جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ

112

-19 اب تک اس دور کے جتنے خصائص بیان ہوئے ان سب میں ایک چیز مشترک ہے۔ یعنی فرد کی اہمیت کا اثبات نہ صرف نشاءۃ ثانیہ کے دور بلکہ پوری جدیدیت کی اصل روح یہی انفرادیت پر ستی ہے۔ مذہب ہو یا اخلاقیات یا معاشرتی زندگی، ہر جگہ آخری معیار فرد اور اس کے تجربے کو سمجھا گیا ہے۔ پچھلے پانچ سو سال میں مغرب نے گمراہی کی جتنی شکلیں بھی پیدا کی ہیں وہ سب اسی انفرادیت پرستی کے بیج سے نکلی ہوئی شاخیں ہیں۔ یہی وہ اصول ہے جو نشاءۃ ثانیہ کی تحریک کا رشتہ “اصلاح دین کی تحریک” سے جوڑ دیتا ہے۔

یہ دو تحریکیں، یعنی نشاۃ ثانیہ (Renaissance) اور اصلاح دین (Reformation) ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ عام طور سے مغرب کے مصنفین پہلی تحریک کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں، اور دوسری تحریک کو اس کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن اگر عیسوی کلیسا (جس سے مراد رومن کیتھلک کلیسا ہے) پورے استحکام کے ساتھ قائم رہتا تو جتنے رجحانات نشاءۃ ثانیہ کے ذیل میں گنوائے گئے وہ اتنی آسانی سے جڑ نہ پکڑتے۔ اس لئے بعض لوگوں کی رائے ہے کہ اصل چیز ’’اصلاح دین کی تحریک‘‘ ہے اور ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ اس کی شاخ ہے۔ ان کے نزدیک ’’جدیدیت‘‘ کا آغاز پندرہویں صدی سے نہیں بلکہ چودہویں صدی سے ہوتا ہے۔

رومن کیتھلک کلیسا چونکہ انتظامی محکمے کی شکل میں قائم ہوا تھا اس لیے نظم و نسق کے معاملے میں خرابیاں پیدا ہوئی لازمی تھیں اور کلیسا کے عہدیداروں کا اخلاقی برائیوں میں گرفتار ہو جانا بھی لازمی تھا۔ ان خرابیوں کے خلاف وقتا فوقتا” اعتراض ہوتے رہے۔ لیکن احتجاجی اور اصلاحی تحریک زور شور کے ساتھ پہلے تو چودہویں صدی میں انگلستان میں شروع ہوئی اور پندرہویں صدی میں جرمنی میں، پروٹسٹنٹ مذہب کا بانی مارٹن لوتھر (پندرہویں اور سولہویں صدی) اٹھا تو تھا محض کلیسا کی اصلاح کے لیے، لیکن آخر اس نے یہ دعویٰ کیا کہ دینی معاملات میں بھی پوپ کا مکمل اقتدار غلط ہے اور نہ پوپ کا فیصلہ قطعی اور آخری ہو سکتا ہے۔ خدا نے انجیل انسانوں کی رہنمائی کے لیے نازل کی ہے اور ہر عیسائی کی نجات کا دارو مدار اس کے انفرادی ایمان اور اعمال پر ہے۔ اس لیے ہر آدمی کو حق پہنچتا ہے کہ براہ راست خدا کا کلام پڑھے اور اپنی قسم کے مطابق اسے سمجھے خدا اور بندے کا تعلق براہ راست ہے اور پادریوں کو درمیان میں آنے کا حق نہیں، ہر آدمی کا فیصلہ خدا خود کرے گا۔ اس لیے اصلی ذمہ داری فرد کے کندھوں پر ہے۔ ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اختیار بھی چاہئے۔ چنانچہ ہر فرد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ دینی معاملات میں انفرادی طور سے خود ہی فیصلہ کرے۔ یعنی مارٹن لوتھر نے فرد کو تفسیر بالرائے کی پوری آزادی دے دی اور دینی معاملات میں ہر قسم کے استناد سے انکار کر دیا۔ ساری جدیدیت اور اس سے پیدا ہونے والی تمام گمراہیوں کی جڑاور اصل الاصول میں انفرادیت پرستی اور اطاعت سے انکار ہے۔ یعنی جدیدیت ابلیسیت لوتھر کی پروٹسٹنٹ تحریک کی پشت پناہی جرمنی کے چھوٹے چھوٹے بادشاہوں نے کی۔ اس میں ان کا سیاسی مفاد یہ تھا کہ روم کے کلیسا کا دینی اقتدار ختم ہو جائے تو وہ مطلق حکمران بن جائیں۔ چنانچہ سولہویں صدی سے رومن کیتھلک کلیسا کی مرکزیت ختم ہونے لگی اور پروٹسٹنٹ ملکوں میں قومی کلیسا قائم ہونے لگے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دین سیاست کے تابع ہو گیا۔ دین میں فرد کی خود مختاری اور آزادی کا اصول قائم ہو گیا تو مغرب میں گمراہیاں بڑھتی ہی چلی گئیں اور خود رومن کیتھلک لوگ بھی ان سے متاثر ہونے لگے۔

عقلیت پرستی کا دور
دور تقریباً سترھویں صدی کے وسط سے شروع ہو کر اٹھارہویں صدی کے وسط تک یا 1775ء تک چلتا ہے۔ 1750ء کے قریب ایک دو سرا رجحان جذبات پرستی کا شروع ہو چکا تھا۔ عقلیت پرستی کی داستان یہ ہے۔ سترہویں صدی کے وسط تک لوگ یہ طے کر چکے تھے کہ انسان کی جدوجہد کا میدان یہ مادی کائنات ہے اور انسان کا مقصد حیات تسخیر فطرت یا تسخیر کائنات ہونا چاہیے۔ بیکن نے مطالعہ فطرت کا طریقہ بھی مقرر کر دیا تھا۔ اب سوال یہ تھا کہ انسانی صلاحیتوں میں سے کون سی صلاحیت ایسی ہے جو تسخیر کائنات کے لیے زیادہ مفید ہو سکتی ہے۔ اس دور نے یہ فیصلہ کیا کہ انسان صرف عقل (یعنی عقل جزوی اور عقل معاش) پر بھروسہ کر سکتا ہے کیوں کہ یہی چیز سارے انسانوں میں مشترک ہے۔ عقل (جزوی) کا یہ اختصاص ظاہر کرنے کے لئے ان لوگوں نے لفظ Universal استعمال کیا۔ اس لفظ کی وجہ کی وجہ سے اتنی غلط فہمیاں اور گمراہیاں پیدا ہوئی ہیں کہ ہمارے علما کو اس کی نوعیت اچھی طرح ذہن میں رکھنی چاہیے۔ اس لفظ کے اصلی معنی ہیں۔ ’’عالم گیر‘‘ یا ’’کائنات گیر‘‘ مگر یہاں عالم کے معنی مادی کائنات نہیں ہیں، بلکہ وہ مفہوم ہے جو ’’اٹھارہ ہزار عوالم‘‘ کے فقرے میں آتا ہے۔ ہمارے دینی علوم میں، دراصل اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے دو لفظ استعمال ہوتے ہیں۔ ’’کامل‘‘ (جیسے ’’انسان کامل’’) اور ’’کلی‘‘ جیسے ’’عقلِ کلی‘‘ مگر فی الحال مغرب ’’عوالم’’ کا مطلب نہیں جانتا، اس کے ذہن میں ’’عالم’’ کا مطلب صرف مادی کائنات اور اس کے اجزا ہیں۔ چنانچہ سترحویں صدی سے مغرب میں Universal کا لفظ General (یعنی عمومی) کے معنوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ جو چیز ’’عمومی’’ ہوتی ہے وہ انفرادیت اور جزویت ہی کے دائرے میں رہتی ہے، ’’کامل‘‘ اور ’’کلی‘‘ نہیں ہوتی۔ مگر مغرب اس امتیاز سے واقف نہیں۔ یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ غرض عقلیت پرستی کے دور میں یہ بات تسلیم کرلی گئی کہ انسان کی رہنمائی بس عقل (جزوی) کر سکتی ہے۔ اس دور کے سب سے بڑے ’’امام‘‘ دو ہیں۔ ایک تو فرانس کا فلسفی اور ریاضی دان دیکارت (Descartes) اور دوسرا انگلستان کا سائنس دان نیوٹن۔ دیکارت یوں تو رومن کیتھلک پادری تھا اور اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں کے شکوک و شبہات دور کر کے اپنے دین کی خدمت کرنا چاہتا تھا۔ لیکن نتیجہ الٹا نکلا، مغرب کے ذہن کو مسخ کرنے کی ذمہ داری جتنی اس پر ہے شاید اتنی کسی ایک فرد پر نہیں، فرانس کے ایک رومن کیتھلک مصنف نے تو یہاں تک کہا ہے کہ فرانس نے خدا کے خلاف جو سب سے بڑا گناہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ دیکارت کو پیدا کیا۔

اب تک تو یہ بحث چلی آرہی تھی کہ حقیقت روح میں ہے یا مادے میں، بعض لوگ کہتے تھے کہ روح حقیقی ہے، مادہ غیر حقیقی۔ بعض لوگ کہتے تھے کہ مادہ بھی حقیقت رکھتا ہے مگر طبی طور پر کچھ لوگ دبے لفظوں میں یہ بھی کہتے تھے کہ بس مادہ ہی حقیقت ہے۔ اس سارے جھگڑے کا دیکارت نے یہ حل نکالا کہ روح اور مادہ دونوں حقیقی ہیں، مگر ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں اور اپنی اپنی جگہ قائم ہیں۔ چنانچہ اس نے روح اور مادے کو انسان کی روح

اور جسم کو دو الگ الگ خانوں میں بانٹ دیا جو ایک دوسرے سے آزاد اور خود مختار ہیں۔ یہ نظریہ مغربی ذہن میں اس طرح بیٹھا ہے کہ تین سو سال سے یہ تفریق اسی طرح چلی جارہی ہے۔ روح اور جسم، روح اور مادے کے ارتباط کا مسئلہ آج تک حل نہیں ہوا۔ مغرب کے زیادہ تر مفکر جسم اور مادے میں اٹک کے رہ گئے ، اس سے اوپر نہیں جاسکتے۔ کچھ مفکر روح میں لٹک گئے تو نیچے نہیں آسکتے۔ دیکارت کے فلسفے کا سب سے خوف ناک نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مغرب ’’روح‘‘ کے معنی ہی بھول گیا اور ’’ذہن‘‘ (یا ’’نفس‘‘) کو روح سمجھنے لگا۔ یہ گڑبڑ دراصل یونانی فلسفے میں بھی موجود تھی۔ ارسطو وغیرہ یونانی فلسفی انسان کی تعریف دو طرح کرتے ہیں۔ انسان کو یا تو ’’معاشرتی حیوان‘‘ کہتے ہیں یا ’’عقلی حیوان‘‘ ان فقروں سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ یونانی فلسفے پر معاشرتی نقطہ نظر اور عقل جزوی کس حد تک غالب تھی) دیکارت کے ہم عصر فرانسیسی مفکر پاسکال (Pascall) نے انسان کو ’’سوچنے والا سرکنڈا (Thinking Reed) بتایا ہے۔ یعنی انسان کے جسمانی وجود کو جانور کی سطح سے بھی نیچے اتار دیا ہے۔ (مغرب کی ساری جسم پروری کے باوجود مغربی فکر میں جسمانیت سے گھبرانے اور اسے حقیر سمجھنے کا رجحان بھی خاصا قوی ہے۔)

اسی طرح دیکارت نے انسانی وجود کی تعریف ایک مشہور لاطینی فقرے میں یوں کی ہے۔

Cogitoergosum (I think therefore Iam)

میں سوچتا ہوں اس لئے میں ہوں” گویا اس کے نزدیک وجود کا انحصار ذہن پر یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر آدمی نہ سوچے تو اس کا وجود باقی رہے گا یا نہیں۔ خود دیکارت سے ایک آدمی نے پوچھا تھا کہ ’’میرے کتے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟” غرض، جسم اور روح مادے اور روح کو ایک دوسرے سے الگ کر کے دیکارت نے مغربی فکر کو ایسی الجھن میں ڈال دیا ہے جس سے باہر نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور مغربی ذہن ہر مسئلے پر روح اور مادے کے تقابل یا تضاد ہی کے لحاظ سے غور کرتا ہے۔ دیکارت کے ہم عصر پاسکال نے ایک دوسرے قسم کی کشمکش مغربی ذہن میں پیدا کی ہے۔ اب تک تو لڑائی روح اور جسم میں ہی تھی۔ چونکہ مغرب ’’روح‘‘ کے معنی بھولنے لگا تھا اس لیے کہنا چاہیے کہ ذہن (یا نفس) اور جسم میں لڑائی تھی۔ پاسکال نے اعلان کیا کہ ’’دل کے پاس بھی ایسی منطق ہے جسے عقل نہیں سمجھ سکتی۔‘‘

Theheart has reasons of its own which the Reason does not understand.

یہاں لفظ ’’دل‘‘ کے معنی خاص طور سے سمجھ لینے چاہیں نہ صرف اسلامی علوم میں بلکہ سارے مشرقی ادیان میں ’’دل‘‘ سے مراد ہے ’’عقلی کلی۔‘‘ علاوہ ازیں ہمارے یہاں ’’نفس‘‘ روح اور جسم کے درمیان کی چیز ہے۔ اس لیے ’’نفس‘‘ میں عقل جزوی بھی شامل ہے اور ہوا و ہوس بھی۔ پاسکال نے جس ’’دل‘‘ کا ذکر کیا ہے اور جسے ’’ذہن‘‘ مقابل رکھا ہے۔ اس سے مراد ’’جذبات‘‘ ہیں۔ اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پاسکال نے ’’دل‘‘ اور ’’عقل‘‘ یا ’’ذہن‘‘ کے درمیان جنگ چھیڑ دی اور مغربی فکر اور ادب میں اس جنگ کی شدت بڑھتی ہی چلی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس جنگ سے آدمی کو جذباتی تکلیف پہنچتی ہے۔ بیسویں صدی میں اس تکلیف کا نام ’’کرب‘‘ رکھا گیا ہے۔ اس ضمن میں جرمن زبان کا لفظ ANGST بہت مشہور ہوا ہے۔ جس کے لیے انگریزی میں لفظ Anguish ہے۔ ہمارے زمانے میں بہت سے مغربی مفکر اس ’’کرب‘‘ کو انسان کی معراج سمجھتے ہیں۔ دیکارت کہتا تھا کہ انسان کو وجود سوچنے سے حاصل ہوتا ہے۔ آج کل کے بہت سے مفکر کہتے ہیں کہ انسان کو وجود ’’کرب‘‘ سے حاصل ہوتا ہے۔ بلکہ بعض مفکر تو اس کرب اور مذہب کو ہم معنی سمجھتے ہیں اور اپنی دینیات کی بنیاد اسی پر رکھتے ہیں۔(جاری ہے)

حصہ