کیا پاکستان ناکام ریاست ہے؟

232

سوالات:
1)کیا پاکستان بطور ریاست ناکام ہے؟اگر ہے تو کیوں؟
2)پاکستان کو کامیاب بنانے کے لیے عوام کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے؟خاص طور پر نوجوانوں کو؟
3)کن میدانوں میں عوام اپنے طور پر بہتری لا سکتے ہیں؟

افشاں نوید (ادیبہ، سابق پرنسپل جامعتہ المحصنات، بلاگر):
1)پاکستان کو بطور ریاست ناکام نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن ریاستی اداروں نے اسے کامیاب ریاست بنانے کے لیے کوئی جدوجہد نہیں کی۔ وہ لوگ جو ریاست کوآئینِ پاکستان کے مطابق چلانے کے پابند تھے انہوں نے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ پارلیمنٹ میں وہ لوگ گئے ہی نہیں جو عوام کے حقیقی نمائندے تھے۔ یہی حال عدلیہ اور انتظامیہ کا ہے۔ پاکستان کی سیاست جاگیرداری اور وڈیرا سسٹم سے باہر ہی نہیں آئی۔ اہل لوگوں کے ہاتھوں میں حکومت آئے تو ریاستی ادارے اپنا کام صحیح طرح کریں گے۔

2)پاکستان کو کامیاب بنانے کے لیے عوام کو یہی رول ادا کرنا ہوگا جو اس وقت بنگلہ دیش کے لوگ ادا کررہے ہیں کہ وہ سڑکوں پر نکل آئے ہیں کوٹہ سسٹم کے خلاف اور فاشسٹ حکومت کے خلاف۔ سینوں پر گولیاں کھا رہے ہیں۔ سیکڑوں شہادتیں ہوچکیں۔ فلسطین میں ہزاروں کی تعداد میں شہادتیں ہوچکیں، بستیاں مسمار ہیں، لیکن نہ وہ اسرائیلی ریاست کو ماننے پر تیار ہیں نہ اقوام متحدہ کے سامنے اپنے حقوق کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ ڈٹے ہوئے ہیں کہ حق زمانے میں دبنے کو نہیں آیا۔ گھروں میں بیٹھ کر نوحے پڑھنے، حکمرانوں کو برا کہنے، سوشل میڈیا پر ان کے خلاف مہم جوئی کرنے سے ریاست کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ یہ شعور عام کرنا ہوگا کہ ہم بحیثیت پاکستانی قوم نہ مظلوم پیدا کیے گئے ہیں، نہ مجبور، نہ ہمارے نصیب میں یہ دہائی لکھ دی گئی ہے۔ ہمیں اپنے حق کے لیے عملی جدوجہد کرنی پڑے گی۔ نوجوان تو کسی ملک کی اساس ہوتے ہیں۔ پاکستان کا نوجوان اس وقت بیدار اور زندہ دل ہے لیکن یہ جو مقتدر ٹولہ ہے، یہ نوجوانوں سے ان کی صلاحیتیں سلب کررہا ہے اور بس نوجوانوں کے لیے ایک یہ راستہ چھوڑ دیا ہے کہ وہ ملک سے باہر چلے جائیں۔ نوجوانوں کو یاسیت سے نکالنا اس وقت بزرگوں کی بھی ذمہ داری ہے اور میڈیا کی بھی۔

3) قربانی عوام ہی دے رہے ہیں، بہتری کی کوششیں عوام ہی اپنے زورِ بازو پر کررہے ہیں۔ ہم عوام ہی سوچتے ہیں کہ دو کے بجائے ایک روٹی کھا لیں۔ پنکھا بند کردیں اور اے سی نہ چلائیں۔ قربانی تو عوام ہی دے رہے ہیں۔ نہ تعلیم کی سہولت، نہ صحت کی۔ ہاں خواتین، جو برینڈز کی دیوانی ہورہی ہیں، قناعت کی زندگی گزاریں، لذتِ کام و دہن کو زندگی کا مقصد نہ بنائیں۔ سادگی کو شعار بنائیں۔ اصل سرمایہ کاری اپنی آئندہ نسل پر سرمایہ کاری ہے، اور وہ یہ نہیں کہ وہ بہت اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرلیں، بلکہ ہماری نسل کو مقصدِ زندگی، مسلمان اور پاکستانی ہونے کا شعور بھی ہے یا نہیں۔ یہ شعور دینا والدین بالخصوص ماں کی ذمے داری ہے۔ اصل میدان ہماری نسلِ نو کی درست سمت میں آبیاری ہی ہے، یہی باشعور عوام کی شکل میں بہت کچھ کر جائیں گے۔

ڈاکٹرعزیزہ انجم (فیملی فزیشن، شاعرہ و مصنفہ):
1) ’’پاکستان ایک ناکام ریاست ہے‘‘ یہ بیانیہ مختلف حلقوں کی جانب سے کبھی براہِ راست دیا جاتا ہے اور کبھی بالواسطہ۔ پاکستان میں معاشی ترقی کا گراف نیچے ضرور آیا، پاکستان نے ناکامیاں بھی دیکھیں، دولخت بھی ہوا مگر اس کے اصل محرکات پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے جس سے سیکھ کر آگے بڑھا جاسکتا تھا۔ پاکستان کا قیام کلمہ لا الٰہ پر ہوا، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ اب بھی پاکستان میں مسلمان آزادانہ اسلام پر عمل کرتے ہیں، تہذیبی طور پر بھی اسلام نظر آتا ہے اور نوجوانوں میں بھی شعور بڑھا ہے۔ آج بھی پاکستان بہترین ڈاکٹرز، انجینئرز مغربی دنیا میں بھیج رہا ہے وجہ کچھ بھی ہو۔ نا اہل حکومتوں اور ملکی مشکلات کے باوجود عوام کا معیارِ زندگی بہتر ہوا ہے۔ پاکستان ائرپورٹ میں داخل ہوتے ہی ایک مختلف ماحول نظر آتا ہے جو دیگر ملکوں خصوصاً مغربی ممالک میں نہیں ملتا۔ پاکستان کا اسلامی تشخص اسلامی آئینہ دار ہے اور یہی پاکستان کا امتیاز بھی ہے۔ پاکستان ناکام ریاست نہیں گو کہ کوشش یہی ہے کہ اسے ناکام بنایا جائے۔

2) ترقی پذیر ملکوں میں جبری حکومتوں نے عوام کا جینا محال کردیا ہے۔ یہ حکومتیں بالاتر قوتوں کے اشاروں پر ملکی مفاد میں پالیسیاں مرتب نہیں کر پاتیں۔ بہت ناامیدی کا احساس ہوتا ہے لیکن امید کی کرن اور روشن مستقبل کے امکانات یہاں کے نوجوان ہیں۔ نوجوانوں کو صحیح، ایمان دار سیاسی قوتوں کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے۔ اپنا وژن واضح رکھنا چاہیے، کسی کا آلۂ کار بنے بغیر ایمان داری سے ذمے داریاں ادا کریں تاکہ پاکستان کے وقار میں اضافہ ہو۔

3) عوام تمام قوانین کی پاسداری کریں، مالی بے ایمانی چھوڑدیں۔ ماحول کی صفائی کا انتظام اور منفی پروپیگنڈے سے اجتناب برتیں، اور سوشل میڈیا پر ایسے کسی پروپیگنڈے کو آگے نہ بڑھائیں۔

قانتہ رابعہ (ادیبہ، سماجی و فلاحی کارکن):
1۔ بطور ریاست ناکام تو نہیں لیکن اسے ناکام کرنے کی کوششیں اس کے قیام کے فوری بعد سے جاری ہیں۔ معاشی عدم استحکام، ثقافت کے میدان میں اندھی نقالی، چربہ فلمیں، ان کو حتی الامکان پُرکشش بنانا، بے مقصد رول ماڈل بنانا، عدم استحکام کی کوشش، انتخابات میں دھاندلی، میرٹ کی دھجیاں اڑانا جیسی ناکامی کی لاکھوں کوششوں کے باوجود اہداف حاصل نہیں ہوسکے۔ ریاست کے تینوں ستون پارلیمنٹ، عدلیہ اور فوج اپنا قانونی اور آئینی رول ادا نہیں کرسکے۔ اسٹیبلشمنٹ کی مخصوص کارکردگی ہماری ریاست کے انتشار کی اہم وجہ ہے۔
2) عوام منظم ہوں، انہیں شعور ہونا چاہیے اپنے حقوق کا۔ بدقسمتی سے انہیں ان کے داخلی اور خارجی مسائل میں اتنا غرق کردیا گیا ہے کہ گھر میں ہوں تو بجلی، پانی، گیس کی بندش، پھر ان کے بلوں میں ہوشربا اضافہ، ذرائع آمدن محدود، اخراجات لامحدود، تو عوام جنہیں گھر کی زندگی میں سکون نہیں وہ کیا کریں! جنہوں نے اسلام مخالف کسی بھی ازم کا مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ ان کا بنیادی نکتہ ہی عوام کو حکمرانوں کی کارکردگی پر انگلی اٹھانے سے روکنے کے لیے نت نئے مسائل کے پھندے میں پھنسانا ہے۔

مقابلے کی دوڑ میں ایک طبقہ آنکھیں بند کر کے دوڑ رہا ہے، اس کا ایک ہی ہدف ہے کہ وہ سب سے آگے نکل جائے۔ پہننے والے کپڑے ہوں یا جوتے، موبائل فون ہوں یا گاڑی، اسے ہر صورت میں جدید ماڈل چاہیے تو وہ باقی سب کے مسائل سے لاعلم ہے، اور ایک طبقہ ایسا ہے جسے دو وقت کی روٹی کے لیے خون پسینہ ایک کرنا پڑتا ہے۔ جامن یا امرود کے ٹھیلے والا دن میں کتنا کمالے گا؟

دو وقت کی روٹی سے زیادہ بجلی، گیس کے بل اور ادویہ کی مہنگائی غریب کا کچومر نکال رہی ہے۔

روٹی چھوڑی جاسکتی ہے، دوا تو لینا ہی ہے۔ جب میڈیکل اسٹور پر جاؤ تو ان کی قیمتیں مزید بڑھ چکی ہوتی ہیں۔ عوام بیچارے کیا کریں … ٹھنڈا پانی پی مریں! انہیں یہ ٹھنڈا پانی ٹی وی اور سوشل میڈیا پر مزاحیہ پروگرام کی صورت میں پلایا جاتا ہے۔ عوام کے سنگین مسائل وہاں ہنستے ہوئے بیان کیے جاتے ہیں اور پھکڑ جملوں میں ان مسائل کو مصنوعی قہقہوں میں اُڑایا جاتا ہے۔ ایک آدھ بات پر یا مسئلے پر دیکھنے والے عوام بھی ہنس پڑتے ہیں۔ لیں جی سڑکوں پر ہونے والا ردعمل تو سامنے آگیا۔ کتھارسس ہوگیا۔ اس کے بعد دو چیتھڑوں میں پھنسی اداکاراؤں اور اداکاروں سے ان کی محبت کے قصے سنے جاتے ہیں۔ ’’آپ کا کرش، کون تھا؟‘‘ جیسے سوال پر عوام بھی دھیان دینے لگ جاتے ہیں۔ گستاخی معاف، سچ پوچھیں تو قصور ہے ہی عوام کا، جنہوں نے عوام کالانعام بن کے دکھا دیا۔

3) ہر شعبے میں بہتری لائی جاسکتی ہے، کسی ایک شعبے کو ہدف بنائیں تو سہی، لیکن نوجوانوں کے امور پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بنیادی اخلاقی اقدار کی پابندی لازم قرار دی جائے۔ حکمرانوں یا عہدیداروں کی بدمعاملگی پر فوری ردعمل دیا جائے۔

سیما رضا داد (براڈ کاسٹر، منیجر کانٹنٹ جیو انٹرٹینمنٹ، کنسلٹنٹ یونیورسٹی):
1) پاکستان بطور ریاست ناکامی کی طرف بڑھ رہا ہے، کیوں کہ آپس میں نظریاتی اختلافات کی سرحدیں بہت پختہ ہیں، جو اس کو ناکام بنارہی ہیں۔ دراصل پاکستان سے محبت اور اس کا اعتراف کرنا بہت صبر آزما مرحلہ ہے۔ اچھے خاندان جن کا شمار دولت مندی میں نمایاں ہے، اُن کے نزدیک حب الوطنی کچھ نہیں، صرف اعلیٰ تعلیم بچوں کو دلا کر باہر سیٹ کرنا ہے اور خود ان سے ملنے کے لیے لاکھوں روپے خرچ کردیتے ہیں۔ توکیا ریاست ناکام نہیں ہوگی؟ اب پاکستان ترجیج نہیں، اسٹیٹس سب کچھ ہے۔ پاکستان سے مخلص صرف ہمارے اکابرین تھے۔ ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آج کی نسل کو ان قربانیوں کا احساس نہیں دلایا جا رہا جو پاکستان بنتے وقت نئے وطن کی خواہش میں دی گئی تھیں۔

ملی نہیں ہے ارض پاک تحفے میں
جو لاکھوں دیپ بجھے ہیں تو یہ چراغ جلا

2) عوام کا کردار بہت اہم ہے۔ وہ اگر ایک صف میں کھڑے ہوجائیں، گروہ بندی نہ کریں اور ایک نظرے پہ مستحکم ہوجائیں تو کچھ مشکل نہیں، لیکن باعمل ہونا پڑے گا۔

3) تعلیمی اداروں میں میڈیا چینلز سوشل میڈیا کے ذریعے اور یوٹیوبرز بھی اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ پوڈکاسٹ کے ذریعے اچھے کامیاب لوگوں کے انٹرویو کریں تو سب کچھ ممکن ہے۔

سلیس سلطانہ چغتائی ( براڈ کاسٹر، ادیبہ):
1) پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے جس کی بنیاد قرآن اور سنت پر عمل کرنا ہے۔ قرآن میں اللہ نے وقت کی قسم کھائی ہے، وقت جو سب سے قیمتی شے ہے، وقت کی بے نیازی اور بربادی پاکستانی قوم کا المیہ ہے۔ اس میں حکمران اور عوام دونوں شامل ہیں۔ ریاست عوام اور حکمرانوں کا مجموعہ ہوتی ہے، اگر دونوں اپنا اپنا کام بروقت انجام دیں تو کامیابی ممکن ہے۔ پاکستان ناکام ریاست نہیں مگر غیر ذمے داری اسے ناکام ریاست بنا سکتی ہے۔

2) نوجوان کسی بھی قوم کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کے نوجوان ہنرمند اور باصلاحیت ہیں مگر ہماری نئی نسل اپنی تمام صلاحیتوں کو بے ایمانی، رشوت خوری اور موبائل میں غرق رہنے میں ضائع کررہی ہے۔ اوّل تو تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنی صلاحیتیں آزمانے کا موقع نہیں ملتا اور اقربا پروری کی مرہونِ منت انہیں آگے نہیں بڑھنے دیا جاتا۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ سب سے پہلے ایسی دیانت دار قیادت منتخب کریں جو ان کی طاقت کو سمجھے اور ان کی صلاحیتوں کو زنگ آلود ہونے سے بچا سکے۔ نوجوان اپنی صلاحیتوں کو منفی سرگرمیوں سے دور رکھیں۔ مسجدوں کو آباد کریں اور اخلاقیات پہ توجہ دیں۔

3) عوام اکثریت کا نام ہے اور اس میں ہم سب شامل ہیں۔ سب سے پہلے میڈیا کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ میڈیا کی وجہ سے پھیلتے منفی اثرات سے میڈیا کو خود کوئی فرق نہیں پڑتا، اصل فرق تو معاشرے کو پڑتا ہے۔ خواتین کو گھریلو حالات اور آمدنی کو دیکھ کر اخراجات کرنے چاہئیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بچت کرکے اپنے ملک کو آئی ایم ایف کے قرضوں سے بچائیں، عوام اسراف سے بچیں اور سادگی کو اپنائیں، بچوں کی تربیت میں قرآن و سنت کا خیال رکھیں۔ حکمرانوں کو بھی بیرونِ ملک کے دورے کم کرنے چاہئیں۔ جو وزرا ان دوروں میں حاکمِ وقت کے ساتھ شامل ہوں وہ اپنے اخراجات خود برداشت کریں، عوام کا پیسہ اپنی اور اپنے خاندان کی تفریحات پر ضائع نہ کریں۔

راحت شاہد (لیکچرر، سوشل ورکر):
1) بطور ریاست پاکستان ناکام نہیں ہے، یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کی غلط پالیسیوں، اختیارات کے بے جا استعمال اور عوام پر مسلط غلط فیصلوں نے ریاست کو ناکامی کی جانب دھکیل دیا ہے جوکہ وقتی ناکامی ہے۔ دین کی سمجھ بوجھ رکھنے والے، تعلیم یافتہ اور مخلص لوگوں کے ہاتھ میں اگر ملک کی باگ ڈور ہو تو جنوبی ایشیا کا یہ خطہ بہترین ریاست کے طور پر ابھرے گا۔

2) ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے قوم کا اپنے ملک سے مخلص ہونا ضروری ہے۔ کسی بھی تحریک کو کامیاب کرنے اور آگے بڑھانے میں نوجوانوں نے ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا۔ اب بھی نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے شعبوں میں مہارت حاصل کریں اور اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاکر پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ مطمح زندگی صرف پیسہ کمانا نہ ہو بلکہ دوسروں کی بھلائی، ترقی اور تعمیرِ پاکستان کے لیے کام ہو۔

3) سب سے پہلے تعلیم کے میدان میں بہتری کی ضرورت ہے۔ آج سرکاری اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں ناکام نظر آتی ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں سہولیات ناپید ہیں، اب ہر چیز بشمول تعلیم پیسوں کے عوض دی جا رہی ہے۔ اگر عوام نجی اداروں کے بجائے سرکاری اداروں کو ترجیح دیں اور اپنا حق مانگیں تو یقینی طور پر نہ صرف تعلیم کا تناسب بڑھے گا بلکہ معیار بھی بہتر ہوگا۔ علاوہ ازیں صحت کے تمام اداروں پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ تعلیم یافتہ اور صحت مند معاشرہ ہی ملک کی تعمیری تشکیل میں مددگار ہوتا ہے۔

سروے سے یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان کامیاب ریاست تو نہیں مگر اسے ناکام بھی نہیں کہا جا سکتا۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے پے در پے حالات و واقعات، ناکامی کا سامنا، عدم معاشی اور سیاسی استحکام، بدعنوانیوں اور بہت سے دیگر عوامل نے بطور ریاست پاکستان کو کمزور کیا اور اس کے وجود و تشخص پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ پاکستان کے ہاتھ سے اب بھی کچھ نہیں گیا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اداروں سمیت ہر خاص و عام کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا اور ازسرِنو جائزہ لے کر اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا۔ دیانت اور ہوش مندی کا تقاضا ہے کہ ایسے فیصلے کیے جائیں جو ملکی تشخص کے لیے اہم ہوں، یہی وقت کی ضرورت ہے۔

حصہ