طفل جانباز

98

(دوسرا اور آخری حصہ)

اللہ! اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسولؐ سے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو والہانہ عشق تھا۔ قرآن کے محور پر ان کے دل و دماغ گردش کرتے رہتے تھے۔ اس کی تلاوت پر بس نہ کیا تھا، بلکہ تلاوت کے ساتھ فکر و استغراق بھی ضروری سمجھتے تھے اور فکر و استغراق کے دوش بدوش قرآن پر موبہ مو عمل بھی۔ صرف زبان سے قرآن پڑھنا ان کے نزدیک خدا کی کتاب کی بارگاہ میں اتنی بڑی جسارت تھی جس کا تصور کرنا بھی ان کے لیے محال تھا۔ وہاں تو زبان و دل کے تارمل جاتے تھے اور پوری حیات ایک وجد کے عالم میں اللہ کی لافانی آواز پر اللہ کی طرف رواں دواں ہوجاتی تھی۔ یہی زندہ تلاوت اور فعال حفظ قرآن کا وہ ایمان افروز جذبہ تھا جس کے باعث انہوں نے محض سورۂ بقرہ پر زندگی کے قیمتی چودہ سال صرف کیے تھے۔ بچپن ہی سے عشق کتاب و سنت کا یہ داعیہ ان کے اندر سوزو ساز پھیلا رہا تھا۔ چنانچہ اس دور میں ان کے سینہ معصومانہ پر قران کے بعض ایسے حقائق کھل جاتے اور روشن ہوجاتے تھے، جن کے فیضان سے بڑوں بڑوں کے دامن خالی ہوتے تھے۔

ایک بار بزم رسالت میں اکابر صحابہؓ کا اجتماع تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ بھی اپنے والد ماجد کے ساتھ وہاں تشریف رکھتے تھے۔ حضورؐ نے قرآن کی بعض آیات تلاوت کیں جن میں اللہ نے کلمہ طیبہ کی مثال ایسے پاک درخت سے دی ہے ’’جس کی جڑ مضبوط اور شاخیں آسمان تک ہیں (اور) وہ اپنے خدا کے حکم سے ہر وقت پھل لاتا ہے‘‘۔ یہ آیات تلاوت فرماکر حضورؐ نے صحابہؓ سے پوچھا:

’’بتائو وہ درخت کون سا ہے؟‘‘
چاروں طرف سناٹا چھا گیا۔ سب لوگ سوچ میں پڑ گئے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی سوچ میں گم تھے مگر حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے دل میں اس کا جواب آگیا تھا اور وہ بے چین تھے کہ کسی طرح دل کی بات کہہ ڈالیں۔ اتنے بڑے بڑے بزرگوں کے سامنے اس وقت زبان کھولنا بھی ان کے نزدیک ایک طرح کی نازیبا جسارت تھی۔ بمشکل اپنی زبان کو روکے رہے اور منتظر رہے کہ حضورؐ کیا فرماتے ہیں۔ آخر سب کو خاموش اور متجسس پاکر حضورؐ نے ارشاد فرمایا:

’’وہ درخت کھجور کا درخت ہے‘‘۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ دل ہی دل میں خوشی سے اچھل پڑے۔
ٹھیک یہی بات ان کے دل میں آئی تھی! گھر آکر رہا نہ گیا اور اپنے والد کو یہ ماجرا سنایا۔ یہ سننا تھا کہ حضرت عمرؓ پکار اٹھے:
’’ارے! توپھر تو بولا کیوں نہیں آخر؟، اگر تو یہ جواب پیش کردیتا تو کیا بتائوں، مجھے یہ جواب دنیا جہان کی کس کس چیز سے زیادہ محبوب ہوتا!

حدیث نبویؐ کی اس قدر جستجو تھی کہ پوری زندگی اس خزانے کو ڈھونڈنے پانے اور پاکر اپنالینے میں بسر کرگئے۔ حضرت نافعؓ جو حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی خدمت میں تیس سال تک رہے، اور جو ان کی زندگی کو بے حد قریب سے ملاحظہ کرچکے تھے۔ اپنے شاگردوں سے جذبات سے مرتعش آواز میں کہا کرتے تھے:

’’اگر اس زمانے میں ابن عمرؓ ہوتے تو حضورؐ کے نقوش پاپر ان کو جان و دل چھڑکتا ہوا پاکر تم یہ سوچتے کہ شاید اس عشق میں وہ دیوانے ہوگئے ہیں‘‘۔

اتباع سنت کا یہ عالم تھا کہ نہ صرف عبادات بلکہ آنحضرتؐ کی اتفاقی اور عام بشری عادات کو بھی انہوں نے زندگی کے آئینے میں فریم کرلیا تھا جب حج کو جاتے تو دنیا دیکھتی کہ جہاں جہاں حضورؐ کسی بھی وجہ سے سواری سے اترے تھے وہاں وہاں ان کا شیدائی ابن عمرؓ بھی بے تابانہ اتر رہا ہے۔ جہاں جہاں حضورؐ نے طہارت کی تھی وہاں وہاں ابن عمرؓ بھی سرکار کی پیروی میں ایسا کررہے ہیں۔

ٹھیک وہ پر خطر زمانہ جب ابن زبیرؓ اور حجاج کی لڑائی میں مکہ موت اور ہلاکت کی لپیٹ میں تھا۔ ابن عمرؓ نے ایک دیکھا نہ دو، حج کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ لوگوں نے بہت اونچ نیچ سمجھائی مگر وہ کہاں ماننے والے تھے۔ انہیں تو اس سنت پر عمل کی بے تابی کھینچے لیے جارہی تھی کہ اگر فوجوں نے مجھے حج سے روکا تو حضورؐ کو بھی دشمنوں نے ایک بار ادائے حج سے روک دیا تھا۔ جان ہتھیلی پر لیے ہوئے مکے میں وارد ہوئے تو حج کے بجائے عمرے کی نیت کی۔ صرف اس لیے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضورؐ نے جو نیت کی تھی وہ عمرے کی نیت تھی، نہ کہ حج کی!

جہاں کبھی قرآن کی اس آیت کے روبرو ہوتے کہ ’’جب اللہ کا ذکر چھڑتا ہے تو ان کے دل ہل جاتے ہیں‘‘۔ تو لوگوں نے دیکھا کہ ابن عمرؓ کے مضبوط جسم نے ایک زبردست جھری جھری لی اور تھر تھر کانپنے لگے۔

یہ آیت تو ان کے لبوں پر آتی تو پھوٹ پھوٹ کر رویا کرتے تھے کہ:
’’کیا ان لوگوں کے لیے کہ جو ایمان لے آئے ہیں ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ خدا آتے ہی ان کے دلوں پر لرزش دوڑ جائے؟‘‘

ایک مرتبہ حضرت عمرؓ تلاوت کررہے تھے اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ سراپا گوش تھے۔ جب وہ اس آیت پر پہنچے کہ:
’’فَكَيۡـفَ اِذَا جِئۡـنَا مِنۡ كُلِّ اُمَّةٍ بِشَهِيۡدٍ ’’ اس وقت کیا عالم ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے؟‘‘
تو حضرت ابن عمرؓ پر شدید گریہ طاری ہوگیا۔ گریبان پر سر ڈھلک آیا اور اس قدر آنسو بہائے کہ ریش و گریبان دونوں تر کردیئے۔

حدیث کی غلط روایت پر جو وعید آئی ہے۔ اس نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ پر گہرا اثر ڈالا تھا۔ حضورؐ سے انتہائی عشق کے باوجود وہ حدیث کی روایت میں آخری درجہ کے محتاط آدمی تھے۔ ڈرا کرتے تھے کہ کہیں کوئی کمی بیشی نہ ہوجائے۔ مجاہد کا بیان ہے کہ مدینے کی راہ میں میرا ان کا ساتھ رہا۔ مگر تمام راستے میں انہوں نے صرف ایک حدیث بیان کی، امام شعبیؒ کا تو یہ کہنا ہے کہ میں ایک سال تک ان کے پاس بیٹھا اور اس دوران میں انہوں نے ایک بھی حدیث مجھ سے بیان نہیں کی۔ حدیث تو پھر حدیث ہے۔ وہ کسی بھی معاملے میں اس وقت تک زبان نہ کھولتے تھے جب تک جواب کی صحت و حقانیت پر کمال درجہ کا وثوق نہ ہو۔ ورنہ صاف فرما دیتے تھے: ’’بھئی مجھے معلوم نہیں‘‘۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا سیدھا سادا جواب تھا۔ جب سائل نے جواب کے لیے اصرار کیا تو پکار اٹھے: ’’تم میری پیٹھ کو جہنم کا پل بنانا چاہتے ہو کہ تم یہ کہہ سکو کہ ابن عمرؓ نے ایسا فتویٰ دیا تھا؟‘‘۔

آپ کے تیس سالہ خادم خاص اور فن حدیث کے امام حضرت نافعؒ کی روایت ہے کہ ابن عمرؓ رات رات بھر نماز پڑھا کرتے تھے۔ ایک ایک رات میں پورے قران کی تلاوت کرلیتے تھے۔ رات میں جب کسی وقت آنکھ کھل جاتی تو بستر سے اٹھتے اور مصلے پر آکر اللہ کے قدموں میں گر جاتے تھے۔ روٹی سے زیادہ انہیں بھوک عزیز تھی۔ روزوں سے والہانہ لگائو تھا، مگر اتباع سنت کا یہ عالم کہ روزوں میں بھی دعوت رو نہ فرماتے۔ دعوت کرنے والے کے یہاں تشریف لے جاتے اور کھانا کھانے کی معذرت پیش کرتے تھے۔

اپنی محبوب چیزیں راہ مولا میں لٹانا ان کی للہیت کا طرۂ امتیاز تھا۔ جو غلام پسندیدہ ہوتا اس کو فوراً آزاد کردیتے تھے اور غلاموں نے یہ تاڑ لیا تھا کہ پسندیدگی کا معیار ان کے یہاں کثرت عبادت ہے۔ چنانچہ غلام مسجدوں کے ہورہے اور حضرت ابن عمرؓ نے ایک ایک کرکے ان کو اس قدر آزاد کیا کہ آزاد کردہ غلاموں کی تعداد ہزار تک پہنچ گئی۔

’’حضرت!‘‘ کسی ہوشیار شخص نے ایک دن عرض کیا۔
’’یہ آزاد ہونے کے لیے بکثرت عبادت کا سوانگ رچاتے اور آپ کو دھوکا دیتے ہیں!‘‘

یہ سن کر حضرت ابن عمرؓ نے خفیف ترین پچھتاوے کے بجائے کیا ہی معصومانہ بات فرمائی۔ فرمایا: ’’بھائی! خدا کے لیے دھوکا کھانا بھی ہمیں اچھا لگتا ہے‘‘۔

ایک کنیز سے آپ کو بہت گہرا دلی تعلق تھا۔ بس فوراً اس کو آزاد کردیا اور ایک آزاد کردہ غلام کے نکاح میں دے دیا۔ اس شادی کے بعد جو بچہ پیدا ہوا اس کو گود میں لے کر بس اتنا فرمایا، اور اس ایک جملے میں وہ جذبات کوٹ کوٹ کر بھر دیئے گئے جن کی قربانی انہوں نے اپنے اللہ کے لیے پیش کی تھی۔

’’اس سے کس کی بو آتی ہے!‘‘
جو کھانا ذرا لذیذ لگتا وہ فوراً غریبوں کی منہ میں پہنچا دیا جاتا۔ ایک بار بیماری کے عالم میں انگور منگائے وہ بہت اچھے لگے، اتنے میں ایک سائل کی آواز آئی اور حضرت ابن عمرؓ نے حکم دیا کہ یہ انگور خدا کی راہ میں دے دیئے جائیں۔

’’آپ ان کو کھا لیجیے۔ اس کو دوسرے دے دیئے جائیں گے‘‘۔ لوگوں نے منت سماجت کی۔

’’جی نہیں۔ یہی دے دو‘‘۔ حضرت ابن عمرؓ نے برابر یہی اصرار کیا اور لوگوں کو مجبوراً بیمار کی یہ غذا اللہ کے نام پر سائل کے حوالے کر دینی پڑی۔

ایک بار بڑا عمدہ اونٹ خرید فرمایا۔ اس پر سوار ہوکر چلے۔ اس کی چال دل کو بھاگئی۔ بس پھر کیا تھا فوراً اتر پڑے۔

’’یہ اونٹ‘‘ زمین پر اتر کر فرمایا، قربانی کے اونٹوں میں شامل کردیا جائے‘‘۔

خدا کی راہ میں اپنا سب کچھ لٹانے کا دنیاوی انعام انہیں یہ ملا تھا کہ خدا نے لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے عشق و عقیدت اور احترام و ادب کے جذبات کوٹ کوٹ کر بھر دیئے تھے۔ یہ زمین ان کی مقبولیت دیکھ دیکھ کر لوگوں کو خیال ہوتا تھاکہ نہ جانے آسمانوں پر اس شخص کا کیا درجہ ہے! لیکن خد اس بندۂ خدا کے عجزو سرافندگی کا یہ عالم تھا کہ اپنی ذراسی تعریف سننے کی تاب انہیں نہ تھی۔ ایک بار کسی نے تعریف شروع ہی کی تھی کہ اٹھے اور اس شخص کے منہ میں خاک جھونکتے ہوئے فرمایا۔ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی ارشاد ہے کہ مداحوں کے منہ میں خاک جھونک کردیا‘‘۔ عجزو انکسار کے یہی جذبات تھے جو ان کو جی جان سے پیارے تھے۔ چھوٹا ہو یا بڑا ہر شخص کو سلام میں پہل کرتے۔ طفیل ابن کعب کا کہنا ہے کہ میں اکثر یہ دیکھا کرتاکہ حضرت ابن عمرؓ بلاناغہ بازار جاتے ہیں مگر کوئی سودا سلف خرید کر نہیں لاتے ہیں، میں حیران تھا کہ یہ ماجرا کیا ہے؟‘‘

’’یہ آخر آپ روزانہ بازار میں کیا کرنے کے لیے جایا کرتے ہیں؟ ایک دن انہوں نے سوال کر ہی لیا۔

’’جی۔ بس لوگوں کو سلام کرنے کے لیے چلا جایا کرتا ہوں‘‘۔ بڑی معصومیت کے ساتھ ارشاد فرمایا۔

اگر کبھی کسی کو سلام کرنے میں چوک جاتے تو احساس ہوتے ہی پلٹتے اور اس کے پاس واپس جاکر بڑی عاجزی سے کہتے: ’’بھائی! السلام علیکم‘‘۔

کتنے بڑے تھے وہ لوگ جن کو اپنی بڑائی کا احساس تک نہ تھا!، جن کے دل کی ایک ایک دھڑکن پر اللہ کی کبریائی کی ایسی گری چھاپ پڑی ہوئی تھی کہ خود اپنی تعریف سننا بھی ان کی غیرت بندگی پر شاق تھا۔ جو عجزو انکسار کی شدت سے انسانوں کے آگے بچھے جاتے تھے اور ادائے شکر کی بے تاب خواہش نے جن کو نیم بسمل بنا چھوڑا تھا۔ جن کو نعمتوں کی کثرت اور لذتوں کی بہتات نے منعم حقیقی سے غافل نہ کیا تھا، بلکہ ان نعمتوں کے درمیان انہیں خدا سے ملاقات کی آرزو رات دن تڑپائے ہوئے تھی۔ جو نعمتوں کو پانے سے زیادہ نعمتوں کو راہ مولا میں لٹا کر خوش ہوتے تھے۔ جنہیں ساری خدائی سے زیادہ اپنے خدا سے پیار تھا۔ یہ تھے وہ لوگ جو سچ مچ خدا کے بندے تھے، یہ تھے وہ خوش نصیب انسان، جن کے حصے میں اپنے نفس کی غلامی نہیں، دنیائے دنی کی کاسہ لیسی نہیں۔ اللہ رب العالمین کی بندگی کی دولت آئی تھی۔

اور ایک ہم بھی خدا کے بندے ہیں!
ہم!

سرائے فانی میں پائوں پھیلا کر سونے والے!
نعمتوں کو پاکر ہمیں منعم حقیقی کی یاد نہیں ستاتی!

زندگی پر مغرور! اور اس مت سے گریزاں جس کا ہاتھ ہر لمحہ ہمارے حلقوم کی طرف بڑھتا رہا ہے! اس موت سے ڈر کر بھاگنے والے جو بندے کو اس کے خدا سے ملا دیتی ہے!

ہائے مالک! کیسے مت مارے ہیں ہم تیرے بندے بھی!
خدایا! خدایا!! … کیا… ہم بھی… مسلمان ہیں؟

حصہ