافت بھی ایک ہی ہے۔ تاریخی تسلسل بھی ہے۔ مذہب اور مسلک میں بھی زیادہ اختلاف یا تنوع نہیں۔
بنگلا دیش عوامی سطح کی مزاحمت کے مراحل سے کئی بار گزرا ہے۔ دیگر معاشروں کا بھی یہی حال ہے۔ سوال یہ ہے کہ عوامی مزاحمت کو معقول اور مثبت نتائج دینے کے قابل بنانے کے لیے کیا کچھ کیا جاتا رہا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ عوامی مزاحمت سے حکومتیں تو گر جاتی ہیں مگر اس کے نتیجے میں صرف انتشار پیدا ہوتا ہے، کوئی بڑی، مثبت اور معنی خیز تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔
nn

حصہ