ہم سب دوست 14 اگست پر ہونے والے پروگرام کی تیاری کے سلسلے میں اسکول کے ہال کی طرف ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے جھنڈے لیے باتیں کرتے، قہقہے لگاتے جارہے تھے۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے جوتوں کی ’’ڈھب… ڈھب‘‘ کی آواز گونج رہی تھی کہ ایسے میں ایک گرج دار آواز آئی ’’رک جاؤ، کہیں پیروں میں نہ آجائے۔‘‘
ہمارے بڑھتے قدم رک گئے اور بے ساختہ ہم سب نیچے دیکھنے لگے۔ کسی کے ہاتھ سے بے دھیانی میں جھنڈا زمین پر گر گیا تھا۔ میں نے جھک کر زمین سے جھنڈا اٹھا لیا۔ ہم نے آواز پہچان لی تھی۔ وہ سر عارف تھے جو ہمیں مطالعہ پاکستان پڑھاتے تھے۔ ان کی آواز کبھی اتنی اونچی نہیں ہوتی تھی۔
’’سر! میں تو ڈرہی گیا تھا کہ پتا نہیں کیا ہوگیا!‘‘ میں نے ہمت کرکے کہا۔ مجھے ایک لمحے کے لیے اُن کے چہرے پر کرب سا محسوس ہوا۔
انہوں نے جھنڈا میرے ہاتھ سے لے کر آنکھوں سے لگایا اور پھر اپنی مخصوص دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ آگے بڑھ گئے۔
سر عارف کلاس میں ذاتی باتیں یا قصے کہانیاں بیان نہیں کرتے تھے، اس لیے میں نے اور میرے دوست راشد نے فیصلہ کیا کہ سر سے کسی دن فرصت میں مل کر حقیقت معلوم کریں گے۔ میں اور راشد اُن کی اجازت سے لنچ ٹائم میں اُن کے آفس چلے گئے۔
’’آئیں، بیٹھیں۔‘‘ سر نے فائلیں ایک طرف کرتے ہوئے کہا۔ ’’جی! تو آپ لوگ کیا معلوم کرنا چاہتے ہیں؟‘‘
’’سر! آپ کی آواز میں اتنی سختی کبھی نہیں ہوتی، پھر اُس دن ایسا کیا ہوا تھا؟‘‘راشد نے گلا کھنکار کر بات شروع کی۔
سر نے میز پر ایک چھوٹی سی ڈنڈی کے ساتھ لگے جھنڈے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’’اس کی قیمت جانتے ہیں آپ؟‘‘
میں اور راشد روپے کی صورت میں اس کی قیمت کا اندازہ لگانے لگے۔
’’اس کی قیمت وہی بتا سکتا ہے جو ہجرت کے وقت قربانی کے عمل سے گزرا ہو، میں نے اس کی جو قیمت ادا کی ہے وہ میرا پورا کنبہ ہے۔‘‘
’’جی سر!‘‘ میں اور راشد کرسی سے کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے ہمیں بیٹھنے کے لیے کہا۔ سر عارف تھوڑی دیر چپ رہے، ان کی نظریں خلا میں کسی نقطے پر مرکوز تھیں۔ ان کے چہرے کی بدلتی رنگت دیکھ کر ان کی اذیت کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ وہ افسردگی سے بولے ’’میرے خاندان کے تیس لوگ تھے، سب پوری تیاری کے ساتھ ایک جگہ اکٹھے ہوئے تھے تاکہ خواب کی تعبیر پاکستان کی طرف ہجرت کرسکیں، لیکن کسی نے مخبری کردی اور بلوائیوں نے حملہ کردیا۔ ایک میرا چھوٹا بھائی تھا، انہوں نے اُس کے سینے میں گولی ماری۔ سارا فرش میرے بھائی کے خون سے لال ہوگیا۔‘‘سر عارف ایک لمحے کے لیے رکے، گہری سانس لی۔ ’’جوان بیٹا آنکھوں کے سامنے تڑپ رہا تھا، ماں کی چیخ و پکار پر اس کے سر میں گولی مار دی۔ میری ماں کو اگلا سانس نصیب نہیں ہوا۔‘‘ سر کا گلا خشک ہورہا تھا۔ انہوں نے آنسوؤں سے اپنا حلق تر کیا اور بات جاری رکھی ’’میری بیوی بھی تھی، تین سال شادی کو ہوئے تھے، کم عمری کی شادی تھی، ابھی تو سپنے بُننے شروع کیے تھے۔ ہمارے درمیان ہیر رانجھا جیسی محبت تھی۔ تڑ… تڑ گولیاں چلیں اور میری بیوی کی ساڑھی خون سے رنگ گئی۔ میری معصوم ایک سال کی بچی کو ان ظالموں نے اس سے چھین کر زمین پر پٹخ دیا، اس کے سر سے خون کا فوارہ ابل پڑا اور وہ بے دم ہوگئی۔ میں چیختا ہوا ان لوگوں کی طرف بڑھا۔ کسی نے رائفل کا بٹ میرے سر پر مارا، دوسری طرف سے گولی چلی جو میرے بازو کو چھو کر گزر گئی۔ تکلیف کی شدت سے میں زمین پر گر پڑا اور بے ہوش ہوگیا۔ وہ آگے بڑھے، میری خالہ، خالو، اُن کے بچے، میری پھپھو، ان کا جوان بیٹا اور دوسرے سارے رشتے دار ان ظالموں کی سفاکی کا شکار بن گئے۔‘‘
سرعارف کی آواز بھرّا گئی، انہوں نے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ میں نے جلدی سے اٹھ کر انہیں پانی پلایا۔ تھوڑی دیر بعد وہ بولنے کے قابل ہوئے۔
’’میں غنودگی کی کیفیت میں تھا، ہر طرف خون ہی خون تھا، ایسا لگ رہا تھا جیسے قربانی کے جانور ذبح ہوئے ہوں۔ خاندان کے کسی بچے کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا جھنڈا بھی تھا جو اس نے اپنے قد سے اونچی جگہ لگا دیا تھا، وہ بچ گیا۔ اب تم خود بتاؤ میں اس جھنڈے کو گرتا دیکھوں تو چیخ بھی نہ ماروں!
مجھے ہوش آیا تو اپنے آپ کو ایک امدادی کیمپ میں پایا۔ چاندنی رات تھی۔ چاند کی طرح میں بھی اکیلا تھا۔ میں کیمپ کی کھڑکی سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا کہ سامنے میدان میں ایک ٹرک آیا اور تمام لاشیں وہاں گرا کر چلا گیا۔ میں نے پہچان لیا تھا، وہ میرے ہی خاندان کے لوگ تھے۔ کچھ آوارہ کتے بھونکتے ہوئے ان کی طرف بڑھ رہے تھے… میں ہذیانی انداز میں چیختے چیختے بے ہوش ہوگیا۔ اگلے دن ہوش آیا تو پتا چلا کہ تمام لوگوں کو ایک گڑھا کھود کر دفن کردیا گیا ہے۔‘‘
میں اور راشد دَم سادھے بیٹھے تھے… کچھ بولنے کے لیے ہمارے پاس الفاظ نہیں تھے۔
’’تو بچو! یہ ہے میری کہانی۔‘‘انہوں نے یہ کہتے ہوئے جھنڈے کے چاند تارے پر پیار سے انگلیاں پھیریں۔
میں اپنی ڈائری میں سب کچھ نوٹ کررہا تھا، دو آنسو میری آنکھوں سے ٹپک کر لکھے ہوئے لفظوں میں مل گئے۔