بہر حال پوپ اور بادشاہ دونوں باطنی علوم کے مخالف ہو گئے اور چودھویں صدی سے طریقت کمزور پڑنے لگی، جس شخص کی زبان پر حضرت ابن عربی کا نام آجاتا تھا اسے فور اگر فتار کر لیا جاتا تھا، کہتے ہیں کہ جو معدودے چند متصوفین یورپ میں بچے تھے وہ اٹھارویں صدی کے وسط میں ہجرت کر گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائیوں کے پاس محض ” ظاہری ” علوم رہ گئے اور دین کا باطنی پہلو بالکل ختم ہو گیا۔دین کے یہ ظاہری علوم بھی صرف رومن کیتھلک لوگوں کے پاس رہ گئے ہیں اور یہ بھی روز بروز زوال پذیر ہیں۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ ازمنہ وسطیٰ کے دینی فکر میں ایسی کیا کمزوریاں تھیں جن کی وجہ سے جدیدیت ” بڑی آسانی سے عیسائیت پر غالب آگئی اور گمراہیاں بڑھتی ہی چلی گئیں اور مغرب کا ذہن مسخ ہوتا چلا گیا:-1 عیسائیت دنیا کا واحد مذہب ہے جس میں دینی رہنماو ¿ں کی تنظیم حکومت کے انتظامی شعبوں کی طرح کی گئی تھی۔ روم کا کلیسا قائم ہی ہوا تھا رومی سلطنت کے نمونے پر۔ جس طرح یہ نا ممکن ہے کہ حکومت کے محکموں میں تھوڑی بہت خرابیاں پیدا نہ ہوں، اسی طرح کلیسا کے عہدے داروں میں بھی اخلاقی خرابیاں آگئیں۔ پہلے تو لوگوں نے اصلاح کا مطالبہ کیا۔ یہ ایک طرح کی سیاسی بحث تھی ، لیکن آخر اعتقادات میں بھی تبدیلی شروع ہو گئی اور پروٹسٹنٹ مذہب نمودار ہوا جو دراصل ”جدیدیت “ کی بنیاد ہے۔-2 پوپ اور بادشاہوں کے درمیان اقتدار کے جھگڑے ہونے لگے اور بہت سے بادشاہوں نے پروٹسٹنٹ تحریک کی حمایت کی۔ اس سیاسی کشمکش نے کلیسا کو کمزور کردیا اور پروٹسٹنٹ ملکوں میں تو کلیسا بادشاہوں کا غلام بن گیا۔-3 کلیسا نے باطنیت کی سخت مخالف کی۔ چنانچہ سولہویں صدی کے آخر تک عیسائیت میں صرف ظاہر ہی ظاہر رہ گیا۔ گویا عیسائیت کی جان ہی نکل گئی۔-4ازمنہ وسطیٰ کے دینی مفکر فلفے کو دین کے تابع تو ضرور رکھنا چاہتے تھے ، لیکن ان کے یہاں تفلسف اور عقلیت کا رنگ خاصا نمایاں تھا یہی رحجان آگے چل کر اتنا بڑھا کہ دین سے آزاد ہونے کا دعویٰ کرنے لگا۔-5یونانی فلسفے کی طرح ازمنہ وسطی کی الہیات بھی ”وجود ” کی منزل سے آگے نہیں جاسکی۔ یعنی ان مفکروں کو مکمل تنزیہ کبھی حاصل نہیں ہو سکی۔ اسی لیے وہ تنزیہ اور تشبیہ کے درمیان امتیاز قائم نہیں کر سکے۔ تشبیہ سے گر کر ”فطرت پرستی“ میں پڑ جانا بالکل آسان ہے جو آگے چل کر ہوا۔ -6سینٹ ٹامس اکو ائناس نے عیسوی دینیات کو ارسطو کے فلسفے پر اس طرح قائم کیا تھا کہ ارسطو عیسوی دینیات کا انکار ہے۔ سولہویں صدی کے آخر میں یہی ہوا۔ کو پرٹیکس اور کیپلر نے بطلیموسی نظام سے انحراف کیا تو عیسائیت کی دنیا میں زلزلہ آگیا۔ سترھویں صدی کے شروع میں تیلی لیونے سائنس کے دو ایک نئے اصول دریافت کیے تو ان کی رد بھی عیسوی دین پر نہیں بلکہ ارسطو پر پڑتی تھی۔ لیکن لوگ یہی محسوس کرتے تھے کہ ارسطو گیا تو عیسوی دینیات بھی گئی اور جب لوگوں کو ارسطو کی طبیعات پر شک پیدا ہوا تو ساتھ ہی عیسائیت پر بھی ایمان کمزور پڑ گیا۔ Form ہے تو ایک بے ضرر سا لفظ لیکن اس لفظ نے گمراہی کو ترقی دینے میں بڑی آسانیاں فراہم کی ہیں۔ افلاطون نے کہا ہے کہ کائنات میں جتنی چیزیں ہیں ان کا نمونہ عالم مثال میں موجود ہے۔ اس نمونے کو وہ عین ” کہتا ہے اور حقیقت اسی “عین ” کے اندر سمجھتا ہے، مادی شے میں نہیں۔ ازمنہ وسطی کی الیسات اور فلسفے میں ”عین “ کے لیے لفظ Form استعمال کیا گیا۔ ان لوگوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ مادی چیز نہیں ہے، مگر اس لفظ کے معنی ہیں۔ صورت۔ چنانچہ یہ لفظ سب سے پہلے کسی مادی چیز کا تصور پیش کرتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ اس لفظ کا اصلی مفہوم تو غائب ہونے لگا اور مادی مفہوم غالب آتا گیا۔ اس طرح مادیت کے نشو و نما میں اس لفظ نے بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔
نشاءۃ ثانیہ: جدیدیت کا آغاز
عام طور سے یورپ میں مشہور ہے کہ نئی دنیا ” یعنی جدیدیت کا آغاز ۱۴۵۳ء سے ہوتا ہے جب ترکوں نے تطنطنیہ فتح کیا اور یونانی عالم اپنی کتابیں لے کر وہاں سے بھاگے اور سارے یورپ میں پھیل گئے۔ انہوں نے یونانی علوم یورپ والوں کو پڑھائے۔ اس دور کو ” نشاءۃ ثانیہ “ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یونان اور روم کے زوال کے بعد یورپ کا ذہن گویا مر گیا تھا اور ہزار سال تک مدفون رہا۔ پندرھویں صدی میں جب یونانی علوم پھیلے تو مغرب کا ذہن دوبارہ پیدا ہوا۔ یہ بیان سرا سر غلط ہے۔ یونانی علوم ازمنہ وسطیٰ میں بھی رائج تھے ، مگر انہیں ثانوی حیثیت دی جاتی تھی ، سب سے بڑا درجہ دینی علوم کا تھا پندرہویں صدی میں سب سے اونچی جگہ یونانی علوم کو دی گئی۔ یہ علوم وحی پر مبنی نہیں تھے ، بلکہ عقلی تھے۔ دوسرے یونانی علوم میں ہر مسئلے پر انسانی نقطہ نظر سے غور کیا جاتا تھا اور انسان ہی کو کائنات کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ کا اصلی مطب ہے وحی پر مبنی اور نقلی علوم کو بے اعتبار سمجھتا اور عقلیت اور انسان پرستی اختیار کرنا۔ اسی لئے اس تحریک کا دوسرا نام ’’انسان پرستی‘‘ (Humanism) بھی ہے۔ چونکہ نیا دور اسی زمانے میں شروع ہوتا ہے اور جدیدیت کے خد و خال نمایاں ہونے شروع ہوتے ہیں، اس لئے اس دور کی فکری اور عملی خصوصیات پیش کی جاتی ہیں۔
-1یونانی علوم کو دینی علوم پر ترجیح دینا۔
-2انسان پرستی۔۔۔ یعنی انسان کو موجودات میں سب سے اہم سمجھنا اور ہر بات پر انسان کے نقطہ نظر سے غور کرنا۔
-3 چونکہ عوام مذہبی رنگ میں رنگے ہوئے تھے، اس لیے عموماً خدا کے وجود سےانکار نہیں کیا گیا، لیکن خدا پر ایمان محض ایک رسمی چیز بن گیا۔
-4آخرت سے بھی انکار نہیں کیا گیا۔ لیکن ایک بہت بڑا فرق پیدا ہوا۔ ازمنہ وسطی کے لوگ کہتے تھے کہ اصل حقیقت تو آخرت ہی ہے، یہ دنیا محض قریب ہے اب لوگ کہنے لگے کہ آخرت بھی حقیقی ہے اور یہ دنیا بھی حقیقی ہے۔
-5 آخرت چونکہ نظر نہیں آتی اس لیے کہا گیا کہ آخرت کی فکر میں گھلتا بیکار ہے مرنے کے بعد دیکھا جائے گا۔ دنیا نظروں کے سامنے ہے، پہلے اس کا بندوبست کرو۔ اس رجحان کی بہترین مثال انگریز فلسفی بیکن ہے جسے ’’سب سے پہلا جدید مفکر‘‘ کہا جاتا ہے۔
-6یہ خیال بھی اس زمانے میں بہت مقبول ہوا کہ خدا کی دو کتابیں ہیں، ایک تو انجیل اور دوسری فطرت ، چنانچہ انجیل کے مطالعے کی طرح فطرت کا مطالعہ بھی دینی فریضہ ہے۔ کچھ لوگ اس سے بھی آگے گئے اور کہنے لگے کہ انجیل کو فطرت کے مطالعے کی روشنی میں سمجھنا چاہئے۔ یہ نقطہ نظر گیلیلیو کا بھی تھا۔ (اس لئے کلیسا نے اسے سزا دی تھی۔ یہ محض افسانہ ہے کہ کلیسا سائنس کی ترقی کا مخالف تھا۔)
-7فطرت کے حسن کی طرف بھی خاص طور سے توجہ کی گئی۔ انسان کا فریضہ قرار پایا کہ فطرت کے حسن اور دنیا کی رنگینیوں سے پوری طرح لطف اندوز ہو۔ سینکڑوں شاعر اس موضوع پر نظمیں لکھنے لگے کہ زندگی چند روزہ ہے اس سے جتنا لطف اٹھایا جاسکے اٹھا لو۔ یعنی نفس پرستی کو اصول زندگی بنایا گیا۔
-8فطرت کا مطالعہ برائے مطالعہ نہیں ہونا چاہئے، بلکہ تسخیر فطرت کے لئے تاکہ انسان فطرت کی قوتوں کو اپنے کام میں لاسکے۔
-9 مطالعہ فطرت کا طریقہ بھی بیکن نے مقرر کر دیا۔ جس چیز کو’’سائنس کا طریقہ‘‘ کہا جاتا ہے وہ اسی سے شروع ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چیزوں کی حقیقت صرف مشاہدے اور تجربے سے معلوم ہو سکتی ہے۔ اس سے براہ راست منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو چیز مشاہدہ نہ کی جاسکے اور حسی تجربے میں نہ آسکے وہ حقیقی نہیں۔ (اس کا اعلان انیسویں صدی میں ہوا۔)
-10لفظ ’’ فطرت‘‘ سے کا مفہوم بھی اس دور میں بدلنے لگا۔ ازمنہ وسطیٰ کے مفکر دو چیزوں میں امتیاز اور فرق ملحوظ رکھتے تھے۔ ایک تو ہے Natura Naturans جس کی حیثیت ”جو ہر کی ہے لہٰذا غیر مادی چیز ہے۔ دوسری چیز ہے۔ Natura Naturata جس کی حیثیت ’’عرض‘‘ کی ہے لہٰذا مادی چیز ہے۔ اس دور سے یہ دوسرے معنی غالب آنے لگے اور عرض کو جو ہر کی جگہ دی جانے لگی۔ آہستہ آہستہ لوگ جو ہر کو بھول ہی گئے۔ (سرسید اور دوسرے نیچری یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ لفظ ‘نیچر انگریزی میں کتنے معنی رکھتا ہے۔)
-11تسخیر فطرت سے مراد ہے طاقت کا حصول۔ یہ اس دور کا سب سے بنیادی اور مرکزی اصول حیات تھا۔ انسان کا سب سے بڑا فریضہ یہ قرار پایا کہ طاقت حاصل کرے خواہ کسی شعبے میں ہو اور کسی طریقے سے ہو۔
-12طاقت کے اصول سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اخلاقیات کوئی چیز نہیں ، جو آدمی طاقت حاصل کرلے وہ اچھا ہے اور اس کا طریقہ کار بھی اچھا ہے۔ جو آدمی طاقت حاصل نہ کر سکے وہ برا ہے اور اس کا طریقہ کار بھی برا ہے، اور پھر طاقت بھی لا محدود ہونی چاہئے۔ اس دور کےمصنف صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ انسان کو خدا بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نعوذ باللہ۔
-13اس نئی اخلاقیات کو فلسفے کی شکل اٹلی کے مفکر میکیاویلی نے دی وہ کہتا تھا کہ عام افراد کو تو اخلاقیات کا پابند ہونا چاہئے، لیکن بادشاہ اخلاقی اصولوں سے بالکل آزاد ہے۔ بادشاہ اپنی قوم کی خاطر جو چاہے کر سکتا ہے، جو چیز بھی اسے مفید معلوم ہو وہ اچھی ہے۔ چاہے قتل ہو یا جھوٹ۔
-14چنانچہ اس دور میں ’’قوم‘‘ اور ’’قومیت‘‘ کا جدید تصور پیدا ہوا۔ ’’قوم‘‘ اور ’’وطن‘‘ کو وہ جگہ دی گئی جو خدا کی ہوئی چاہیے۔ لہٰذا اس زمانے میں بادشاہوں کو مطلق اور جابرانہ طاقت حاصل ہوئی اور انگلستان میں تو کلیسا بھی بادشاہ کے زیر نگیں آگیا۔ یہی دور تجارت کی ترقی کا ہے۔ موجودہ سرمایہ داری کا آغاز میں سے ہوتا ہے۔(باقی اگلے صفحہ پر)
-15 یہی زمانہ سیاحت کی انقلاب انگیز کامیابیوں کا ہے۔ امریکہ جیسا براعظم دریافت ہوا۔ ہندوستان کا سمندری راستہ معلوم ہوا بحر الکامل دریافت ہوا۔ نئی ایجادات کا آغاز بھی اسی دور میں ہوا۔ بارود اور چھاپہ خانہ جن کو دور جدید کی بنیاد کہا جاتا ہے اسی زمانے میں بنائے گئے۔ ادھر سائنس کے شعبے میں کو پر لیکس کیپلاؤ گیلیلیو نے بطلیموسی نظام اور ارسطو کی طبیعات کو الٹ کے رکھ دیا۔ غرض یورپ کے لوگوں کی نظر میں نہ صرف دنیا بلکہ کائنات ہی کا نقشہ بدلنے لگا اور روایتی علوم بے کار معلوم ہونے لگے۔
-16 ان خارجی اور مادی کامیابیوں نے مغربی ذہنیت کو ایسا متاثر کیا کہ لوگ ’’فکر‘‘ اور ’’عمل‘‘ کو ایک دوسرے کا مخالف اور متضاد سمجھنے لگے ، بلکہ ’’عمل‘‘ (یعنی خارجی اور جسمانی عمل) کو ’’فکر‘‘ پر فوقیت دینے لگے۔
-17 یورپ کے روایتی اور دینی علوم تو خیر برباد ہو ہی رہے تھے ، لیکن یہ مادی کامیابیاںاور ترقیاں بظاہر مثبت چیز معلوم ہوتی ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ایک دوسرا فکری رجحان ابھر رہا تھا جو فی الاصل فکر ہی کی جڑ کھود دیتا ہے۔ اس دور سے پہلے جتنے بھی دیندار یا بے دین لوگ ہوئے ہیں وہ سب یہی دعویٰ کرتے تھے کہ ہم حقیقت یا صداقت یا حق کی تلاش میں ہیں۔ اس دور کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ اس نے صداقت یا حق کے وجود ہی سے انکار کردیا۔ اس رجحان کا سب سے بڑا نمائندہ فرانس کا مفکرموں تینیہ (Montaigne) ہے۔۔ جسے انگریز مون ٹین کہتے ہیں۔ اس نے ایک مثال سے نتیجہ یہ اخذ کیا ہے کہ حق یا صداقت کوئی مطلق یا مستقل چیز نہیں، بلکہ اضافی چیز ہے جو آدمی کے ساتھ اور زمان و مکان کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ اس لیے انسانی ذہن کی معراج معرفت یا علم کا حصول نہیں، بلکہ تشکیک ہے۔ سب سے عقل مند آدمی وہ ہے۔ جو ہر چیز اور ہر خیال کو شک کی نظر سے دیکھتا ہو۔ تشکیک کا یہ فلسفہ موجودہ مغربی ذہن کا لازمی جز بن گیا ہے، جس کا آخری نتیجہ مادی ضروریات اور نفسانی خواہشات کی تسکین کے سوا ہر چیز سے مکمل بے نیازی ہے۔
-18اس تشکیک کے فلسفے نے ہر چیز پر شک کیا سوائے جسمانی ضروریات اور نفسانی خواہشات کے۔ ان دو چیزوں کی تسکین چونکہ ضروری اور لازمی قرار پائی، اس لئے تسکین کا آلہ کار بھی ڈھونڈنا لازمی تھا۔ یہ آلہ کار دو ہو سکتے تھے۔ عقل جزوی (Reason) اور تخیل۔ چنانچہ اس دور سے مغرب کے لوگ عقل کلی (Intellect) کو بھولنے لگے اور آہستہ آہستہ عقل جزوی ہی کو عقل کلی سمجھنے لگے۔ اب یورپ میں مفکروں کے دو گروہ ہو گئے۔ ایک گروہ تو عقل (یعنی عقل (جزوی) کو انسانی ذہن کی صلاحیتوں میں سب سے بڑا درجہ دینے لگا اور دوسرا گروہ تخیل کو۔ ان دونوں گروہوں میں پچھلے تین سو سال سے لڑائی جاری ہے جس کے عنوانات بدلتے رہتے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ بات نہ بھولنی چاہئے کہ عقل جزوی ہو یا تخیل دونوں ہی کی بنیاد حسیات پر ہے۔ لہٰذا در اصل دونوں گروہ ہی حسی تجربے کے قائل ہیں اور ظاہری اختلاف کے باوجود بنیادی طور سے ایک ہی بات کہہ رہے ہیں۔
-19 اب تک اس دور کے جتنے خصائص بیان ہوئے ان سب میں ایک چیز مشترک ہے۔ یعنی فرد کی اہمیت کا اثبات نہ صرف نشاءۃ ثانیہ کے دور بلکہ پوری جدیدیت کی اصل روح یہی انفرادیت پر ستی ہے۔ مذہب ہو یا اخلاقیات یا معاشرتی زندگی، ہر جگہ آخری معیار فرد اور اس کے تجربے کو سمجھا گیا ہے۔ پچھلے پانچ سو سال میں مغرب نے گمراہی کی جتنی شکلیں بھی پیدا کی ہیں وہ سب اسی انفرادیت پرستی کے بیج سے نکلی ہوئی شاخیں ہیں۔ یہی وہ اصول ہے جو نشاءۃ ثانیہ کی تحریک کا رشتہ “اصلاح دین کی تحریک” سے جوڑ دیتا ہے۔
یہ دو تحریکیں، یعنی نشاۃ ثانیہ (Renaissance) اور اصلاح دین (Reformation) ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ عام طور سے مغرب کے مصنفین پہلی تحریک کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں، اور دوسری تحریک کو اس کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن اگر عیسوی کلیسا (جس سے مراد رومن کیتھلک کلیسا ہے) پورے استحکام کے ساتھ قائم رہتا تو جتنے رجحانات نشاءۃ ثانیہ کے ذیل میں گنوائے گئے وہ اتنی آسانی سے جڑ نہ پکڑتے۔ اس لئے بعض لوگوں کی رائے ہے کہ اصل چیز ’’اصلاح دین کی تحریک‘‘ ہے اور ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ اس کی شاخ ہے۔ ان کے نزدیک ’’جدیدیت‘‘ کا آغاز پندرہویں صدی سے نہیں بلکہ چودہویں صدی سے ہوتا ہے۔
رومن کیتھلک کلیسا چونکہ انتظامی محکمے کی شکل میں قائم ہوا تھا اس لیے نظم و نسق کے معاملے میں خرابیاں پیدا ہوئی لازمی تھیں اور کلیسا کے عہدیداروں کا اخلاقی برائیوں میں گرفتار ہو جانا بھی لازمی تھا۔ ان خرابیوں کے خلاف وقتا فوقتا” اعتراض ہوتے رہے۔ لیکن احتجاجی اور اصلاحی تحریک زور شور کے ساتھ پہلے تو چودہویں صدی میں انگلستان میں شروع ہوئی اور پندرہویں صدی میں جرمنی میں، پروٹسٹنٹ مذہب کا بانی مارٹن لوتھر (پندرہویں اور سولہویں صدی) اٹھا تو تھا محض کلیسا کی اصلاح کے لیے، لیکن آخر اس نے یہ دعویٰ کیا کہ دینی معاملات میں بھی پوپ کا مکمل اقتدار غلط ہے اور نہ پوپ کا فیصلہ قطعی اور آخری ہو سکتا ہے۔ خدا نے انجیل انسانوں کی رہنمائی کے لیے نازل کی ہے اور ہر عیسائی کی نجات کا دارو مدار اس کے انفرادی ایمان اور اعمال پر ہے۔ اس لیے ہر آدمی کو حق پہنچتا ہے کہ براہ راست خدا کا کلام پڑھے اور اپنی قسم کے مطابق اسے سمجھے خدا اور بندے کا تعلق براہ راست ہے اور پادریوں کو درمیان میں آنے کا حق نہیں، ہر آدمی کا فیصلہ خدا خود کرے گا۔ اس لیے اصلی ذمہ داری فرد کے کندھوں پر ہے۔ ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اختیار بھی چاہئے۔ چنانچہ ہر فرد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ دینی معاملات میں انفرادی طور سے خود ہی فیصلہ کرے۔ یعنی مارٹن لوتھر نے فرد کو تفسیر بالرائے کی پوری آزادی دے دی اور دینی معاملات میں ہر قسم کے استناد سے انکار کر دیا۔ ساری جدیدیت اور اس سے پیدا ہونے والی تمام گمراہیوں کی جڑاور اصل الاصول میں انفرادیت پرستی اور اطاعت سے انکار ہے۔ یعنی جدیدیت ابلیسیت لوتھر کی پروٹسٹنٹ تحریک کی پشت پناہی جرمنی کے چھوٹے چھوٹے بادشاہوں نے کی۔ اس میں ان کا سیاسی مفاد یہ تھا کہ روم کے کلیسا کا دینی اقتدار ختم ہو جائے تو وہ مطلق حکمران بن جائیں۔ چنانچہ سولہویں صدی سے رومن کیتھلک کلیسا کی مرکزیت ختم ہونے لگی اور پروٹسٹنٹ ملکوں میں قومی کلیسا قائم ہونے لگے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دین سیاست کے تابع ہو گیا۔ دین میں فرد کی خود مختاری اور آزادی کا اصول قائم ہو گیا تو مغرب میں گمراہیاں بڑھتی ہی چلی گئیں اور خود رومن کیتھلک لوگ بھی ان سے متاثر ہونے لگے۔