دنیا ایک خطرناک جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے جس خدشے کا اظہار میں گذشتہ 9 ماہ سے اپنی تحاریر و ٹی وی پروگرامز میں کرچکا ہوں وہ خطرہ اب سامنے کھڑا ہے۔ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی ایرانی سرزمین پر شہادت کوئی معمولی واقعہ نہیں اور اس کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ حماس نے اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد بدلہ لینے کا اعلان کردیا ادھر دوسری جانب ایران نے بھی اسرائیل کو سبق سکھانے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم اب یہ بات یقینی ہے کہ مشرق وسطی میں لگی آگ مزید پھیلے گی اور اس کا اب باضابطہ اظہار مغربی میڈیا بھی کررہا ہے۔ اسماعیل ہنیہ سال 2017 سے حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ تھے اور اس سے قبل وہ 2006 میں فلسطین کے وزیراعظم منتخب ہوئے، پاور شیئرنگ فارمولا کے تحت حماس نے صدارت محمود عباس کو دی اور واضح اکثریت ہونے کے باوجود بھی وزیراعظم پر ہی اکتفا کیا اس کی بنیادی وجہ ایک فلسطینی ریاست کے قیام کی جانب پیش رفت اور اسرائیل کا غزہ و مغربی کنارے سے انخلا تھا۔ لیکن جلد ہی بیرونی دباؤ پر محمود عباس نے وزیراعظم اسماعیل ہنیہ کو برطرف تو کردیا اس کے باوجود دو حصے میں منقسم فلسطینی اتھارٹی کے دوسرے حصے یعنی غزہ کا کنٹرول حماس کے پاس ہی رہا۔ اسماعیل ہنیہ حماس کے چوتھے سربراہ تھے اس سے قبل دو سرےبراہ شیخ احمد یاسین اور عبد العزیز رنتیسی اسرائیلی حملوں میں یکے بعد دیگرے شہید کر دیئے گئے۔ اس کے بعد خالد مشعل کو سربراہ مقرر کیا گیا اور یہ بات طے کی گئی کہ حماس کا سربراہ اس طرح کھلے عام کسی بھی جگہ جانے سے گریز کرے گا۔ خالد مشعل پر بھی دبئی میں قاتلانہ حملہ ہوا تاہم وہ اس میں محفوظ رہے۔ 2017 میں اسماعیل ہنیہ کو حماس کا سربراہ منتخب کیا گیا اور اس کے دو سال بعد وہ جلا وطن ہوگئے۔ حماس کی قیادت کی اس تبدیلی کا خیر مقدم مشرق وسطی کے ماہرین کی جانب سے کیا گیا کیونکہ اسماعیل ہنیہ حماس کی وہ شخصیت تھے جو عسکری کے علاؤہ سیاسی حل پر بھی یقین رکھتے تھے۔ حماس کا سربراہ منتخب ہونے کے دو سال بعد ہی اسماعیل ہنیہ جلاوطن ہوگئے۔ وہ 2019 سے جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے ان کے ہمراہ صرف ان کی اہلیہ تھیں جبکہ ان کے بچے اپنے پورے خاندان سمیت غزہ میں ہی مقیم تھے، ذرائع کے مطابق اس دوران اسماعیل ہنیہ دوحہ قطر، ترکی اور ایران میں رہے تاہم حماس کا سیاسی ہیڈ کوارٹر دوحہ قطر میں ہونے کی وجہ سے ان کا زیادہ قیام دوحہ میں ہی رہا۔ اس دوران انہوں نے شاندار سیاسی حکمت علمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دور ہوتے ہوئے ایران سے تعلقات کو دوبارہ استوار کیا اور عالم عرب میں حماس پر جگہ تنگ ہونے پر انہوں نے ترکی و قطر کا ساتھ حاصل کیا یہ وہ زبردست سیاسی حکمت عملی تھی کہ جس کی بنیاد پر پورے عالم عرب میں زندگی تنگ ہونے کے باوجود حماس نہ صرف باقی رہی بلکہ اس کے نئے ہمدرد اس کو میسر آئے۔ غزہ کا محاصرہ اور اس کے بعد کی سنگین صورتحال، عالم عرب کا اسرائیل کے آگے سرنگوں ہو جانا اور حماس کی جانب سے ایک طویل خاموشی جس کو اسرائیل تعلقات کی مکمل اپنے حق میں بحالی سمجھتا تھا ایک ایسی زبردست سیاسی و عسکری حکمت عملی تھی کہ جس کے بعد اسرائیل حماس کی جانب سے ایک حد تک مطمئن تھا لیکن 7 اکتوبر 2023 کے واقعات نے اس بات کو ثابت کیا کہ حماس کی اس زبردست حکمت عملی سے منظر نامہ مکمل طور پر تبدیل ہوگیا ہے۔ ماہرین کی نظر میں اس حکمت عملی کا بنیادی نکتہ چھوٹی چھوٹی جھڑپوں کے بجائے ایک منظم طریقے سے کاروائی اور اس کے بعد کے حالات کا اندازہ، میڈیا کا بھرپور استعمال اور اپنی عسکری و سیاسی صلاحیت کو نہ صرف مجتمع رکھنا بلکہ وقت پر پوری دنیا میں اس کا موثر استعمال یہ وہ نکات تھے کہ جس نے اس خطے میں بظاہر نارمل ہوتے ہوئی سیاسی صورتحال میں ایک ایسا دھماکہ کیا کہ جو شاید کسی ایٹم بم سے کم نہیں تھا۔
امریکی سی آئی اے کے 7 اکتوبر 2023 کے واقعات پر رپورٹ کے مطابق یہ کاروائی کوئی معمولی اور جذباتی کارروائی نہیں بلکہ اس کے پیچھے برسوں کی منصوبہ بندی اور تیاری شامل ہے، دشمن کو دھوکہ دینا اور دشمن بھی وہ کہ جس کے پاس دنیا کی اعلی ترین ٹیکنالوجی ہو کوئی آسان کام نہیں تھا اس ہی طرح ناقابل تسخیر سمجھی جانے والی بلین ڈالر کی عسکری باڑ کو جوکہ امریکی عسکری ٹیکنالوجی کی معراج تھی چند منٹوں میں تباہ کرنا، تین اطراف یعنی زمین، فضاء اور سمندر سے بیک وقت حملہ، دشمن کے فوجی بیس سے فوجی افسران کا اغواء دنیا کی کسی بھی چھاپہ کار کاروائی میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ امریکی سی آئی اے نے اعتراف کیا کہ حماس کا جاسوسی اور انفارمیشن نیٹ ورک اتنا شاندار تھا کہ امریکہ و اسرائیل نہ صرف اس حملے سے بے خبر رہے بلکہ اس کے بعد وہ اغوا شدگان کی لوکیشن کے بارے میں بتانے سے تا حال قاصر ہیں۔ یہ سارا کام اسماعیل ہنیہ کی زیر قیادت اس طرح ہوا کہ نہ 7 اکتوبر سے قبل نہ کوئی شور اور نہ ہی کوئی بھڑک بازی اور نہ ہی کوئی بلند و بانگ دعوے گویا گھاس میں پانی کی طرح کہ جب اس پر پیر پڑا تو معلوم ہوا کہ دنیا ہی بدل چکی ہے۔
مغربی میڈیا 7 اکتوبر کے حملوں کا ماسٹر مائنڈ یحییٰ سنوار کو قرار دے رہا ہے اور اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے بھی اس بات کا اعلان کیا تھا کہ وہ یحییٰ سنوار کو ہر قیمت پر قتل کریں گے۔ اس میں مکمل ناکامی پر جب اسرائیل کو بڑھتے دباؤ کے تحت پہلی بار مذاکرات پر آنا پڑا تو اسماعیل ہنیہ ہی بروئے کار آئے۔ اس کے بعد اپریل 2024 میں جب مذکرات کے بعد معاہدہ تیار تھا تو پھر ایک حملے میں اسماعیل ہنیہ کے تین بیٹوں اور پانچ پوتے پوتیوں کو شہید کردیا گیا، کہ شاید اس سے بھی حماس مذاکرات ختم کردے لیکن اسماعیل ہنیہ اور ان کی بیگم نے کمال استقامت سے اس دکھ کو سہا حماس نے مذاکرات جاری رکھے لیکن اسرائیل کی جانب سے بار بار پوزیشن تبدیل کرنے پر یہ طول پکڑ گئے اور اب جبکہ دوبارہ معاہدے کے قریب تھے تو اصل فرد یعنی اسماعیل ہنیہ کو ہی تہران میں شہید کردیا گیا جس پر مذاکرات میں شامل قطر کے وزیراعظم نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں جب آپ مذاکرات کرنے والوں کو ہی ماردیں تو پھر مذاکرات کس بات کے؟
اسماعیل ہنیہ کی شہادت نہ صرف حماس بلکہ پورے عالم اسلام کا ایسا نقصان ہے کہ جس پر پوری امت سوگوار ہے، عرب سے لے کر عجم تک مشرق سے لے کر مغرب تک کوئی ایک ایسی مسجد نہیں کہ جہاں اعلانیہ یا اخفا میں اسماعیل ہنیہ کے لیے دعا نہ کی گئی ہو۔ پوری دنیا اس بات کو دیکھ رہی اور مغرب کا میڈیا خود اس بات کو ماننے پر مجبور ہے کہ 7 اکتوبر کا اقدام کوئی جنونی یا کچھ جنونیوں کا اقدام نہیں تھا بلکہ یہ ایک طویل ترین جبر و استبداد کا ایک انجام کار تھا اور اس کے پیچھے پوری غزہ کی آبادی کھڑی ہے وہ جبکہ چہار جانب سے آگ برسائی جارہی ہے۔ 44 ہزار شہید اور تقریباً ایک لاکھ زخمی ہیں وہ اس پر نوحہ کناں نہیں بلکہ پوری استقامت کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ عالمی عدالت انصاف میں تاریخ میں پہلی بار اسرائیل کے وزیر اعظم کے وارنٹ گرفتاری کا اجراء کردیا، اور دنیا کو عالمی معاہدوں و قانون کی پاسداری کا درس دینے والے امریکہ نے اس ملزم کو کہ جس کے وارنٹ گرفتاری عالمی عدالت نے جاری کیے نہ صرف اپنا مہمان بنایا بلکہ اس کو اپنی کانگریس سے خطاب کا موقع بھی فراہم کیا۔ برطانیہ اور پورے یورپ میں نہ صرف مسلمان بلکہ انسانیت اور انسانی اقدار پر یقین رکھنے والے مغرب کے اس دہرے معیار پر احتجاج کررہے ہیں۔ اور سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر مغرب کو ہر دہشت گرد کی پشت پر ہی کھڑا ہونا ہے تو عالمی امن کا کیا ہوگا؟
اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر پورا مغربی میڈیا اس وقت چیخ رہا ہے کہ عالمی امن داؤ پر لگ چکا ہے وہ ماہرین جو مشرق وسطی پر نظر رکھتے ہیں اب کھل کر کہہ رہے ہیں کہ حماس کے تیسرے اور معتدل ترین رہنما کو قتل کرکے ایک سنگین غلطی کا ارتکاب کیا گیا جس کا خمیازہ اب اسرائیل کو بھگتنا ہوگا۔ تادم تحریر حماس نے خالد مشعل کو دوبارہ اپنا سربراہ مقرر کردیا ہے، خالد مشعل کو دنیا ایک سخت گیر موقف رکھنے والے کے طور پر دیکھتی ہے۔ حماس کا ایک نیا چہرہ سامنے آیا ہے مغربی میڈیا کے مطابق اب حماس سے کسی بھی لچک کی توقع رکھنا ممکن نہیں۔
حماس اور بن یامین نتن یاہو کی حکومت کے درمیان معرکہ اب آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے، گوکہ اس کا اختتام شاید اپریل 2024 میں ہی پرامن یا مذاکرات کے ساتھ ہوجاتا لیکن اسرائیل کی جانب سے پہلے اسماعیل ہنیہ کے اہل خانہ اور اب جولائی 2024 میں خود ان کی شہادت سے اس کو ناممکن بنادیا گیا، کیونکہ اگر کسی ڈیل کے تحت اسرائیل اپنے باقی ماندہ 114 قیدی چھڑواتا تو اس کو نہ صرف عالمی سطح پر سبکی ہوتی کیونکہ یہ اس کی ہار کا کھلا ثبوت ہے بلکہ انتہا پسند بن یامین نتن یاہو کی حکومت کا بھی خاتمہ ہوجاتا، اب اسرائیل کی بقا صرف اس میں ہے کہ وہ اس جنگ کو کسی بھی حال میں جاری رکھے، جس کا لامحالہ اثر اب اسرائیل پر پڑرہا ہے اب میزائل دوبارہ اسرائیل میں گررہے ہیں، وہاں اب اسرائیلی بچے بھی محفوظ نہیں اسرائیل کی فضائی حدود اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد بند کردی گئی ہیں۔ اسرائیل ایک حالت ایمرجنسی میں ہے، تباہ حال فلسطینیوں کا تو جو نقصان ہونا تھا ہو چکا ہے اب مغربی میڈیا خود اسرائیل کی بھیانک نقصان کی پیش گوئی کررہا ہے۔ یہ نقصان کیا ہوگا کوئی نہیں جانتا لیکن مغربی میڈیا اس بات کا اظہار کررہا مشرق وسطی کی جنگ اب پھیلے گی اور اس کا اختتام مستقبل قریب میں ممکن نہیں۔
اسماعیل ہنیہ سابق وزیراعظم فلسطین، ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی طرح پرسرار طور پر ہلاک ہوگئے جس کی ذمہ داری کوئی نہیں لے رہا لیکن یہ دنیا جانتی ہے کہ کاروائی کس کی ہے۔ ابراہیم و اسماعیل کا راستہ تو قربانی و سپردگی کا راستہ ہے اس کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے اور اس راستے میں ہمیشہ شیطان ہی حائل ہونے کی کوشش کرتا رہا لیکن ناکام ہوا۔ آج کے ابراہیم و اسماعیل بھی اپنے عہد کو سچا ثابت کرکے رخصت ہوئے اور پورے عالم اسلام کو اس پیغام کی جانب بلاگئے جو حق ہے اور صدیوں سے مسلمانوں کا راستہ ہے اس کا بہر حال انجام کامیابی ہی ہے۔ ان شاءاللہ