غربت کے سائے میں مہنگائی کا رقص

100

ایک زمانے سے حکومتیں مہنگائی پر قابو پانے کے دعوے کرتی آئی ہیں۔ یہ دعوے محض دعوے ہی رہتے ہیں، ایسے مواقع شاذ و نادر ہی آئے ہیں جب کسی بھی چیز کی قیمت خاطر خواہ یا معقول حد تک کم ہوئی ہو۔

پاکستان میں مہنگائی کا دائرہ وسعت اختیار کرتا گیا ہے۔ اِس کا تعلق مسائل کی کثرت اور وسائل کی قلت سے کہیں زیادہ اندازِ فکر سے ہے۔ عوام اور خواص سبھی کی سوچ منفعت پسند ہوگئی ہے۔ منافع خوری کو مزاج کا حصہ بنالیا گیا ہے۔ کوئی کتنا ہی سمجھائے، جسے جو کچھ بھی کرنا ہوتا ہے وہ کرکے دم لیتا ہے۔ فکر محدود ہے اور ناقص بھی۔ دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھ لینے کے نتیجے میں انسان جو کچھ کرتا ہے وہی اِس وقت ہو رہا ہے۔

مہنگائی سے سبھی پریشان رہتے ہیں۔ عوام البتہ زیادہ الجھنوں کا سامنا کرتے ہیں کیونکہ دیکھتے ہی دیکھتے اُن کی قوتِ خرید میں کمی واقع ہوتی جاتی ہے۔ عام آدمی کی تنخواہ یا اُجرت میں اُتنی تیزی سے اضافہ نہیں ہوتا جتنی تیزی سے قیمتوں میں ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ بہت عجیب اور ناقابلِ فہم ہے۔

دنیا بھر میں طلب و رسد کے فرق کی بنیاد پر قیمتوں کا تعین ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ معاشیات کا بنیادی اصول ہے کہ جب کوئی چیز طلب کے مقابلے میں کم ہو تو اُس کی قیمت بڑھتی ہے کیونکہ اُسے لینے والے زیادہ ہوتے ہیں اور زیادہ قیمت دینے کو تیار بھی ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں معاملہ اِس کے برعکس ہے اور دنیا دیکھ کر حیران ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ جو غذائی اجناس ہمارے ہاں اُگتی یا پیدا ہوتی ہیں اُن کی رسد جب طلب سے کہیں زیادہ ہوتی ہے تب بھی اُن کے دام نیچے آنے کا نام نہیں لیتے اور عوام کو زیرِ دام لانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ جس ملک میں گندم وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہے وہاں آٹے کا بحران؟ بات کتنی عجیب ہے؟ یہی معاملہ دیگر غذائی اجناس کا ہے۔ دو تین سال سے پھلوں کے دام کچھ کنٹرول میں ہیں کیونکہ پیداوار بہت زیادہ ہے اور پھلوں کو سنبھال کر رکھا نہیں جاسکتا۔ گندم، چاول، دالوں اور دیگر غذائی اجناس کو چونکہ محفوظ کیا جاسکتا ہے اِس لیے متعلقہ مافیا محفوظ رکھتی ہے تاکہ دم بڑھنے پر مال بازار میں لایا جائے۔

کیا مہنگائی میں کسی خاص طبقے کا کلیدی کردار ہے؟ کیا ایسا ہے کہ مہنگائی کو بڑھاوا دینے کے معاملے میں صرف کاروباری طبقہ ہی ذمہ دار گردانا جانا چاہیے؟ کیا عوام کا بھی مہنگائی میں کوئی کردار ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کا گراف بلند کرنے بلکہ بلند کرتے رہنے میں سبھی نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔

کیا پاکستان کے قیام کے ابتدائی دنوں میں مہنگائی تھی؟ کیا تب بھی لوگ اِسی طور مہنگائی کی چَکّی میں پِسنے یا پِستے رہنے کو ترجیح دیتے تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ پاکستان کے ابتدائی دنوں میں زندگی بہت آسان تھی۔ لوگ اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرتے تھے۔ زندگی بسر کرنے کا ڈھنگ ہی انوکھا تھا۔ لوگ قناعت کے انتہائی درجے میں تھے۔ کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کو ترجیح دیتے تھے۔ زندگی کی بنیاد یہ تھی کہ انسان کے پاس کھانے کے لیے ہونا چاہیے، پہننے کے لیے ہونا چاہیے، بس۔

آج سوچ بدل چکی ہے۔ کسی سے کہیے کہ کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے سے آگے جو کچھ بھی وہ زائد اور نسبتاً کم اہم ہے تو وہ آپ کا تمسخر اڑائے گا۔ میڈیا کے ذریعے ذہنوں میں بہت کچھ ٹھونس دیا گیا ہے۔ کیا عوام اور کیا خواص، سبھی کو باور کرادیا گیا ہے کہ زندگی اگر ہے تو صرف اِس بات کا نام کہ زیادہ سے زیادہ کمایا جائے اور زیادہ سے زیادہ خرچ کیا جائے۔ اِسی کو کنزیومر اِزم کہتے ہیں۔ آج زندگی محض کنزیومر اِزم کا مظہر ہوکر رہ گئی ہے۔

پاکستان میں روز افزوں مہنگائی کی بنیادی وجوہ میں کنزیومر اِزم سرِفہرست ہے۔ جہاں زندگی بے ترتیب ہو وہاں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ کنزیومر اِزم کے دائرے میں گھومنے والے دن رات زیادہ سے زیادہ صَرف ہی کو زندگی سمجھتے ہیں اور اِسی میں خوش رہتے ہیں۔ اُن کے نزدیک زندگی کا مقصد صرف یہ ہے کہ گھر بہت بڑھا ہو، اُس میں زیادہ سے زیادہ چیزیں جمع کی جائیں، زیادہ سے زیادہ کھایا اور پہنا جائے اور دنیا کو دکھایا جائے کہ دیکھو ہم کتنا کھا، پی اور پہن سکتے ہیں۔

اللہ نے ہمیں ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے۔ یہ نعمتیں اس لیے ہیں کہ ہم اِن سے مستفید ہوں اور اپنی زندگی کا معیار بلند کریں۔ کیا ہر نعمت ہمارے لیے ہے؟ یقیناً مگر صرف اُس صورت میں کہ جب ہم اُس کے اہل ہوں۔ اللہ کی نعمتیں ہمیں اپنی محنتِ شاقہ سے حاصل کرنا ہوتی ہیں۔ اللہ نے بہت کچھ مفت رکھا ہے تاہم سبھی کچھ مفت نہیں رکھا۔

وقت ہمیں اُس موڑ پر لے آیا ہے جہاں صرف مادّہ پرستی رہ گئی ہے۔ یہ مادّہ پرستی محض حالات کی پیدا کردہ نہیں بلکہ اِس میں ہم سب کا کچھ نہ کچھ حصہ اور کردار ہے۔ زندگی کا معیار بلند کرنے کے چکر میں ہم حرام و حلال کے درمیان پائے جانے والے فرق کو یکسر نظر انداز اور فراموش کر بیٹھے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آج ہم جس مہنگائی کی چَکّی میں پس رہے ہیں اُس کے لیے حکومتی مشینری بہت حد تک ذمہ دار ہے۔ انتظامی خرابیوں نے بھی بہت سی خرابیاں پیدا کی ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ خرابیوں کا یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ ہمارے ہاں قائم ہونے والی حکومتوں نے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا نظام موثر طور پر نافذ کرنے پر کبھی خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ اِس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب مجموعی طور پر ایسا کوئی نظام دکھائی ہی نہیں دے رہا۔

مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں انتظامی یا ریاستی مشینری کی ناکامی اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کو ہر اعتبار سے بے لگام ہونے دینے میں ملک کے ہر طبقے کا اپنا کردار بھی کم نہیں۔ عوام و خواص نے مل کر صورتِ حال کو انتہائی گنجلک بنایا ہے۔

کیا ہم اِس حقیقت کو نظر انداز کرسکتے ہیں کہ مہنگائی کے دائرے کو وسعت دینے میں کلیدی، بلکہ فیصلہ کن کردار ہماری طرزِ فکر و عمل اور اندازِ بود و باش کا ہے؟ دنیا بھر میں لوگ مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہوتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں عام آدمی کے لیے الجھنیں ہوتی ہی ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے، سچ یہ ہے کہ ہر معاشرے میں عام آدمی کسی نہ کسی حوالے سے پریشان رہتا ہے، مہنگائی کا سامنا کرتا ہے اور معیارِ زندگی کی پستی کو بلندی میں تبدیل کرنے کی تگ و دَو میں لگا رہتا ہے۔ یہ کام کہیں بھی آسان نہیں۔ ہمارے ہاں یہ زیادہ مشکل اس لیے ہے کہ ہم اِس سے مطابقت رکھنے والی سوچ اپنانے سے گریز کر رہے ہیں اور جب سوچ ہی نہیں اپنائی جارہی تو عمل کا کیا ذکر؟

پاکستان سمیت بہت سے پس ماندہ معاشروں میں اس وقت مہنگائی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مہنگائی یعنی قیمتوں کا بڑھتے جانا۔ جب کسی معاشرے میں مہنگائی کا رجحان پروان چڑھ جاتا ہے تو قیمتیں بلا جواز بھی بڑھتی یا بڑھائی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی معاملات کچھ ایسے ہی ہیں۔ ایک زمانے سے ہم اپنے معاشرے کو دیکھ رہے ہیں مگر اس حقیقت پر غور کرنے کی زحمت کم ہی لوگ گوارا کرتے ہیں کہ بہت کچھ کسی جواز کے بغیر مہنگا ہوتا جاتا ہے اور لوگ اُس مہنگائی کو مقدر کا لکھا سمجھ کر قبول کرتے رہتے ہیں۔ بہت سی چیزیں کسی جواز کے بغیر مہنگی کردی جاتی ہیں اور لوگ بخوشی اِس منفی تبدیلی کو قبول کرلیتے ہیں۔

کسی بھی مہنگائی زدہ معاشرے میں لوگ اس بات کا جائزہ لیتے رہتے ہیں کہ کہاں کہاں کٹوتی کی جاسکتی ہے، کن کن اخراجات کو قابو میں رکھا جاسکتا ہے۔ یہ ناگزیر ہے کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں بڑھتی ہوئی آمدنی کے ساتھ ساتھ مہنگائی بھی بڑھتی جاتی ہے۔

ہمارے ہاں سلسلہ یہ رہا ہے کہ لوگ ضروری اور غیر ضروری تمام ہی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے بے حِسی اور بے نیازی کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ کسی چیز کو آسانی سے افورڈ نہیں کر پاتے وہ بھی اُسے پانے اور صَرف کرنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ اِس اعتبار سے دیکھیے تو مہنگائی طلب و رسد کے تفاعل سے کہیں زیادہ طرزِ فکر و عمل کا معاملہ ہے۔

مہنگائی کا رونا رونے والے اِس حقیقت کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں کہ دنیا بھر میں لوگ مہنگائی کا سامنا کر رہے ہیں مگر اُس کا رونا اِس لیے نہیں روتے کہ لوگ معقول طریقے سے زندگی بسر کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ کام کرتے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے کا جائزہ لیجیے، عمومی سطح پر آپ کو گھر کے تمام افراد کسی نہ کسی حیثیت میں کام کرتے دکھائی دیں گے۔ ایسا اس لیے ہے کہ سوچ ایسی بنادی گئی ہے کہ گھر کے ہر فرد کو کام کرنا چاہیے اور اِس میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جانی چاہیے۔

ہمارے ہاں طرزِ زندگی کو بدلنے اور بلند کرنے پر تو دھیان رہتا ہے، زیادہ کام کرنے پر دھیان نہیں دیا جاتا۔ پاکستان اُن گِنے چُنے معاشروں میں سے ہے جہاں آج بھی بیشتر گھرانے کسی ایک فرد کی کمائی پر پَل رہے ہیں۔ حد یہ ہے کہ گھر کا بچہ بیس سال کا بھی ہو جائے تو اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوتا اور باپ کی کمائی ہی پر منحصر رہتا ہے۔ اگر کسی گھر میں چار بچے ہوں اور سب بڑے ہوچکے ہوں تو اُن کی پرورش کے ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت کا خرچ بھی باپ ہی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں مہنگائی کا رونا رونے کا کچھ خاص جواز نہیں رہتا۔

مہنگائی کنٹرول کرنا حکومت کی ذمہ داری ضرور ہے مگر یہ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے۔ عوام کو بھی اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ کیا ہم نہیں دیکھتے کہ کسی چیز کی قیمت میں فی الواقع بہت زیادہ اضافہ نہیں ہوا ہوتا مگر نچلی سطح پر بہت زیادہ وصولی شروع کردی جاتی ہے؟ یہ سب اس لیے ہوتا ہے کہ حکومت کی طرف سے کوئی گرفت نہیں اور عام آدمی بھی جہاں بس چل رہا ہو وہاں اپنا داؤ کھیل جاتا ہے۔ جب پورا معاشرہ ہی منفعت پسند ہو، منافع خوری پر تُلا ہو تو کسی ایک فریق کو کیا روئیے۔ جب تک سوچ نہیں بدلے گی تب تک مہنگائی کا دائرہ بھی سُکڑے گا نہیں۔

مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کو اُس کی ذمہ داری یاد دلانے کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی یہ بتانا لازم ہے کہ اگر وہ اپنی سوچ نہیں بدلیں گے تو مہنگائی کے دائرے سے کبھی باہر نہیں نکل سکیں گے۔ ہم عمومی سطح پر سوچے سمجھے بغیر ایسا بہت کچھ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں مہنگائی بڑھتی جاتی ہے اور ہمارے لیے حقیقی معنوں میں پنپنے کی گنجائش گھٹتی چلی جاتی ہے۔ محض دیکھا دیکھی ہم ایسا بہت کچھ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک طرف ہمارے فضول اخراجات بڑھتے چلے جاتے ہیں اور دوسری طرف قیمتیں بھی بڑھتی چلی جاتی ہیں۔

پاکستان میں بہت کچھ بدلنے کی ضرورت ہے۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے سوچ کا بدلنا انتہائی ناگزیر ہے۔ عوام کو باور کرانا ہے کہ معیارِ زندگی بلند کرنے کے نام پر لاحاصل اور فضول اخراجات سے بچنا ہوگا۔ دیکھی دیکھی جو کچھ کیا جاتا ہے وہ زندگی کا بوجھ بڑھاتا چلا جاتا ہے۔

کیا ہم اس حقیقت پر غور کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں گھریلو بجٹ بنانے اور اُس کے مطابق چلنے کا چلن برائے نام ہے؟ لوگ سوچے سمجھے بغیر خرچ کرتے ہیں اور اِس کے نتیجے میں اُن کے اخراجات بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ محض خرابیوں کی طرف لے جاتا ہے اور لے جاتا رہا ہے۔ آج کی دنیا میں کوئی بھی معاشرہ منصوبہ سازی کی سوچ اپنائے بغیر ڈھنگ سے نہیں جی سکتا۔ منصوبہ سازی کی ذہنیت کو اپنانے کی ضرورت میں ہم مہنگائی سمیت بہت سی خطرناک قباحتوں پر قابو پانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

حصہ