پل صراط نزدیک ہے

169

ابوذر غفاریؓ…جن کا غیور خون… غیرت حق سے گلنار اور حمیت بندگی سے سرشار خون رگوں میں چپ چاپ دوڑنے پھرنے کے بجائے رگ و پے سے ٹپک پڑنے کا قائل تھا۔ جنہوں نے اللہ کے قدموں میں سر رکھتے ہی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں ہاتھ دیتے ہی یہ محسوس کیا تھا کہ آخرت اس دنیا سے کہیں زیادہ بڑی اور قیمتی حقیقت ہے… محسوس کیا تھا کہ اب دنیا کی بڑی سے بڑی قہرمانیت سے آنکھیں چار کرکے یہ زلزلہ انگیز اعلان کرسکتے ہیں کہ ’’محمدؐ جس خدا کے رسول ہیں۔ یہ ساری کائنات اسی خدا کی ہے… اسی خدا کی غلام ہے‘‘۔

ابوذر غفاریؒ… خدا ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے کہ انہوں نے واقعی ایسا ہی کرکے اور کہہ کے دکھایا۔جب بارگاہ رسالت میں انہوں نے جس حقیقت کا ابھی ابھی اقرار کیا تھا اس کا فلک شگاف اعلان کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے، اعلان کرنا اس وقت جان کی بازی لگا دینے کے مترادف تھا۔ مگر انہوں نے سر ہتھیلی پر رکھ کر وحشت و بربریت اور کفر و شرک کی سفاکیوں کو للکارا اور سینکڑوں بتوں کے درمیان کھڑے ہوکر پوری طمانیت اور بے خوفی کے ساتھ خدا کی توحید اور محمدؐ کی رسالت کا ولولہ انگیز اعلان کیا۔ چڑھی ہوئی تیوریوں سے آگ برسی اور مشتعل ہجوم کے دست تشدد نے کھل کر مشق ستم کی، مگر جبر و تشدد کی یہ یلغار خدا کے اس اکیلے بندے کو پسپا کہاں کرسکی۔ وہ تو جہاں سے اپنے مضروب و مجروح جسم کا ڈھانچہ اپنی ہی کاندھوں پر اٹھا کر لایا تھا۔ اسی جگہ دوسرے ہی دن اسی اعلان حق کی گرج سے باطل کے قلعہ پر بجلیاں گراتا ہوا آیا۔ کعبے کی تین سو ساٹھ بتوں کی بنیادوں میں زلزلے کروٹیں لینے لگے۔ ایک ’’آدمی‘‘ کے حوصلوں نے سینکڑوں ’’درندوں‘‘ کے غرور و نخوت اور غیظ و غضب کو میدان میں دعوت پیکار دی تھی۔

ابوذر غفاریؓ…
جو گوشت پوست کا ایک ڈھیر نہیں۔ محمدؐ کی فولادی یقین کی زبردست بازگشت تھے، وہ ایک ’’ایمان‘‘ تھے جو کڑک رہا تھا۔ و ہ ایک برق تھے جو تڑپ رہی تھی، وہ روح کی ایک ولولہ انگیز چیخ تھے، وہ دل کا ایک جذبہ بے قرار تھے، وہ ایک ’’رقص شرر‘‘ تھے جو بے چین تھا کہ گھٹا ٹوپ تاریکیوں پر دیوانہ وار جست کرے اور اندھیروں کا سینہ چیرتا ہوا پھر اسی خاک میں مل جائے جہاں سے وہ پہلی بار بلند ہوا تھا اور جہاں سے اسے ایک بار پھر اٹھنا تھا۔

لیکن یہی جذبہ بے قرار… یہی شعلہ بغاوت جو بڑے سے بڑے باطل پر بجلیاں گرادیتا تھا۔ جب اس آدمی کے روبرو ہوتا جس کا حسین اور عظیم نام ’’محمدؐ‘‘ تھا تو پھر اس کی والہانہ عاجزی و سپردگی کا عالم ہی کچھ اور ہوتا۔ حق و صداقت کا کتنا بڑا پیکر ہوگا وہ وجود انسانی جس کی جنبش نظر پر ابوذرؓ جیسے نڈر اور بے جگر انسان کی دھڑکنیں رقص کرتی تھیں۔ مختلف صحابہؓ نے آنحضرتؐ کی ’’جامع کمالات‘‘ شخصیت سے اپنے اپنے ذوق و صلاحیت کے مطابق فیوض و کمالات کی دولت سمیٹی تھی، مگر ابوذر غفاریؓ کے حصے میں حضورؐ کا محض زہد و فقر ہی آیا تھا۔ یہ زہد و فقر ان کے اندر اور باہر اس طرح چھایا ہوا تھا کہ حضورؐ نے ان کے زہد و فقر کو حضرت عیسیٰ ابن مریم کے زہد و فقر سے مشابہ قرار دیا۔

اسلام قبول کرنے سے پہلے وہ ایک بہت بڑے ڈاکو رہ چکے تھے، لیکن پھر ان کے اندر ہی اندر ایک عظیم انقلاب پیدا ہونا شروع ہوا۔ ان کے دل نے گواہی دی کہ اس ساری کائنات کا خدا ایک ہی ہے۔ توحید کی یہ چنگاری ان کی راکھ میں شعلہ زن ہوئی تو خدا کے بندوں کو لوٹنے والا بے چین ہوگیا کہ وہ خود ہی راہ مولا میں کہیں لٹ جائے۔ اب وہ دولت دنیا سے بے زار ہوکر دولت دین ڈھونڈ رہے تھے۔ اب انہیں اس خدا کی تلاش بے قرار کئے ہوئے تھی جس کا یقین ان کے قلب و روح کے اندر جاگ اٹھا تھا۔ پھر جب اس ’’حقیقت منتظر‘‘ کی جاں نواز آہٹ پاکر وہ کشاں کشاں آنحضرتؐ کی خدمت میں باریاب ہوئے تو نگاہ اولین ہی میں حضورؐ کی دل نواز آنکھوں میں حقیقت کی تجلی دیکھ لی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خدا اور اس کے رسولؐ کے ہوکر رہ گئے۔ خدا ہی جانے دامن رسولؐ میں انہیں کون سی ’’دولت‘‘ نظر آئی تھی کہ جس کے بعد سونے اور چاندی کو انہوں نے مٹی کے ڈھیر میں بدلا ہوا پایا اور پھر اپنی فقیرانہ زندگی پر انہوں نے دولت و حکومت کا سایہ تک نہ پڑنے دیا۔ ان کو حضورؐ سے اور حضورؐ کو ان سے گرویدگی کا ایسا زبردست تعلق تھا کہ حضورؐ نے اپنے بستر وفات پر بھی ان کو یاد فرمایا تھا، اور زندگی میں اپنی محفل میں سب سے پہلے تخاطب کا شرف بھی انہیں کو عطا فرماتے تھے، آخری وقت میں جب وہ حضورؐ کے بلانے پر تشریف لائے تو خوف و غم سے لرزتے ہوئے ان کے وجود کو آنحضرتؐ نے اپنے سینے سے چمٹا لیا تھا۔ ہائے وہ سینہ جسے محمدؐ کے مقدس سینے سے لمس کا شرف حاصل ہوا تھا۔

اور آہ! خدا کے آخری رسولؐ سے یہ ان کی آخری ہم آغوشی!… آغوش رسالت کی اس گرمی اور گرم جوشی نے ان کے سوز آخرت کو اس حد تک گرمادیا تھا کہ پھر وہ کبھی اس دنیائے فانی کو گلے لگانے کا تصور تک نہ کرسکے۔ پھر تو یہ دنیا آخرت اس کے دور افتادہ راہی کے لیے ایک درخت کی چھائوں سے زیادہ نہ رہی، جس کے نیچے بہت دور جانے والا مسافر تھوڑی دیر کو سستا تو سکتا ہے، پائوں پھیلا کر سو نہیں سکتا، سو بھی جائے تو بقدر ضرورت۔ پھر تیز تیز اپنی راہ چل دیتا ہے۔

حضورؐ کی زندگی میں صرف ایک بار انہوں نے کسی جگہ کی امارت کی خواہش ظاہر کی تھی اور انہیں بارگاہ رسالت سے جواب ملا تھا:
’’اے ابوذر! تم ناتواں ہو… میں تمہارے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں جو مجھے خود اپنے لیے پسند ہے‘‘۔
یہ جواب سنتے ہی انہوں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دنیا کی سنہری گرد کو دامن شوق سے جھٹک دیا تھا۔ وہ فقرو زہد میں ڈوبتے چلے گئے تھے۔ آخرت سے نزدیک تر اور جیتے جی دنیا سے دور تر ہوتے چلے گئے تھے۔

لیکن یہ دوری جو کبھی کبھی ’’رہبانیت‘‘ معلوم ہوتی تھی، حقیقتاً رہبانیت نہیں تھی، وہ دنیا سے فرار نہیں ہوئے تھے بلکہ دنیا میں رہتے ہوئے انہوں نے دنیا کو چھوڑ دیا تھا۔ اس کا صحیح اندازہ اس ملاقات اور گفتگو سے ہوتا ہے جو ان کے زہد و فقر کے اس خاص دور میں ان کے اور حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کے درمیان ہوئی۔ حضرت اشعریؓ سے ان کے گہرے روابط تھے مگر جب وہ گورنر بنائے جانے کے بعد حضرت ابوذر غفاریؓ سے ملنے آئے اور وہ ’’بھائی بھائی‘‘ کہتے ہوئے ان کی طرف بڑھے تو حضرت ابوذرؓ نے ان کو دور ہٹاتے ہوئے کہا:

’’اب تم گورنر ہو… میرے بھائی کہاں‘‘۔
لیکن جب دوسری ملاقات کے موقع پر حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ پھر ان کی طرف مشتاقانہ بڑھنا چاہتے تھے تو حضرت ابوذرؓ کی گفتگو نے یہ واضح کیا کہ ان کا حقیقی مفہوم کیا تھا۔ درحقیقت وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ اگر دولت، حکومت نے تمہاری دولت دل کو لوٹ نہیں لیا ہے تو ہم تم بھائی بھائی ہیں۔ ورنہ ایک دولت مند گورنر اور ایک فقیر میں بھائی بھائی کا رشتہ کہاں!
’’تم نے کوئی بڑی بلڈنگ تو کھڑی نہیں کرلی؟‘‘ حضرت ابوذرؓ نے سوال کیا تھا۔
’’جی نہیں‘‘۔
’’زراعت تو نہیں کرتے… مویشیوں کے گلے تو نہیں رکھتے؟‘‘
’’نہیں… نہیں‘‘۔

’’ہاں تو اب تم یقیناً میرے بھائی ہو‘‘۔ حضرت ابوذرؓ نے اخوت اسلامی کے سچے احساس کے ساتھ کہا تھا اور خدا کے دو غلام بغل گیر ہوگئے تھے۔ ایک بار ابو مروان نے انہیں دیکھا کہ وہ ایک چادر باندھے ہوئے خدا کی پرستش کررہے ہیں۔
’’ابوذر!… انہوں نے نماز کے بعد ان سے پوچھا: ’’کیا بس ایک ہی چادر رہ گئی ہے؟‘‘
’’اگر کوئی اور ہوتی تو تمہیں نظر نہ آتی‘‘۔ حضرت ابوذرؓ نے مسکرا کر جواب دیا۔
’’لیکن ابی مروان بولے: ’’اس سے پہلے تو تمہارے پاس دو کپڑے تھے…‘‘۔
’’ضرور تھے‘‘۔ حضرت ابوذرؓ نے کہا ’’مگر وہ کپڑے میں نے ان کے مستحقوں تک پہنچادیئے‘‘۔
’’تم تو خود ہی ان کے مستحق اور ضرورت مند تھے‘‘۔ ابی مروان نے قدرے حیرت سے کہا۔

یہ سنتے ہی حضرت ابوذرؓ کے چہرے پر روحانی کرب کے آثار ظاہر ہوئے۔ ابی مروان کو غور سے دیکھا اور دل گرفتہ سی آواز میں کہا:

’’خدا تمہیں معاف کرے۔ تم چاہتے ہو کہ دنیا کو بڑھایا جائے۔ تمہیں نظر نہیں آتا کہ ایک چادر میں باندھے ہوئے ہوں، دوسری مسجد کے لیے ہے، کچھ بکریاں ہیں جن کا دودھ پیتا ہوں، کچھ خچر ہی جو بوجھ ڈھوتے ہیں، ایک خادم ہے جو کھانا پکا کر کھلا دیتا ہے، بتائو آخر اس سے زیادہ اور کیا چاہئے‘‘۔

لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان بکریوں کا دودھ بھی وہ خود ہی نہیں پی لیتے تھے۔ دودھ کی یہ نعمت پاتے ہی انہیں منعم حقیقی کا خیال آتا تھا۔ پھر خداکے ان بندوں کا خیال آتا جو ان کے آس پاس آباد تھے اور ان کا جو اپنے حصے کا رزق حاصل کرنے کے لیے ان کے دستر خوان پر مہمان بن کر آتے رہتے۔ پڑوسیوں اور ہمسایوں کو دودھ سے شکم سیر کرنے کے بعد جو کچھ بچ رہتا وہ اور ان کی اہلیہ دونوں نوش جان فرما لیتے۔ ورنہ ایسا بھی ہوتا کہ سارا دودھ اوروں کے حصے میں چلا جاتا اور ان کے لیے صرف شکر نعمت کی مٹھاس رہ جاتی۔ ان کے اوپر فقر و زہد کا جو غیر معمولی غلبہ تھا اس کے پیش نظر اندیشہ تھا کہ ان کے یہ مخصوص رجحانات کوئی خطرناک رنگ نہ لائیں اور ان اصحاب رسولؐ سے ٹکرائو کی نوبت نہ آجائے جو دین و دنیا کا بوجھ اٹھائے ہوئے زندگی کا پل صراط طے کررہے تھے۔ شاید اسی لیے آنحضرتؐ نے ان سے ایک بار پوچھا تھا:

’’جب تمہارے اوپر ایسے حکمران ہوں گے جو اپنا حصہ زیادہ لیں گے تو اس وقت تم کیا کروگے؟‘‘

’’’تلوار سے کام لوں گا‘‘۔ حضرت ابوذرؓ نے عرض کیا تھا۔ میں تم کو اس سے بہتر مشورہ دیتا ہوں۔ حضورؐ نے ارشاد فرمایا تھا: ’’ایسے میں تم صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے آکر مل جائو‘‘۔
ایک بار ابوذرؓ مسجد میں لیٹے ہوئے تھے۔ آنحضرتؐ تشریف لائے۔ مستقبل کے واقعات کی طرف غیبی اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’ابوذرؓ جب تم اس جگہ سے نکالے جائوگے تو کیا کروگے؟‘‘
’’اپنے گھر چلا جائوں گا‘‘۔ انہوں نے عرض کیا: ’’یا مسجد نبویؐ میں چلا جائوں گا‘‘۔
’’اگر اس سے بھی نکالے گئے؟‘‘
’’تو پھر تلوار سے کام لوں گا‘‘۔
یہ جواب سن کر حضورؐ نے اپنا مقدس ہاتھ ان کے شانے پر رکھ دیا اور تین بار ارشاد فرمایا:
’’ابوذرؓ! خدا تمہاری مغفرت کرے… تلوار مت نکالنا جہاں وہ لے جانا چاہیں چلے جانا‘‘۔

اور… تاریخ گواہ ہے کہ حضرت ابوذرؓ نے ایسا ہی کیا تھا۔ دور عثمانی میں انہیں مشورہ دیا گیا کہ وہ زبذہ چلے جائیں اور وہ سیدھے اٹھ کر وہاں چلے گئے تھے اور پھر وہیں گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کرلی تھی۔ وہاں کچھ لوگوں نے ان سے درخواست پر درخواست کی کہ وہ خلیفہ ثالث حضرت عثمانؓ کے خلاف اٹھیں تو ہم پوری طرح ساتھ دیں گے، لیکن انہوں نے فتنہ کا سر کچل دیا اور نماز تک کی امامت قبول نہیں کی۔ ایک حبشی غلام کے پیچھے نماز پڑھی اور کہا ’’میرے خلیلؑ کا میرے لیے یہی حکم تھا‘‘۔ کیسا خوش نصیب تھا وہ انسان جو انس و جن کے سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ’’خلیل‘‘ کہہ سکتا تھا۔

اور کس قدر سچا ہوگا وہ انسان کامل، جس کی ایسی والہانہ اطاعت ابوذرؓ جیسے باطل دشمن اور شمشیر برہنہ انسان نے کی۔

ربذہ میں ان کی یہ فقیرانہ زندگی اس دور سے تعلق رکھتی ہے جب ایک طرف امت کے اندر اختلافات کے شعلے اٹھ کر فتنوں کا رنگ اختیار کرتے جارہے تھے تو دوسری طرف دولت دنیا کا ایک سیلاب تھا جو امنڈا چلا آرہا تھا۔ وہ ان دونوں سے بچنا چاہتے تھے۔ اپنی تنہائی کی برکت سے وہ ان دونوں آزمائشوں سے محفوظ و مامون رہے، مگر ان کی بیوی کے لیے ان کی یہ عظیم زہد و فقر کی زندگی بڑی آزمائش ضرور بن گئی تھی۔

عمران بن اوطانؓ نے دیکھا کہ ابوذرؓ مسجد کے گوشہ تنہائی میں سمٹے ہوئے اس طرح بیٹھے ہیں جیسے کوئی بڑے بھاری طوفان سے خود کو بچانے کی کوشش کررہا ہو۔

’’ابوذرؓ… ابن اوطان نے تعریض کے انداز میں پوچھا: ’’یہاں اکیلے بیٹھے کیا کررہے ہو؟‘‘
حضرت ابوذرؓ نے درد بھری نظریں اٹھاتے ہوئے جواب دیا:
’’میں نے اپنے آقا سے سنا ہے کہ تنہائی برے ہم نشین سے بہتر ہے‘‘۔

ابی اسما اسی دور میں ان سے ملاقات کرنے کے لیے ربذہ پہنچے تو دیکھا کہ ان کی بیوی خسہ حالی کا شکار ہیں مگر ابوذرؓ اسی فقر میں مست ہیں۔
’’یہ عورت کہتی ہے‘‘۔ ابوذرؓ نے اپنی بیوی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پرسوز مسکراہٹ کے ساتھ کہاکہ ’’میں عراق چلا جائوں۔ لیکن عراق جائوں گا تو وہ لوگ میرے سامنے دنیا پیش کریں گے اور یہ گراں باری مجھے پل صراط پر اوندھے منہ گرا سکتی ہے… نہیں میں اس گراں باری سے سبک دوش ہی رہنا چاہتا ہوں‘‘۔

تھوڑی دیر خاموش رہی۔ پھر ابوذرؓ نے ایک درد بھری بات کہی۔
’’میرے محبوب نے بتایا تھا کہ جہنم کے پل کے سامنے ایک پائوں پھسلا دینے والا راستہ ہے اور… تم لوگوں کو اس پر سے گزرنا ہے۔ بیت المقدس میں احنف بن قیس کو ایک عجیب آدمی دکھائی دیا، جس کا حال یہ تھا کہ وہ سجدے سے سر اٹھاتا تھا اور پھر سجدے میں گر جاتا تھا۔
احنف خاص اشتیاق و تجسس کے ساتھ اس آدمی کے پاس گئے اور سلسلہ گفتگو چھیڑنے کے لیے پوچھا:

’’کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ میں نے دو رکعتیں ادا کیں یا ایک رکعت؟‘‘
’’اگر مجھے نہیں تو خدا کو تو خبر ہے‘‘۔ اس شخص نے مختصر سا جواب دیا۔

اس کے بعد خواب ناک انداز میں یہ لرزتے ہوئے الفاظ اس کے ہونٹوں تک آئے۔
’’میرے دوست ابو القاسمؐ نے مجھ کو خبر دی ہے…‘‘ جملہ پورا نہ ہوسکا۔ آواز گلوگیر ہوگئی۔

’’میرے دوست ابوالقاسمؐ نے مجھ کو خبر دی ہے کہ…‘‘ اتنا ہی بمشکل کہہ سکے تھے کہ پھر سینے سے ہوک اٹھی اور کوئی انہیں یاد آگیا۔ ضبط کا بند ٹوٹ چکا تھا اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ تیسری بار انہوں نے پھر بات کرنے کی کوشش کی تو دل کی بات زبان تک آسکی۔

’’میرے دوست ابو القاسمؐ نے مجھ کو خبردی ہے کہ جو بندہ اللہ کو سجدہ کرتا ہے اللہ اس کا درجہ بلند کرکے اس کی بدی کو مٹا کر نیکی لکھ دیتا ہے‘‘۔
’’آخر آپ کون ہیں؟‘‘ پیہم سجدہ ریزیوں کا یہ راز نہاں سمجھنے کے بعد احنف بن قیس نے عقیدت کے ساتھ سوال کیا۔ اس کے جواب میں سادگی، عجز، درد اور یاد ماضی میں ڈوبی ہوئی آواز آئی۔
’’ابوذرؓ… رسول اللہ کا صحابی…‘‘

غزوۂ تبوک کے موقع پر جب محاذ پر پہنچنے کے بعد حضورؐ کو یہ بتایا جارہاتھا کہ کون کون اس مہم میں شامل ہونے سے رہ گیا ہے تو پیچھے رہ جانے والوں میں ’’ابوذرؓ… رسول اللہ کے صحابی‘‘ کا نام بھی لوگوں کی زبان پر آیا، لیکن کسی کو خبر نہ تھی کہ راہ میں ان کی سواری سست پڑ گئی تھی تو اب وہ اپنا سامان کمر پر لادے ہوئے رسول اللہ کے نقوش پاپر چھالے ٹپکاتے ہوئے چلے آرہے تھے… چلے آرہے تھے مستانہ وار… اپنے آپ سے بے خبر… خدا اور اس کے رسولؐ کی یادوں میں غرق۔ سراپا نیاز و اطاعت۔
’’وہ کوئی آرہا ہے!‘‘ کسی کی آواز بلند ہوئی۔

’’ابوذرؓ ہوں گے‘‘۔ حضورؐ نے بلاتامل فرمایا۔
’’خدا کی قسم ابوذرؓ ہی ہیں‘‘۔ دوسری آواز آئی۔

’’ابوذرؓ پر خدا رحم کرے‘‘۔ حضورؐ کے مقدس الفاظ سنے گئے۔ ’’وہ تنہا چلے ہیں… تنہا مریں گے اور… تنہا اٹھیں گے‘‘۔
اور واقعی ایسا ہی ہوا… ابوذرؓ نے زہد و فقر کی جو منفرد زندگی بسر کی تھی اس کا آخری سانس انہوں نے ایک ویرانے کی تنہائی ہی میں لیا جہاں ان کے اور ان کی بیوی کے سوا اور کوئی متنفس نہ تھا۔

’’اب کیا ہوگا؟‘‘ بے کسی اور بے سروسامانی کے احساس سے ان کی اہلیہ رو پڑی تھیں۔ ’’کیوں… کیوں روتی ہو؟‘‘ جسمانی ضعف اور ایمانی خوف کی دو آتشہ آواز میں حضرت ابوذرؓ پکارے تھے۔

’’ہمارے پاس کفن کے لیے بھی کوئی کپڑا موجود نہیں اور آپ… آپ… اس ویرانے میں سفر آخرت کے لیے پابہ رکاب معلوم ہوتے ہیں‘‘۔ آنسوئوں کے درمیان سے ان کی اہلیہ نے کہا تھا۔

’’فکر مت کرو‘‘ جاں بلب صحابیؓ نے صحابیت کی مخصوص ایمان افروزیوں کے جلو میں لبوں کو جنبش دی تھی۔ ’’ہم چند آدمی حضورؐ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ حضورؐ نے فرمایا کہ تم میں سے ایک شخص صحرا میں جان دے گا اور اس وقت مسلمانوں کی ایک جماعت وہاں پہنچ جائے گی… میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ سب لوگ بستیوں میں مر چکے ہیں اور وہ صحرا میں مرنے والا شخص میں ہی ہو۔ خدا کی قسم! کہنے والے نے سچ کہا اور سننے والے نے سچ سنا۔ جائو اور دیکھو کہ لوگ ضرور ادھر آرہے ہوں گے‘‘۔

’’حاجیوں کے قافلے اپنی اپنی راہ پر جاچکے‘‘ اہلیہ نے آہ سرد بھرتے ہوئے کہا تھا: ’’راہیں ویران پڑی ہیں۔ اب کون آئے گا؟‘‘… لیکن ابوذرؓ کے اصرار پر وہ ؟ ٹیلے پر چڑھیں تو دیکھا کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے ہمراہ چند لوگ ادھر چلے آرہے ہیں اور حضرت ابوذرؓ کی وصیت کے مطابق ان کو سپردخاک کیا گیا۔ مرتے مرتے وہ دنیا کی گود سے دامن جھٹکتے ہوئے گئے اور آخری وصیت کی۔

’’اگر میری بیوی کے پاس کفن بھر کا کپڑا نکل آئے تو مجھے اسی میں کفنایا جائے اور تمہیں قسم ہے کہ مجھے کوئی ایسا شخص کفن نہ پہنائے جس کا ادنیٰ سا بھی تعلق حکومت سے ہو‘‘۔

یہ تھے وہ لوگ جن کو یہ بات یاد تھی کہ خدا کی جنت سہل الحصول نہیں بلکہ ایک آدھار دار پل صراط کے اس پار ہے لیکن ہم ہیں وہ ظالم ناداں جو پل صراط کے ادھر اسی دنیا میں اپنی ’’جنت‘‘ دیکھنا چاہتے ہیں… وہ ان سے سبک دوش رہنا چاہتے تھے تاکہ اس خوفناک ترین، خطرناک ترین پل کو پار کرسکیں لیکن ہم ہیں کہ دنیا اور اس کے بکھیڑوں سے سر سے پائوں تک لدے پھندے ٹھیک اسی ’’پل‘‘ کی طرف بڑھے چلے جارہے ہیں جو دوزخ کے بھڑکتے ہوئے الائو کے اوپر بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے بھی زیادہ تیز ہمارا منتظر ہے۔

اگر ہمارا یہی عالم ہے تو کیا ہم اتنا بھی نہیں سوچ سکتے کہ ہمارا انجام کیا ہونا ہے؟، یہ ’’سوچ‘‘ ایمان کا کم سے کم تقاضا ہے۔ اور جہاں یہ ’’سوچ‘‘ تک نہیں ہے، وہاں ’’ایمان‘‘ کہاں، وہاں تو فقط بے جان دعوے ہیں۔ بے روح الفاظ۔

سوچئے کیا ہمارے پاس یہ ’’سوچ‘‘… کم از کم یہ ’’سوچ‘‘ ہے؟ سوچئے… کیا ہم مسلمان ہیں؟

حصہ