میں ایک دن نئے راستے سے آفس کے لیے نکلا۔ ٹریفک کی وجہ سے مجھے آفس پہنچنے میں دیر ہوجاتی تھی۔ اس نئے راستے میں رش نہ تھا۔ اچانک سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر ایک عورت بیٹھی نظر آئی۔ مجھے بڑی حیرانی ہوئی، کیوں کہ اس کے حلیے سے لگتا تھا وہ بھکارن نہیں ہے، مگر اس طرح فٹ پاتھ پر کیوں بیٹھی تھی؟ اس نے چادر اوڑھ رکھی تھی، اس کے نقش بتا رہے تھے کہ جوانی میں سراپا حسن ہوگی۔ ایک انجانا سا درد اُس کی آنکھوں میں تیر رہا تھا۔
میں اترا اور اس کی جھولی میں نوٹ رکھ دیا۔
وہ یکدم کھڑی ہوگئی اور کہنے لگی’’بیٹا! میں بھکارن نہیں ہوں، میں یہاں اپنے بچے کو دیکھنے بیٹھی ہوں جو روز اس راستے سے گزرتا ہے۔‘‘ اس کی آواز بھیگی ہوئی تھی۔
مجھے اچھا نہیں لگ رہا تھا پھر بھی پوچھ بیٹھا ’’کیا بیٹے سے گھر میں ناراضی کا معاملہ ہے؟‘‘
اس نے جواب دیا ’’مجھے اپنے گھر سے الگ ہوئے بہت سال ہوگئے ہیں، میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی۔ میرے بچے مجھے بھول گئے مگر میں نہیں بھول سکتی۔ کیا کروں، گھر ٹوٹ گیا ہمارے جھگڑوں سے!‘‘ وہ شاید خود سے نادم تھی، اس کی آواز میں پچھتاوا تھا۔
میں نے کہا ’’آپ کس کو قصور وار سمجھتی ہیں؟‘‘
اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ’’میں خود کو قصوروار کہتی ہوں، کیوں کہ عورت ہی گھر بناتی ہے۔‘‘
میں نے کہا ’’آپ سارا الزام خود کو دیتی ہیں، آپ کی غلطی کی سزا آپ کو دے دی گئی، آپ دربدر ہیں اور بچوں کی جدائی سے کم کیا سزا ہوسکتی ہے؟‘‘
میں کچھ ثانیے کو رکا اور پھر بولا ’’آپ کے ساتھ بچے کیوں نہیں؟‘‘
میں اس عورت کی تکلیف بڑھانا نہیں چاہتا تھا، مجھے اس کو دیکھ کر احساس ہورہا تھا کہ یہ سوال اس کے زخم پر نمک کی طرح ہے، مگر میں اس کی وجہ بھی جاننا چاہتا تھا، سو میں نے یہ سوال کیا۔
وہ کہنے لگی ’’میں اپنا دفاع نہ کرسکی، ہار گئی۔ اپنے حق میں میری ساری کوششیں ناکام ہوگئیں، میرے پاس پیسے کی طاقت نہ تھی، میرے شوہر نے یہ بازی جیت لی اور بچے اس کی طرف ہوگئے۔‘‘
’’جو کوشش کی تھی وہ بھی کیوں کی؟ بچوں کو، اُن کے باپ کو اللہ کے سپرد ہی کردیتیں۔‘‘میں نے کہا۔
وہ بولی’’ہاں مجھے سب کچھ اللہ کے سپرد کردینا چاہیے تھا۔‘‘
مجھے لگا میں اس کے زخم کریدنے لگا ہوں، سو اب مرہم بھی مجھے ہی رکھنا تھا۔
’’لیکن سارا قصور آپ کا نہیں ہوگا جو آپ اپنے آپ کو قصور وار ٹھیرائیں۔ اس لیے آپ مطمئن رہیں، جن بچوں نے جوان ہوکر ماں کو ٹھکرا دیا کیا اللہ ان سے راضی ہوگا؟‘‘
وہ جذباتی ہوکر بولی ’’نہیں نہیں، اللہ نہ کرے میرے بچوں سے اللہ ناراض ہو۔‘‘
میں حیران ہوکر اسے دیکھنے لگا اور سوچنے لگا کہ جن بچوں نے اسے پلٹ کر نہ پوچھا، اس اولاد کے لیے یہ اتنی بدحالی میں بھی دعا کررہی ہے!
وہ عورت ایک دم بولی ’’وہ دیکھو میرا بیٹا ہے یہ۔‘‘اُس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔
کتنی خوش باش اور توانا لگنے لگی تھی۔ بیٹا سامنے ہی اپنی گاڑی میں بیٹھا سگنل کھلنے کا انتظار کررہا تھا۔
میں شام تک اداس رہا۔ جب آفس سے لوٹا تو دل عجیب خلش محسوس کررہا تھا۔ گھر شیشے کی طرح نازک ہوتے ہیں، کیا تھوڑی بہت مصلحت سے کام نہیں لیا جاسکتا؟
اس واقعے نے میرے دل پر گہرے اثرات ڈالے۔ اب مجھے اپنی بیوی سے شدید محبت ہے۔ اس کی عزت، اس کی تکریم میرے گھر کی اہم ضرورت ہے۔ میرے روز کے جھگڑے اب بہت کم ہوچکے۔
میری بیوی میرے محبت بھرے برتاؤ اور ہر طرح سے ساتھ دینے کے باعث مجھ سے بہت قریب ہے، ہم دونوں ایک دوسرے کا بہت احترام کرتے ہیں اور ہمارا گھر جنت کا نمونہ ہے۔