’’انٹرویو کیسا ہوا نعمان؟‘‘امی نے محبت پوچھا۔
نعمان: (مایوسی سے) ’’امی ہر مرتبہ کی طرح بہترین لیکن…‘‘
’’بس بیٹا! ہمارے ملک کا تو یہی حال ہے، ہر جگہ رشوت اور سفارش… اس کے بغیر تو کوئی کام ہی نہیں ہوتا۔‘‘
یعقوب: ’’میں تو کہتا ہوں نعمان میرے ساتھ میرے بزنس میں ہاتھ بٹائے، مال ہی مال ہے۔ اب یہی دیکھو کہ دکان کے لیے جو مال دو مہینے پہلے میں نے گودام میں رکھوا دیا تھا اب اس کی قیمت دوگنی سے بھی بڑھ گئی ہے… یعنی فائدہ ہی فائدہ۔‘‘
ناصرہ: (فخر سے) ’’ہاں یہ تو ہے، لیکن ہمارا نعمان بھی اتنا بے وقوف نہیں ہے، وہ سرکاری نوکری کے پیچھے اسی لیے پڑا ہوا ہے کہ اس میں کمائی ہی کمائی ہے۔ اچھا میری نماز کا وقت ہوگیا ہے۔‘‘
یعقوب: (گھڑی دیکھتے ہوئے) ’’اوہ باتوں میں یاد ہی نہیں رہا، نماز کے بعد اسلم صاحب کے گھر درسِ قرآن بھی ہے آج، چلو میں چلتا ہوں۔‘‘
یعقوب: (نعمان کو لفافہ دیتے ہوئے) ’’یہ دے مارنا ان کے منہ پر، حرام کھاتے ہیں… اس ملک میں رشوت کے بغیر تو کام ہی نہیں ہوتا۔‘‘
ناصرہ: (خوشی سے) ’’وہ تو شکر ہے ہمارے پاس اتنی رقم تھی جو کام بن گیا۔ نعمان کتنے مہینوں سے سرکاری نوکری حاصل کرنے کے لیے پریشان تھا۔ چلو، میرے بچے کی خواہش تو پوری ہوئی۔ غریب بے چارے کہاں سے لائیں گے رشوت دینے کے لیے اتنی بڑی رقم!‘‘
…٭…
اس طرح کے واقعات ہمارے چاروں طرف ہوتے رہتے ہیں جن کے ہم عادی ہوگئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ دین ودنیا کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔
وطنِ عزیز کو اگر حکمرانوں نے یہاں تک پہنچایا ہے توعوام بھی پیچھے نہیں، وہ بھی شامل ہیں۔ یعنی ملک کو اس حالت میں پہنچانے میں ان سب کا ہاتھ ہے۔
معذرت کے ساتھ، آج ملک کے خاص اداروں اور محکموں کی حالتِ زار اس بات کا ثبوت ہے جو کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں، جس ہر محب وطن افسردہ اور دکھی نظر آتا ہے۔
میرے رب کا بڑا کرم ہے کہ جس نے ہمیں غلامی کے اندھیروں سے نکال کر آزاد مملکت پاکستان کا باسی بنایا۔ یہ مملکت جو آج ایٹمی طاقت اور وسائل سے مالامال دنیا کا ایک خوب صورت خطۂ ارض ہے، جس کو معرضِ وجود میں آئے 77 سال ہوچکے ہیں، اس کو ہم نے کہاں پہنچایا ہوا ہے؟ ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک ترقی میں ہم سے کہیں زیادہ آگے نکل چکے ہیں اور ہم دن بہ دن پیچھے کی طرف جارہے ہیں، جس کی وجوہات آج سب پر عیاں بھی ہوچکی ہیں۔ اگر ہمیں اپنے وطن سے سچی محبت اور پیار ہے تو سب کو اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ اس ماہِ اگست کی اہمیت کو مدنظر رکھ کر ہمیں عہدِ وفا کرنا ہوگا کہ یہ خطۂ ارض حقیقت میں ہماری ماں ہے جس نے ہم سب کو اپنی آغوش میں سمیٹ کر ہمیں ایک خاص پہچان دی ہے، اب اس وطنِ عزیز کی عزت و آبرو ہی ہماری عزت ہے، اس لیے ہمارا کوئی عمل ایسا نہیں ہونا چاہیے جس سے اس کی عزت اور وقار پر آنچ آئے۔ یہی اس ارضِ وطن کا حق ہے، اسی میں وطنِ عزیز کی بقا وسلامتی ہے۔
ہر محبِ وطن کی یہ آرزو و تمنا ہے کہ ہمارا یہ وطن سدا شاد و آباد رہے، آمین یارب العالمین۔
آئیے سب مل کر اس عہد کے ساتھ یومِ آزادی منائیں کہ اس اَرضِ وطن کو اسلامی ریاست بنائیں گے تاکہ سب کو ان کے حقوق بھی مل سکیں۔