مہک کا راز

72

نئی صبح ان کے لیے ایک نئی خوشی سے لے کر آئی تھی۔ جب وہ فجر میں بیدار ہوئے تو اپنے والد صاحب کو وضو کرتے پایا۔ دونوں کو ایسا لگا جیسے اللہ نے ان دونوں کی سن لی ہو۔ تپاک سے ملاقات ہوئی۔ وہ دونوں بھی نہا دھوکے مسجد کی جانب روانہ ہو گئے۔ والد صاحب تو حسبِ عادت نماز سے فارغ ہو کر اپنی نیند پوری کرنے کے لیے اپنے کمرے میں چلے گئے لیکن جمال اور کمال نے اردو اور انگریزی کے اخبارات سنبھال لیے۔
ناشتے کی میز پر جمال اور کمال بڑی دلچسپی کے ساتھ اپنے والد کے چہرے کے تاثرات دیکھ رہے تھے جو ان کو بڑی معنیٰ خیز مسکراہٹ کے ساتھ دیکھے جا رہے تھے۔ باوجود کوشش کے وہ ان کے اس انداز کو کوئی معنیٰ نہ پہنا سکے۔ جمال اور کمال نے بھی خاموش رہنے میں ہی بہتری سمجھی۔
تھوڑی دیر تک تو وہ جمال اور کمال کو مسکرا مسکرا کر دیکھتے رہے پھو خود ہی گویا ہوئے۔
سنا ہے آج کل تم دونوں کے پاس تمہاری دلچسپی سے تعلق رکھنے والا کوئی کیس نہیں ہے۔ یہ بھی سنا ہے کہ تم از خود ایک کیس میں گہری دلچسپی لے رہے ہو۔
کیا مطلب۔ جمال اور کمال نے انجان بننے کی اداکاری کرتے ہوئے کہا۔
کچھ نہیں۔ جمال اور کمال کے والد نے بھی کسی حد تک اداکارانہ انداز میں سر جھٹکتے ہوئے کہا۔ پھر اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مجھے دارالحکومت میں اطلاع ملی تھی کہ تمہارے دونوں جا سوس بیٹے آج کل اکثر انسپکٹر جمشید کے پاس نظر آ رہے ہیں۔ ان کے پاس ایک مشکل کیس آ گیا ہے اور وہ کیس کسی ایسے مجرم کی بے گناہی ثابت کرنا ہے جو ہر فورم پر یعنی ہر ایسی شخصیت کے سامنے جو قانونی طور پر اس کا مجاز ہو کہ وہ تحقیق کرکے کسی کو بے گناہ یا مجرم قرار دینے کا اختیار رکھتا ہو، اپنے جرم کا علی الاعلان اظہار کرتا ہے اور خواہش رکھتا ہے اس کو جلد سے جلد موت کی سزا سنادی جائے تاکہ وہ اپنے ضمیر کو پوری طرح مطمین کرکے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری دینے کے قابل ہو سکے جبکہ دارالحکومت کی کئی اہم اداروں سے تعلق رکھنی والی اعلیٰ شخصیات پورے یقین کے ساتھ یہ خیال کرتی ہیں کہ مجرم کا بیان حقیقت کے بر عکس ہے لیکن وہ آئین و قانون کا احترام کرتے ہوئے یہ چاہتی ہیں کہ مجرم یعنی قیدی نمبر 1103 نہ صرف مکمل شواہد و ثبوت کے بے گناہ ثابت ہو جائے بلکہ ساتھ ہی ساتھ اصل مجرم یا مجرمین نہ صرف قانون کی گرفت میں آئیں بلکہ اپنے انجام کو پہنچیں۔
جمال اور کمال نے بھی ان اداکاری کرنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے اس بات کا اقرار کیا کہ جیسا کہ آپ کہہ رہے ہیں ویسا ہی ہے۔ جمال اور کمال کے اقرار کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اگر ان کے والد کے پاس اس حد تک سچائی کے ساتھ کیس سے متعلق حقائق موجود ہیں تو کوئی ڈرامائی انداز اختیار کرنے یا انجان بننے کا کوئی فائدہ نہیں البتہ ان کو اس بات پر حیرت ضرور تھی کہ ان کے والد تک یہ ساری معلومات پہنچانے والا ذریعہ کون سا ہے۔ ویسے بھی وہ اکثر اپنے والد صاحب کی جانب سے مشکوک ہی رہتے تھے کیونکہ ایک تو انھیں آج تک یہ ہی خبر نہیں ہو سکی تھی کہ ان کا اصل دفتر کونسا ہے۔ بظاہر تو وہ ایک سرکاری دفتر میں معمولی عہدے کے ملازم تھے لیکن اکثر دیکھا گیا تھا کہ وہ کئی اہم مہمات میں ان کے ساتھ ہی ہوا کرتے تھے۔ اس قسم کی مہمات میں ان کو حیرت انگیز طور پر کبھی مختصر اور کبھی طویل چھٹیاں بھی گرانٹ ہو جایا کرتی تھیں۔ جب جب بھی جمال اور کمال کسی دور دراز مقام کی تفریح کا ان سے کہتے تھے، وہ حسبِ سابق تیار ہو جایا کرتے تھے اور سب سے اہم ترین بات یہ تھی کہ اچھی اور مضبوط گاڑیوں کا حصول اور مناسب درجے کے ہوٹلوں کا قیام بھی لگتا تھا ان کے لیے کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں اس لیے اکثر وہ سوچا کرتے تھے کہ یا تو ان کا تعلق کسی نہ کسی اہم ادارے سے ہے یا پھر خود ان کی طرح محکمے نہ صرف ان پر اعتبار کرتے ہیں بلکہ وقتاً فوقتاً ان سے اہم اہم کام لیتے رہتے ہیں۔ یہ سب باتیں سوچ کر ایک جانب تو جمال اور کمال نے والد صاحب کی غیر موجودگی کے دوران اپنی سرگرمیوں کا اعتراف کیا تو دوسری جانب انہوں نے اپنے والد صاحب سے کہا کہ بے شک آپ جو کچھ بھی ہماری سرگرمیوں کے متعلق فرمارہے ہیں درست ہے لیکن کیا آپ ہماری یہ حیرت دور نہیں کریں گے کہ آپ کو اتنی صحیح اور درست معلومات کس ذریعے سے حاصل ہوئیں۔(جاری ہے)

حصہ