آخر شب کے ہم سفر

92

برابر کی تصویر میں گرینڈ ما بیٹھی ہیں۔ اونچا سا جوڑا باندھے۔ درشت چہرہ۔ سیاہ گائون۔ ہندوستان میں برطانوی سوسائٹی کی ایک فراموش شدہ ستون۔ ان کے برابر میں گریٹ آنٹ میبل کی تصویر رکھی ہے۔ (بوڑھا وفادار عبدالغفور جو ولیم کینٹ ویل سے ترکے میں ملا ہے۔ کس احتیاط اور خیال سے روزانہ ان ساری تصویروں کی جھاڑ پونچھ کرتا ہے) گریٹ آنٹ میبل جو گرینڈ ڈیڈ کی بہن تھیں۔ انہوں نے ساری زندگی چرچ آف انگلیڈ کی ’’زنانہ مشنری سوسائٹی‘‘ کا کام کرنے میں صرف کردی۔ جو ڈیڈ بتاتے تھے۔ ایک روز گوالندو گھاٹ سے تن تنہا اسٹیمر پر بیٹھیں اور درد دراز شمالی مغربی صوبجات (موجودہ یوپی) کے ایک دور افتادہ ضلع میں مشن قائم کرنے کے لئے یسوع کا نام لے کر چل پڑیں۔ گوالندو سے مونگھیر، پٹنہ، بکسر، غازی پور، بنارس… (ہرنام کا اپنا… رومان تھا) بنارس کے خوفناک صنم کدے سے وہ اودھ کے شہر سیتاپور پہنچیں۔ وہاں مشن کمپائونڈ میں اسکول اور اسپتال قائم کیا اور بیچاری جوانی کے عالم ہی میں وہاں ہیضے کا شکار ہوگئیں۔ آج کی یہ تعلیم یافتہ قوم پرست ہندوستانی لڑکیاں آنٹ میبل جیسی بہادر عورتوں کی شکر گزار ہیں۔ جنہوں نے تعلیم کی روشنی ان تک پہنچائی؟

کُوئٹ انڈیا! بلڈی فُولز…
اب چارلس بارلو کا سر بھاری سا ہورہا تھا۔ وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور کمرے میں ٹہلنے لگا۔ تنہائی میں مجھ پر ماضی کی یاد کے دورے زیادہ پڑنے لگے ہیں۔ اور یہ اچھی بات نہیں۔

ڈیڈ کا آئل پورٹریٹ، جو لندن کے کسی دوسرے درجے کے مصور نے 1901ء میں بنایا تھا، ڈیڈ تھوڑی سے ڈینڈی تھے۔ ایلن ٹیری اور اوسکر وائلڈ اور آبری بیرڈزلے کے دور کے فیشن ایبل نوجوان، جو فرلو پر لندن جاتے تو اپنا سارا وقت تھیٹر اور اوپیرا اور بیلے میں گزارتے Gay Ninetiee کے ہنگاموں کے رسیا۔ واپس آتے اور بنگال اور اڑیسہ کے غیر دلچسپ پس ماندہ اضلاع میں اپنے فرائض منصبی میں جت جاتے مگر اپنے لندن سے انٹیلیچویل دوستوں سے خط و کتابت جاری رکھتے۔ کتنے برطانوی منصفوں، صحافیوں اور شاعروں سے ان کے ذاتی مراسم تھے۔ ڈیڈ کو علم نباتات کا شوق تھا۔ انہوں نے بھی گرینڈ ڈیڈ کی مانند ہندوستان کے متعلق لکھنے پڑھنے کا شغل جاری رکھا۔ آسام کے اور کڈز کی ان گنت اقسام کی فہرستیں بنائیں اور بنگال اڑیسہ اور آسام کے پودوں اور پھولوں اور درختوں پر ایک مستند اور ضخیم کتاب لکھ ڈالی۔

ڈیڈ کتابیں لکھتے تھے اور مما جنہوں نے اپنی شادی سے قبل کچھ عرصہ تک پیرس میں مصوری سیکھی تھی، ان پھولوں اور پتوں کے سبک اور نفیس اسکیچ بناتیں۔

مما کی تصویر۔ صوفے پر بیٹھی ہیں۔ ڈیڈ پیچھے کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ اس تصویر میں ڈیڈ کی کرزن فیشن کی مونچھیں ہیں، مما پیرس کے تازہ ترین فیشن کے گائون میں ملبوس ہیں۔
یہ لوگ سب مرگئے۔

گرینڈ ڈیڈ نے اپنے ہندو بنگالی منشی سے فارسی پڑھی تھی، اور بنگلہ جانتے تھے۔ ڈیڈ بھی بنگلہ سے واقف تھے۔ ریٹائر ہونے کے بعد ان کا ارادہ تھا کہ وہ اپنا زیادہ وقت لندن میں انڈیا آفس لائبریری میں صرف کریں گے، مگر لندن جانے سے پہلے ہی وہ سندر بن میں شیر کا نوالہ بن گئے۔

ان سے گائوں والوں نے درخواست کی تھی کہ اس آدم خور شیر سے بچائیں جو بہت سارے لکڑہاروں کا شکار کرچکا تھا۔ ڈیڈ بے خوفی سے بندوق سنبھال کر اسے مارنے کے لیے اندھیرے جنگل میں گھسے اور زندہ واپس نہ آئے۔

انہوں نے اپنی قیمتی جان دی تاکہ یہ نیم وحشی لکڑہارے زندہ رہیں۔

گرینڈ ڈیڈ کا انتقال 1907ء میں ہوا۔ جب بنگال میں قتل و غارت شروع ہوچکا تھا۔ انہوں نے بہت لمبی عمر پائی۔ نوجان وکٹوریہ کی تخت نشینی، کمپنی کی ملازمت، غدر، وکٹویہ کی موت اور آخر میں خودی رام باسو، سب ہی کچھ دیکھ لیا۔ ان کو پنشن لیتے کافی عرصہ گزر چکا تھا۔ ریٹائر ہونے کے بعد وہ وطن واپس نہیں لوٹے۔ انہوں نے دارجلنگ اور کلکتے میں بے حد خوب صورت کوٹھیاں بنوالی تھیں اور اپنا وقت علمی مصروفیات میں صرف کرتے تھے۔ گویا واقعہ ہے کہ وہ نیٹوز سے برابری کی سطح پر کبھی نہ ملے، اور حاکم و محکوم کی شعوری دیوار قائم رکھی کہ ایمپائر کی سلامتی اسی میں مضمر تھی۔

گرینڈ ڈیڈ کے چار بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ وکٹورین دستور کے مطابق بہت بڑا کنبہ تھا۔ مگر صرف یہ سات بچے ہندوستان کے ملیریا اور دوسری بیماریوں سے زندہ بچے تھے اور دستور کے مطابق (تاکہ ہندوستانیوں کی بری خصلتیں نہ سیکھ لیں) چھ چھ سال کی عمر میں انہیں تعلیم و تربیت کے لیے انگلستان بھیج دیا گیا۔ بڑے ہوکر ڈیڈ کے سب سے بڑے بھائی فوجی افسر بن کر ہندوستان لوٹے لیکن کابل کے مارچ میں کھیت رہے۔ منجھلے بھائی نے لنکا می چائے کی کاشت شروع کی اور وہاں کے متمول پلانٹر بنے۔ ڈیڈ جو ان دونوں سے زیادہ ذہین تھے، انڈین سول سروس کے مقابلے میں آگئے اور اس کے فوراً بعد ہی مما کو بیاہ کر ہندوستان لوٹے۔

آنٹ ماڈ کی تصویر۔ روکھی پھیکی شخصیت، سفید گائون، ہاتھ میں بائبل۔
آنٹ جیرلڈین کی تصویر۔ خوش شکل، متبسم، شریر آنکھیں، فیشن ایبل گائون، گلے میں موتیوں کا ہار، گود میں کتا، ہاتھ میں پنکھا۔

آنٹ ٹیلڈا کی تصویر۔ متبسم بھولی صورت، یہ تینوں تصویریں ایک ایک بک شلف پر رکھی ہیں۔ یہ تینوں وکٹورین خواتین ڈیڈ کی بہنیں تھیں۔ تینوں اڑیسہ کے مختلف اضلاع میں پیدا ہوئیں۔ آنٹ ماڈ سب سے بڑی، شادی نہیں کی۔ یہ ابھی پھوپھی میبل بارلو کے مانند اہل مشرق کی روحیں بچانے میں جتی رہیں۔ گریٹ آنٹ میبل نے اس سلسلے میں صرف گوالندو گھاٹ سے ستیاپور تک کا سفر کیا تھا۔ آنٹ ماڈ نے چینیوں کی روحانی نجات کی خاطر گن بوٹ سیاست اور مشرقی ایشیا کی کولونیل جنگوں کے پر خطر زمانے میں تنہا کینٹین تک کا سفر کیا۔ بروں وہاں رہیں اور باکسر بغاوت کے زمانے میں جب باغیوں نے ان کے مشن کمپائونڈ پر حملہ کیا۔ وہ چند برطانوی بلجین اور امریکن مشنری خواتین سمیت جیزس کی خاطر شہید ہوئیں۔ سرزمین چین میں ان کی قبر بنی۔

آنٹ جیرلڈین۔ خوب صورت اور فلرٹ، لندن میں ایک بیرسٹر سے شادی کرلی۔ آنٹ ٹیلڈا بھی بہت خوب صورت اور پیاری سی تھیں۔ ڈیڈ کی پسندیدہ بہن۔ دارجلنگ میں ایک فوجی افسر (بنگال لانسرز) ان پر عاشق ہوا۔ مگر منگنی کے بعد ان کو دغا دے کر بھاگ گیا۔ دل شکستہ آنٹ ٹیلڈا ابھی مذہب کی طرف راغب ہوئیں۔ گاروہلز میں نیا مشن کھولا۔ گرینڈ ڈیڈ کو ناگا قبائل سے بہت محبت تھی۔ انہوں نے آنٹ ٹیلڈا کی ہمت افزائی کی۔ آنٹ ٹیلڈا اب بوڑھی ہوچکی ہیں اور لندن میں آبائی مکان میں رہتی ہیں۔

ڈیڈ اور مما کے ہاں تین بچے زندہ رہے۔ ایلس، چارلس اور رچرڈ۔ وہ تینوں بھی بچپن میں انگلستان بھیج دیئے گئے۔

ایلس بارلو۔ عجیب بات ہے۔ وکٹورین انگلستان مذہبی نہیں تھا۔ انگریز زیادہ مذہب پرست کبھی نہیں رہا۔ مگر مشرق میں آکر سب پر مذہب کا جوش سوار ہوجاتا تھا۔ غالباً یہاں کے عجیب و غریب لیکن دلچسپ مذاہب سے غیر شعوری مدافعت۔ ایلس کو مشنری بننے کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔ ایلس اور آنٹ ٹیلڈا کی روایات سے متاثر ہونے کی ضرورت کیا تھی؟ یہ میری سمجھ میں کبھی نہ آیا۔ غریب ایلس شادی کرسکتی تھی۔ بہت ہی معمولی شکل تھی پھر بھی یقیناً اس کی شادی ہوسکتی تھی۔ وہ پچھلے بیس برس سے گارو کی پہاڑیوں میں، آنٹ ٹیلڈا کا قائم کیا ہوا مشن چلا رہی ہے۔ ناگا قبائل ہی اس کی ساری کائنات ہیں۔

مشنری عورتوں کو اس ایثار اور قربانی کا صلہ کیا ملتا ہے؟ افریقہ کے جنگل، ایشیا کے جنگل، مصائب، پریشانیاں اور آخر میں تنہائی اور بڑھاپا۔ یا کسی وحشی کے ہاتھوں موت… کیوں؟ ایسا یہ لوگ کیوں کرتی ہیں؟ کیا ان کی واقعی یقین ہے کہ آسمانی بادشاہت ملے گی؟

بارلو خواتین کا تو بہرحال سینٹ پیٹر استقبال کرتے کرتے بولا جائیں گے۔ میبل، ماڈ، ٹیلڈا، ایلس۔

چارلس بارلو کمرے کا چکر لگا کر پھر اپنی آرام کرسی پر آکر بیٹھ گیا۔ وہ اتنی دیر سے اپنے خاندانی تصاویر کا مطالعہ کررہا تھا، مگر ایک گروپ فوٹو جو اس کے ساگوان ڈیسک پر رکھا تھا۔ اس کی طرف سے اس نے نظریں چرالیں۔ وہ تینوں اسے زور زور سے پکار رہے تھے۔ اس کی بیوی وائلٹ، اس کے بچے ٹام اور کیرل۔ وہ تینوں اس وقت ڈھاکے سے ہزاروں میل دور جنگ کے مہیب شعلوں میں گھرے انگلستان میں موجود تھے۔

بوڑھی اور بہادر آنٹ ٹیلڈا بھی جو 1940ء کی بلٹز کے زمانے میں اطمینان سے اپنے پلنگ پر سویا کرتی تھیں (وائلٹ نے لکھا تھا)

آبائی مکان کی تصویر۔ 14 اینڈریوز کریسنٹ… یہ تصویر بہت چھوٹی سی ہے اور ٹام نے اپنے بے بی برائونی سے کھینچ کر اسے بھیجی تھی۔ آنٹ ٹیلڈا پورچ کی سیڑھیوں پر بلی گود میں لیے کھڑی ہیں۔ کیرل قریب ہی کتے سے کھیل رہی ہے۔ (وائلٹ تصویر میں نہیں ہے) یہ تصویر لکھنے کی میز پر بلاٹنگ پیڈ کے کونے میں اڑسی ہوئی دو سال سے اسی طرح رکھی ہے۔ اس دو سال میں لندن پر کیا قیامت گزر گئی۔

آبائی مکان۔ ریجنسی طرز کا یہ مکان گرینڈ ڈیڈکے والد نے جو سٹی میں سولسٹر تھے۔ 1812ء میں خریدا تھا۔

مکانوں کی زندگی، انسانوں کی زندگی۔
اب میں پھر ماضی کی طرف واپس لوٹتا ہوں۔ چارلس بارلو نے لمبا سانس بھر کر ’’نغمات ہند‘‘ دوبارہ اٹھالی۔ کتاب کے پیلے ورقوں میں سے جو پرانی مہک آرہی تھی وہ اسے بہت اطمینان بخش معلوم ہوئی۔ ماضی محفوظ ہے۔

یوروپین اور امریکن ہمیشہ متعجب رہتے ہیں کہ انگریز اتنا غیر جذباتی ہوتے ہوئے بھی اتنا ماضی پرست کیوں ہے۔ ان لوگوں کو کیا معلوم کہ ہم لوگ کتنے جذباتی ہیں، اور دوسری بات یہ… اس نے بوتل سے مگ میں بیئر انڈیلی… کہ ہمارا ایسا ماضی اور کسی قوم کا ہے ہی نہیں۔ لاجواب، بے مثال، درخشاں۔

ایسا درخشاں بھی نہیں۔ ذرا ہندوستانیوں سے پوچھو۔
وہاٹ دی ہل۔
اب مما بے طرح یاد آرہی ہیں۔ ان کے بنائے ہوئے واٹر کلر ڈرائنگ روم میں سجے ہیں، بنگال کے دو مناظر… سنہری پاٹ سے لدی ہوئی کشتی، دور دھندلکے میں مسجد کا مینار اور برگد تلے کھڑا کالا بھجنگ کسان۔ سامنے الماری میں مما کے واٹر کلرز کا البم رکھا ہے اور اسکیچ بک… دارجلنگ کے چیتھڑوں میں ملبوس پہاری بچے، اور کڈ کا ایک گچھا۔ فرن کے پتے، کرشن چوڑا کی شاخ۔ اپنے وفادار نیٹو ملازموں کے اسکیچ۔ج اپنے تینوں بچوںکی تصویریں۔ ایلس عمر پندرہ سال، چارلی، عمر گیارہ سال، ڈِک عمر دو سال۔

ڈِک… ونگ کمانڈر رچرڈ بارلو… ڈیشنگ، بشاش، خوب صورت، سنہری آر اے ایف مونچھیں، یونیفارم پر تمغوں کی قطار، یہ ایک اور تصویر ہے جو سامنے میز پر رکھی ہے جسے میں نہیں دیکھنا چاہتا۔

ونگ کمانڈر رچرڈ بارلو… ’’پرانے بنگال سویلین ایڈورڈ بارلو مرحوم کا پوتا۔ جیمز بارلو مرحوم کا چھوٹا بیٹا۔ مسٹر چارلس بارلو، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مرشد آباد کا چھوٹا بھائی۔ عمر اٹھائیس سال، جرمنی پر بمبار طیاروں کی قیادت کے لیے گیا اور زندہ واپس نہ آیا‘‘۔ پچھلے سال اسٹیٹسمین میں شائع ہوا تھا۔

ماضی کی طرف لوٹو چارلی۔ ماضی محفوظ ہے۔ پرامن، پرسکون، چارلس بارلو سر ہلا کر تلخی سے ہنس پڑا۔ سامنے کے بک شیلف میں پچھلی جنگوں کے متعلق سنہری مجلد کتابیں ایک قطار میں رکھی تھیں۔ فرسٹ اینگلو فرنچ وار 1744-48ء، کرناٹک دارز، پلاسی، فتح مسولی پٹم، بکسر، فرسٹ میسوروار، روہیلہ وار، فرسٹ اینگلو مرٹہ وار، سیکنڈ میسوروار، تھرڈ میسوروار، فورتھ میسوروار، اینگلو سکھ وار، سیکنڈ اینگلو سکھ وار، سیکنڈ اینگلو برمیزوار، سنتھال بغاوت، سپاہی میوٹنی، معرکہ انبالہ، بھوٹان وار، سیکنڈ اینگلو افغان وار، تھرڈ اینگلو برمیزوار، منی پور بغاوت، سرحدی بغاوت۔

یہ تو صرف پچھلے دو سال میں برطانیہ کی مشرقی فتوحات تھیں۔ ہزاروں لاکھوں کرسٹفر اور رچرڈ بارلو ان معرکوں میں کھیت رہے۔ یورپ کی جنگوں میں کتنے رچرڈ۔

’’عبدالغفور‘‘۔ چارلس نے دفعتہ گرج کر آواز دی۔
عبدالغفور چند سیکنڈ میں نمودار ہوئے۔
’’گوسل کا پانی لگائو‘‘۔
’’جی صاحب‘‘۔ عبدالغفور غائب ہوگئے۔

بہت خون بہایا میرے آبا نے۔ چارلس نے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ پرانے رومنوں کی مانند، مگر پرانے رومنوں کی مانند انہوں نے علم و فن کو بھی مالا مال کردیا۔

مارس اور منروا کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے۔

اس نے کمرے میں نظریں دوڑائیں۔ پرانی کتابیں اور پرانی تصویریں، یادوں کا قبرستان۔

اڑتیس سال میں بوڑھا ہوچکا ہوں۔ کیوں کہ میری عمر اڑتیس نہیں ہے۔ میرے عقیدے کی عمر انیس سو بیالیس سال ہے۔ ذہنی اعتبار سے ڈھائی ہزار سال، تاریخی اعتبار سے ڈیڑھ ہزار سال اور نسلی یادداشت کی عمر کتنے ہزار سال…؟ ہر سوچنے والے یوروپین انسان کی یہ سب عمریں ہیں۔ ہر ہندوستانی کی عمرکتنی ہے؟ غالباً لامحدود۔
(جاری ہے)

حصہ