مہنگے فائر وال کا سوشل میڈیا

153

لاہور سے ایک یو ٹیوبر عون علی کھوسہ اور کراچی سے تعلق رکھنے والے مصنف فیصل شہزاد کے اغوا کی خبر یومِ قیامِ پاکستان کی اگلی صبح یعنی 15 اگست کی بڑی خبر تھیں۔ سب خبر ڈال کر یہی کہہ رہے تھے کہ ’’فیصل بھائی کودعائوں میں یاد رکھیں۔ فی الحال پوسٹوں سے اجتناب کریں۔‘‘ سوشل میڈیا پر جہاں ایک طرف پاکستان میں انٹرنیٹ اسپیڈ کا معاملہ زیر بحث تھا، وہاں یہ معاملہ بھی اُٹھ گیا۔ ویسے آپ جانتے ہوں گے کہ پاکستان میں اس طرح کا یہ کوئی پہلا اغوا نہیں ہے، عمران ریاض ہوں یا دیگر صحافی یا کوئی یوٹیوبر… سب کی باری لگتی رہتی ہے۔ بلوچستان والے الگ ہیں۔ عون علی کے یوٹیوب چینل پر 146000 سبسکرائبر ہیں۔2017ء میں عون نے وڈیوز بنانے کا آغاز کیا، اور اب تک 7 سال میں 246 وڈیوز ڈال چکے تھے۔ عون علی سیاسی طنز اور سماجی اصلاحی موضوعات کے ساتھ ساتھ بھارت مخالف موضوعات پر مزاحیہ خاکوں کی وڈیوز بناتے تھے۔ یہ ٹھیک ہے کہ 7 سال قبل بھی اُن کی پہلی وڈیو اُس وقت یعنی 2017ء کی (ن لیگ) حکومت پر ایک طنزیہ خاکے کی تھی اور اب 7 سال بعد بھی پاکستان میں وہی حکومت (ن لیگ) ہے اور ویسا ہی معاملہ ہے۔ عون علی کا مکمل سیاسی جھکائو تحریک انصاف کی جانب رہا ہے، تاہم اُنہوں نے جو مزاح، خاکوں کی صورت تخلیق کیا وہ بہت مؤثر اور پیغام کی قوت رکھتا ہے۔ سیاست دانوں کی کرپشن اور ملکی ایشوزکو جس انداز سے وہ پیش کرتے ہیں، وہ ہمیں ماضی میں ’ففٹی ففٹی‘ کے خاکوں، پھر اُس کے بعد جیو پر نشر ہونے والے پروگرام ’ہم سب امید سے ہیں‘ جیسے دیگر پروگرامات کی یاد دلاتا ہے۔ یہ سارے پروگرامات ایک بھاری پروڈکشن سے تیار ہوتے تھے مگر عون اکیلے ہی یہ سب کردار نبھاکر یہ خاکے بناتے تھے، کبھی اس میں اپنے بھائی کو بھی شامل کرلیتے، مگر اکثر خاکوں میں وہ اکیلے ہی سب کچھ ہوتے۔ اپنے ناظرین کے سیاسی شعور کو بڑھانے کے لیے اُنہوں نے خاصی دلچسپ وڈیوز بنائیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ اُن کے یوٹیوب پر سبسکرائبرز کی تعداد ’’فیملی وی لاگرز‘‘ کے مقابلے میں بہت کم ہے، لیکن ظاہر سی بات ہے کہ عون علی کا فوکس، صرف ناظرین یا پیسہ نہیں لگتا۔ اُن کا موضوع سنجیدہ ہوتا ہے، بھارت والے معاملے پر تو انہوں نے پاکستان کی ایسی ترجمانی کی جو واقعی قابلِ تعریف ہے۔ ’بجلی کے بل‘ پر اُن کی آخری حالیہ وڈیو جو کسی طور قابلِ اعتراض یوں نہیں کہ اِس سے قبل’’دل دل پاکستان‘‘ پر کئی پیروڈیز بن چکی ہیں۔ عون علی کھوسہ نے ’’دل دل پاکستان‘‘ کی ’’بل بل پاکستان‘‘ پیروڈی کی تو وہ بھی ایسی قابلِ اعتراض یوں نہ تھی کہ یہ بات معاشرے میں بالکل عام ہے۔ بجلی پاکستان کا ایک اتنا بڑا اور زندہ مسئلہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان میاں شہبازشریف خود یوم آزادی کی تقریب میں وعدے کررہے ہیں کہ وہ بجلی کی قیمت جلد کم کریں گے۔ مہنگی بجلی پاکستان کا ایسا مسئلہ ہے کہ جماعت اسلامی نے ابھی 14 دن تک اس پر لیاقت باغ میں دھرنا دیا اور حکومتی نمائندوں نے اُن سے بھی وعدہ کیا کہ وہ بجلی کی قیمت کم کریں گے۔ اِس لیے اغوا کاروں کا عون علی کھوسہ سے ’’بل بل پاکستان‘‘ کے گانے کی وڈیو ڈیلیٹ کروانا کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا۔ تادم تحریر وہ ابھی تک ’’رِہا‘‘ ہوکر نہیں آئے، لیکن وڈیو ڈیلیٹ ہونے کے باوجود دیگر لوگوں کے اکائونٹس سے شیئر ہوکر وائرل ہوچکی ہے۔ سب اس پیروڈی گانے سے لطف اندوز ہورہے ہیں مگر حیران ہیںکہ اس وڈیو میں ایسا کیا تھا؟ اِس لیے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ وہ بنیادی طور پر کس ویڈیو کا شکار بنائے گئے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ بحیثیتِ مجموعی اُن کی تنقید مسلم لیگ (ن) کی موجودہ اور سابقہ حکومت پر بہت زیادہ جامع اور مؤثر رہی ہے، اور اگر اس وجہ سے اُن کو ’’ڈیجیٹل دہشت گردی‘‘کے چارج میں اٹھایا گیا ہے تو یقین مانیں اِس سے کہیں زیادہ، اس سے بہت بڑی اور بہت واضح تنقید پاکستان ایکسپیرینس کے پوڈکاسٹ میں شہزاد غیاث کے ساتھ تمکنت منصور نے کی ہے۔ ایسے کئی اور لوگ ہیں جن کو بالکل نظرانداز کردیا گیا محض اس لیے کہ وہ پی ٹی آئی کے حامی نہیںتھے۔ یہ ’تضاد‘ اور یہ ’فرق‘ درست نہیں۔ خیر اب ہم ’عون‘کی رہائی کے بعد ہی دیکھ سکیں گے کہ اُن کے ساتھ کیا ہوا۔ اُن کے گھر والے نہایت خوف زدہ ہیں اور کسی سے بات نہیں کررہے کیونکہ ان کو منع کیا گیا ہے۔

فائر وال:
یوم قیام پاکستان کی تقریب سے خطاب میں آرمی چیف کی جانب سے ’ڈیجیٹل دہشت گردی‘ کا ذکر دوبارہ کیا گیا۔ بہت خوشی ہوئی۔ اس کے حل کے لیے پاکستان میں انٹرنیٹ کے سامنے ایک ’’آگ کی دیوار‘‘ کھڑی کی گئی، جسے ’’فائر وال‘‘ کہا جاتا ہے۔ فائر وال انٹرنیٹ کا ایک ایسا سیکیورٹی سسٹم ہے جو نیٹ ورک اور کمپیوٹر سسٹم کو غیر مطلوبہ رسائی سے بچاتا ہے۔ یہ ڈیٹا کے پیکٹس کو پہلے چیک کرتا ہے اور یہ فیصلہ کرتا ہے کہ آیا انہیں اندر جانے یا باہر آنے دینا ہے یا نہیں۔ فائر وال بنیادی طور پر دو قسم کے ہوتے ہیں: نیٹ ورک فائر وال اور ہوسٹ بیسڈ فائر وال۔

نیٹ ورک فائر وال: یہ نیٹ ورک کی سطح پر کام کرتا ہے اور ڈیٹا پیکٹس کو فلٹر کرتا ہے۔

ہوسٹ بیسڈ فائر وال: یہ کسی ایک ڈیوائس یا کمپیوٹر پر انسٹال ہوتا ہے اور اسی کی حفاظت کرتا ہے۔

فائر وال ڈیٹا پیکٹس کو مخصوص رولز کی بنیاد پر چیک کرتا ہے جو اس میں فیڈ کر دیے جاتے ہیں۔ اگر پیکٹ مقررہ اصولوں کے مطابق ہو، تو اسے اجازت دی جاتی ہے، ورنہ بلاک کردیا جاتا ہے۔ فائر وال پراکسی کے طور پر کام کرتا ہے جہاں وہ نیٹ ورک کی درخواستوں کو مقررہ اصولوں کے تحت منظور یا مسترد کرتا ہے۔ یہ طریقہ ڈیٹا کنکشنز کو ٹریک کرتا ہے اور ان کے اسٹیٹس کو چیک کرتا ہے تاکہ فیصلہ کیا جاسکے کہ انہیں اجازت دینی ہے یا نہیں۔ فائر وال انٹرنیٹ سے آنے والی غیر مطلوبہ رسائی کو روک کر نیٹ ورک کو محفوظ رکھتا ہے، اور اسے سائبر حملوں جیسے وائرس اور مالویئر سے بچانے میں مدد کرتا ہے۔

فائر وال چیلنج:
دستیاب ماہرین کے مطابق یہ بات درست ہے کہ فائر وال کی مدد سے بہت کچھ روکا جا سکتا ہے۔ اس کا توڑ، عوام کے پاس ’وی پی این‘ کی شکل میں ہوتا ہے۔ وی پی این (VPN) کا استعمال کرکے صارف فائر وال کی پابندیوں کو بائی پاس کرسکتا ہے اور ایسی سائٹس تک رسائی حاصل کرسکتا ہے جو بلاک کی گئی ہوں۔ یہ موبائل میں بھی لگ جاتا ہے۔ وی پی این (Virtual Private Network) ایک انٹرنیٹ کنکشن کو خفیہ (encrypted) کردیتا ہے اور صارف کے اصلی IP ایڈریس کو چھپا کر اسے کسی اور ملک کے IP ایڈریس سے ظاہر کرتا ہے۔ اس طرح فائر وال کو یہ پتا نہیں چلتا کہ صارف کہاں سے انٹرنیٹ استعمال کررہا ہے، اور وہ اس بلاک شدہ مواد تک پہنچ سکتا ہے۔کچھ حکومتیں وی پی این سروسز کو بھی بلاک کرنے کی کوشش کرتی ہیں، لیکن صارفین پھر بھی مخصوص ایڈوانس وی پی این سروسز استعمال کرکے ان پابندیوں کو بائی پاس کرسکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ دونوں طرف دوڑ لگی ہوئی ہے، وی پی این کی کمپنیاں اپنا مال بیچنے کے لیے مستقل نت نئے توڑ نکال رہی ہیں۔ دوسری جانب فائر وال والی کمپنیاں بھی پورا زور لگا رہی ہیں کہ کیسے وی پی این کو روکا جائے۔ اس کے لیے ڈیپ پیکٹ انسپکشن (DPI)کی تکنیک نکالی گئی ہے۔ یہ انٹرنیٹ ٹریفک کے پیکٹس کا گہرائی سے تجزیہ کرتی ہے اور وی پی این کی خفیہ کاری یا مخصوص پیٹرنز کو شناخت کرلیتی ہے۔ اس کے بعد اس ٹریفک کو بلاک یا محدود کردیا جاتا ہے۔کچھ فائر والز وی پی این سرورز کے معروف آئی پی ایڈریسز کی فہرست رکھتے ہیں اور انہیں بلاک کردیتے ہیں۔ جب بھی کوئی صارف ان آئی پی ایڈریسز سے کنیکٹ ہوتا ہے، فائر وال اس ٹریفک کو روک دیتا ہے۔ ڈی این ایس فلٹرنگ، انٹی گریٹڈ سلوشنز سمیت دیگر تکنیک متعارف کروا کر مسلسل ’’چوہے اور بلی‘‘ کا کھیل جاری ہے۔

فائر وال کی قیمت:
فائر وال کی آزمائش سے ملک بھر میں سوشل میڈیا کی رفتار کا سست پڑ جانا ایک وجہ کے طور پر پیش کیاگیا۔ معروف صحافی عمر چیمہ لکھتے ہیں کہ’’حکومت نے یہ فلٹرنگ سسٹم حاصل اور اسے نصب کرنے کے لیے ترقیاتی بجٹ میں 30 ارب روپے سے زائد رقم مختص کررکھی ہے۔ یہ فنڈز وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو دیے گئے تھے، لیکن یہ منصوبہ طاقت کے ایک اور مرکز سے چلایا جارہا ہے اور اس پروجیکٹ میں وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کام ڈاک خانے سے زیادہ کا نہیں۔ ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ فائر وال پر کام رواں سال جنوری سے جاری ہے جس میں سسٹم کی خریداری اور اسے نصب کیے جانے کے امور شامل ہیں، اب یہ سسٹم نصب ہوچکا ہے اور اسے شروع کیا جارہا ہے اور متعلقہ حکام کو اس سسٹم کا کنٹرول دینے میں کچھ ہفتے لگیں گے‘‘۔ اندازہ کریں کہ یہ 30 ارب روپے صرف اس بات کے لیے خرچ کیے گئے ہیں کہ انٹرنیٹ پر وہ سارا مواد روکا جا سکے جو ’’حکومت‘‘کو ناپسند ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ سسٹم تو حکومت کا ہے، جس کی حکومت ہوگی وہ اس کو اپنے مطابق ہی استعمال کرے گی۔ ویسے یہ بات تو طے ہے کہ سوشل میڈیا، سر کا درد بن چکا ہے، اس سے قبل الیکٹرانک میڈیا تھا، اس کو قابو کرنا ریاست کے لیے زیادہ مشکل نہ تھا اس لیے وہ تو ہوگیا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ ٹوئٹر جو لوگ وی پی این سے چلا رہے ہیں اُن کا رستہ بھی بند کرنا تھا، تو یہی طریقہ اختیار کرنا تھا۔

ایک مؤدبانہ درخواست:
محترم آرمی چیف سے درخواست ہے کہ اس 30 ارب روپے سے جتنی بھی ڈیجیٹل دہشت گردی ہے اسے ختم کردیں۔ ہماری نسلوں کو بچا لیں۔ آپ کو یہ موقع سیاسی حالات نے اگر دے ہی دیا ہے تو اپنے طے کردہ اہداف میں اور بنائی گئی ڈفینیشن میں کوئی کمی یا امتیاز نہ برتیں۔ اس دائرے میں پاکستان کی نظریاتی اساس کے خلاف مواد بھی شامل ہے، جسے لبرل، سیکولر جعلی دانشور اسی یوٹیوب سے پھیلا رہے ہیں۔ اِس میں توہینِ مذہب سے متعلق مواد بھی شامل ہے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ ہماری پوری نوجوان نسل کو برباد کردینے کے لیے فحش ویب سائٹس اور گندے مواد تک رسائی کے تمام راستے بھی شامل ہیں۔ خدارا یہ سب بند کرا دیجیے۔ یقین مانیں، اگر ہم نے اس گندے، زہریلے مواد سے اپنی نوجوان نسل کو بچا لیا تو یہ بہت بڑا کام ہوگا۔ اس سے بڑی کوئی دہشت گردی ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ جو ہمارے ملک میں معصوم بچوں، بچیوں اور دیگر کے ساتھ زیادتی کے واقعات ملتے ہیں ان سب کے پیچھے اس زہریلے اور بھڑکیلے مواد کا ہی ہاتھ ہے۔ سیاسی مخالفت بھی کچل دیجیے مگر خدارا، اس 30 ارب روپے کا درست استعمال یہی ہوگا کہ اس کے نتیجے میں سارے غیر اسلامی، غیر اقداری، تہذیب سے گرے ہوئے، مسلم معاشرت کو تباہ کرنے والے، نوجوان نسل کے اخلاق و کردار کو تباہ کرنے والے مواد سے بچا لیجیے۔ توہینِ رسالت و مذہب جتنے بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا سے کی جارہی ہے وہ ناقابلِ بیان ہے۔ اس کام کو کرنے والوں کی اکثریت سب سے پہلے انٹرنیٹ پر فحش مواد کا شکار ہوتی ہے۔ اس لیے یہ ود دھاری مسئلہ ہے جو آپ کے حکم سے فوری حل ہوجائے گا۔ بجٹ لے لیا، سامان لے لیا، ٹیسٹنگ کرلی، عملہ رکھ لیا ہے تو اب صرف آرڈر ہی دینا باقی ہے۔

حصہ