آزادی کی قیمت

72

وہ لائبریری میں بیٹھی ایک کتاب پڑھنے میں مشغول تھی۔ صبح وہ امی کو بتا کر آئی تھی کہ آج وہ کالج سے لائبریری جائے گی تاکہ اپنے مضمون ”قیامِ پاکستان اور مہاجرین“ کے لیے معلومات اکٹھی کرسکے۔ لائبریری میں آکر اس نے قیام پاکستان کے موضوع پر چند کتابیں منتخب کیں اور انہیں لے کر ایک میز پر بیٹھ کر پڑھنے لگی۔ پڑھتے پڑھتے نادیہ کی آنکھیں بند ہونے لگیں اور وہ میز پر سر ٹکا کر سو گئی۔

ٹرین کی تیز سیٹی کی آواز سے نادیہ کی آنکھ کھلی۔ اس نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا اور حیرت زدہ رہ گئی۔

”میں یہاں کیسے آگئی؟“ نادیہ نے سوچا۔

وہ ایک ٹرین میں کھڑی تھی اور ٹرین کی حالت کے ساتھ ساتھ ٹرین میں سفر کرنے والے لوگوں کی حالت بھی بہت خراب تھی۔ ٹرین میں لوگ کچھا کھچ بھرے تھے۔ مسافر اس قدر بدحال تھے کہ اسے وحشت ہونے لگی اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہے اور وہ کیسے یہاں پہنچی؟ وہ حیران نظروں سے ادھر ادھر دیکھ ہی رہی تھی کہ اچانک اس کے برابر میں کھڑے ایک ضعیف آدمی نے اس کی دگرگوں حالت دیکھتے ہوئے کہا۔

”ارے بٹیا ! تم یہاں کہاں مردوں میں کھڑی ہو، جائو جا کر خواتین میں بیٹھو۔“ اس بات پر سامنے کی سیٹوں پہ بیٹھی خواتین نے اس کے لیے جگہ بنائی۔ نادیہ کسی طرح گھس کر وہاں بیٹھی تو اس نے لوگوں پہ غور کیا۔ اس کے سامنے جتنے بھی لوگ تھے سب زخموں سے چور تھے۔ کسی کا ہاتھ ٹوٹا ہوا تھا تو کسی کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔

معصوم بچوں کے چہروں پہ لکھا تھا کہ وہ بھوک سے نڈھال تھے۔ ان کے کپڑے مٹی میں اٹے ہوئے تھے۔ دو خواتین کی گود میں بچے تھے اور ایک بچہ بری طرح رو رہا تھا۔

”اسے کیا ہوا ہے؟“ نادیہ نے پوچھا۔
”جب ہم گھر سے نکل رہے تھے تو بلوائیوں نے حملہ کردیا ہم نے اپنا سامان راستے میں چھوڑا اور بڑی مشکل سے جان بچا کر بھاگے۔ اس دوران یہ میری گود میں تھا جب میں بھاگتے ہوئے گری تو یہ میری گود سے نکل کر دور جاگرا، بس اللہ کا احسان ہے کہ اس کی جان بچ گئی۔“ یہ کہہ کر وہ عورت بچے کو پچکارنے لگی۔

نادیہ نے ایک اور بچہ دیکھا جو سکتے کی سی حالت میں فرش پہ بیٹھا تھا۔ اس کے مٹی زدہ چہرے پہ آنسوئوں کی لکیریں جم گئی تھیں۔ اس عورت نے اس بچے کے متعلق بتایا کہ اس بچے کا نام احمد ہے اس کا سارا خاندان بلوائیوں کے حملے میں شہید ہوگیا تھا۔ یہ جھاڑیوں میں چھپ گیا تھا تو بچ گیا۔ ہمیں راستے میں لاشوں کے پاس بیٹھا روتا ملا تو ہم اسے بھی ساتھ ہی لے آئے۔ نادیہ کو اس پر بے تحاشہ ترس آیا۔ نادیہ نے اسے اپنے ساتھ بٹھا لیا اور دوپٹے سے اس کا چہرہ صاف کرنے لگی۔ بچہ بلک بلک کر رونے لگا۔

”مجھے امی کے پاس جانا ہے، آپا! مجھے امی کے پاس لے چلو۔“ اس نے ہچکیوں کے درمیان کہا۔

نادیہ نے اسے تسلی دی اور پیار سے اسے سہلانے لگی تو احمد سونے لگا۔ اچانک ٹرین میں عجیب سا شور مچ گیا۔

” درندے گھس آئے ہیں۔ بچوں کو سیٹوں کے نیچے چھپادو، جلدی کرو۔“ نادیہ کے کانوں میں کسی کی آواز پڑی۔

نادیہ کے ساتھ بیٹھی عورت نے جلدی سے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کو برتھ کے نیچے دھکیلنے لگی نادیہ خوف سے سمٹ کر اندر گھسی اور ساتھ بچوں کی جگہ بنانے لگی۔ اچانک بھگدڑ مچی اور لوگ گرنے لگے۔ نادیہ برتھ کے نیچے سے دیکھ رہی تھی اس کے منہ سے بے اختیار چیخ نکلی۔ اسی وقت ایک ہیبت ناک شخص جھک کر اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے گھسیٹنے لگا نادیہ خوف سے چیخ رہی تھی۔ اس کی چیخوں کی وجہ سے اس شخص نے اپنے ہاتھ میں موجود بیلچہ نادیہ کے سر پر دے مارا۔ ضرب اتنی شدید تھی کہ نادیہ کا دماغ فوراً ہی تاریکی میں ڈوبتا چلا گیا۔

نادیہ کی آنکھ کھلی تو وہ ٹرین کے فرش پہ لیٹی ہوئی تھی۔ اس نے ہمت کرکے بیٹھتے ہوئے ادھر اُدھر دیکھا تو سکتہ میں آگئی۔ اس کی نظروں کے سامنے لاشیں ہی لاشیں تھیں۔ کچھ دیر پہلے جو لوگ پاکستان جانے کے لیے پرجوش تھے، اب اپنے مالک کے پاس پہنچ گئے تھے۔ نادیہ ہمت کرکے اٹھی اور ایک ایک کو ہلانے لگی۔ پھر اس کی نظر احمد پر پڑی۔ وہ زخموں سے چُور تھا لیکن زندہ تھا اور زمین پر ہاتھ پیر ماررہا تھا۔نادیہ نے اس کا سر اپنی گود میں رکھا اور اس کا ننھا ہاتھ پکڑ کر بیٹھ گئی۔ اس کی حالت دیکھ کر نادیہ کا دل پھٹا جارہا تھا۔ اسے اپنی بے بسی پر بےتحاشا رونا آرہا تھا کہ وہ اس بچہ کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتی تھی اس نے اپنے آنسو چھپانے کے لیے اپنا چہرہ گٹھنوں میں چھپا لیا۔

ایک دم اس بچے کی گرفت اس کے ہاتھ پر سے ڈھیلی ہوگئی۔ نادیہ نے سر اٹھا کر دیکھا تو اس بچہ کی معصوم آنکھیں ویران ہو چکی تھیں۔ نادیہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی، روتے روتے اس نے نڈھال سی ہوکر برتھ سے سر ٹکا دیا۔ اچانک ٹرین کو زوردار جھٹکا لگا۔ نادیہ کا سر بہت زور سے برتھ سے ٹکرایا۔ درد کی ایک تیز لہر اس کےسر میں دوڑ گئی۔ تکلیف اور کمزوری سے جلد ہی وہ بے ہوش ہوگئی۔
…٭…
اس بار نادیہ کو ہوش آیا تو وہ لائبریری میں بیٹھی تھی اور اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ وہ گھڑی دیکھتے ہوئے ہمت کر کے اٹھی اور کتابیں لائبریرین کو واپس کر کے لائبریری سے باہر نکل آئی۔ اب وہ اپنے مضمون میں مہاجرین کی پاکستان آمد کا آنکھوں دیکھا حال لکھ سکتی تھی۔

حصہ