نیاز مندانِ کراچی نے کینیڈا میں مقیم شاعرہ فاطمہ زہرہ جبیں کے شعری مجموعے ’’خوشبو جیسا دل‘‘ اور ’’فغانِ شب‘‘ کی تعارفی تقریب اور مشاعرہ آرگنائز کیا۔ اس پروگرام کے دو حصے تھے پہلے دور میں شعری مجموعے کی تعارفی تقریب تھی جس کی صدارت پروفیسر سحر انصاری نے کی۔ فراست رضوی مہمان خصوصی تھے۔ فیاض علی فیاض اور محمد سلیم ایڈووکیٹ مہمانانِ اعزازی تھے۔ حمدیہ کلام ابرار حسین اور صاحبزادہ عتیق الرحمن نے نعت رسولؐ پیش کی۔ تنویر سخن نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ نیاز مندانِ کراچی نے آج بہت عمدہ پروگرام ترتیب دیا ہے۔ قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کرنا اس ادارے کا منشور میں شامل ہے۔ فاطمہ زہرہ جبیں کے ہائیکوز کا مجموعہ ’’خوشبو جیسا دل‘‘ اور غزلیات کا مجموعہ ’’فغانِ شب‘‘ پڑھنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ ان کی غزلیں ان کی فکر کا ایسا سرمایہ ہیں جس میں ان کی شخصیت کے شب و روز داخلی اور خارجی کیفیات جلوہ گر ہیں‘ وہ دیارِ غیر میں اردو زبان کی سفیر ہیں۔ انہوںنے ہائیکوز میں بھی اپنی مہارت کی دھاک جمائی ہے۔ ان کی شاعری عوامی شاعری ہے جو دلوںمیں باآسانی اتر جاتی ہے۔
رونق حیات نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ کراچی میں اس وقت روزانہ کی بنیاد پر کئی کئی ادبی تقریبات ہو رہی ہیں۔ مشاعرے ہماری روایت ہیں ہماری قومی زبان اردو ہے جو کہ ترقی کی منازل طے کر رہی ہے لیکن ہم اردو کو قومی زبان کے طور پر رائج کرنے سے گریزاں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہائیکو ایک جاپانی صنفِ سخن ہے جو کہ اردو میں بھی رائج ہو چکی ہے۔ پاکستان میں ہائیکوز کے مشاعرے ہو رہے ہیں۔ آج ہماری مہمان شاعرہ فاطمہ زہرہ جبیں کا ہائیکو کا مجموعہ بھی موضوعِ گفتگو ہے اور ان کی غزلوں پر بھی بات ہوگی۔ ان کی شاعری کی تمام صفات بیان کی جائیں گی۔ انہوں نے اپنی صحافتی زندگی میں نمایاں کام کیے ہیں۔ ان کی شاعری کا ارتقائی سفر جاری ہے تاہم وہ اس وقت بھی ایسے اشعار کہہ رہی ہیں جو ہمارے ذہن و دل پر دستک دے رہے ہیں‘ ان کی غزلوں میں جدید اور قدیم اردو زبان کی چاشنی موجود ہے۔
ڈاکٹر نزہت عباسی نے کہا کہ فاطمہ زہرہ جبیں کی شاعری میں توانائی ہے ان کے اشعار غنائیت سے بھرپور ہیں انہوں نے نثری نظمیں بھی کہی ہیں۔ ان کے کلام میں غزل کی روایتی جھلک بھی موجود ہے تاہم جدید لفظیات بھی نظر آتی ہیں۔
سلمان صدیقی نے کہا کہ ’’فغانِ شب‘‘ اور ’’خوشبو جیسا دل‘‘ فاطمہ زہرہ جبیں کی وہ کتابیں ہیں جو بہترین شاعری سے مزین ہیں‘ ان کے اشعار سچائیوں سے بھرپور ہیں‘ وہ زندگی کے تمام رویوں پر قلم اٹھا رہی ہیں۔ وہ ایک تہذیب آشنا شاعرہ ہیں‘ ان کے اشعار میں انسانی جذبات کی تصویریں ہیں‘ میں انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
فراست رضوی نے کہا کہ مشاعرہ ایک ایسا میڈیم ہے جو کہ زبان و ادب کی ترقی کا حصہ ہے‘ یہ ادارہ ہماری تہذیب کا آئینہ دار ہے۔ مشاعرے کی اپنی روایات ہیں جن کی پاسداری کرنا ہمارا فرض ہے لیکن اب مشاعرہ ورائیٹی پروگرام بن گیا ہے۔ مشاعرے کی روایات دم توڑ رہی ہیں۔ اب شاعری میں موجودہ دور کے تمام مسائل آگئے ہیں‘ اب بامقصد شاعری ہو رہی ہے‘ گل و بلبل کے قصے شاعری سے ختم ہو گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ فاطمہ زہرہ جبیں صحت مندانہ شاعری کر رہی ہیں‘ ان کے کلام میں بانکپن‘ آگہی‘ گہرائی اور گیرائی موجود ہے‘ انہیں لفظیات برتنے کا ڈھنگ آتا ہے‘ ان کی غزلیں خوب صورت الفاظ کا شاہکار ہیں‘ وہ اپنے احساسات و جذبات بیان کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔ نسیم نازش نے کہا کہ فاطمہ جبیں نے انتہائی دل کش انداز میں اشعار کہے ہیں‘ وہ دھیمے لہجے میں بڑی سے بڑی بات کہہ جاتی ہیں‘ انکی غزلوں کا محور انسانی نفسیات ہے۔ غم‘ خوشی‘ بے کیفی‘ مسکراہٹ‘ آنسو‘ لذتِ درد اور بے ساختگی ان کی غزلوں میں اس طرح در آئی ہیں کہ پڑھنے والا ان کے ہر شعر کو اپنے دل کی آواز سمجھتا ہے۔
پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ فاطمہ زہرہ جبیں کی شاعری میں زندگی رواں دواں ہے‘ ان کے اشعار میں زندگی کے عنوانات معاشرتی کرب کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ وہ عمدہ زبان و ادب کے ساتھ شاعری کر رہی ہیں‘ ان کی غزلوں مجموعہ بہترین شاہکار ہے۔
فاطمہ زہرہ جبیں نے آن لائن گفتگو کرتے ہوئے نیاز مندانِ کراچی کا شکریہ ادا کیا اور تمام سامعین کو اپنی شاعری سے نوازا۔ انہوں نے مزید کہا کہ فکر و جذبات‘ لیل و نہار‘ روایات‘ اقدار‘ خواب اور معاشرتی رویوں کا بیان کرنا شاعری کا نصاب ہے۔
اس نثری دور کے بعد مشاعرہ ہوا جس کی مجلسِ صدارت میں ڈاکٹر اقبال پیرزادہ اور فیاض علی شامل تھے۔ سلمان صدیقی اور راقم الحروف ڈاکٹر نثار مہمانانِ خصوصی تھے اس مشاعرے میں ڈاکٹر اقبال پیرزادہ‘ فیاض علی فیاض‘ سلمان صدیقی‘ ڈاکٹر نثار‘ رونق حیات‘ ریحانہ احسان‘ احمد سعید خان‘ رانا خالد محمود‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ یاسر سعید صدیقی‘ شہناز رضوی‘ صاحبزادہ عتیق الرحمن‘ چاند علی چاند‘ سلمیٰ رضا سلمیٰ‘ کشور عروج‘ ہما ساریہ‘ تنویر سخن اور زوہیب خان نے اپنے اشعار سنائے۔ زہیب خان نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمام حاضرینِ مِحفل کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جن کی وجہ سے آج کا پروگرام کامیاب ہوا۔ اس کے ساتھ وہ فاطمہ جبیں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ ان کی شاعری نے مشاعرے کو چار چاند لگا دیے‘ انہوں نے بہت عمدہ غزلیں سنائیں اور بہترین ہائیکوز سے ہمیں نوازا۔ وہ اپنی مجبوریوں کے سبب فزیکلی طور پر آج کی محفل میں شریک نہ ہوسکیں لیکن آن لائن وہ اس تقریب میں شامل ہوئیں۔