سگ گزیدگی کے بڑھتے واقعات اور ریبیز حقائق اور چیلنجز

80

کراچی سمیت پورے ملک میں آوارہ کتوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس کے نتیجے میں سگ گزیدگی کے واقعات میں بے حد اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف شہریوں کی صحت بلکہ ان کی زندگیوں کے لیے بھی خطرناک ہے۔

ریبیز… ایک جان لیوا بیماری
ریبیز ایک وائرل بیماری ہے جو متاثرہ جانور کے کاٹنے سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہے۔ یہ بیماری دماغ کی سوجن کا سبب بنتی ہے اور اس کا وائرس انتہائی باریک ہوتا ہے، جو صرف الیکٹران مائیکرواسکوپ سے دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ وائرس زیادہ تر کتوں، چمگادڑوں، لومڑیوں، بھیڑیوں اور بندروں کے ذریعے پھیلتا ہے۔ انسانوں میں 95 فیصد سے زیادہ کیسز کتوں کے کاٹنے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔

پاکستان میں ہر سال دس ہزار سے زائد افراد سگ گزیدگی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار مختلف صوبوں اور علاقوں میں مختلف ہوسکتے ہیں، لیکن کراچی، لاہور، پشاور اور دیگر بڑے شہروں میں سگ گزیدگی کے واقعات زیادہ رپورٹ ہوتے ہیں۔

سگ گزیدگی کے باعث ریبیز کے کیسز کی وجہ سے سالانہ دو ہزار سے پانچ ہزار کے درمیان اموات رپورٹ ہوتی ہیں۔ یہ اموات زیادہ تر اُن لوگوں کی ہوتی ہیں جو بروقت طبی امداد یا ویکسین حاصل نہیں کرپاتے۔

بھارت میں ہر سال تقریباً بیس ہزار افراد ریبیز کا شکار ہوتے ہیں، جو کہ عالمی شرح کا ایک تہائی ہے۔ افریقی ممالک میں بھی یہ بیماری بڑے پیمانے پر پائی جاتی ہے، جہاں طبی سہولیات کی کمی اور ویکسین کی عدم دستیابی اس کے پھیلاؤ کا سبب بنتی ہے۔

دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 60ہزار افراد ریبیز کے باعث ہلاک ہوجاتے ہیں، جبکہ پاکستان میں تقریباً 8ہزار اموات ہوتی ہیں۔

ریبیز کا وائرس متاثرہ جانور کے کاٹنے یا اس کے لعابِ دہن کے زخم یا کھلی جلد پر لگنے سے پھیلتا ہے۔ بیماری کا آغاز اعصابی نظام میں سوزش سے ہوتا ہے، جو بعد میں دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کو متاثر کرتی ہے۔

کتے کے کاٹنے کے بعد فوری علاج کی اہمیت
کتے کے کاٹنے کے بعد فوری طور پر زخم کو صابن اور پانی سے دھو کر صاف کرنا بہت ضروری ہے۔ انڈس اسپتال کی انفیکشن ڈیزیز کنسلٹنٹ اور ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ آف انفیکشن ڈیزیز ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کا کہنا ہے کہ گھریلو ٹوٹکوں سے پرہیز، اور فوراً قریبی اسپتال سے رجوع کرنا چاہیے جہاں ویکسین دستیاب ہو۔ کتے کے کاٹنے کے بعد 24 سے 48 گھنٹوں کے اندر ویکسین لگوانے سے ریبیز سے بچا جا سکتا ہے۔ اگر علامات ظاہر ہوجائیں تو بیماری لاعلاج ہوجاتی ہے اور مریض کی موت یقینی ہے۔

پاگل کتے کی علامات
پاگل کتا بلاوجہ لوگوں کو کاٹنے لگتا ہے اور ہر چیز کو چبانے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر کتا اس طرح کی علامات ظاہر کررہا ہو تو اس سے بچاؤ کے اقدامات فوری کرنے چاہئیں۔ نارمل کتا عام طور پر تبھی کاٹتا ہے جب اُسے چھیڑا جائے یا وہ خطرے میں ہو، جبکہ پاگل کتا بغیر کسی اشتعال کے کاٹتا ہے۔

ریبیز کا علاج
کتے کے کاٹنے کے بعد مریض کے زخم کو اچھی طرح صاف کیا جاتا ہے اور اُس سے کتے کی حالت کے بارے میں سوالات کیے جاتے ہیں۔ اگر کتا نارمل ہو تو ویکسین کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن اگر پاگل ہو تو ویکسی نیشن ضروری ہے۔ ریبیز کے علاج کے لیے تین ٹیکوں کا کورس ہوتا ہے جو پہلے، تیسرے اور ساتویں دن لگایا جاتا ہے۔

حکومتی اقدامات
حکومت اور مختلف این جی اوز کی جانب سے سگ گزیدگی اور ریبیز کے خاتمے کے لیے کئی اقدامات کیے جا رہے ہیں، جیسے کہ:

بڑے شہروں میں آوارہ کتوں کی ویکسی نیشن اور نس بندی کے پروگرام شروع کیے گئے ہیں۔ انڈس اسپتال کی ڈاکٹر نسیم صلاح الدین اور ان کی ٹیم نے ’’ریبیز فری کراچی‘‘ پروجیکٹ کے تحت ابراہیم حیدری میں کتوں کی ویکسی نیشن اور نس بندی کا کام شروع کیا ہے، لیکن یہ محدود ہے۔ اس پائلٹ پروجیکٹ کی کامیابی کے باوجود، مزید علاقوں میں اس پروگرام کو پھیلانے کے لیے فنڈز اور تعاون کی ضرورت رہتی ہے۔

عمومی طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومت نے اسپتالوں میں ریبیز ویکسین کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کے دعوے تو بہت کیے ہیں لیکن اکثر ویکسین دستیاب نہیں ہوتی۔

کراچی میں آوارہ کتوں کی بھرمار اور سگ گزیدگی کے واقعات سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات اور عوامی شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ ریبیز جیسی جان لیوا بیماری سے بچاؤ کے لیے بروقت ویکسی نیشن اور مناسب علاج بہت ضروری ہے۔ ڈاکٹر نسیم صلاح الدین جیسے ماہرین کی کوششوں سے اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے، مگر اس کے لیے عوامی تعاون اور حکومتی حمایت ناگزیر ہے۔

حصہ