زندگی میں ہم سب نے بہت سے سفر کیے ہیں اور ہر سفر میں کچھ ہم سفر ہوتے ہیں اور سفر کا کوئی مقصد اور منزل ہوتی ہے۔ لیکن 29 جولائی 2024ء کو ہم نے ایک ایسا سفر کیا جس کا مقصد جہاد، اور منزل جنت تھی۔ ہمیں اپنے نظم کی ہدایت پر لاہور سے اسلام آباد تک کا سفر کرنا تھا، وقت بہت کم تھا اور ہمیں اسی میں ساری پلاننگ کرنا تھی۔ ساتھیوں کو دعوت بھی دینی تھی۔ اتوار ہونے کی وجہ سے اکثر افراد رابطے میں نہیں آرہے تھے۔ موسم کی شدت بھی مدنظر تھی اور سفر بھی طویل تھا، اور کچھ خطرات کا سامنا بھی تھا۔ ایک دفعہ جب دل ہچکچاہٹ پر آمادہ ہوا اور بہت سے شرعی عذرات تراشنے لگا تو غزوۂ تبوک کا پورا پس منظر آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔
’’اللہ کے ہاں تو انہی لوگوں کا بڑا درجہ ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جان و مال سے جہاد کیا، وہی کامیاب ہیں۔‘‘
’’تم نہ اٹھو گے تو خدا تمہیں دردناک سزا دے گا اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو اٹھائے گا، اور تم خدا کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘
بہت سے ساتھیوں نے سفر کی طوالت کی وجہ سے اور کچھ نے اجازت نہ ملنے کی وجہ سے معذرت کر لی۔ طویل سفر کا سن کر ایک دَم سے خیال اُس لمبے سفر کی طرف گیا جو سب کو تنہا اور اپنے کمائے ہوئے زادِ راہ پر کرنا ہے۔ دل نے کہا کہ یہ سفر اس لمبے سفر کے لیے زادِ راہ کمانے کا ایک ذریعہ ہے۔
اسی سوچ نے جسم میں ایک نئی طاقت بھر دی اور بالآخر 15 افراد پر مشتمل چھوٹا سا قافلہ تیار ہوگیا۔ اس قافلے کی سب سے بڑی خوب صورتی یہ تھی کہ اس میں 75 سال کی ایک ہمسفر سے لے کر چھ سال تک کے ہم سفر شامل تھے۔
یہ میری زندگی کا ایک یادگار سفر تھا جب صبح آٹھ بجے برستی ہوئی بارش میں چھ بسوں پر مشتمل یہ قافلہ رضائے خداوندی اور حق کو لبیک کہتے ہوئے روانہ ہوا۔ چار ساڑھے چار گھنٹے کا سفر آٹھ گھنٹے میں مکمل کرکے جب ہم اپنی منزل پر پہنچے تو جلسہ گاہ پانی سے بھرئی ہوئی تھی، تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔
پانی اور کیچڑ سے بھری حبس زدہ جلسہ گاہ مجھے جنت کا وہ راستہ محسوس ہونے لگا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’’جنت کا راستہ بہت دشوار گزار ہے، جنت جان و مال کا سودا ہے۔‘‘
امیر جماعت کی ایمان افروز تقریر سن کر اپنی بامقصد زندگی پر فخر محسوس ہوا اور اللہ کی ایک بہت بڑی حکمت پر قربان ہونے کو دل چاہا کہ اللہ نے ان کو کراچی کی میئرشپ شاید اس لیے نہیں دی کہ اُنہیں اس سے زیادہ بڑی اور بہتر جگہ پر کھڑا ہونا تھا، یعنی انسان بہتر طلب کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کو بہترین عطا کرنا ہوتا ہے، اور دنیا والے جہاں آپ کی کہانی ختم کرتے ہیں آسمان والا وہیں سے آپ کی ایک نئی کہانی شروع کردیتا ہے۔
دو گھنٹے جلسے میں ٹھیرنے کے بعد ہم نے واپسی کا سفر شروع کیا۔ آٹھ گھنٹے کے سفر کے بعد صبح چار بجے غازی بن کر واپس پہنچے۔ جی ٹی روڈ پر اٹھارہ گھنٹے کے سفر نے ایک بار پورے جسم کی ہڈیاں تو ہلا دیں مگر جذبوں کو اتنا توانا کردیا اور سفرِ جہاد کی ایسی چاشنی چکھائی کہ اس شعر کی سمجھ آگئی :
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی