نئی عالمی وبا ایم پاکس،پاکستان میں پھیلائو کا خطرہ

87

وائرس کے نئے ویرینٹ سےکیا پاکستان میں ایک نئی وبا سر اٹھارہی ہے؟

حالیہ دنوں میں عالمی ادارہ صحت نے ایم پاکس کو عالمی صحتِ عامہ کے لیے خطرہ قرار دیا ہے، اور پاکستان میں بھی اس کی موجودگی کی تصدیق کی گئی ہے۔ خیبر پختون خوا کے ضلع مردان میں ایک شخص میں ایم پاکس وائرس پایا گیا ہے جو خلیجی ممالک سے واپس آیا تھا۔ یہ وائرس جو پہلے منکی پاکس کے نام سے جانا جاتا تھا، اب ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے، جس کے اثرات پاکستان تک بھی پہنچ گئے ہیں۔

ایم پاکس کیا ہے؟
ایم پاکس وائرس بنیادی طور پر جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والا وائرس ہے۔ یہ بندروں، چوہوں اور گلہریوں جیسے متاثرہ جانوروں کے رابطے میں آنے سے بھی پھیل سکتا ہے۔ کہتے ہیں چوہے اس کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اس کے علاوہ وائرس سے آلودہ اشیاء جیسے بستر اور کپڑوں سے بھی پھیل سکتا ہے۔ یہ وائرس زخموں، جسمانی رطوبتوں اور سانس کے ذریعے بھی پھیلتا ہے اور ایک شخص سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے۔ ایم پاکس ایک وائرل انفیکشن بیماری ہے، یہ وائرس چیچک کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے لیکن اس سے کم نقصان دہ ہے۔ ایم پاکس کا آغاز افریقا کے جنگلات سے ہوا تھا، جہاں یہ زیادہ تر جمہوریہ کانگو اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں پایا جاتا تھا۔ لیکن حالیہ برسوں میں یہ وائرس افریقا کے علاوہ دوسرے علاقوں میں بھی پھیل چکا ہے، جس سے عالمی سطح پر تشویش بڑھ گئی ہے۔

پاکستان میں ایم پاکس کی موجودہ صورتِ حال
پاکستان میں اِس وقت تک ایم پاکس کے تین کیسز کی تصدیق ہوچکی ہے، جن میں سے دو پرانے کیسز ہیں اور ایک نیا کیس حال ہی میں سامنے آیا ہے۔ خیبر پختون خوا کے حکام کے مطابق، ایم پاکس کے مریضوں کے لیے آئسولیشن وارڈز تیار کیے جارہے ہیں، اور کانٹیکٹ ٹریسنگ کا عمل بھی شروع کردیا گیا ہے۔ وفاقی وزارتِ صحت نے ائرپورٹس اور دیگر داخلی راستوں پر اسکریننگ کے نظام کو مضبوط کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

عالمی سطح پر ایم پاکس کی صورتِ حال
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ایم پاکس اب سو سے زائد ممالک میں پھیل چکا ہے، جہاں یہ پہلے کبھی موجود نہیں تھا۔ افریقا سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق 2024ء کے آغاز سے جولائی کے آخر تک 17000 سے زائد ایم پاکس انفیکشن اور 500 سے زائد اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وائرس کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے، ڈی ڈبلیو کے مطابق ’پبلک ہیلتھ ایمرجنسی آف انٹرنیشنل کنسرن‘ (پی ایچ ای آئی سی) کی سطح کا الرٹ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے اعلیٰ ترین سطح کا الرٹ ہوتا ہے، جس کا مقصد بیماری پر مزید تحقیق، فنڈ کی جمع آوری اور صحتِ عامہ کے بین الاقوامی اقدامات کو تیز کرنا ہوتا ہے، تاکہ بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے تعاون میں اضافہ کیا جا سکے۔

ڈبلیو ایچ او نے پہلی بار 2022ء میں ایم پاکس کو عالمی ایمرجنسی قرار دیا تھا، جب یہ 70 سے زیادہ اُن ممالک میں پھیل گیا تھا جہاں پہلے اس وائرس کی اطلاع تک نہیں تھی۔ البتہ اس وبا کے دوران متاثرہ افراد میں سے ایک فیصد سے بھی کم لوگ ہلاک ہوئے تھے۔

ایم پاکس کی علامات اور علاج
ایم پاکس کی ابتدائی علامات میں بخار، سر درد، سوجن، اور جسم میں درد شامل ہیں۔ وائرس کے پھیلاؤ کے ساتھ جسم پر دانے نمودار ہوتے ہیں جو چہرے سے شروع ہوکر جسم کے دیگر حصوں میں پھیل جاتے ہیں۔ یہ دانے کھجلی والے اور تکلیف دہ ہوسکتے ہیں۔ وائرس کا علاج عام طور پر 14 سے 21 دنوں میں ہوتا ہے، لیکن سنگین کیسز میں مریض کو اسپتال میں داخل کرانا پڑ سکتا ہے۔

ایم پاکس کے پھیلاؤ کو روکنے کا بہترین طریقہ ویکسین کا استعمال ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے حال ہی میں دوا ساز کمپنیوں سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنی ایم پاکس ویکسین کو ہنگامی استعمال کے لیے پیش کریں۔
پاکستان کے لیے چیلنجز اور حکومتی اقدامات

ایم پاکس پاکستان کے لیے ایک نیا چیلنج ہے، اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ ائرپورٹس اور داخلی راستوں پر اسکریننگ کے نظام کو مضبوط کرنا ایک اہم قدم ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوامی آگاہی بھی بڑھانا ضروری ہے۔ لوگوں کو وائرس کے بارے میں معلومات فراہم کرنا، اس کی علامات اور اس سے بچاؤ کے طریقے بتانا، اور متاثرہ افراد کو جلد از جلد آئسولیشن میں رکھنا اہم ہے۔
حکومتِ پاکستان کو عالمی ادارہ صحت کے ساتھ مل کر اس وبا سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی تیار کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ویکسین کی فراہمی کو یقینی بنانا اور اسپتالوں میں بہتر سہولیات فراہم کرنا بھی ضروری ہے تاکہ ملک میں ایم پاکس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

حصہ