امید

55

بوڑھی غم زدہ آنکھوں سے آنسو تواتر سے بہہ کر جھریوں کی سلوٹوں سے رینگتے ہوئے چہرے کی حدود پار کرکے قطرہ بن کر ٹپک جاتے۔

دسمبر شاعروں کی شاعری کی مانند
درد بن کر آتا اور سارے وجود پر چھا جاتا

قاسم جو بہت دیر سے صفیہ کی سسکیاں سن رہا تھا، قدرے جھلّاہٹ سے گویا ہوا ’’ارے کیوں روئی جاتی ہے نیک بخت؟‘‘

’’کیا کروں، دل کا درد ہی نہیں جاتا… سال کے اختتامی تین ماہ تو اس درد کو سوا کردیتے ہیں۔‘‘ صفیہ رندھی ہوئی آواز میں گویا ہوئی۔

’’کہیں کا نہ چھوڑا اس فرقہ واریت نے… دو بازو تھے، ایک کٹ گیا۔ آہ…! میرا سوناربنگلہ۔‘‘ اس کی سسکی لبوں کی قید سے نکلی۔

’’بھول جا اب اس مشرقی پاکستان کو۔‘‘ قاسم نے پاندان کھول کر بڑے سے پان میں کتھا چونا برابر کرکے تمباکو چھڑکا اور گال میں دبا لیا۔

’’ہم تو خوش نصیب ہیں جو رب نے دو مرتبہ ہجرت نصیب کی۔‘‘ قاسم نے بیوی کو بہلاوا دیا۔

’’دیکھ، تیری یہ جھوٹی تسلیاں اب تو بالکل بھی اثر نہیں کرتیں، کیوں کہ یہ قوم پندرہ برسوں میں پھر وہ سبق بھلا بیٹھی ہے اور دوبارہ چنگاریاں پھوٹ رہی ہیں۔‘‘ صفیہ بہت مایوس تھی۔

جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا تو قاسم اور صفیہ کے والدین پٹنہ سے ہجرت کرکے ڈھاکہ منتقل ہوئے تھے۔ 1971ء میں بگڑنے والے حالات کے سبب قاسم اور صفیہ مشرقی پاکستان سے ہجرت کرکے اورنگی ٹائون میں ٹھیرے تھے۔

’’ہاں کہتی تو تُو ٹھیک ہے۔‘‘ قاسم نے ایک سرد آہ کھینچی اور چارپائی پر لیٹ گیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے۔ اس نے صفیہ کی جانب سے کروٹ لے لی۔

اس کی شادی کو صرف سترہ دن گزرے تھے۔ صفیہ کے ہاتھوں کی مہندی کا رنگ بھی پھیکا نہ پڑا تھا۔ شادی کے وقت بھی فضا خوشگوار نہ تھی کہ فسادات شروع ہوگئے۔ بھری پری سسرال… دیور، جیٹھ، سسر، ساس… ایک متوسط طبقے کا گھرانہ تھا۔ دیور کالج میں انٹر کا طالب علم تھا۔ نوجوان نسل میں باقاعدہ عصبیت کی آگ کو ہوا دی گئی تھی۔ اردگرد کی خبریں خاصی پریشان کن تھیں۔ قتل و غارت گری کے سوا کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ محلے کے محلوں کا صفایا کردیا گیا تھا۔ اپنے اپنوں کے دشمن بنے ہوئے تھے۔

ہندوئوں کے ساتھ مل کر مسلمان بنگالی اردو بولنے والوں کو بے دریغ قتل کروا رہے تھے۔ دو دن سے اس کا چھوٹا بھائی لاپتا تھا۔

ایک اور ہجرت کی تیاری تھی۔ وہ باورچی خانے میں تھی کہ گھر کے داخلی دروازے سے ایک ہجوم شاید اندر آگیا تھا۔ چیخ پکار کی آوازیں، درد بھری آوازیں، چاقو کھلنے کی چرچراہٹ اور رحم کی بھیک مانگتی اس کی ساس اور جیٹھانی کی آوازیں۔ وہ باورچی خانے سے ملحق کوٹھری میں جہاں لکڑی اور کوئلہ رکھا جاتا تھا، دبک گئی۔ عام حالت میں وہ چھپکلی اور چوہوں کے خوف سے دروازہ بھی نہ کھولتی تھی۔

قاسم گھر سے باہر تھا۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ کوٹھری میں گھٹنوں میں منہ دے کر بیٹھی صفیہ کو وہ عرصہ سالوں پر محیط محسوس ہورہا تھا۔ دکھ بھری چیخ پکار اور جنگلی قہقہوں کی بازگشت کے بعد موت کا سناٹا چھا گیا۔ قاسم کو باہر اطلاع مل گئی تھی کہ مکتی باہنی کے غنڈوں نے ان کے گھر پر حملہ کردیا ہے۔ وہ چھپتا چھپاتا گھر پہنچا۔ دالان اور کمروں میں خون ہی خون پھیلا ہوا تھا۔ ماں کی کٹی پھٹی لاش، باپ اور بھائی کے کٹے ہوئے سر … اور صفیہ غائب تھی۔

اس کو باورچی خانے کی جانب سے جلنے کی آنے والی بو نے چونکا دیا۔ وہ باورچی خانے کی جانب لپکا۔ کوٹھری کے دروازے کے پٹ کچھ ہلتے ہوئے محسوس ہوئے۔ وہ اندر داخل ہوا تو صفیہ بے ہوش ہوکر ایک جانب لڑھکی ہوئی تھی۔

اس کے بعد سے آج تک صفیہ خون دیکھ کر بے ہوش ہوجاتی ہے۔ بقرعید کے دنوں میں بھی قاسم اس کو گھر سے باہر نکلنے نہیں دیتا تھا۔
اور یہ بستی بنگلہ دیش سے ہجرت کرکے آنے والوں کے لیے بسائی گئی تھی۔ قریب ہی قصبہ کالونی تھا، جہاں بڑی تعداد میں پٹھان آبادی تھی۔ انہوں نے ان پاکستانیوں کو گلے لگایا تھا اور عرصۂ دراز سے ساتھ رہ رہے تھے۔ ایک دوسرے کے دکھ درد اور خوشیوں میں ساتھ دینے والے اب ایک دوسرے کے لیے اجنبی بنتے جارہے تھے۔ ایک بار پھر فرقہ واریت پنپ رہی تھی۔
وہ بچے جو ایک ساتھ پل کر جوان ہوئے تھے، ایک دوسرے کو خوں آشام نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ عصبیت ایک مرتبہ پھر اپنی بھرپور قوت سے پنجے گاڑ چکی تھی، پندرہ برس بعد آج پھر وحشت اور سفاکی کا طوفان تھا۔ ایک ہجوم تھا درندہ صفت لوگوں کا… جو نہ پٹھان تھے اور نہ ہی مہاجر… بس درندے تھے جو مردوں کو قتل کرتے، لڑکیوں اور عورتوں کی عزتوں کو روندتے ہوئے گزر رہے تھے، اور پھر وہی14 دسمبر 1986ء تھا جو قاسم اور صفیہ کو نگل گیا تھا۔
وقت گزرا۔ صفیہ اور قاسم کے بچوں نے امید کا دامن کبھی نہ چھوڑا۔ آج پھر نیا نکور پاکستانی پرچم صفیہ اور قاسم کی امیدوں کو تھامے ہوا میں لہرا رہا تھا۔

حصہ