مہک کا راز

78

اپنی بات کو مزید جاری رکھتے ہوئے مجھے ٹیلیفون پر تمام تفصیل بناتے کے بعد یہ کہا گیا کہ انسپکٹر حیدر علی نے جمال اور کمال کو اس کیس میں شامل کرنے کی درخواست دی ہے۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ خفیہ کا اعلیٰ ادارہ عام چور اچکوں یا اندرونی طور پر ملوث کچھ شر پسندوں کے لیے کبھی کسی پولیس کے محکمے کو یہ آسانیاں فراہم نہیں کرتا کہ وہ مقامی لوگوں سے مدد حاصل کر سکے۔ ہوتا یہ ہے کہ یا تو معاملہ نہایت سنگین نوعیت کا ہو یا اس بات کا احتمال ہو کہ بیرونی عناصر بھی کسی معاملے میں شریک ہیں تو پھر خفیہ کا محکمہ ایسے کیسوں میں خود بھی بلا واسطہ شریک ہو جاتا ہے یا بالواسطہ طریقے سے اس میں دلچسپی لینے لگتا ہے۔ جب انسپکٹر حیدر علی نے تمام تفصیل سے محکمے کو آگاہ کرتے ہوئے جمال اور کمال کی ضرورت کو محسوس کیا تو محکمے نے اڑتالیس گھنٹوں کی تحقیقات کرکے یہ رائے قائم کی کہ بظاہر تو یہ کیس ایک معمولی کسان کے قتل کا ہے لیکن معاملہ کچھ اور ہی ہے لہٰذا محکمہ سمجھتا ہے کہ اس کیس میں جمال اور کمال سے مدد لینے میں کوئی حرج نہیں لیکن سب سے عجیب بات یہ ہے کہ تم دونوں کو بے شک اعلیٰ حکام کی آشیرباد حاصل ہے لیکن انسپکٹر حیدر علی کو اس کی خبر نہیں ہے کہ اصل آشیرباد تم دونوں کو کس کی حاصل ہے۔ انسپکٹر حیدر علی کو کسی اور ذریعے سے بس اتنا کہا گیا ہے کہ اگر وہ مناسب سمجھتے ہیں تو جمال اور کمال کو اپنے ساتھ کام کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔ تم دونوں کے لیے اچھی خبر یہ ہے تمہارے ریٹائرڈ پرنسپل ملک کرم داد تم سے مل کر دو اجازتیں تم دونوں کے لیے حاصل کر چکے ہیں۔ ایک اجازت یہ کہ وہ سینٹرل جیل کے قیدی نمبر 1103 اور جیلر سے ملاقات کا انتظام بالکل اس طرح کرا سکتے ہیں جیسے طالب علم اپنے کسی اسائنمنٹ کی تکمیل کے لیے کرتے ہیں اور دوسری اجازت زمیندار کی زمینوں کا دورہ بھی اسی انداز میں کرانے کا اہتمام بھی کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ملک کرم داد تمہارے تعلیمی ادارے سے وابستہ رہے ہیں اور اس علاقے کی ایک معروف اور جانی پہچانی شخصیت مانے جاتے ہیں اس لیے اس بات کا امکان کم ہے کہ ان دونوں جگہ کے وزٹ کو کوئی کسی اور انداز سے سوچے۔ باقی تمہارا اپنا کیا پلان ہے، یہ سب دیکھنا اب تم دونوں کا کام ہے۔
جمال اور کمال کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ کرسیوں پر کھڑے ہو کر جئے ابا حضور کا نعرہ لگائیں لیکن انھوں نے اپنے جذبات کا قتل عام کرتے ہوئے اپنے والد صاحب کو فوجیوں کے انداز میں سلوٹ کیا اوراپنے کمرے میں جاکر اپنے پلان کو حتمی شکل دینے کی تیاری کرنے لگے۔
بہت سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ فاطمہ کی اس کیس میں شمولیت مزید سود مند ثابت ہوگی۔ ایک جانب تو سینٹرل جیل کے وزٹ یا جیلر سے ملاقات یا قیدی نمبر 1103 سے طالبعلمانہ دورے اور ملاقات کو کسی حد تک طلبہ کے کسی اسائنمنٹ کی تکمیل ہی سمجھنے میں آسانی ہو گی دوئم یہ کہ زمیندار کی زمینوں میں کچھ دنوں قیام کو بھی یہی رنگ دینا سہل ہو جائے گا۔ اس کی شمولیت کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ فاطمہ کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا ہونے والی قوتِ شامہ ان کے لیے بہت مدد گار ثابت ہوگی کیونکہ وہ نہ صرف غیر محسوس ہونے والی بو کو بھی سونگنے میں طاق تھی بلکہ قدرتی طور پر وہ ہر جسم کی مہک کو یاد رکھنے میں بھی کمال کی صلاحیت رکھتی تھی۔ اگر اس نے کسی بھی انسان کو کہیں بھی ایک مرتبہ دیکھ لیا ہو اور اس کے جسم کی مہک اس نے اپنی یادداشت میں بٹھا لی ہو تو وہی انسان اس کو کتنی ہی مدت بعد کہیں بھی اور کسی بھی حلیہ و شکل میں ملے، وہ اسے پہچان لینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی۔ کسی بھی انسان کو کہیں بھی دیکھ کر پہچان لینے میں بے شک جمال اور کمال بھی طاق تھے لیکن وہ اس بات کو بخوبی جانتے تھے کہ اگر کوئی بہت ہی میک اپ کا ماہر ہو تو وہ کسی حد تک دھوکا بھی کھا جایا کرتے تھے کیونکہ وہ ہر انسان کے جسم سے پھوٹنے والی مہک کو سونگھ لینے کے ماہر نہیں تھے۔ لہٰذا ضروری سمجھا گیا کہ کہ فاطمہ کو بھی اپنی ٹیم کا حصہ بنانے کے لیے خصوصی اجازت لی جائے۔ انھیں اس بات کی قوی امید تھی کہ اعلیٰ ادارے والے ان کو اس بات کی اجازت ضرور دے دیں گے۔ فاطمہ ویسے بھی دو تین اہم مہمات میں ادارے کی اجازت کے ساتھ نہ صرف پہلے بھی شریک رہی تھی بلکہ اس کی صلاحیتوں کی مدد سے وہ مہمات بہت شاندار انداز میں سر ہوئی تھیں جس کا اعتراف خود خفیہ اور پولیس کے محکموں کو بھی تھا۔
اگلے روز اپنے فیصلے سے انھوں نے اپنے والد کو آگاہ کیا تو انھوں نے کہا کہ میں براہِ راست تو کسی سے بھی کبھی رابطے میں نہیں رہا لیکن تمہارے سابقہ پرنسپل جناب ملک کرم داد صاحب تک اس بات کو پہنچا دوںگا۔ مجھے لگتا ہے کہ شاید اس کیس کی نگرانی محکمہ ان کے سپرد کر رہا ہے۔ وہ ادارے سے کئی برس تک وابستہ بھی رہے ہیں اور اس مرتبہ پہلی بار میں ان کو کسی کیس کے سلسلے میں متحرک دیکھ رہا ہوں۔ والد صاحب جمال اور کمال کو بڑی وضاحت کے ساتھ یہ سب کچھ بتا رہے تھے لیکن جمال اور کمال کی تیز نظریں ان کے لہجے کے اوپرے پن کو محسوس کر چکی تھیں۔ انھوں نے بھانپ لیا تھا تھا کہ بے شک ان کے سابقہ پرنسپل ملک کرم داد اس مرتبہ ان کو کافی متحرک نظر آ رہے تھے لیکن خود والد صاحب بھی اس مہم میں صاف شریک نظر آ رہے ہیں۔ گو کہ یہ بات ان کے لیے حیرت اور خوشی کا سبب تھی لیکن وہ یہ سوچ رہے تھے کہ جب ایسا ہی ہے تو وہ پردے کے پیچھے ہی سے کیوں بات کرنا پسند کرتے ہیں۔
خیر ہمیں اس سے کیا، کچھ سوچ کر دونوں نے ہی اپنے اپنے سر کو زور سے جھٹک دیا۔ وہ دونوں جڑواں بھائی تھے لیکن حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ان میں کوئی ایسا روحانی یا قدرتی رابطہ تھا کہ وہ ایک ہی وقت میں ایک ہی جیسا سوچ رہے ہوتے تھے، یہاں تک کے اگر جمال بات کر رہا ہو تو کمال بھی وہی بات کرنا چاہ رہا ہوتا تھا اور اگر کمال بات کر رہا ہو تو جمال بھی وہی بات کرنا چاہ رہا ہوتا تھا۔ باالفاظِ دیگر یہ بات کہی جا سکتی تھی کہ وہ دو جسم تو ضرور تھے لیکن جان ایک ہی تھی۔ یہ بھی قدرت کا ایک حسین شاہکار تھا جو جمال اور کمال کی صورت میں موجود تھا۔(جاری ہے)

حصہ