بچپن سے پڑھتے، سنتے آئے ئیں کہ دو قومی نظریہ و تشکیل پاکستان کی اہمیت اس دوران کی گئی جہدوجہد اور قربانیوں کی لازوال داستان ہے لیکن وقت کے ساتھ سازش کے تحت اس کی اہمیت نہ صرف کم کی گئی بلکہ دانستہ ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ پاکستان کے وجود پر سوالات اٹھنے لگے اور نوبت یہاں تک آگئی کہ آج ہر دوسرا نوجوان تشکیل پاکستان کو غلط کہہ رہا ہے۔ پڑوسی ملک کی کام یابی و ترقی دیکھ کر اپنے ملک کی بدحالی و تنزلی پر کڑھ رہا ہے۔کسی کو پاکستان بننے کا فیصلہ جذباتی لگتا ہے تو کوئی طنز سے یہ بھی کہتا ہے حاصل ہوگیا مقصد اسے کوئی یہ سکھانے و بتانے والا نہیں کہ ملک جب نظریاتی ہے تو ہماری ترقی کا راز بھی اسی نظریہ کی حفاظت اور اسی نظریہ کی تکمیل میں پنہاں ہے۔ اپنی بنیاد سے دوری ہمیں کمزور کررہی ہے ان سب باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی خواتین سے ہم نے یہ سوال کیا کہ ہم بہ حیثیت شہری اپنے ملک کے اس نظریاتی تشخص کو برقرار رکھنے میں کردار ادا کرسکتے ہیں ؟ ان کے جوابات قارئین کی نذر ہیں۔
پروفیسر جہاں آراءلطفی ( جامعہ کراچی )
کوئی بھی ریاست دراصل اس کے شہریوں کا اصل تشخص ہوتی ہے۔ لہذا ریاست کے تشخص کی حفاظت ہی میں شہریوں کے تشخص کی بقا ہوتی ہے۔ اپنی ریاست کے تشخص کی بقا کے لیے ہمیں بہ حیثیت مجموعی اپنے فرائض کی ادائیگی کرنا ہوگی۔ ہماری ثقافت ہماری شناخت ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی ثقافت و اقدار کو مضبوطی سے تھامے رکھیں تاکہ اپنے اصل سے دنیا میں پہچانے جائیں ناکہ کسی اور کے اقدار کی لبادہ اوڑھ کے اپنا آپ اور اپنی شناخت سب گنوا دیں۔
پروفیسر ڈاکٹر رفیعہ تاج ( سابق لیکچرار جامعہ کراچی)
پاکستان دو قومی نظریے کے تحت وجود میں آیا۔ ہمارے ملک کی بنیاد ہمارے مذہب پہ رکھی گئی، جھنڈا ہرے اور سفید رنگ اور چاند تارے سے سجایا گیا، قائد نے اتحاد، تنظیم اور یقین محکم کا درس دیا، کام، کام اور کام محنت اور کوشش کی نصیحت کی، امن، انصاف، اقلیتوں کے حقوق، مساوات، بھائی چارہ، محبت اور اخوت کی راہ دکھائی، بہ حیثیت شہری ہمیں اپنا تشخص برقرار رکھنے کے لیے انہی زریں اصولوں کو تھامنا ہوگا،
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
ڈاکٹر شمائلہ نعیم (سونولاجسٹ)
نظریہ جو ہے وہ پاکستان کے تناظر میں لا الہ الا اللہ ہے اور جس سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسا خالص رشتہ ہے جو کہ اللہ اور اس کے بندوں کے مابین ہوتا ہے اور وہ اس رشتے کے نتیجے میں انسان کو خلیفہ الارض بناتا ہے اور یہاں پر وہ چاہتا ہے کہ جس طرح اس کی آسمانی بادشاہت قائم ہے تو اپنے خلیفہ کے ذریعے زمین میں بھی اپنی بادشاہت نافذ کرے اور یہی کام کرنے کے لیے اس نے دنیا میں انسان کو بھیجا ہے یہ اس کلمے کی جڑ اور بنیاد ہے اور ظاہر ہے یہ کام انسان اپنی انفرادی حیثیت میں نہیں کرے گا بلکہ خود انسان جو ایک معاشرتی تشخص رکھتا ہے تو وہ اپنے ارد گرد تمام دیگر افراد کے ساتھ مل کر ایسا نظام تشکیل دے گا، جو اللہ تعالٰی کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے میں مدد دے، یہ ہے دراصل وہ نظریاتی فکر جو جس کو ہم نظریہ پاکستان کے نام سے یاد کرتے ہیں، تو اس میں اخلاص سب سے پہلی چیز ہے، تو میں یہ سمجھتی ہوں کہ اس نظریاتی تشخص کے ساتھ، اس آئیڈیالوجی کے ساتھ، زندگی کے ہر دائرے میں ہر انسان بہ حیثیت پاکستانی اپنا حصہ ادا کر سکتا ہے۔ اپنا کردار ادا کر سکتا ہے اور اس میں بہ حیثیت شہری ہماری جو بھی ذمہ داری ہے پہلے ہم اس پر اگر بات کریں تو ہم جس شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ سماجی رتبے سے سماجی حیثیت سے تو اس میں ہمارا کردار کیا ہو ؟ جیسے میں ڈاکٹر ہوں تو مجھے اپنی سطح پر ایک بہترین معالج کی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہیے۔ اس میں جو میرا میرے مریضوں سے رشتہ ہے وہ اہم نہیں ہے، بلکہ جس ادارے سے میں منسلک ہوں اس میں بھی مجھے اخلاص اور خلوص نیت کے ساتھ کام کرنا چاہیے، جو کہ میں کرتی بھی ہوں، الحمدللہ اس میں لوگوں کو اس رائے عامہ کی ہم واری کے ساتھ گفت گُو کرنا کہ جہاں جہاں ہمیں غلطی نظر آ رہی ہے، ہم لوگوں کو بتائیں کہ یہ وہ درست زاویہ نہیں ہے یا وہ درست بنیاد نہیں ہے۔ جو ہمیں اپنے نظریے سے جوڑتی ہے، صرف نماز کی ادائیگی یا ہم مریضوں کوچیرٹی بیسس پہ دیکھ لیں ان کی مالی اور ویسے دوسری طرح کی امداد کریں، یہ اللہ کی منشا نہیں ہے، اللہ کی منشا ہے ایک ایسا نظام قائم ہو، جس میں صحت کے ملنے کے مواقع سب کے لیے یک ساں ہوں، تو اس کی توجہ دلانا اور اس کے لیے ایک پھر منظم جدوجہد کرنا جو کہ یقینی طور پر کسی بھی فساد سے پاک ہو گی، لڑائی جھگڑے سے دور ہوگی، آئینی اور قانونی حدود کے ساتھ ہوگی اور جس میں اپنے اللہ سے وفاداری جو ہے، وہ بنیادی شرط ہو گی تو اس کے لیے پھر الحمدللہ میں نے پیما بھی جوائن کی ہوئی ہے، جو کہ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن ہے، یہ فکری تربیت بھی کرتے ہیں اور پیشہ ورانہ تربیت بھی کرتے ہیں، اس کے علاوہ میں اپنی اس حیثیت کو جو بہ حیثیت ڈاکٹر اللہ تعالٰی نے مجھے دی ہوئی ہے، میں لوگوں کو جہاں کہیں بھی مجھے موقع ملتا ہے اپنی حیثیت کو استعمال کر رہی ہوتی ہوں، دوسرا یہ ہوتا ہے کہ ہم بہ حیثیت شہری ہم جو بھی چیزیں استعمال کر رہے ہیں، جیسے ٹیکس ہے اور یہ جو اس کا نظام ہوتا ہے، صفائی ستھرائی کا ایک سلوپ ہوتا ہے، ایک شہری حقوق کے ساتھ جو ہم اپنے پڑوسیوں کے ساتھ جس طرح رہتے ہیں، اس طرح کی جتنی بھی چیزیں ہیں اس میں یہ کہ ہم اپنے فرائض کی طرف زیادہ توجہ دیں تو میری کوشش یہی ہوتی ہے، کیو ں کہ صرف یہی نہیں کہ یہ ایک اچھی بات ہے اور ایک سویلائزڈ ورلڈ جو ہے وہ اس کو ڈیمانڈ کرتی ہے بل کہ مجھے یہ لگتا ہے کہ ہمیں جس نظریاتی بنیاد پر ہم بات کر رہے ہوتے ہیں، اس میں ہمیں اللہ کو بھی جواب دینا ہے کہ ہم کس طرح سے ایک اس نظام کا کل پرزہ تھے جو کہ اللہ کے نام پر بنایا گیا تھا اور اس میں اگر یہ کہ کر بیٹھ جائیں کہ سب اسی طرح چل رہا ہے تو چلنے دو، نہیں اپنی حیثیت کے مطابق جو کوشش ہوتی ہے نظام کو بہتر کرنے کی وہ ضرور کرتے رہنا چاہیے ۔
رقیہ منذر
(عثمان پبلک اسکول Director R&D and HR female)
پاکستان کی نظریاتی حیثیت میں اگر دیکھا جائے شہری ہی بہت اہم اکائی ہے جو کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اپنی ذات سے لے کر خاندان اور محلے سے لے کر اپنے نمائندے عوامی نمائندے ایوانوں تک پہنچانے میں یہی وہ طبقہ ہے جس کا کردار اہم ہے لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ جب تک وہ شہری اپنے اس نظریے اور نظریاتی تشخص سے ہی واقف نہ ہو تو وہ کردار کیسے ادا کرے گا۔ لہٰذا پہلی بات تو یہ ہے کہ شہریوں کو یہ کردار ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اس نظریے اور نظریاتی تشخص سے واقف ہوں اور اس بات کو سمجھیں اس بات کی اہمیت کو سمجھیں کہ اس آزاد اسلامی ریاست کو ہم نے کیوں بنایا تھا اور کیا وجہ تھی اور ہم کیوں کیا ہمیں اللہ نے یہ نعمت عطا کی ہے؟ تو جب تک اس بات کا ادراک نہیں ہو گا یہ کردار ادا نہیں ہو سکتا پہلی بات پھر دوسری بات یہ کہ اس میں جو بنیادی کچھ چیزیں نظر آ رہی ہیں مجھے اس میں یہ کہ اپنی نسلوں میں نظریات کی منتقلی جو ہے وہ بہت اہم بات ہے اور اس کے لیے نہ صرف گھروں کا ماحول اور تربیت اہم ہے بل کہ اس میں یہ بات بہت اہم ہے کہ آپ اپنے بچوں کے لیے کہ تعلیم کے لیے کن اداروں کا انتخاب کر رہے ہیں۔ کیوں کہ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اسی نظریاتی ریاست میں اب بڑی تعداد میں انہی اداروں کی ایک فہرست رکھتے ہیں جو ہماری نسلوں کے نظریات کو مسخ کر رہے ہیں، دھندلا رہے ہیں۔ لہٰذا یہ ایک بہت حساس موضوع بن چکا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے کون سا ادارہ منتخب کرتے ہیں اور کیا صحبت منتخب کرتے ہیں اور یہ بہت اہم بات ہے۔ پھر ایک پہلو یہ کہ آپ اپنی قابلیت اور آپ اپنے پروفیشن سے اس میں کردار ادا کر سکتے ہیں بھرپور ناں کہ آپ کا جو بھی دائرہ اثر ہو آپ اس میں رہتے ہوئے اپنے اس نظریے کو منتقل اور اس نظریے کو قابل نفاذ بنا سکتے ہیں۔ ایک جو سب سے اہم اور سب سے بنیادی بات وہی جو میں دوہراؤں گی پہلے جو کہا کہ ہم شہری ہی ہیں ناں جو حکومتی ایوانوں میں لوگوں کو منتخب کر کے بھیجتے ہیں تو آیا کہ وہ افراد جنہیں کہ ہم منتخب کر کے بھیج رہے ہیں اس نظریے پر رہتے ہوئے ان ایوانوں میں بیٹھ کر قانون سازی کر رہے ہیں یا نہیں 1973 کے دستور کی نفاذ میں ان کا کیا کردار ہے تو یہ وہ بنیادی کردار ہے کہ جو شہری ادا کر سکتے ہیں کہ آپ کس کو سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی باگ دوڑ جو ہے وہ کس کے ہاتھ میں دی جائے تو یہ بہت اہم بات ہے اور اس کی ساری ذمہ داری اور فرض جو ہے وہ پاکستان کے عوام پر عائد ہوتا ہے۔
فریدہ مسرور(مصنفہ و افسانہ نگار )
پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے اور اس کا یہ تشخص قائم رکھنے کے لیے بہ حیثیت ایک شہری ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم خود بھی دین سے جڑے رہیں۔ اور ووٹ کے ذریعے ہر بار حکومت سازی کے عمل میں شامل ہوں اور صرف ایسے لوگوں کو ووٹ دیں جو خوف خدا رکھتے ہوں، سچائی کا ساتھ دینے والے ہوں، رشوت خور اور ظالم نہ ہوں۔
عائشہ ذکی(معلمہ آرمی پبلک اسکول):
پاکستانی نظریاتی ریاست ہے، اس کے تشخص کو برقرار رکھنے میں ہم بہ حیثیت شہری اپنی اسلامی روایات کو اپنی اقدار کو اپنی ثقافت کو جو ہے وہ برقرار رکھنا ہوگا، اس کو دوبارہ سے روشناس کرانا ہوگا۔ اس کو پریکٹس میں لے کر آنا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ میرا آپ کا اور ہمارا کردار یعنی جو میں میں ہم نے کی ہوئی ہے ناں جو اسلام ہمیں اجتماعیت کا نظریہ دیتا ہے ہمیں اس کو دوبارہ سے لے کر آنا ہوگا اور میں کچھ نہیں ہوں جب تک ہم ایک نہیں ہو جائیں گے کہ س نظریہ کے اوپر ہمیں کام کرنا ہوگا
رخسانہ ناز( ریٹائرڈ ایسوسی ایٹ پروفیسر)
ایک اچھے شہری کی خصوصیات یہ ہوتی ہیں کہ وہ ریاست سے وفاداری کرتا ہے، قانون پر عمل کرتا ہے اور ایمان دار ہوتا ہے۔ اب اس کو پھر یہ تمام اصول ہمیں اسلام بھی بتاتا ہے تو ہم بہ حیثیت شہری اب اپنی ریاست کے تشخص کو انفرادی طور پر اسی طرح اجاگر کر سکتے ہیں کہ ہم ان خصوصیات کو اپنی زندگی میں شامل کریں۔ جب ہم اپنی زندگی میں ان خصوصیات کو شامل کریں گے تو بہ حیثیت مجموعی پوری ریاست جو ہے وہ اپنے تشخص کو الگ اجاگر کر سکے گی۔ ہمیں دنیا سے رابطہ رکھتے ہوئے اپنی جو علیحدہ شناخت ہے، ہماری جو زبان ہے، ہمارا جو رہن سہن ہے، ہماری جو ثقافت ہے، وہ تمام اصول ہیں جو ہمیں اسلام نے دیے ہیں ان کو اپنی زندگی میں شامل کرنا ہوگا تب ہی ہم جو ہے لوگوں کو بتا سکیں گے کہ ہم ایک الگ قوم ہیں، ہمارا اپنا ایک نظریہ ہے اور اس نظریے پر ہم کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کر سکتے۔ یہی نظریہ ہمیں مساوات، اخوت، عورتوں کی جو عزت ہے اس کا درس بھی دیتا ہے اور جو اسلامی ریاست کی جو خصوصیات ہیں ان کو اجاگر کرتا ہے تو اسلام نہ تو ٹیکنالوجی کا مخالف ہے، نا سائنس کا مخالف ہے بلکہ اسلام تو پورا کا پورا خود سائنس ہے ہم جتنے بھی جدید دنیا سے رابطے میں رہیں لیکن اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے، سائنس کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ہمیں اپنے علیحدہ تشخص کو ہرگز نہیں بھولنا چاہیے۔ بعض خواتین خاتون ہونے کے ناتے کہ اس میں جو ہمیں حیا کا درس دیا ہے جو مساوات کا درس دیا ہے جو دیگر اسلام نے اپنے تمام ہی زندگی کے شعبوں سے متعلق راہ نمائی فرمائی ہے۔ ہم اس پر عمل کریں گے تو نظریہ خود بہ خود اجاگر ہوگا۔
سیما رضا ردا (براڈ کاسٹر ادیبہ و کنسلٹنٹ اور جیو ٹی وی کی مینیجر کانٹینٹ رائٹر)
آپ نے پوچھا ہے کہ ہم اس کے تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔ مطلب میں کیا ؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ میں اور ہم کا جو صیغہ ہے ناں یہ گھروں سے شروع ہوتا ہے کہ آپ کی تربیت کیا ہے؟ آپ کے گھر میں آپ کے وطن کی مٹی کے حوالے سے کیا بات ہوتی ہے؟ آپ کی تربیت کس ماحول میں ہوئی ہے؟ کن خطوط پر ہوئی ہے؟ آپ کو کیا یہ احساس دلایا گیا ہے کہ جس جگہ آپ رہتے ہیں جس زمین پر آپ بیٹھے ہیں یہ ہمیں پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملا اس کی خاطر ہمارے بزرگوں نے بہت دکھ اٹھائے ہیں، ہمارا تشخص جو ہے وقت کے ساتھ ساتھ کھوتا جا رہا ہے۔ کیوں کہ ہمیں مایوسی مل رہی ہے۔ ہمیں
ڈپریشن مل رہا ہے۔ ہمیں وہ ہماری اپنی حیثیت نہیں مل رہی جس کے لیے ہم نے پاکستان حاصل کیا تھا ہماری آج یہاں تیسری چوتھی نسل ہے جو پروان چڑھ رہی ہے۔ وہ اپنے تشخص و پہچان کو کھو رہی ہے۔ آج جتنے بھی ادارے آپ جا کر دیکھ لیں آپ کو مسلمان بچے کم ملیں گے مسلمان تو ہوں گے لیکن جو اقبال نے کہا ہے ناں،
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
آج کی جنریشنز کو آپ جا کر دیکھیں، چاہے وہ یونی ورسٹیز ہوں یا دیگر ادارے وہاں پر آپ لڑکے اور لڑکیوں کا بے حجابانہ ملنا ملانا دیکھ لیں تو اندازہ ہو گا کہ جو یہ ہمارا تشخص ہے وہ کھو گیا ہے ؟ ہم بہ حیثیت مسلمان تو کچھ بھی نہیں، آج میں جو سیما رضا ہوں، میرا تشخص تو مجھے پتا ہے کہ میں مسلمان ہوں اور پاکستانی ہوں۔ مجھے گھر سے باہر نکلنا ہے میں حجاب کروں یا نہیں۔ لیکن مجھے یہ معلوم ہے کہ میری لیمیٹیشنز کیا ہیں، تو یہ جو لیمیٹیشنز ہیںان کا ہمیں بہ خوبی علم ہونا چاہیے، اس کے لیے ہمیں بہت کام کرنا پڑے گا، ہمیں اسکولوں میں، کالجز میں، ہمیں یونی ورسٹیز میں، ہمیں سیمینارز کے ذریعے، ہمیں ورکشاپس کے ذریعے، ہمیں گھر گھر جا کر اس پیغام کو عام کرنا ہو کہ خدا کے لیے اپنے تشخص کو برقرار رکھیے، ہمیں میڈیا کے ذریعے پر چار کرنا چاہیے اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ دینا لازمی ہے ان کی حرکات پر نظر رکھنا ضروری ہے آج کی جنریشن کو قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت کا نہیں پتا، ان کو یہ نہیں پتا کہ کتنے اکابرین نے قربانیاں دی ہیں، نہیں پتا ان کو کچھ بھی، آپ ان سے بات کر لیجیے انڈین فلموں پہ، آپ ان سے بات کر لیجیے کہ شاہ رخ خان کو جو ہے گولڈن ویزا ملا ہے، آپ ان سے پوچھ لیجیے کہ وہاں کون سا گانا ان ہے، کون سا ڈانس جو ہے وہ مزے کا ہے، تو آج کے نوجوانوں کو اپنے ملک و مذہب کا کچھ بھی نہیں پتا، تو ہم تو اپنی پہچان کھوتے چلے جا رہے ہیں تو ہمیں اس کے لیے بہت طریقے سے کام کرنا ہوگا اور اس کے لیے ہمیں سہارا لینا پڑے گا میڈیا کا اور خاص طور پہ الیکٹرانک میڈیا کا جس کے ذریعہ ہم اپنی کھوئی ہوئی پہچان لانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
پروفیسر کشور سلطانہ
(پرنسپل گورنمنٹ ڈگری گرلز کالج سرجانی ٹاؤن )
میں یہ سمجھتی ہوں کہ یہ نظریاتی ریاست جو نام ہے سویلین اس کا نام بھی عملی ریاست ہونا چاہیے یعنی ہمارے جو بھی نظریہ پاکستان ہے ظاہر ہے اسلام ہی ہے اس کا نظریہ تو ہر ادارے، گھر ہو معاشرتی طور پہ یعنی سیاسی معاشی اور معاشرتی طور پہ تمام جو بھی ہمارے ادارے ہیں یا ہمارے اقدامات ہیں ظاہر ہے وہ اسی نظریے میں ڈھلے ہونے چاہیں اسلام کے مطابق ہونے چاہیے بس یہی ایک تصور تھا جس کے لیے یہ حاصل کیا گیا پاکستان تو ہم لوگ کو انفرادی طور پہ بھی اس کے لیے کوشش کرنی چاہیے اور اجتماعی زندگی میں بھی یہی عنصر نظر آنا چاہیے اور اس کے لیے ہمیں قومی مزاج پورا کے پورا بدلنے کی ضرورت ہے تو ظاہر ہے اس میں ہمارے تعلیمی ادارے بہت زیادہ سب سے زیادہ آگے کام کر سکتے ہیں اور اسی طرح ہمارے گھر ہیں ہمیں وہاں بھی اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے بچوں کو ابتدا ہی سے اپنے نظریہ وتشخص کے متعلق آگاہی دی جائے اور ان کے دلوں میں راسخ کیا جائے ۔
…٭…
یہ تھے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی ان خواتین کے خیللات جنہوں نے اپنے شعبے میں پاکستان کے حالات بدلنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔
افسوس !ہمارا طرز عمل سوائے نوجوان نسل کو کوسنے کے کچھ نہیں رہا۔ ہم نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ پاکستان بنانے کا فیصلہ جذباتی نہیں گہرے شعور کا نتیجا تھا، اس کی بنیاد دو قومی نظریہ تھی، اور وہ دو قومی نظریہ تھا کیا ؟ صد معذرت! ہمارے آج کے بزرگ بھی درست اور سہل الفاظ میں اسے آج بھی بیان نہیں کر پاتے۔ سیدھی سادی سی بات تھی کہ ہم نے پاکستان اس لیے بنایا تھا کہ ہم اس میں اسلامی قوانین کا نفاذ کریں گے، اسے ایک اسلامی فلاحی مملکت بنائیں گے اور اسے پورے عالم میں ایک بہترین، آسودہ، مضبوط معیشت پر استوار کریں گے اور اسے باقی عالم میں ایک روشن مینار بنائیں گے۔
لیکن افسوس!
ہم نے اس وطن عزیز کی نظریاتی بنیادوں پر تعمیر و ترقی کے لیے کیا کاوش کی ہے، اس کا جواب تو ہم سب خود ہی دے سکتے ہیں اور بس سوچیے! کہ سوچ سے تعمیر و ترقی کے در وا ہوتے ہیں۔