امانت کی پاسداری اور ایفائے عہد… یہ تمام انسانی معاشرے کا وہ حُسنِ عمل ہے جس کی بنیاد پر قومیں دنیا میں معتبر اور باعزت مقام حاصل کرتی ہیں۔ اس کے بغیر کوئی فرد یا قوم قابلِ احترام اور قابلِ اعتبار نہیں ہوسکتی۔ یہ اوصاف انفرادی اور اجتماعی زندگی بلکہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کے بغیر نہ فرد، فرد پر اعتماد کر سکتا ہے اور نہ کوئی کاروبار چل سکتا ہے۔ ریاست کے تمام ذمہ داروں کے لیے یہ اوّلین شرط ہے۔
ان کی خلاف ورزی کرنے والے قومی مجرم قرار پاتے ہیں بلکہ یہ ملک و قوم سے غداری کے زمرے میں آتا ہے۔
ایک مسلمان اُس وقت تک مومن ہو ہی نہیں سکتا جب تک یہ دونوں صفات بدرجہ اَتم اس میں موجود نہ ہوں، بلکہ یہ مومن ہونے کی سند ہے۔ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو 40 سال کے بعد نبوت کے منصب سے اللہ نے سرفراز کیا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان اہلِ مکہ میں ’’امین و صادق‘‘ کی حیثیت سے تھی اور اہلِ مکہ آپؐ کو امین و صادق کہہ کر پکارتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کہی ہوئی باتوں کو سچ جانتے اور آپؐ کے پاس اپنی امانتیں رکھواتے تھے۔
جب پہلی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتماعی دعوت دینے کے لیے صفا کی چوٹی سے اہلِ مکہ کو پکارا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا کہ ’’اگر میں کہوں کہ پہاڑ کے پیچھے سے دشمن کی فوج آرہی ہے تو کیا تم یقین کرو گے؟‘‘ لوگوں نے کہا ’’بے شک ہم یقین کریں گے، کیوں کہ آپ صادق اور امین ہیں۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یا ایھا الناس قولوا لا الہ الااللہ تفلحون۔‘‘ مگر کفار نے آپؐ کی صداقت اور امانت کو تسلیم کرنے کے باوجود آپؐ پر ایمان لانے سے انکار کردیا، کیوں کہ وہ گمراہ تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مسلمان سے ہر طرح کا گناہ ہوسکتا ہے مگر وہ خائن اور جھوٹا نہیں ہوتا۔‘‘
سورۃ المومنون میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’مومن وہ ہے جو امانت کی پاسداری کرتا ہے اور وعدے پورا کرتا ہے۔‘‘
ہجرت کی رات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قریشِ مکہ کی تمام امانتیں حضرت علیؓ کے سپرد کیں اور تاکید فرمائی کہ صبح ہوتے ہی یہ تمام امانتیں لوٹا دینا۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر یہ بات تحریر ہوگئی کہ مکہ سے جو مسلمان بھاگ کر آئے گا آپؐ اسے لوٹا دیں گے مگر مدینہ سے آنے والوں کو ہم نہیں لوٹائیں گے۔ یاد رہے کہ ابھی دستخط نہیں ہوئے تھے، اسی دوران ابوجندلؓ خون میں لت پت اپنے باپ سہیل کی قید سے فرار ہوکر آپؐ کے پاس پہنچے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب ِوعدہ ابوجندلؓ کو صبر کی تلقین کرکے واپس کردیا۔
اسی طرح میثاقِ مدینہ کی آپؐ نے اُس وقت تک پاسداری کی جب تک کہ کفار کی جانب سے اس کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار مدینہ کی گلیوں میں محوِ سفر تھے۔ آپؐ نے سنا کہ ایک ضعیفہ مٹھی بند کرکے اپنے پوتے کو آواز دے رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ ’’میرے پاس آؤ میں تم کو ایک چیز دوں گی۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے اور پوچھا کہ ’’تم کیا دوگی؟‘‘ ضعیفہ نے کہا ’’میں اس کو کھجور دوں گی۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر نہیں دیتیں تو تم جھوٹ بولتیں جو گناہِ عظیم ہے۔‘‘
اسلام میں جھوٹ کو بہت برا قرار دیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت کی پاسداری اور ایفائے عہد کو ایمان کا بنیادی عمل قرار دیا۔
سورہ النساء کی آیت 58 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ’’بے شک اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت اہلِ امانت کے سپرد کرو اور لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عَدل کے ساتھ کرو، اللہ تمہیں بہترین نصیحت کرتا ہے، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔‘‘
تمام خلفائے راشدین اس آیت کے مصداق تھے، وہ قومی بیت المال کے محافظ تھے۔ بیت المال کی کوئی ایک چیز بھی اپنے حق سے زیادہ اپنے لیے حرام سمجھتے تھے۔ ایک دن خلیفۂ وقت حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ نے آٹے کی کوئی میٹھی چیز پکا کر دی تو آپؓ نے دریافت کیا ’’یہ کہاں سے آیا؟‘‘ زوجہ محترمہ نے فرمایا ’’بیت المال سے جو آٹا ملتا ہے اس سے کچھ میں نے بچا کر رکھا تھا‘ اسی سے پکایا ہے۔‘‘ دوسرے دن آپؓ نے ناظم بیت المال کو حکم دیا کہ میرے حصے میں سے کچھ آٹا کم کردو۔
خلیفۂ وقت حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو حضرت سلمان فارسیؓ نے آپؓ کو روکا اور کہا کہ ’’آپؓ پہلے میرے سوال کا جواب دیجیے کہ آپؓ نے مالِ غنیمت کی تقسیم میں کیوں خیانت کی ہے؟ اور اپنے حصے سے زیادہ لیا ہے۔ آپؓ نے جو چوغا پہنا ہے وہ آپؓ کے حصے والے کپڑے سے نہیں بن سکتا۔‘‘
آپؓ منبر سے اتر گئے اور اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو بلایا اور فرمایا کہ ’’اصل بات کیا ہے، بتائو۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے جواب دیا کہ ’’میں نے اپنا حصہ بھی والدِ محترم کو دے دیا جس سے یہ چوغا بنا ہے۔‘‘
یاد رہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت قد آور تھے۔ یہ امانت داری کی وہ اعلیٰ ترین مثالیں ہیں جن کو بعد میںخلفاء اور صالحین نے اپنایا اور مسلمانوں کے نیک اور عادل حکمرانوں نے بھی پیروی کی۔
سلطان التمش ٹوپیاں بُن کر اپنا گزارہ کیا کرتے تھے۔ اورنگزیب عالمگیر قرآن مجید کی خطاطی کرتے اور اس کے ہدیہ سے جو رقم ملتی اس سے اپنا گزارا کرتے تھے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنے گھر میں ایک بھی خادمہ یا غلام نہیں رکھا۔
جہاں تک عہد و پیمان کا سوال ہے ،تمام کاروبار اور لین دین میں فریقین معاہدے کرتے ہیں اور اس کی پابندی ہی کامیابی کی شرط ہے، عالمی سطح پر ممالک بھی اس طرح کے معاہدے کرتے ہیں اور انہی کی پاسداری کی بنیاد پر اقوام عالم میں دوستانہ تعلق قائم رہتا ہے ورنہ پھر جنگ و جدل کی نوبت آجاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وعدہ کرو تو پورا کرو۔ والدین اگر اپنے بچوں کو صالح اور نیک بنانا چاہتے ہیں اور جھوٹ اور فریب سے بچانا چاہتے ہیں تو ان سے ایسے وعدے نہ کریں جن کو پورا کرنا ان کی بساط میں نہ ہو۔ ورنہ بچوں کی نظر میں والدین کی عزت کم ہوجائے گی۔
یہ زندگی بھی اللہ کی دی ہوئی امانت ہے، اس کی حفاظت کرنا ہر فرد کی ذمے داری اور فرض ہے، اس لیے خودکشی کرنے والے کی بخشش نہیں ہوگی۔ ہر صاحب ِ منصب کے لیے ریاست ہو، کوئی کمپنی ہو یا کوئی ادارہ …اس کی ہر چیز کی حفاظت اور اس کو اپنے لیے استعمال نہ کرنا امانت داری ہے۔ اگر صاحبِ منصب اس سے تجاوز کرتا ہے تو وہ غداروں میں شامل ہوگا۔ اگر کسی شخص نے اپنی کوئی خامی یا کمزوری آپ سے بیان کی ہو، اس کو راز رکھنا امانت داری ہے۔ اگر دوسروں سے ذکر کیا گیا تو وہ چغل خوری میں شمار ہوتا ہے جو گناہِ کبیرہ ہے۔
آخر میں اس مقدس امانت کی پاسداری اور ذمہ داری کی بات کروں گا جو بحیثیت صاحبِ ایمان ہر فرد پر اور بحیثیت ملت ہم پر عائد ہوتی ہے جس کی پاسداری سے ہماری بقا مشروط ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجتہ الوداع میں ارشاد فرمایا ’’لوگو! میں تمہارے حوالے اللہ کی بخشی ہوئی کتاب قرآن اور اپنی شریعت کر رہا ہوں، جب تک تم اس پر عمل کرو گے کبھی رسوائی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
اس امانت کی پاسداری کا تقاضا ہے کہ قرآن پر لاریب ایمان لایا جائے، اس کو ترتیل سے پڑھا جائے، سمجھا جائے، اور اس پر من و عن عمل کیا جائے اور اس کے نفاذ کی جدوجہد کی جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! لوگوں سے کہہ دیجیے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو، اور اگر تم نے پہلو تہی کی تو اللہ انکار کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔‘‘ (سورۃ آل عمران)
آج مسلم امہ کی محرومی اور ذلالت کی بنیادی وجہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی امانت کی پاسداری سے غفلت ہے۔ ہر مسلمان حاملِ قرآن ہے مگر عاملِ قرآن نہ ہونے کی وجہ سے امانت میں خیانت کا مرتکب ہورہا ہے جس کی وجہ سے ذلت ورسوائی مقدر ہے۔
بھلا کر نصِ قرآنی یہود و نصرانی
شیاطینِ زمانہ کا یہ پیرو کار ہے آقا
مسلماں اس لیے ذلیل وخوار ہے آقا
ہم نے حواریوں کی طرح وعدہ کیا ہے کہ اللہ کے دین کی حفاظت کریں گے۔ اللہ نے ہمیں انصار اللہ اور حزبِ اللہ بنا کر بھیجا ہے والحافظون لحدوداﷲ۔
دورِ حاضر میں قاتل نے ہم پہ وار کیا
پھر بھی ہم نے اس پہ دل نثار کیا
اس کے بعد داغؔ کا یہ شعر ملاحظہ ہو:
غضب کیا تیرے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا