عباد اللہ خان صاحب پنج وقتہ نمازی، اصولوں کے پابند اور حقوق العباد کی فکر کرنے والے نیک طینت شخص تھے۔ تمام رشتے دار اور پڑوسی ان کی دل سے عزت اور پیار کرتے تھے۔
انڈیا کے علاقے سہارنپور میں ان کی آبائی حویلی خاصے بڑے رقبے پر پھیلی ہوئی تھی۔ پیشے کے لحاظ سے وہ محکمہ انہار میں انجینئر تھے۔ روپے پیسے کی ریل پیل تھی۔ تین بیٹیاں اور دو بیٹے گھر میں رونق لگائے رکھتے تھے۔ سب بچے منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے تھے، لیکن پیسے نے ان کے مزاج پر کوئی برا اثر نہ ڈالا تھا۔ والدین نے ان کی تربیت اسلامی خطوط پر کی تھی، اس لیے عاجزی، خیر خواہی، سچائی اور پاکیزگی ان کی رگوں میں سرایت کرچکی تھی۔
تاج اور نواب کی شادیاں بڑی دھوم دھام سے انجام پائیں۔ بڑا بیٹا احسان ماں باپ دونوں کا بہت لاڈلا تھا۔ ہر خواہش منہ سے نکلنے سے پہلے ہی پوری ہوجاتی۔ دوست یار ہر وقت گھیرے رکھتے۔ مگر دوست بھی اچھے شریف گھرانوں کے تھے۔ باپ نے سونے کا نوالہ کھلانے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ بچوں پر شیر کی نظر رکھی۔
خوشیوں کے ہنڈولے میں کھیلتے ہوئے عباد صاحب اور ان کے بیوی بچوں نے مستقبل کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہ تھا کہ گردشِ لیل و نہار کیا کروٹ لے سکتی ہے۔
پاکستان کا بننا ایک خوش آئند بات ضرور تھی، مگر وقت کی اس کروٹ نے بہت سی خوں آشام کہانیوں کو جنم دیا۔ ایسے ایسے سانحے رونما ہوئے کہ الامان الحفیظ… مسلمان خاندانوں پر ہونے والے ایسے ایسے ظلم چشمِ فلک نے دیکھے کہ نہ زبان میں بیان کرنے کا یارا تھا اور نہ ہی وہ دل خراش واقعات ذہن سے محو ہوتے ہیں۔
عباد صاحب کا تعلق چوں کہ مسلم اکثریتی حصے سے تھا، تو وہاں کچھ اَمن تھا، اس لیے انہوں نے فوراً ہجرت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی ملازمت کا تعلق سرکاری محکمے سے تھا، سو وہاں سے تو انہیں فارغ کردیا گیا، مگر بہرحال جمع پونجی اتنی تھی کہ گھر بیٹھے گزارا ہورہا تھا۔
لیکن آخر کب تک…؟ ہندوؤں نے رفتہ رفتہ زندگی کا دائرہ اُن پر تنگ کرنا شروع کردیا، اور آخر قیامِ پاکستان کے چند سال بعد ہی اس خاندان کو بھی ہجرت کے بحرِ ظلمات سے گزرنا پڑا۔ سفر کے لیے ان لوگوں نے زمینی راستے کا انتخاب کیا۔ اپنی حویلی، محلہ، علاقہ اور دوست احباب چھوڑتے ہوئے کیسا کچھ دل نہ تڑپا، مگر ایک اطمینان تھا کہ اپنے آزاد وطن میں اسلامی اقدار کے مطابق زندگی بسر کریں گے۔
کئی دنوں کے مشکل اور تکلیف دہ سفر کے بعد جب بخیر و عافیت وہ لوگ پاکستان کی سرحد پر پہنچے تو ان میں سے اکثر سجدے میں گر گئے۔ چونکہ ہندوستان سے مستقل لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا، تو سرحد پر مہاجر کیمپ لوگوں کی سہولت کے لیے موجود تھے۔ آنے والوں اور ان کا استقبال کرنے والوں‘ دونوں میں ایک والہانہ پن تھا… اپنے وطن اور ہم وطنوں کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ بدرجہ اَتم موجود تھا۔ یہ بڑی بات تھی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اور ان کے خاندان کو ہر سردو گرم سے محفوظ رکھا اور وہ عزت، جان اور مال کی سلامتی کے ساتھ پاک وطن پہنچ گئے… والدین کی دعائیں یونہی رنگ لاتی ہیں۔
شروع میں تو کچھ عرصہ مہاجرین کے کیمپ میں پناہ گزین رہے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ لوگ کوئی بھی خالی گھر دیکھ کر اس میں قبضہ کرکے بیٹھ جاتے ہیں، مگر عباد صاحب پاکستان میں کوئی بھی خلافِ شرع کام کرنے کے حق میں نہیں تھے۔
پھر اپنے ساتھ رہنے والے تیمور صاحب سے معلومات ہوئی کہ حکومت نے کلیم کا محکمہ بنایا ہے، لوگ ہندوستان میں چھوڑی ہوئی جائداد کے کاغذات ایک درخواست کے ساتھ وہاں جمع کرواتے ہیں اور کچھ ہی عرصے میں تقریباً اتنا ہی بڑا مکان انہیں الاٹ کردیا جاتا ہے۔
تیمور صاحب عباد صاحب کی اچھی عادات کی وجہ سے ان سے بہت محبت کرنے لگے تھے، وہ اپنے درخواست فارم کے ساتھ ایک فارم ان کے لیے بھی لے آئے تھے۔
’’مگر تیمور بھائی! میں تو اپنے مکان کے کاغذات وہاں سے نہیں لایا، مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ ایسا بھی کوئی راستہ بن سکتا ہے۔‘‘
’’اچھا! چلیں کوئی بات نہیں، اس کا بھی حل موجود ہے۔ میں ایک بندے کو جانتا ہوں، وہ جعلی کاغذات بنادیتا ہے۔‘‘
’’ارے تیمور بھائی! یہ آپ کیسی بات کررہے ہیں، پاک وطن میں ہم اپنی زندگی کی ابتدا کیا دھوکے اور فراڈ سے کریں گے؟ کیا جھوٹ پر اپنی آنے والی نسل کی بنیاد رکھیں گے؟‘‘ صدمے اور حیرت سے عباد صاحب سے بولا بھی نہیں جارہا تھا۔
’’ارے عباد بھائی! کچھ نہیں ہوتا… یہ جھوٹ تو نہیں ہے نا، کہ وہاں آپ کے پاس ایک بڑا مکان تھا، اب اگر ثبوت نہیں ہے تو اللہ تو حقیقت جانتا ہے۔‘‘ تیمور صاحب نے اپنی دانست میں عباد صاحب کے حق میں آسانی پیدا کرنے کی کوشش کی۔
’’نہیں تیمور بھائی! محکمے کے سامنے ثبوت پیش کرنا قانونی حیثیت رکھتا ہے، اور میں کلمے کے نام پر حاصل کیے گئے ملک میں قانون شکنی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ میں کرائے کے مکان میں گزارا کرلوں گا مگر یہ کام کرکے اپنے ضمیر پر بوجھ نہیں ڈالوں گا۔‘‘ عباد صاحب درخواست فارم پھاڑتے ہوئے نہایت اطمینان سے گویا ہوئے۔ اور تیمور صاحب اس عزیمت کے راہی کو رشک بھری نظروں سے دیکھتے گئے۔