باکسرکی بات:
پیرس اولمپکس پر گزشتہ ہفتے ہم نے تفصیل سے بات کی تھی۔ مقابلے چونکہ جاری ہیں اس لیے مستقل موضوع کی زد میں ہیں۔ اِس بار خواتین باکسنگ ایونٹ سوشل میڈیا پر چھا گیا۔ ایک عجیب اور نئی بحث چھڑ گئی، جس نے بیک وقت نسل پرستی، فیمن ازم، لبرل ازم کے گندے نظریات کو گہری، اندھی کھائی میں پھینک دیا۔ ہوا یہ کہ خواتین کے باکسنگ مقابلوں میں دو خواتین ایسی بھی شامل تھیں، جنہیں مغربی میڈیا نے ’ٹرانس وومن‘ کے طور پر تعارف کرایا۔ اب ہم تو وہاں تھے نہیں۔ تمام بڑے بڑے مغربی میڈیا جو بتائیں گے، جو ڈسکس ہوگا اُسی کا ردعمل ہم بھی دیں گے۔
ایک تھی الجزائر کی باکسر، ٹرانس وومن (یعنی وہ مرد جو عورت بنا ہو)، نام تھا’ایمان خلیف‘، اس کا مقابلہ ہوا اٹلی کی اصلی خاتون انجیلا سے۔ مقابلے کے ابتدائی 46 سیکنڈ میں ایمان نے جو مُکّے انجیلا کے منہ پر جڑے تو اُس کو ایسے چکر آئے کہ اُس نے مقابلے سے ہی معذرت کرلی۔ دوسری باکسر تھی تائیوان کی ’لی یو تنگ‘، اس کا مقابلہ ایمان کے تین دن بعد سمرقند سے آئی اصلی لڑکی سے تھا۔ یہاں سمرقند کی لڑکی نے ہار نہ ماننے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ لڑکی نے اپنی بات نبھائی اور آخر میں 5-0 سے شکست کھائی۔
بات یہ ہے کہ اولمپکس مقابلے ایسے نہیں ہوتے کہ راہ چلتے کسی کو بھی پکڑکر وزن کیا اور باکسنگ رِنگ میں دھکیل دیا۔ پورے ملک کی نمائندگی ہوتی ہے، نچلی سطح سے اس کا جانچ کا پورا عمل ہوتا ہے۔ ایمان خلیف سابقہ اولمپین ہے جس نے 2021ء میں ٹوکیو گیمز میں کوارٹر فائنل تک حصہ لیا۔ پھر 2022ء میں عالمی چیمپئن شپ کے فائنل میں پہنچی۔2023ء میں ہندوستان میں بھی عالمی چیمپئن شپ میں وہ 66کلو کٹیگری کے فائنل تک پہنچی۔ مقابلے سے چند گھنٹے قبل پہلی بار بھارت نے کچھ محسوس کیا اور جنس کا ٹیسٹ لے کر اُس کو نااہل قرار دے کر مقابلے سے باہر کردیا۔ یہاں سے اُس پر جنس کی مشکوکیت کا پہلا دھبہ لگا، اُسی ترتیب میں اب دوبارہ اُس کی جنس پر سوال اُٹھے۔ بھارت آج تک یہ بتانے کو تیار نہیں کہ اُس نے کیا چیز ٹیسٹ کی؟ کیسے کی؟ بس اُس نے یہ جواب دیا کہ خاتون کی حیثیت سے یہ مقابلے کی اہل نہیں۔ ظاہر بات ہے کہ گزشتہ میچوں میں کوئی بات اُنہوں نے محسوس کی ہوگی تبھی ٹیسٹ کیا ہوگا۔
اسی طرح دوسری (مبینہ) خاتون جو تائیوان سے ہے، اس کا بھی باکسنگ میں عالمی ٹریک ریکارڈ ہے۔ 2023ء تک اُس نے ہر ملک کے مقابلے میں کوئی نہ کوئی تمغا جیتا ہے۔ اُس کے ساتھ بھی بھارت نے 2023ء میں وہی کیا جو ایمان کے ساتھ کیا۔ اس کو 57 کلو کٹیگری مقابلے میں بالکل ویسے ہی جنس کے ٹیسٹ کے ساتھ نااہل قرار دیا۔ اس لیے مُکّوں کی وجہ سے یہ معاملہ دوبارہ زیر بحث آیا۔
اس تناظر میں دیکھیں تو پورے ’ٹرانس جینڈر‘ کی وہ حقیقت سمجھ میں آجاتی ہے جسے ہم کئی سال سے سمجھا رہے ہیں۔ مقابلہ تھا66 کلو کٹیگری میں، یعنی دونوں کھلاڑیوں کا وزن بھی قریب قریب ہی تھا۔
اس کے باوجود ایک کھلاڑی کا یہ کہنا کہ مُکّے کی قوت غیر معمولی تھی، کیسے جنس کی بنیاد پر موضوع بن کر نیویارک ٹائمز تک جا پہنچا! ایک طرف جینڈر کا جھوٹا نظریہ، پھر مساوات کا، پھر حقوق کا جھوٹا نظریہ۔ سب میں جیسے مقابلہ شروع ہوگیا۔ عقیدہ مساوات کے لبرل فیمنسٹوں نے کہا کہ ’یہ ظلم ہے کہ عورت کو مرد سے لڑوا دیا گیا‘۔ تو مساوات تو بہہ گئی کیونکہ مرد عورت کی برابری کہاں گئی؟ لبرل جینڈر پرستوں نے ایمان خلیف کے مُکّے کی شدت کو جنس کی بنیاد پر چھیڑا تو سوشل کنسٹرکٹ کا گندہ نظریہ بہہ گیا کیونکہ وہ تو کسی بائیولوجیکل فرق کو نہیں مانتے۔ یقین مانیں ان دونوں کی تصاویر جس جس نے دیکھیں وہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ یہ کسی طور لڑکیاں ہیں۔ سارے مباحث کے دوران اٹلی کی انجیلا نے اپنے جملوں پر معافی مانگ لی، دوسری طرف ایمان کے ابا نے بول دیا کہ یہ تو پیدائشی لڑکی ہے، اِس کی تمام پرورش لڑکیوں کی طرح ہوئی ہے۔ حقوق کا لبرل ڈسکورس یوں اُڑ گیا کہ انجیلا کو حق دلائیں تو ایمان کے حامی کھڑے ہوجائیں، ایمان کو دلاتے ہیں تو جے کے رولنگ جیسی فیمنسٹ کھڑی ہوجاتی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ طاقتور فیصلہ کرتا ہے اور وہ جو چاہے کرتا ہے، ایسے میں حقوق نام کی کوئی چیز کسی کو نہیں ملتی۔ یوں ایک بار پھر مغرب کے باطل نظریات بری طرح ایکسپوز ہوئے ہیں۔ اس لیے خدارا، مغرب کی مرعوبیت کا بُت توڑ دیجیے، ’حق‘ کی جانب رجوع کیجیے کہ وہی ’خیر‘ ہے۔
برزخ:
zee زندگی نے یوٹیوب پاکستان پر اپنے حالیہ ڈرامے ’برزخ‘ کو آخری قسط جاری کرنے سے قبل عوامی تنقید کے پیش نظر ہٹادیا۔ 19 جولائی سے ہفتے میں دو دن اقساط نشر ہورہی تھیں۔ 8 اقساط بتائی گئی تھیں مگر پہلی قسط کے بعد سے ہی ردعمل آنا شروع ہوگیا۔ فیشن ڈیزائنر ماریہ بی نے شدید ردعمل دیا اور عدالت جانے کا پیغام دیا، اور چلی بھی گئیں۔ قیصر احمد راجا سمیت دیگر مؤثر طبقات نے سوشل میڈیا پر سخت ردعمل دیا، عدالت سے رجوع کرکے پابندی لگوانے کی بات کی۔ پی ٹی اے کے کردار پر سوال تھا۔ دوسرا یہ کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ اداکاری کے نام پر پاکستان کی دینی، مذہبی اقدار وشناخت کے خلاف چیزیں دکھائی جائیں اور اس کو ’انٹرٹینمنٹ‘ کہہ کر رستہ دے دیا جائے؟ ’’میڈیا کے مقاصد‘‘ میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ اس کو پاکستان کے مذہب، نظریے، اقدار، تہذیب کے منافی استعمال کیا جائے گا۔ اگر اِس معاملے کو سنجیدگی سے عدالت لے جایا جائے تو مجھے لگتا ہے کہ ایک مثالی ٹرننگ پوائنٹ بن سکتا ہے، کیونکہ میڈیا کے پاس ایک ہی دلیل ہوتی ہے کہ ’’جو معاشرے میں ہورہا ہے ہم تو وہ دِکھا رہے ہیں‘‘۔ یہ دلیل اب بے جان ہوچکی، کیونکہ معاشرے میں اب جو کچھ ہورہا ہے وہ ’میڈیا دیکھ کر‘ ہورہا ہے۔ ساری اشتہار کاری اس کی مثال ہے۔ فیڈرل بی ایریا میں 17 سالہ لڑکے نے اپنے کزن کے قتل پر یہی دلیل دی کہ اُس نے فلم دیکھ کر انسپائریشن لی۔ ایسے کئی کیسز ہیں۔ تو اب یہ معاملہ، یہ دلیل ختم ہوچکی کہ معاشرت دکھائی جارہی ہے۔ اب معاشرت ڈیزائن کی جارہی ہے۔ اس کو یوں لیں کہ اگر کوئی 9 مئی پر فلم بنانا چاہے گا تو کیا اس کو اجازت ملے گی؟ اس کو ملکی سلامتی کے منافی کہہ کر اجازت نہیں دی جائے گی۔ ملکی سلامتی تو مذہب سے جڑی ہوئی ہے، اس لیے مذہب کے منافی بھی کوئی چیز نشر کرنا وہی معنی رکھتا ہے جو ملکی سلامتی کے لیے ہے۔ بہرحال یہ عدالتی دلائل ہیں جو غیرت مند وکیل ہی دے سکتے ہیں۔ بات ہورہی تھی ’برزخ‘ کی۔ یہ ڈراما اپنے نام کے استعمال اور نام میں استعمالfont میں حرف A کی خاص شباہت سے بھی موضوع بنا جو freemason کے ’پرکار‘ سے مشابہت رکھتا تھا۔ فری میسن ایک شیطانی گروہ ہے اور اس ڈرامے میں شیطان کے سب سے اہم مقصد ’ہم جنس پرستی‘ کو جس طرح سے موضوع بنایا گیا وہ ناقابلِ بیان ہے۔ بھارتی پیسے سے برطانیہ کے وفادار لکھاری و ڈائریکٹر نے اس سے قبل ’چڑیل‘ نامی ڈراما سیریز بنائی تھی، اس پر پہلے بھی بات کی تھی (اشاعت 11 اکتوبر 2020ء)۔ ستم یہ ہے کہ پاکستانی اداکاروں نے کہا بھی کہ یہ ڈراما باہر کا ہے، مگر اس میں پاکستانی معاشرت سے متصل جو دکھایا گیا وہ شرمناک تھا۔ اس کے باوجود انٹرٹینمنٹ کے نام پر سب حمایت کرتے نظر آئے۔ مستقل فحاشی کو نارملائز کیا جارہا ہے، دلیل یہ دی گئی کہ حالیہ کئی پاکستانی ڈرامے اس سے زیادہ بدترین موضوع پر تھے مگر اُن پر شور نہیں مچایا گیا۔ یہ بات بالکل درست ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہوسکتاکہ اس کی آڑ میں دروازے سے چوکیدار ہٹا دیا جائے۔ ’’بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے‘‘ (سورہ نور آیت 19)۔ قرآن کی یہ بات سامنے رکھیں اور پھر برزخ اور اس سے پہلے کی ساری بے حیائیاں دیکھیں اور بتائیں کہ اللہ کا عذاب کیوں نہ آئے؟
بنگلہ دیش:
بنگلہ دیش میں 20 دن سے جاری احتجاجی تحریک، وزیراعظم حسینہ واجد کے استعفے اور ملک سے فرار پر ختم ہوئی۔ 1979ء میں ایران، 1989ء میں افغانستان، پھر 2021ء میں دوبارہ افغانستان، اس کے بعد 2024ء میں بنگلہ دیش کی مثال ’غیر ریاستی‘ جدوجہد کے ضمن میں شامل ہے۔ بنگالیوں کو ملک اور حقوق دلانے والا بنگلہ بندھو شیخ مجیب کیسے وہاں نفرت کی علامت بن گیا؟ ابھی دسمبر میں ہی تو حسینہ نے اپنے رشتے دار کو آرمی چیف لگایا تھا تو وہ کیوں استعفیٰ مانگنے آگیا؟ بنگلہ دیش میں حکومتی کرائسز پہلی بار نہیں آئے ہیں، 53 سال میں کئی بار وہاں فوجی بغاوتیں بھی ہوچکی ہیں۔ یہ سارا معاملہ عوامی لیگ کے لیے سرکاری نوکریوں میں کوٹہ 7 فیصد سے بڑھا کر 30 فیصد کرنے پر شروع ہوا۔ ڈھاکہ کی جامعات سے یہ احتجاج سڑکوں پر پھیل گیا۔ سپریم کورٹ نے احتجاج شروع ہونے کے چند دن بعد ہی فیصلہ ختم کردیا تھا، مگر اس دوران مظاہرین پر خاصا تشدد ہوچکا تھا۔
برطانیہ:
لوگ یقین نہیں کررہے کہ برطانیہ آگ وخون میں نہایا ہوا ہے، مجال ہے جو کوئی یہ کہے کہ وہاں ’لبرل دہشت گردی‘ ہورہی ہے۔ مغربی میڈیا نہایت منافقت سے اس کو ’ٹھگ‘، ’فساد‘ کہہ رہا ہے جیسے دو گروہ لڑرہے ہیں۔ اس کو ’لبرل دہشت گردی، سیکولر انتہا پسندی، برطانوی دہشت گردی‘ بولتے سب کو شرم آرہی ہے۔ کیا دہشت گردی صرف مسلمان کے کھاتے میں ہے؟کیا انتہا پسندی صرف مسلمان کے کھاتے میں ہے؟ مشرق وسطیٰ (غزہ) اور دنیا بھر میں لبرل ازم، سیکولرازم کی پھیلائی ہوئی دہشت گردی، قتل و غارت پر کوئی بات نہیں کرتا۔ جس ڈانس کلاس میں حملے کے واقعے سے یہ شروع ہوا ہے وہ سب اسی لبرل اقدار کا نتیجہ ہے۔ شکر ہے کہ وہ لڑکا جس نے ڈانس اسکول پر حملہ کیا، مسلمان نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود اُس واردات کا سارا غصہ ’اقلیت‘ پر نکال دیا گیا، یوں مغرب کے مساوات اور آزادی کے سارے نعرے بہہ گئے۔ اقلیت پر آپ کے ملک میں ایک تھپڑ بھی لگ جائے تو معلوم ہے نا کیا لیبل لگتا ہے؟ اب برطانیہ میں اقلیت پر حملے ہورہے ہیں تو لوگوں کے تجزیوں، تبصروں میں ایک لفظ بیلنس کرنے کو نہیں۔ گوروں نے ایک مذہبی اقلیت کو خوب مارا، پیٹا، ان کی عبادت گاہیں جلائیں اور کسی کی زبان سے مذمت کا ایک لفظ بھی نہیں نکلا! مغربی میڈیا ’’فاررائٹ‘‘ کو ایسے پیش کررہا ہے جیسے وہ کوئی بڑے عالم فاضل ہیں۔ پُرامن، مہذب قسم کا احتجاج کیوں نہیں؟ جلتی گاڑیاں، لوٹی گئی دکانیں دِکھا کر پوچھتا ہوں کہ یہ لالوکھیت یا نئی کراچی نہیں ہے، یہ تو اعلیٰ تہذیب کا گڑھ و نمائندہ تاج برطانیہ ہے، اگر یہاں یہ سب اب بھی ہوتا ہے تو لیبل صرف مسلمان، پاکستان پر کیوں؟ مذہبی شدت پسندی کے نام سے اگر کوئی چیز مسلط کی جا سکتی ہے تو لبرل شدت پسندی کیوں نہیں مسلط کی جا سکتی؟ اُن کا بھی یہ عقیدہ ہے۔ ’’فار رائٹ‘‘کے نظریات پڑھ لیں، ایسے ہی ہیں۔