آخرشب کے ہم سفر

82

پھر ہم اپنے نام رکھتے ہیں۔ ایڈورڈ، جیمز، چارلس، ٹامس، خاندانی نام بارلو، جو ہمیں ایک پرانے دھندلکے سے جا ملاتا ہے اور جس کی وجہ سے ہمیں مستقبل میں بھی اپنے پائوں جمائے رہنے کی خوشگوار اُمید ہے۔ یہودیوں اور عربوں کا دستور ہے۔ فلاں ابن فلاں ابن فلاں۔ کیا خود پسندی ہے۔

سچے گیانی میں اتنی خودی بھی نہیں کہ وہ اپنا نام تک لکھے۔ کس اپنشد میں ہے؟
ڈیڈ بتاتے تھے کہ مونیرولیمز نے کسی گائوں کے برہمنوں سے دستخط کرنے کے لیے کہا، انہوں نے جواب میں صرف نمو بھگوتے اور اوم لکھ دیا۔

’’صاحب پانی تیار ہے‘‘۔ عبدالغفور نے اطلاع دی اور غائب ہوگئے۔
چارلس سر جھکائے بیٹھا رہا۔
آخر میں سب مرجاتے ہیں۔

ڈیڈ کو ہندوستان کے متعلق انگریزوں کی لکھی ہوئی کتابوں کے پہلے ایڈیشن جمع کرنے کا شوق تھا۔ ان الماریوں میں وہ ساری کتابیں موجود ہیں۔ گرینڈ ڈیڈ اور ڈیڈ کا کتب خانہ۔ ان کتابوں کے مصنف۔ جان کمپنی کے افسر، انڈین سول سروس کے افسر، فوجی، مشنری، ماہرین تعلیم، پلانٹر، ان کے بھوت پھونس کی چھتوں والے بنگلوں میں اب بھی منڈلا رہے ہوں گے۔

یہ کتابیں… زراعت اور جنگلات۔ آر کیالوجی، رسل و رسائل اور سول انجینئرنگ، تعلیم، ایتھنولوجی اور سوسیولوجی (’’آسام کے ناگا قبائل از ایڈورڈ بارلو آئی، سی ایس‘‘۔دل چارلس نے فخر سے سوچا۔ نام مستقبل کے گرد آلود کونوں کھدروں میں بہرحال محفوظ رہے گا۔ کتاب کی جلد پر لکھا ہوا نام، اور قبر کا کتبہ۔ نام) قانون، ایڈمنسٹریشن، طب، فلسفہ، نیچرل ہسٹری، سفر نامے، جغرافیہ…

کلکتے کا جیمز پر نسپ جس نے خروشٹی میں یونانی نام دریافت کیے اور اشوک کے کتبوں کی عبارت پڑھی۔ کننگھم۔ جان مارشل، جیمز فرگسن، ہیول، گرانٹ ڈف، کرنل ٹاڈ، ونسنٹ اسمتھ، مورلینڈ، جیمز مل، وارن ہیٹنگز، ولیم جونز، گرہم بیلی، چارلس ایلیٹ، ولسن گرفتھ، جارج سیل… آرٹ ہسٹری، لسانیات، مذاہب۔

اور دلچسپ ناول۔ جواب مضحکہ خیز لگتے ہیں اور جدید ہندوستانیوں کے ہاتھ میں پڑ جائیں تو وہ ان کو نذر آتش کردیں… جن کے ہندوستانی کردار ’’نیٹو اورنگر‘‘ کے لقب سے یاد کیے جاتے تھے۔ ہنٹی (گڈاولڈ، ہنٹی) میرین کرافرڈ، ماڈڈائیور، کرنل میڈوز ٹائیلر کے ناول…’’ایک ٹھگ کے اعترافات‘‘۔ ’’سیتا‘‘، ’’تارا‘‘، ٹیپو سلطان‘‘۔! فلورا اینی اسٹیل، ایف، ڈبلیو بین… ہراسٹیشن کے کلب کی لائبریری میں یہ ناول موجود ہوتے تھے۔

اور بچوں کے لیے کتابیں جو ہم سب نے بچپن میں پڑھیں۔ لٹل آرتھر اور اس کا بیرہ‘‘۔ لٹل آرتھر کی ہسٹری‘‘۔ ’’لٹل آرتھر…‘‘
غدر کے متعلق کتابوں کے انبار، اور پھر کپلنگ…!

لاہور اور پشاور کی پُراسرار گلیاں، چنڈوخانے، گنگا داس اور سدھو، اور دلی داد اور لالن طوائف لاہور کی لالن طوائف غالباً کپلنگ کا علامتی کردار تھی… مغرب کے لیے علامتی کردار… ایک خطرناک، پُرکشش بے ایمان عورت… ہندوستان جو انگریز اس جادوگرنی کے ہلاکت خیز سحر کا شکار ہوا وہ بہت جلد اپنا کردار کھو بیٹھا۔ پھٹیچر ہوگیا۔ اس لیے ہمیشہ الگ تھلگ بنے رہے۔ اس تاریک اور بھیانک جنگل میں ایمپائر کے اسٹینڈرڈ کو قائم رکھو۔ (اسی وجہ سے گرینڈ ڈیڈ اور گرینڈ ماڈیڈ اور ممااڑیسہ اور آسام کے ویران ڈاک بنگلوں میں شام کو باقاعدہ اس طرح کپڑے بدلتے تھے گویا لندن کے سوائے میں ڈنر کھانے جارہے ہوں)

چارلس بارلو اُٹھ کر دریچے میں جا کھڑا ہوا۔ یہ ڈی، ایمز ہائوس، اس کے ملازم، اس کا باغ، یہ سب چیزیں اسی مستحکم نظام اور روایات کا ایک جزو ہیں۔ یہ سحر انگیز اینگلو انڈین دنیا جو دو سو سال سے اس ملک میں آباد ہے… اس کے جانے بوجھے کردار اور جزویات، کلکتہ، شملہ، ہل اسٹیشن، مفصل اضلاع، صوبے، ہر صوبے کا سویلین خود کو اس صوبے سے مماثل کرتا تھا۔ پنجاب سویلین، سندھ سویلین، بنگال سویلین، سندھ کلب، بنگال کلب۔

یہ مضبوط اور مستحکم اینگلو انڈین (انیسویں صدی میں ہندوستان میں رہنے والے یا یہاں ملازمتیں کرنے والے انگریزوں کو اینگلوایڈین کہا جاتا تھا، مخلوط نسل والا طبقہ ’’ہاف کاسٹ‘‘ یا یوریشین کہلاتا تھا۔) معاشرہ۔ یہ کسی لفٹ ونگ ہندوستانی انٹلکچوئیل نے سچ کہا ہے کہ انگریز ہندوستان کو کنٹری اسکوائر یا زمیندار کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ہندوستانی صوبے گویا ان انگریز حاکموں کی ذاتی زمینداریاں تھیں۔ جس میں ہم پلّہ لوگ یا انسان دوسرے یوروپین تھے۔ اہل برطانیہ ہندوستان میں ملازمت کرنے والے اپنے ہم وطنوں کو ’’انڈین‘‘۔ ’’انڈین سویلین‘‘، یا ’’انڈین باکس والا‘‘، ’’انڈین آفیسر‘‘ کہتے تھے۔ ہندوستانی محض ’’نیٹو‘‘ تھا۔ اور اس قابل نہ تھا کہ اس کا تذکرہ کسی مہذب سیاق و سباق میں کیا جائے۔

’’پنجاب کا اولڈ جارج کل مجھے جم خانہ میں ملا تھا…‘‘ بالکل جس طرح ڈیوک اپنی ریاستوں سے مماثل کئے جاتے ہیں اور جس طرح انگلستان کا کنٹری اسکوائر اپنی رعیّت کا خیال رکھتا تھا۔ اسی شفقت اور خیال سے ہم لوگ اپنی رعیت سے یہاں پیش آئے۔ زیادہ دل سوزی اور محبت سے، کیونکہ یہ رعایا بچوں کی طرح احمق اور جانوروں کی طرح جنگلی تھی۔ نسلاً بعد نسلاً ان سب سویلینز کا یہ عقیدہ تھا کہ خدا نے ایک بڑی عظیم اخلاقی اور روحانی ذمہ داری ان کو سونپی ہے… برطانوی ہندو کی حکومت! (غدر کے متعلق ہربرٹ ایڈورڈ نے کہا تھا کہ یہ خدا نے ہم کو اس غفلت کی سزا دی ہے۔ کہ ہم نے عوام کو عیسائیت کے اصولوں سے آشنا نہیں کیا۔) اور خدا کی قسم ہم نے اس ذمے داری کو بہت خوب نبھایا۔ ہم تاریخ سے شرمندہ نہیں ہیں۔

کوئٹ انڈیا…!
اسی اخلاقی برتری اور دیانت داری کے بل بوتے پر ہم مٹھی بھر انگریز چالیس کروڑ ہندوستانیوں پر اطمینان سے حکومت کررہے ہیں۔

گوکبھی کبھی ہماری مائوں کو رات کے وقت ہمیں برآمدوں میں مچھر دانیوں کے اندر سلاتے ہوئے یک لخت یہ دہشت آدبوچتی تھی کہ اندھیرے میں سے نمودار ہو کر ٹوم ٹوم بجاتے نیٹو حملہ نہ کردیں۔ ۵۷ء کی طرح۔ یہ واقعہ ہے کہ غدر کی یاد ہمیں ہمیشہ HAUNT کرتی رہتی ہے۔

اور گو یہ حقیقت تھی کہ اہل ہندو برٹش راج کی برکتوں کے معترف تھے اور ایک عام ہندوستانی عدالت میں ایک ہندوستانی جج کے فیصلے کے مقابلے میں انگریز جج کے فیصلے کو ترجیح دیتا تھا۔ مگر یہ بھی واقعہ تھا کہ غدر کے بعد ہنری لارنس نے کہا تھا کہ ہندوستانی اپنے دیوانے بادشاہوں کے زیر حکومت خوش تھے، اصول پرست کمشنروں کے زیر نگین خوش نہیں۔

کوئٹ انڈیا…
یقیناً ہم نے بھی غلطیاں کی ہیں، شاید۔ امپیریلزم بذات خود سب سے بڑا جرم ہے، مگر ہماری جیسی بابرکت امپریلزم…؟ فرانس، ہالینڈ اور بلجیم کی کولونیوں کی کیا ناگفتہ بہ حالت ہے؟ ناقابل یقین۔
بہرحال ’’الف چیم‘‘ والا زمانہ تو مدتیں ہوئیں، پچھلی جنگ عظیم سے پہلے ہی ختم ہوگیا۔

غدر سے پہلے اضلاع میں سوشل زندگی کے مرکز یوروپین چرچ اور اسمبلی رومز تھے، یوریشین طبقہ اپنی اچھوت حیثیت پہچانتا تھا اور الگ رہتا تھا۔ پھر یہ اسمبلی رومز ’’کلب‘‘ میں تبدیل ہوئے۔ ڈانس، بلیرڈ، شوقیہ ڈرامے، گرینڈ ڈیڈ کا ہندوستان، ڈاک گاڑیاں، کتے گاڑیاں، بگھیاں، پالکیاں، (پالکی بردار PALANQUIN BEARER بیرہ بن گیا) کلکتہ کا ایڈن گارڈن جہاں شام کو بینڈ بجتا تھا۔ پارسیوں کی دوکانیں۔

اسٹیشن کے چند افسر ایک دوسرے سے ہی ملتے رہتے۔ میمیں دن بھر ایک دوسرے کو چٹیں بھیجا کرتیں۔ پھر ٹینس، پولو، شکار، انیسویں صدی کے اواخر میں ہندوستان اتنا دلچسپ ہوچکا تھا کہ ہوم سے اکثر لوگ چھٹیاں گزارنے یہاں آتے۔ گو ہندوستان سے ان کی مراد یہاں کی برطانوی سوسائٹی تھی۔

جاڑوں میں گرینڈ ڈیڈ دورے پر جاتے۔ جب گرینڈ ڈیڈ اور دوسرے صوبوں میں ان کے ساتھی افسر دورے پر نکلتے تو عہد رفتہ کے مغل صوبے داروں کے لائو لشکر کا گمان ہوسکتا تھا۔ (یہ واقعہ ہے کہ ہم نے مغلوں سے حکومت چھین کر تزک و احتشام میں ان کی نقل کرنے کی پوری کوشش کی۔ وائسرائے کی شان و شوکت…!) بنگال میں کشتیوں اور اسٹیمروں پر اور دوسرے صوبوں میں بیل گاڑیوں اور اونٹوں پر لد کر سارا سازوسامان کیمپ میں ساتھ جاتا۔ بھاری فرنیچر، تصویریں، چاندی کے ظروف، ہر چیز، تا کہ سلطنت کے نمائندے کا دبدبہ اور رعب جنگل اور دیہات میں بھی قائم رہے۔ لشکر میں کتے، گائیں، بکریاں، مرغیاں، سواری کے گھوڑے کیا کچھ شامل نہ ہوتا۔ بڑے صاحب کے خیمے، قالین تصویروں اور گلدانوں سے سجائے جاتے۔ خوردنوش کی اشیاء ٹین کے ڈبوں میں بمبئی کے آرمی اینڈ نیوی اسٹورز سے آتیں۔ کچھ فاصلے پر نیٹو افسروں کے خیمے لگتے اور گائوں والے آخر وہاں اپنا بازار لگاتے۔

سالِ نو پر ڈپٹی کمشنر کا دربار لگتا۔ دربار میں زمیندار نذریں پیش کرتے، جن کو صاحب ہاتھ لگا کر واپس کردیتا… بڑے صاحب کے دربار میں کرسی ملنا نیٹو جنٹل مین کے لیے بے حد عزت کی بات تھی۔

کلکتے اور شملے میں قیصر کی جرمن ایمپائر کے سفیر رہتے۔ جرمنی اور برطانیہ کی تجارتی جنگ شروع ہوچکی تھی، جرمن مصنوعات کی ہندوستانی بازاروں میں ریل پیل تھی لیکن نو آبادیوں سے فائدہ اٹھانے کی اس ریس کا نتیجہ۱۹۱۴ء کی جنگ کی صورت میں رونما ہونے میں ابھی بہت عرصہ باقی تھا۔

نیٹو سوسائٹی سے علیحدگی کی ایک فصیل اینگلو انڈیا نے اپنے گرد کھڑی کر رکھی تھی، مگر خود اس فصیل کے اندر برطانیہ جیسی شدید کلاس سسٹم نہیں تھی۔ انڈیا ایک آئوٹ پوسٹ تھا اور یہاں سب کو ایک دوسرے کے ساتھ مرنا جینا تھا۔ زندگی زیادہ بے تکلف تھی۔ برطانیہ اپنے بہترین نوجوان یہاں حکومت کرنے کے لئے بھیجتا۔ مگر وہاں کے بدترین نمونوں کو یہاں قسمت آزمانے کے لیے بھیج دیا جاتا۔ عموماً اونچے خاندانوں کے یہ ناخلف لڑکے، زیادہ ایڈونچرس ہوتے۔ ملک میں امن وامان، ترقی و خوش حالی کا دور دورہ تھا۔ اور ایک عام جاہل ہندو ’’ملکہ ٹوریہ‘‘ کو دیوی ماتا سمجھنے لگا تھا۔ (مرنے سے پہلے وکٹوریہ نے لارڈ کرزن سے کہا تھا:۔ BE KIND TO MY POOR INDIANS

اس ملک کی قدیم روایت تھی کہ بادشاہ پہاڑ پر جا کر درشن دیتا تھا۔ اور پرجا اس سے فریادی ہوتی تھی۔ اسی وجہ سے اکثر ہندوستانی امراء اپنا سارا اثاثہ فروخت کرکے، صعوبتیں اُٹھا کر، اپنے مقدموں کی اپیل کے لیے لندن جاتے تا کہ ملکہ سے خود فریادی ہوں۔ زیادہ تر نامراد لوٹتے یا غریب الوطنی کے عالم میں مرجاتے، حاکم کے حکم کی اطاعت اور صاحبان اقتدار کا خوف اس ملک کے عوام کی سرشت میں داخل ہے۔ لہٰذا کیا تعجب ہے کہ اہل ہند ہماری اطاعت گزار رعایا بن گئے اور ملکہ کو اپنی ماں سمجھنے لگے؟

غدر کے بعد انڈین سول سروس قائم ہوئی اور ’’کمپی ٹیشن والا‘‘ اینگلو انڈین منظر پر نمودار ہوا۔ مغرور، خود پسند، ہیلی بری کے بجائے اوکس برج کا تعلیم یافتہ، جو ’’باکس والا‘‘ یعنی اپنے ہم قوم تاجر کو بھی ذرا حقیر سمجھتا تھا۔ یہ نیا سویلین خالص امپریلسٹ تھا۔ غدر سے پہلے کی زیادہ روادار برطانوی روایات اور ہندوستان کی اس دلکش نیٹو تہذیب سے بالکل ناواقف جو غدار کے بعد ہمیشہ کے لئے مٹ گئی۔ ڈیڈ یہ نئے سویلین تھے۔ اور ہندوستان کی برطانوی سوسائٹی کی نئی اور شدید کٹر کاسٹ کا ایک فرد۔ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کے نمائندے اور دنیا کی ارفع ترین ملازمت کے رکن، مغرور، خر دماغ لیکن جو حقیر لکڑ ہاروں کی جانیں بچانے کے لیے اطمینان سے لقمہ اجل بن گئے انسانی فطرت کے۔ برطانوی کردار کے یہ تضاد…!

چارلس بارلو دریچے سے ہٹ آیا۔ بارش شروع ہوچکی تھی۔

شملہ برطانوی دیوتائوں کا مسکن تھا۔ اضلاع کے کلکٹر اور کمشنر عموماً اپنے اپنے صوبوں کے پہاڑوں پر جاتے تھے۔ دارجلنگ میں ہماری دلفریب کوٹھی، پہاڑ ہمیں اپنے وطن کے مناظر اپنے وطن کی خوشگوار سردی کی یاد دلاتے تھے۔ ہمارے حسین ہل اسٹیشن، ہمارا پیارا ہندوستان۔

یہ واقعہ ہے کہ ہم سب، ہماری ساری قوم اس ملک کے سحر سے نہیں بچ سکی۔ اس کی گرمی، غلاظت اور کمینگی کے باوجود۔

ہماری یہ مخصوص دنیا۔ وطن واپس جا کر بھی جس کی یاد ہمیں ستاتی رہتی ہے۔ یہ مخصوص زبان جو ہم نیٹوز کے ساتھ استعمال کرتے ہیں، بندوبست، شاباش، سب برابر، کوُب مالوم ہائے۔ کپردار یو سُور۔ شاندہ بوٹ اچّا۔ بڑا کھانا، بڑا تماشا۔ ایڈورڈ لیئر کی نظمیں…

بیک وقت نفرت و محبت کا یہ عجیب و غریب رشتہ، لارڈ مورلے نے صحیح کہا تھا۔ میں مغربی ہوں، مشرقی نہیں۔ میں بہت زیادہ مشرقیت کبھی اختیار نہیں کرسکتا۔

یہ بھی واقعہ تھا کہ عموماً انگریز، میل جول میں مسلمانوں کو ترجیح دیتے تھے۔ کیونکہ مسلمان ہندوئوں کے مقابلے میں بہت زیادہ مہذب تھا۔ ہندوئوں کو ہمارا یہ ترجیحی سلوک قدرتی بات ہے کہ بہت بُرا معلوم ہوا۔

اوکسفرڈ میں مسعود علی اور راما ناتھن سے ہندو مسلم سوال پر کتنی لمبی لمبی بحثیں ہوا کرتی تھیں۔

صبح سے تازہ اخبار آئے رکھے ہیں۔ میں نے ابھی تک کچھ نہیں پڑھا۔ سرخیاں دیکھتے ہوئے آج ڈر سا لگ رہا ہے۔ برطانوی ہمت اور بہادری۔

وہ دوسری کرسی پر بیٹھ گیا۔ پائپ جلایا، اب غسل کے لیے جانا چاہئے۔

مسعود آج کل پنجاب میں کلکٹر ہے۔ راما ناتھن مراٹھاکنٹری میں کہیں تعینات ہے۔ دونوں اپنی بحثوں میں ظاہر کرتے تھے کہ برطانوی حکومت سے متنفرد ہیں۔ اور دونوں کی شدید تمنا تھی کہ آئی سی ایس میں لے لیے جائیں۔ دونوں اس وقت اس برطانوی حکومت کے ارفع ترین ملازمت کے اراکین ہیں، اپنے ہم وطنوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور زمین پر قدم نہیں دھرتے۔

آہ… ہندوستانی کردار…! ہندوستانی کردار!
مگر وہ انقلابی جو اس حکومت کی بیخ کنی کے درپے رہے ہیں، مجھے وہ بھی مضحکہ خیز لگتے ہیں۔

اصلیت غالباً یہ ہے کہ مجھے صرف اپنے نوک بھشتی اور خدمت گار، رینگتے سلام کرتے، ’’مائی، باپ، غریب پرور‘‘ کہتے، کسان اور جاہل اور قابل رحم ہندوستانی اچھے لگتے ہیں۔ پچھلے دو تین سو سال سے مراقش سے چین تک اہل مشرق کی پسماندگی اور جہالت کا بھرپور تجربہ کرچکنے کے بعد ہم انہیں اپنے جیسا انسان سمجھنے کے لئے غالباً ابھی تیار نہیں۔

جب چارلس بارلو سول سروس میں شامل ہوا اس وقت دہشت پسند تحریک ایک بار پھر زور پکڑ چکی تھی۔ پچھلی صدی کے لبرل مصلحین کے مقابلے میں سامنے آنے والے جوشیلے قوم پرستوں کی ’’عوامی جدوجہد‘‘ کی اپیل نچلے متوسط طبقے، اور بے کار نوجوانوں میں پہنچ چکی تھی۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے یہ یونیورسٹیاں کیوں قائم کیں؟ چارلس نے پائپ سلگایا اور پھر دریچے میں جاکھڑا ہوا۔ دہشت پسند قوم پرست اور امن پسند قوم پرست اور یہ اور وہ۔ اس جوالا مکھی پر قابو پا کر اسی سکون کے ساتھ اس برصغیر کا ایڈمنسٹریشن چلائے جانا سول سروس کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔اوکسفرڈ سے تازہ تازہ آیا ہوا نوجوان چارلس بارلو انقلابیوں کے پرانے گڑھ باریسال میں جوائنٹ مجسٹریٹ تھا۔ یہ ان لوگوں کا بنگال ہے۔ یہ میرا بنگال بھی تو ہے۔ گرینڈ ڈیڈ اور گرینڈما، ڈیڈ اور مما، آنٹ میبل اور آنٹ ماڈ کا بنگال، مجھے اس سے کتنی محبت ہے۔ میں اسے تباہ ہونے دوں گا؟ وہ باریسال کلب کے برآمدے میں وہسکی پیتے ہوئے BROOD کرتا۔ اس نے دہشت پسند تحریک کا مطالعہ کیا۔ انقلابیوں کے حالات سے تفصیلی واقفیت حاصل کی۔ ان کی لکھی ہوئی ورناکیولر کتابوں کے اہم اقتباسات ترجمہ کروا کر پڑھے۔ (مثلاً رام پرشاد بسمل شاہجہانپوری کی سوانح حیات جو انہوں نے پھانسی پانے سے تین روز قبل لکھ کر ختم کی تھی) اس نے دنیش چندر سرکار کی کتاب کا بغور مطالعہ کیا، کہ اوکسفرڈ میں اقتصادیات ہی اس کا مضمون تھا۔ مگر اس قدر مفسدانہ، بالشویک خیالات ان انقلابیوں کے خصوصاً دنیش چندر سرکار کے تھے، اس نے ہندوستانی نفسیات پر عموماً اور بنگالی نفسیات پر خصوصیت کے ساتھ غور کیا۔ کہ بنگالیوں کی شکتی پوجا کا ان کی تخریب پسندی سے کتنا گہرا نفسیاتی تعلق ہے۔ دراوڑوں، منگولوں اور آریوں سے قبل کے قدیم ترین وحشی قبائل کا خون ان کی رگوں میں جوش مارتا ہے، تو کس آسانی سے مار دھاڑ پر اُتر آتے ہیں۔ آدی واسی قبائل کی دیوی ماں کا عقیدہ اب تک ان کے دلوں میں راسخ ہے۔ اسے ان کے بنکم بابو نے کس چالاکی سے ’’مدر انڈیا‘‘ سے مماثل کردیا۔ بندے ماترم۔ ہاہاہا۔ ماما خون کی قربانی چاہتی ہے۔ مسلمان کا خون، انگریز کا خون… ارے ان چالاک بابوئوں کی سائیکولوجی سے توہم واقف ہیں۔ ان کے فلسفی اپنی ’’روحانیت‘‘ اور ’’اساطیری علامات‘‘ کے متعلق ہمیں کیا سمجھائیں گے۔

مگر ہماری قوم میں بھی احمقوں کی کمی نہیں۔ وہ ایلس جیسی خبطی ایک مارگریٹ نوبل آئی تھیں۔

وہ کالی کی پرستار بن گئیں۔ ان کو سسٹر نودتا بنا کر ان ہندوستانیوں نے جھنڈے پر چڑھا دیا… عورتوں کی دراصل صحیح عمر میں شادی ہوجانی چاہئے۔

دویکا نند، سنا ہے بے حد وجیہہ تھا۔ سب یوروپین اور امریکن عورتیں اس کی مقناطیسی آنکھوں پر عاشق ہوتی تھیں۔

اہل ہند سسٹر نودتا اور اینی بسنٹ کے کیا کیا گن نہیں گاتے، کہ دیکھو تمہارے جیسے سفید فام بھی ہماری روحانی عظمت کے قائل ہوگئے… ہا… بے چاروںکا احساسِ کمتری۔

اس احساس کمتری میں ہم ہی نے انہیں مبتلا کیا۔ بڑھیا سے بڑھیا ہندوستانی انگریز سے دو باتیں کرلینا فخر سمجھتا تھا۔ ہائے کس قدر قابل رحم قوم ہے۔ کس فخر سے کوٹھیوں میں رہتے ہیں۔ چھری کانتے سے کھاتے ہیں۔ انگریزی بولتے ہیں۔ دنیا کا عظیم ترین، مثالی، کولونیل سماج!

اور پھر پچھلی صدی کے برہمو مسخرے۔ ان کے ہارمونیم اور پیانو۔ ان کی خواتین کی گائون نما ساریاں۔ اونچی ایڑی کے جوتے اور موزے۔ ان کے انگلستان کے سفر، ان عورتوں نے پردہ ترک کرکے زنانہ اور پالکی اور حرم کے رومان کا بھی خاتمہ کردیا۔
بے چارہ الف چیم۔

ٹیگور بھی ہماری نقال تہذیب کی پیداوار ہے۔ ہم نہ آئے ہوتے تو نہ رام موہن پیدا ہوتے نہ رابندر ناتھ، اسی طرح آپس کے کشت و خون میں اور کئی صدیاں نکل جاتیں۔ آخر دیکھو افغانستان وغیرہ کی کیا حالت ہے۔ ٹیگور نے شیلی اور کیٹس نہ پڑھا ہوتا تو ایسی شاعری نہ کرتا۔

بے چارہ اوپری طبقہ کا ہندو۔ پہلے مسلمان حکمرانوں کی نقالی میں لگا رہا۔ اب ہماری تقلید میں جُتا ہے۔

اور دوسری بات یہ ہے کہ سارے ہندوستانی ریاکار ہیں۔ شانتی شانتی رٹتے ہیں۔ مگر تشدد اور بے رحمی ان کی گھٹی میں پڑی ہے۔ مذہبی جنون اور ملکی سیاست کا اس ملک میں ہمیشہ سے گہرا تعلق ہے۔ مسلمانوں سے پہلے شیوئوں، شاکتوں، برہمنوں، بودھوں، جینیوں، میں جنگیں ہوا کرتی تھیں، جس عہد کا جو راج دھرم ہوا اس کے حکمرانوں نے دوسرے فرقوں پر ظلم توڑے۔ اب مسلم پیریڈ پر آئیے۔

’’عبدالغفور…‘‘
ایک منٹ میں عبدالغفور دروازے پر نمودار ہوئے۔
’’صاحب‘‘۔
’’کچھ نہیں جائو‘‘۔
عبدالغفور واپس چلے گئے۔
(جاری ہے)

حصہ