پاکستان کے سیکولر حلقوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً یہ دعویٰ سامنے آتا رہتا ہے کہ بانیِ پاکستان اتاترک سے بہت متاثر تھے اور پاکستان میں بھی سیکولرازم کا وہی تجربہ کرنا چاہتے تھے جو اتاترک نے ترکی میں کیا تھا۔نیز یہ کہ کمال پاشا نے اپنے ملک میں سیکولرازم کے نفاذ کے لیے کسی جبر سے کام نہیں لیا اور یہ حربے اس کے جانشین عصمت انونو سے لے کر طیب اردوگان سے پہلے تک کے حکمرانوں نے استعمال کرکے سیکولرازم کو بدنام کیا، جب کہ اتاترک نے سیکولرازم کا سہارا صرف اس بنا پرلیا تھا تاکہ ترکی میں مذہبی لوگوں کی پھیلائی ہوئی فرقہ وارانہ منافرت پر قابو پایا جاسکے جس کی وجہ سے اس دور کے ترکی کے حالات موجودہ پاکستان سے بھی زیادہ خراب ہوگئے تھے۔ مذہبی عناصر کی اسی جنگ کے سبب تین براعظموں پر پھیلی ہوئی سلطنت عثمانیہ مٹ گئی۔ اتاترک کی جدوجہد کو ترکی ہی نہیں، برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی بھی بھرپور حمایت حاصل ہوئی۔ اس لیے اس پر سیکولرازم کے نفاذ کے حوالے سے نکتہ چینی درست نہیں۔
سیکولر حلقوں کے یہ دعوے تاریخی حقائق سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے۔ترکی میں آج بھی 99.8 فی صد آبادی حنفی مسلک کے سنی مسلمانوں کی ہے اور پہلے بھی یہی صورت تھی، لہٰذا وہاں فرقہ واریت کا کوئی مسئلہ نہ مصطفی کمال پاشا کے دور میں تھا، نہ اس سے پہلے، نہ بعد۔ چنانچہ اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ اتاترک کے دور میں مذہبی لوگوں نے فرقہ واریت کا بازار گرم کررکھا تھا۔ کھلی حقیقت یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے کمزور ہونے کا بنیادی سبب پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی طرف سے جرمنی کا ساتھ دیا جانا تھا جس میں جرمنی اور اس کے حلیفوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے نتیجے میں جنگ کے اختتام پر 1918ء میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے استنبول پر قبضہ کرلیا۔کمال پاشا نے سلطنت عثمانیہ کے تحت ترکی کے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے کے لیے بلاشبہ عظیم الشان خدمات انجام دیں۔ یہی دور تھا جب وہ خلافت اسلامیہ کے محافظ کی حیثیت سے اپنے ہم وطنوں اور پوری مسلم دنیا خصوصاً برعظیم کے مسلمانوں کی آنکھوں کا تارا بنے۔ یہی دور تھا جب ہندستان میں تحریک خلافت شروع ہوئی۔ جوہر برادران (مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی جوہر) اور دوسرے مسلمان رہنمائوں نے اسے ہندستان کے چپے چپے تک پھیلا دیا اور یہ سلوگن ملک کے طول و عرض میں گونجنے لگا کہ ’’بولیں امّاں محمد علی کی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو‘‘۔
1923ء میں اتاترک کے ہاتھوں خلافت کا خاتمہ اور پھر اسلامی تہذیب و روایات کی جگہ جبراً مغربی تہذیب کو مسلط کرنے کے اقدامات کا عمل میں آنا، مسلمانانِ ہند کے نزدیک ایک عظیم المیہ تھا۔ کمال پاشا کو وہ عظیم مسلمان غازی اور مجاہد سمجھتے تھے اور امید رکھتے تھے ان کے ذریعے خلافت اسلامیہ ازسرنو بام عروج پر پہنچے گی اور مسلم دنیا کے درمیان اتحاد ویگانگت کے رشتوںکو مضبوط کرنے کا سبب بنے گی۔ خلافت کے خاتمے اور ترکی کے محض ایک قومی ریاست بن جانے کے المیے پر، مسلمانوں کو ’’ بْتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا، نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی‘‘ کا درس دینے والے علامہ اقبال نے اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا:
چاک کر دی تُرکِ ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ‘ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ اور ’’ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی، ہوس کی امیری ،ہوس کی وزیری‘‘ جیسے بلیغ کلام کے ذریعے اس نظام کی حقیقت کو بے نقاب کردینے والے حکیم الامت علامہ اقبال کو مصطفی کمال اور شاہ ایران رضا شاہ کے سیکولر اقدامات سے جو مایوسی ہوئی اس کا اظہار اُن کے اس شعر سے بھی ہوتا ہے:
نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نُمود اس کی
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی
کمال پاشا نے خلافت کا خاتمہ کرکے ترکی کو جبراً ایک ایسی سیکولر قومی ریاست بنادیا جس میں اذان اور اللہ کا نام تک عربی ہونے کی وجہ سے ممنوع قرار پایااور اس کی جگہ ترکی کے لفظ Tanri کا استعمال لازمی قرار دیا گیا۔ عورتوں کے لیے حجاب کے قرآنی احکام پر عمل ممنوع ٹھیرا اور مردوں کے لیے مغربی لباس لازمی قرار دیا گیا تو ترکی میں بھی، محض مولویوں کی طرف سے نہیں، عام مسلمانوں کی جانب سے بھی اس اقدام کے خلاف شدید مزاحمت کی گئی جسے کمال پاشا نے نہایت سختی سے کچل دیا۔
اسلام کے بارے میں کمال پاشا کے حقیقی خیالات کیا تھے؟ ان کے ایک سوانح نگار ایچ سی آرمسٹرانگ کی کتاب’’ گرے وولف‘‘ میں دی گئی کمال پاشا کی ایک تقریر کے ان الفاظ سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے:
تقریباً پانچ سو سال تک ایک عرب شیخ کے یہ قوانین و نظریات اور کاہل و ناکارہ علماء کی جانب سے کی گئی اِن کی تشریحات ترکی کے شہری اور فوجداری قانون کی صورت گری کرتے رہے ہیں۔ ہمارے آئین کی نوعیت، ہر ترک باشندے کی زندگی کی تفصیلات، اس کی غذا، سونے جاگنے کے اوقات، اس کے لباس کی ہیئت ، اس دایہ کے معمولات جس کے ہاتھوں اس کے بچوں کی ولادت ہوتی ہے،وہ سب کچھ جو وہ اپنی درس گاہوں میں سیکھتا ہے،اس کے رسوم و رواج، حتیٰ کہ اس کی بالکل ذاتی عادات تک کا تعین یہی اصول و ضوابط کرتے چلے آئے ہیں۔ اسلام ایک… (ناقابل تحریر لفظ) عرب کا مذہب، ایک مردہ چیز ہے۔ ممکن ہے ریگستان کے قبائل کے لیے یہ مناسب ہو، لیکن کسی جدید ترقی پسند ریاست کے لیے یہ کسی کام کا نہیں۔اللہ کی جانب سے وحی؟ خدا کا کوئی وجود نہیں۔ یہ صرف وہ زنجیریں ہیں جن میں مذہبی رہنما اور برے حکمران لوگوں کو جکڑتے ہیں۔ جس لیڈر کو مذہب کی ضرورت ہو،وہ کمزور ہے اور کسی کمزور کو حکومت نہیں کرنی چاہیے‘‘۔ (گرے وولف، ص200-199)
واضح رہے کہ بعض سیکولر قلم کاروں کے بقول قائد اعظم نے بھی اس کتاب کی تعریف کی تھی اور اس بنیاد پر ان کا دعویٰ ہے کہ قائد اعظم اتاترک کے مداح تھے اور پاکستان میں ویسا ہی نظام لانا چاہتے تھے جیسا ترکی کا یہ لیڈر اپنے ملک میں لایا تھا۔
اب رہ گئی یہ خوش گمانی کہ کمال پاشا نے اپنے سیکولر نظریات اپنے ہم وطنوں پر مسلط کرنے کے لیے کسی جبر سے کام نہیں لیا ، یہ سب اتاترک کے بعد اور طیب اردوگان سے پہلے آنے والے حکمرانوں نے کیا ، تواسے بھی واقعاتی حقائق کی روشنی میں دیکھ لیجیے۔ ایچ سی آرمسٹرانگ کے مطابق کمال پاشا کے لیے اپنی کسی راے سے اختلاف ناقابل برداشت تھا۔ گرے وولف کا مصنف لکھتا ہے ’’وہ اپنی رائے کے خلاف کسی کی بات نہیں سنتا تھا۔وہ ہر اس شخص کی توہین کرتا تھا جو اس سے اختلاف کی جرأت کرے۔ وہ تمام اقدامات کو حقیر ترین ذاتی مفاد کی کسوٹی پر پرکھتا تھا۔وہ انتہائی حاسد تھا۔اس کے نزدیک ہوشیار اور لائق لوگ ایسا خطرہ تھے جن سے نجات حاصل کرنا ضروری تھا۔ دوسروں کی صلاحیتوں پر وہ شدید نکتہ چینی کیاکرتا تھا‘‘۔(ص213) اس مزاجی کیفیت کے ساتھ کمال پاشا نے ترکی میں کیا ’اصلاحات‘ نافذ کیں اور کس طرح کیں، اس پر روشنی ڈالتے ہوئے دور جدید کے ممتاز مذہبی اسکالر ڈاکٹر یوسف القرضاوی اپنی کتاب اسلام اور سیکولرازم میں لکھتے ہیں:’’اسلامی ممالک میں اسلام اور سیکولرازم کی واضح اور نمایاں ترین مثال ترکی کی ہے جہاں خلافت ِاسلامیہ کو ختم کرکے اور خون کا دریا عبور کرکے پورے زور اور قوت کے ساتھ لادینیت کو مسلط کیا گیا۔اتاترک نے جبر اور تسلط کے ساتھ سیاست، اقتصاد، اجتماع،تعلیم اور ثقافت، غرض زندگی کے ہر پہلو میں مغربی طرز حیات جاری و ساری کردیا، اور ترک قوم سے اس کی ثقافت، اس کی اقدار اور اس کی روایات اس طرح سلب کرلیں جس طرح ذبح شدہ بکری کی کھال کھینچی جاتی ہے ‘‘۔
کمال پاشا نے ترکی میں اللہ کا نام لینے پر جس طرح پابندی عائد کی۔ 9 جنوری1933ء کے ٹائم میگزین میں اس کی رپورٹ یوں شائع ہوئی : ’’ترکوں نے پچھلے ہفتے نیا چاند دیکھا جس کے بعد رمضان کا مہینہ شروع ہوا۔وہ مہینہ جس میں پیغمبر اسلام محمدؐ پر قرآن نازل ہوا تھا۔اس سال نئے چاند کی پہلی جھلک کے ساتھ خوف کی بھی ایک خاص کیفیت لوگوں پر طاری تھی۔ ترکوں کو ان کے سخت گیر آمر مصطفی کمال پاشا کی طرف سے، جس نے انھیں حجاب اورترکی ٹوپی چھوڑنے پر مجبور کیا (ٹائم، 15 فروری 1926ء)،حکم دیا گیا تھا کہ اس رمضان کے آغاز کے بعد وہ کبھی خدا کو اس کے عربی نام’ اللہ ‘سے نہیں پکاریں گے۔ آمر کمال کے ظالمانہ حد تک سخت فرمان کے ذریعے پچھلے ہفتے مؤذنوں کو پابند کیا گیا کہ وہ ترکی کے میناروں سے مسلمانوں کو کسی بھی صورت ’اللہ اکبر‘ کے الفاظ سے نہیں بلائیں گے، اس کے بجاے نامانوس الفاظ Tanri Uludurاستعمال کریں گے جس کے معنی ترکی زبان میں وہی ہیں۔ جب اماموں نے دھمکی دی کہ وہ مسجدوں میں خدمات انجام دینا بند کردیں گے۔توحکومت نے اعلان کیا کہ ان کی جگہ نئے تربیت یافتہ افراد کا تقرر کردیا جائے گا جو ترکی زبان میں قرآن پڑھنا جانتے ہیں۔
رمضان کی آمد سے عین قبل محکمہ ثقافت (جس میں مذہب بھی شامل ہے) کے کچھ اہل کاروں نے ہمت جمع کی اور ترکی کے آمر کو بتایا کہ وہ ترکی کے خدا کا نام تبدیل نہیں کرسکتا، کم از کم اِس وقت۔ اسے بتایا گیا کہ متعدد مؤذنوں کے اس اصرار پر کہ وہ اللہ اکبر کہہ کر ہی اذان دیں گے، پہلے ہی جیل بھیجا جاچکا ہے۔ اس پر لوگوں کا غم وغصہ بڑھ رہا ہے ،اور صاف ظاہر ہے کہ وہ اللہ اکبر کہنے والے ان مؤذنوں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ آمر کمال یکایک ایک نتیجے تک پہنچے اور بولے ’’انھیں عارضی طور پر اسی طرح نماز پڑھنے دو جیسے وہ چاہتے ہیں‘‘۔ یہ سننے کے بعد چاند نکلنے سے محض چند گھنٹے پہلے ان کا وزیر خوش ہو کر یہ اعلان کرنے کے لیے دوڑا کہ ’’مؤذنوں اور اماموں کی عمومی عدم تیاری کی وجہ سے اس رمضان کے دوران نمازوں کی ادائی اور قرآن کی تلاوت عربی زبان میں کی جاسکتی ہے لیکن خطبہ لازماً ترکی زبان میں دیا جانا چاہیے‘‘۔ اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ٹائم کا رپورٹر کہتا ہے ’’رمضان میں تمام مسلمان خاص طور پر تند مزاج ہوتے ہیں کیونکہ دن کے اوقات میں وہ کچھ کھاتے پیتے نہیں، روزے ختم ہونے کے بعد ترک زیادہ نرم خو ہوجائیں گے،اور امید ہے کہ اپنے آمر کے حکم کے مطابق اپنے خدا کے لیے نیا نام قبول کرلیں گے‘‘۔
اتاترک کے پاکستانی وکیلوں کے اس دعوے کے برعکس کہ اس نے اپنے نظریات سے اختلاف کرنے والوں پر کوئی زیادتی نہیں کی، گرے وولف کا
مصنف ایچ سی آرمسٹرانگ بالکل مختلف کہانی سناتا ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے: ’’ خفیہ پولیس نے اپنا کام کیا۔ ٹارچر، مارپیٹ اور دوسرے طریقوں سے پولیس کو حراست میں لیے جانے والے مخالف لیڈروں کو مجرم ٹھیرانے کے لیے خاطر خواہ ثبوت مہیا کرنے تھے۔ ان پر مقدمہ چلانے کے لیے ایک ٹریبونل نامزد کیا گیا۔کسی طریق کار اور شواہد کا تکلف کیے بغیر عدالت نے انھیں پھانسی کی سزا سنادی۔سزاے موت کے وارنٹ مصطفی کمال کو دستخط کے لیے ان کی رہائش گاہ ’خان کیا‘بھیجے گئے۔ان میں سے ایک وارنٹ کمال کے جگری دوست عارف کی سزاے موت کا بھی تھا جو مصطفی کمال سے جھگڑے کے بعد اپوزیشن میں چلا گیا تھا۔ عارف اس کا ایک ایسا دوست تھا جو جنگ آزادی کے تمام کٹھن دنوں میں اس کا وفادار رہا تھا۔وہ اکیلا شخص تھاجس کے سامنے کمال نے اپنادل کھول کر رکھ دیاتھا۔ ایک عینی شاہد کے مطابق جب یہ وارنٹ سامنے آیا تو غازی کے چہرے پر کوئی تغیر رونما نہیں ہوا۔اس نے کوئی تبصرہ کیانہ ہچکچایا۔اس نے اپنا سگریٹ ایش ٹرے کے کنارے رکھا، اور عارف کے موت کے پروانے پر اس طرح دستخط کردیے جیسے یہ روزمرہ معمول کا کوئی عام کاغذ ہو، اور دوسرے وارنٹ پر پہنچ گیا‘‘۔ آرمسٹرانگ نے اس کے بعد ایک محفل رقص و سرود اور ناؤ و نوش کی تفصیلات بیان کی ہیں جو آمر وقت کی خواہش کے مطابق اسی رات ’خان کیا ‘میں برپا ہوئی، جب کہ عین ان ہی لمحات میں اس عشرت کدے سے چار میل دور انقرہ کے گریٹ اسکوائر پر عارف سمیت پاشا سے اختلاف راے کرنے کے جرم میں ۱۱ ترک لیڈروں کو تختۂ دار پر لٹکایا جارہا تھا۔
ان تفصیلات سے واضح ہے کہ اتاترک جنگ آزادی کے دوران بلاشبہ ایک محبوب رہنما کی حیثیت سے اُبھرے لیکن خلافت کے خاتمے اور ترکی کو اسلامی اقدار و روایات سے دور کرنے کے اقدامات پر نہ صرف برعظیم اور ساری دنیا کے مسلمانوں کو مایوسی ہوئی بلکہ ان اقدامات کی بھرپور مخالفت ان کے اپنے ملک میں بھی ہوئی جسے انھوں نے انتہائی بے رحمی سے کچل دیا۔ لہٰذایہ دعویٰ بالکل بے بنیاد ہے کہ جبر و ستم کا سلسلہ ان کے بعد کے حکمرانوں نے شروع کرکے اتاترک کے سیکولرازم کو بدنام کیا۔
یہ بات بھی تاریخی حقائق کے منافی ہے کہ کمال پاشا کے بعد اور طیب اردوگان سے پہلے تک ترکی کے تمام حکمراں جبر و تشدد سے کام لیتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اتاترک کے جانشین عصمت انونو وغیرہ کے بعد 1951ء سے 1960ء تک عدنان مندریس اور جلال بایار کے دور میں اتاترک کے غلط اقدامات کی اصلاح کرنے کی کوشش کی گئی، عربی میں اذان اور نماز کی اجازت دی گئی اور دوسرے اقدامات کیے گئے، لیکن ترک فوج نے جو خود کو اتاترک کے اسلام مخالف سیکولر اقدامات کا محافظ سمجھتی تھی، جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا اور عدنان مندریس کو اتاترک کے اصولوں سے رُوگردانی کی پاداش میں پھانسی دے دی۔ اس کے بعد سلیمان ڈیمرل اور نجم الدین اربکان وغیرہ کے ادوار حکومت میں بھی یہ کوششیں جاری رہیں لیکن فوجی مداخلت انھیں ناکام بناتی رہی۔ بالآخر نجم الدین اربکان کے ساتھی طیب اردوگان اور عبداللہ گل کی حکمت عملی کامیاب رہی، اور ترک عوام کی بھرپور حمایت حاصل کرکے انھوں نے ملک کو فوجی تسلط سے آزاد کرایا اور معاشی بحران سے نجات دلائی۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ یہ لوگ ترکی کی اسلامی تحریک کا حصہ ہیں لیکن ان پابندیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں جو اب تک برقرار ہیں۔
ترکی میں جس درجے اور جس قسم کا سیکولرازم نافذ کیا گیا تھا، اس کی ایک چشم کشا مثال ترکی میں مقیم ایک پاکستانی معلم اور کمال پاشا کے مداح نے اپنے ایک اخباری کالم میں پیش کی ہے۔ ان کے مطابق رمضان کے دنوں میں انقرہ یونی ورسٹی میں ان کی کلاس عین افطار کے وقت بھی جاری رہتی تھی۔ جو طلبہ و طالبات روزے سے ہوتے وہ کلاس کے دوران خاموشی سے چاکلیٹ وغیرہ سے روزہ افطار کرلیتے تھے اور نماز اور افطار کا کوئی وقفہ نہیں ہوتا تھا۔ کالم نگار کے مطابق رمضان اور روزے کا اس طرح اہتمام اصل اسلام کا حقیقی مظاہرہ ہے۔ انہیں افسوس ہے کہ پاکستان میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ حیرت ہے کہ سیکولر مغربی ملکوں میں کرسمس کی دس روزہ تعطیلات اور پُرجوش تقریبات، شادیوں کا چرچ میں انعقاد، سیکولر بھارت میں ہولی دیوالی کے جشن، مغربی ملکوں میں ہفتہ وار تعطیل کے لیے عیسائیت میں مذہبی اہمیت رکھنے والے دن اتوار اور اسرائیل میں سنیچر، یعنی یومِ سبت کا انتخاب وغیرہ تو انہیں سیکولرازم سے متصادم نظر نہیں آتا، مگر تقریباً 100 فی صد مسلمان آبادی والے ملک ترکی میں اسلام کی رُو سے مقدس ترین مہینے رمضان میں افطار اور نمازِ مغرب کے لیے وقفہ نہ کرنے کو وہ سیکولرازم ہی کا نہیں اسلام کا بھی مثالی مظاہرہ سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مثال کمال پاشا کی جبری سیکولر بلکہ اسلام مخالف ’اصلاحات‘ کا ایک ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔اس ترکی کو قائد اعظم کا آئیڈیل قرار دینا اور اتاترک کو ان’ اصلاحات‘ کی بنا پر بانی پاکستان کا ممدوح ٹھیرانا قطعی ناقابل فہم ہے۔
کمال پاشا اور قائد اعظم ہر لحاظ سے مختلف تھے۔ ایک خود راے آمر تھا تو دوسرا سرتاپا جمہوریت پسند۔ ایک نے اپنی قوم پر انگریزی لباس اور تہذیب بالجبر مسلط کی تو دوسرے نے سربراہ مملکت بنتے ہی شیروانی اور قراقلی ٹوپی کی ایسی پابندی اختیار کی کہ کسی سرکاری تقریب میں اس کی خلاف ورزی نہ ہوئی۔ ایک نے عربی رسم الخط ختم کرکے رومن حروف تہجی زبردستی رائج کیے تو دوسرے نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان کی قومی زبان اُردو اور صرف اُردو ہوگی۔ ایک کا معمول علماے اسلام کی تحقیر تھا تو دوسرے نے پہلے یومِ آزادی کی تقریب پر پرچم کشائی کے لیے تحریکِ پاکستان میں قائدانہ کردار ادا کرنے والے ممتاز عالم دین علامہ شبیر احمد عثمانی کا انتخاب کیا۔ ایک نے اپنے ہم وطنوں کو عالمی اسلامی برادری سے کاٹ پھینکنے کے اقدامات کیے تو دوسرا مسلمانانِ عالم کے اتحاد کا عَلم بردار تھا۔ ایک کے نزدیک اسلام ریگستان کے قبائل کا دین اور کسی جدید ریاست میں قابل نفاذ نہیں تھا تو دوسرے نے اپنے درجنوں بیانات اور تقریروں میں واضح کیا کہ اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے اور قرآن و سنت میں اس کی مکمل صورت گری کردی گئی ہے۔ اس نے صاف طور پر کہا کہ ’’پاکستان کا مطالبہ محض زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا گیا بلکہ اسے دورِ جدید میں اسلام کی تجربہ گاہ بنایا جانا ہے‘‘۔
قیامِ پاکستان کے بعد اپنی زندگی کے آخری مہینوں میں امریکی عوام کے نام اپنے نشری پیغام میں آئین پاکستان کے حوالے سے دو ٹوک الفاظ میںواضح کیا کہ وہ سیکولر نہیں بلکہ اسلام کے اصولوں کے عین مطابق ہوگا۔ قائد اعظم کے الفاظ ہیں ’’مجلسِ دستور ساز پاکستان کو ابھی پاکستان کے لیے دستور مرتب کرنا ہے۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کی یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان کا اطلاق عملی زندگی میں ویسے ہی ہوسکتا ہے جیسے کہ تیرہ سو برس قبل ہوسکتا تھا۔ اسلام نے ہرشخص کے ساتھ عدل اور انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے وارث ہیںاور پاکستان کے آئندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں۔‘‘ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلد چہارم، ص 421)۔ ایسے شخص کو اُس جیسا قرار دینا جس نے اپنی قوم کا رشتہ اسلام سے کاٹ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی، بڑی نا انصافی اور حقائق کے یکسر منافی ہے۔