یوم آزادی اور پاکستان

150

پاکستان کبھی ایک معجزہ تھا آج جادو بھی نہیں ہے۔ پاکستان کبھی اسلام کا قلعہ تھا آج اسلام کی جھگی بھی نہیں ہے۔ پاکستان کبھی ایک سمندر تھا آج ایک تالاب بھی نہیں ہے۔ کبھی پاکستان کی ہر چیز عظیم تھی آج کچھ بھی عظیم نہیں ہے۔

پاکستان کا نظریہ عظیم تھا۔ اس نظریے نے محمد علی جناح کو قائداعظم بنا کر کھڑا کیا۔ قائداعظم صرف افراد کے وکیل تھے پاکستان کے نظریے نے انہیں ایک مذہب، ایک تہذیب، ایک تاریخ اور ایک قوم کا وکیل بنادیا۔ برصغیر کی ملت اسلامیہ ایک بھیڑ تھی پاکستان کے نظریے نے بھیڑ کو قوم بنایا۔ پاکستان کا نظریہ اسلام تھا اور اسلام نے قوم پرست اقبال کو امت پرست اقبال میں ڈھالا۔ قوم پرست اقبال کے لبوں پر

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

کا نغمہ تھا۔ اسلام نے اقبال کی قلب ماہیت کردی اور وہ یہ گیت گاتے نظر آئے۔

چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

اقبال کی قوم پرستی کے زمانے میں اقبال تقریباً ایک ہندو کے انداز میں سوچتے تھے۔ اس زمانے میں انہوں نے لکھا

پتھر کی مورتوں کو سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے

لیکن اسلام نے جب اقبال کی قلب ماہیت کردی تو پھر اقبال وطن پرستی کی مذمت کرتے نظر آئے اور انہوں نے فرمایا۔

بازو ترا اسلام کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے
…٭…
ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

کبھی پاکستان کی تاریخ بھی عظیم تھی۔ جس وقت قیام پاکستان کا مطالبہ سامنے آیا اس وقت کی تاریخ انسانوں کو Dictate کررہی تھی کہ ہمارا تشخص نسل، زبان اور جغرافیے سے متعین ہوتا ہے مگر برصغیر کی ملت اسلامیہ نے تاریخ کے اس جبر پر تھوک دیا اور کہا کہ میرا اصل تشخص نسل ہے، نہ زبان ہے نہ جغرافیہ ہے۔ میرا اصل تشخص میرا مذہب ہے۔ مذہب سے برآمد ہونے والی میری تہذیب ہے، مذہب سے فراہم ہونے والے میرے مثالیے یا میرے Ideals ہیں۔ جس زمانے میں قیام پاکستان کا مطالبہ سامنے آیا اس زمانے کی تاریخ کا ایک اور بڑا جبر سوشلزم تھا۔ روس میں انقلاب آئے مدتیں گزر چکی تھیں آدھا یورپ سوشلسٹ ہوچکا تھا مگر پاکستان کے تاریخی تجربے نے سوشلزم کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان کی قیادت بھی عظیم تھی۔ قائداعظم کہنے کو ایک فرد تھے مگر دراصل وہ ایک رکنی فوج یا one man army تھے۔ ان کو نہ کوئی خرید سکتا تھا نہ انہیں کوئی ڈرا سکتا تھا۔ ان کے سامنے ایک طرف وقت کی واحد سپر پاور یعنی سلطنت برطانیہ تھی اور دوسری طرف ہندو اکثریت تھی۔ مگر قائداعظم نہ وقت کی واحد سپر پاور سے مرعوب ہوئے نہ انہیں ہندو اکثریت کا خوف لاحق ہوا۔ قائداعظم سے ایک بار ایک ہندو صحافی نے کہا تھا کہ آپ کبھی کانگریس میں تھے قائداعظم یہ سن کر مسکرائے اور کہا کہ میں کبھی اسکول میں بھی تھا۔ قائداعظم کے اس جواب سے ظاہر ہے کہ کانگریس کا زمانہ قائداعظم کے اسکول کا زمانہ تھا اور دو قومی نظریے کی سیاست نے قائداعظم کو پی ایچ ڈی اسکالر میں تبدیل کردیا تھا۔

بلاشبہ قیام پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے والی برصغیر کی ملت اسلامیہ بھی عظیم تھی۔ اس کا ایک ٹھوس اور ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ پاکستان پنجاب، سندھ، بنگال، کے پی اور بلوچستان میں بن رہا تھا مگر تحریک پاکستان یوپی اور دلی میں چل رہی تھی، حالاں کہ یوپی اور دلی کے لوگ جانتے تھے کہ ان کے علاقے ہندو اکثریتی علاقے ہیں اور وہ کبھی پاکستان کا حصہ نہیں ہوں گے مگر اس کے باوجود یوپی اور دلی کے لوگوں نے قیام پاکستان کے لیے سردھڑ کی بازی لگادی۔ یہ حقیقت راز نہیں تھی کہ پاکستان ہندوستان کے مقابلے میں ایک چھوٹا ملک تھا مگر چوں کہ اس کا نظریہ، اس کی تاریخ، اس کی قیادت اور اس کی قوم عظیم تھی اسی لیے ان چیزوں کا اثر قیادت کے تناظر اور حوصلوں پر بھی مرتب ہوا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ قائداعظم نے قیام پاکستان کے بعد ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے بے انتہا محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر ہندوستان نے اپنی مسلم اقلیت کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا تو پاکستان بھارت میں مداخلت کرے گا۔ ظاہر ہے کہ مداخلت بیانات کے ذریعے نہیں ہوتی مداخلت فوج کے ذریعے ہوتی ہے۔ قائداعظم کو اچھی طرح معلوم تھا کہ قیام اسرائیل کی پشت پر مغرب کی تمام بڑی قوتیں موجود ہیں اس کے باوجود قائداعظم نے کہا کہ اگر ہمیں فلسطینی بھائیوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے تشدد کا سہارا لینا پڑا تو ہم ضرور لیں گے۔ یہ پاکستان کی عظمت کی چند جھلکیاں تھیں اور ان جھلکیوں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کبھی پاکستان کیا تھا۔

بدقسمتی سے قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد پاکستان کو جو قیادت فراہم ہوئی اس کا نہ کوئی خدا تھا نہ کوئی رسول تھا نہ کوئی کتاب تھی نہ اس کا کوئی نظریہ تھا۔ چونکہ پاکستان ابتدا ہی سے نظریاتی خلا سے دوچار ہوگیا بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے قوم کا نظریہ بدلنے کی سازش کی۔ جنرل ایوب سیکولر تھے اور انہوں نے سیکولر ازم کے زیر اثر سود کو حلال قرار دینے کی سازش کی انہوں نے وہ عائلی قوانین ملک پر مسلط کیے جو اسلامی تعلیمات سے متصادم تھے۔ جنرل ایوب کو اسلام سے اتنی چڑ تھی کہ انہوں نے آئین سے اسلام کا لفظ ہی نکال دیا۔ ایک وقت تھا کہ قائداعظم نے وقت کی واحد سپر پاور سلطنت برطانیہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پاکستان حاصل کیا تھا اور ایک وقت وہ آیا جب جنرل ایوب نے پاکستان کو امریکا کی باج گزار اور طفیلی ریاست بنادیا۔ پاکستان کے نظریہ ساز اقبال نے کہا تھا۔

اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِّآدم ہے ضمیرِ کُن فکاں ہے زندگی

مگر جنرل ایوب ہوں یا جنرل یحییٰ، جنرل ضیا الحق ہوں یا جنرل پرویز مشرف، بے نظیر بھٹو ہوں یا میاں نواز شریف پاکستان کے کسی بھی حکمران نے پاکستان میں اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے پاکستان میں وہ دنیا خلق کی جو امریکا اور یورپ کو درکار تھی۔

پاکستان کی تاریخ میں سقوسط ڈھاکا کی اہمیت بنیادی ہے۔ سقوط ڈھاکا سے پہلے ہر پاکستانی کا یہ سیاسی عقیدہ تھا کہ پاکستان ہمیشہ رہنے کے لیے وجود میں آیا ہے لیکن سقوط ڈھاکا اور مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی نے اس عقیدے کے پرخچے اُڑا دیے اور سقوط ڈھاکا ہماری اجتماعی قومی نفسیات میں ایک زلزلہ بن کر بیٹھ گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں کہیں بھی حالات خراب ہوتے ہیں تو ہمیں یہ اندیشہ لاحق ہوجاتا ہے کہ پاکستان کی بقا و سلامتی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ 1980ء کی دہائی میں جب سندھ میں ایم آر ڈی کی تحریک چل رہی تھی اور جنرل ضیا الحق اس تحریک کو کچلنے کے لیے اندھا دھند طاقت استعمال کررہے تھے تو پروفیسر غفور اور مولانا نورانی جیسے قدآور سیاست دان اپنے بیانات میں کہہ رہے تھے کہ دیہی سندھ میں مشرقی پاکستان جیسی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ 1992ء میں جب کراچی میں ایم کیو ایم اور الطاف حسین نے بدامنی کی انتہا کردی تھی اور ان کے خلاف فوجی آپریشن ہورہا تھا تو ایسا لگ رہا تھا کہ کراچی کسی بھی وقت پاکستان سے الگ ہوسکتا ہے۔ اس زمانے میں حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ قاضی حسین احمد جیسے سیاسی رہنما کا یہ بیان روزنامہ جنگ میں شائع ہوا کہ کراچی میں اقوام متحدہ کی فوج اتر چکی ہے۔

قاضی صاحب سے ہماری ملاقات ہوئی تو ہم نے اس بیان کا پس منظر معلوم کیا۔ کہنے لگے کہ مجھے کراچی کی بندرگاہ سے ایک ذریعے نے فون کرکے بتایا کہ اقوام متحدہ کی فوج کراچی میں اتر رہی ہے۔ اصل قصہ یہ تھا کہ بوسنیا میں پاک فوج کے جو دستے اقوام متحدہ کی امن فوج کے طور پر کام کررہے تھے وہ کراچی واپس آئے تھے اور ان کے سامان پر اقوام متحدہ کے پرچم لہرا رہے تھے۔ چنانچہ کسی صاحب نے یہ سمجھا کہ کراچی میں اقوام متحدہ کی فوج اتر چکی ہے۔

اس وقت ملک کی صورت حال انتہائی مخدوش ہے۔ پاکستان کی معیشت تباہ ہوچکی ہے اور دیوالیہ پن ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ ملک میں سیاسی انتشار کی آندھیاں چل رہی ہیں۔ چنانچہ ہمارے ایک دوست چند روز پیش تر ہمارے پاس آئے تو کہنے لگے کہ خاکم بدھن اب تو ملک کے ٹکڑے ہوں گے۔ دراصل ان کا یہ بیان ایک بھارتی صحافی کے بیان کا نتیجہ تھا۔ بھارتی صحافی نے اپنے بیان میں یہ کہا ہے کہ اگر پاکستان دیوالیہ ہوگیا تو پورا ملک انارکی کی زد میں آجائے گا۔ ایسی صورت حال میں ہندوستان سمیت دنیا کی بڑی طاقتیں پاکستان کے حصے بخرے کرنے کی جانب مائل ہوسکتی ہیں۔ بلوچستان آزاد ریاست بن کر ابھر سکتا ہے اور سندھ اور گلگت بلتستان پر ہندوستان قابض ہوسکتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کا مقدر ایک عظیم ریاست بن کر ابھرنا ہے مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے قائداعظم کا آدھا اوریجنل پاکستان گنوادیا ہے اور باقی پاکستان سیاسی اور معاشی آندھیوں کی زد پر رکھا ہوا ہے۔ اور ہماری اجتماعی نفسیات میں موجود سقوط ڈھاکا کا زلزلہ ہمیں ہمارے مستقبل کے حوالے سے اندیشوں میں مبتلا کررہا ہے۔ ذرا سوچیے تو پاکستان کبھی کیا تھا اور اسے ہمارے حکمرانوں نے کیا بنادیا ہے۔

تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ انانوں اور قوموں کی زندگی میں اصل چیز نظریہ ہوتا ہے۔ یہ نظریہ تھا جس نے روس میں انقلاب برپا کیا اور اسے دنیا کی سپرپاور بنایا، یہ نظریہ تھا جس نے چین میں انقلاب برپا کیا اور آج چین دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت ہے، یہ نظریہ تھا جس نے پاکستان تخلیق کیا۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکسان کے ہر مسئلے کا حل ملک کے نظریے کی طرف لوٹنے میں ہے۔ نظریہ ہی ہمیں حقیقی معنوں میں آزاد ملک اور آزاد قوم بنا سکتا ہے۔ نظریہ ہی پوری قوم کو تخلیقی قوم میں ڈھال سکتا ہے، صرف نظریے کی پاسداری سے ہمیں اہل اور مخلص قیادت میسر آسکتی ہے۔

nn

حصہ