پنسل کی کہانی

45

عبداللہ نامی ایک لڑکا اپنے انگریزی کے امتحان کی ناکامی پر بہت پریشان تھا۔ وہ اپنے کمرے میں خاموشی سے بیٹھا تھا، اس کے چہرے پر مایوسی کے آثار واضح تھے۔ اچانک، اس کی دادی کمرے میں داخل ہوئیں۔ دادی نے عبداللہ کی پریشانی کو بھانپ لیا اور اس کے پاس جا کر بیٹھ گئیں۔ انہوں نے عبداللہ کو تسلی دی اور اسے ایک پنسل پیش کی۔
عبداللہ نے حیرت سے پنسل کو دیکھا اور بولا، ’’دادی، میں اس پنسل کا مستحق نہیں ہوں۔ میں نے امتحان میں اتنی خراب کارکردگی دکھائی ہے کہ مجھے یہ پنسل نہیں ملنی چاہیے۔‘‘
دادی مسکرائیں اور بولیں، ’’بیٹا، تم اس پنسل سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہو۔ دیکھو، یہ پنسل تمہاری طرح ہی ہے۔ جب اس کو تیز کیا جاتا ہے تو یہ ایک تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے تمہیں امتحان میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لیکن یاد رکھو، اس تکلیف دہ عمل کے بغیر یہ پنسل اپنا کام نہیں کر سکتی۔ جیسے یہ تیز ہونے کے بعد لکھنے کے قابل ہوتی ہے، تم بھی اپنی غلطیوں سے سیکھ کر ایک بہتر طالب علم بن سکتے ہو۔‘‘
دادی نے پنسل کو عبداللہ کے ہاتھ میں دیتے ہوئے مزید کہا، ’’دیکھو، اس پنسل کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ اس کی قدر اس کے اندر موجود گریفائٹ سے ہے، نہ کہ اس کے باہر کے لکڑی کے غلاف سے۔ تم بھی اپنی اندرونی صلاحیتوں کو پہچانو اور اپنی کمزوریوں پر قابو پاؤ۔ تمہاری اصل طاقت تمہارے اندر چھپی ہوئی ہے، اور تمہیں اس پر اعتماد کرنا چاہیے۔‘‘
عبداللہ دادی کی باتوں کو غور سے سنتا رہا۔ دادی نے آخر میں کہا، ’’اور یاد رکھو، جیسے یہ پنسل کسی بھی سطح پر اپنا نشان چھوڑ سکتی ہے، تم بھی دنیا میں اپنا نشان چھوڑ سکتے ہو۔ تمہاری محنت اور لگن تمہیں آگے بڑھنے میں مدد دے گی۔ اس ناکامی کو اپنی زندگی کا اختتام نہ سمجھو، بلکہ ایک نئے آغاز کی طرح دیکھو۔‘‘
عبداللہ کو دادی کی باتوں سے بہت سکون ملا۔ اس نے پنسل کو مضبوطی سے تھام لیا اور خود سے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ امتحانات میں بہتر کارکردگی دکھائے گا۔ دادی کی نصیحت نے عبداللہ کو نئی امید اور حوصلہ دیا۔

حصہ