رابعہ خالہ آج بہت اداس تھیں۔گوکہ بات اتنی بڑی نہیں تھی لیکن اُن کا دل دُکھانے کے لیے کافی تھی۔ محبت اور شفقت سے بھرے ان جذبوں کو بھلا کب کوئی سمجھتا ہے؟ کوئی محبت کے اس سمندر میں غوطہ لگا کر تو دیکھے! کیسے قیمتی موتی دستیاب ہوتے ہیں، جن کی چمک تاحیات باقی رہتی ہے۔
رابعہ خالہ کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جہاں ہر کوئی ایک دوسرے کے لیے محبت اور خیر خواہی کے جذبات رکھتا تھا۔ وہ بیاہ کر جس گھر میں آئیں وہ بھرا پُرا گھر تھا۔ ساس، سسر، تین دیور اور تین نندوں پر مشتمل خاندان تھا، جہاں سب ایک دوسرے کے ساتھ ادب و احترام سے پیش آتے تھے۔ سسر بہت خوش اخلاق اور خوش گفتار تھے اس لیے خاندان والوں کا بھی آنا جانا لگا رہتا تھا۔
بڑی بہو ہونے کی وجہ سے رابعہ خالہ کی مصروفیت بہت زیادہ تھی۔ رابعہ خالہ کی اپنی تین اولادیں تھیں، دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ انہی مصروفیات کے ساتھ اولاد کی تعلیم و تربیت ان کی ترجیحات میں شامل تھی۔
وقت گزرتا گیا۔ سب نندوں اور دیوروں کی شادیاں ہوگئیں۔ ساس، سسر کے انتقال کے بعد سب بھائی الگ الگ گھروں میں منتقل ہوگئے۔ رابعہ خالہ کی اولادیں بھی جوان ہوگئی تھیں۔ بیٹی کی شادی ہوگئی تھی اور دو بہوئیں گھر میں آچکی تھیں، جنہوں نے گھر کا انتظام بہ خوبی سنبھال لیا تھا۔ اب انہیں پہلے کی نسبت کچھ فراغت مل چکی تھی۔ لیکن فارغ بیٹھنا اور وقت ضائع کرنا ان کے نصب العین میں شامل نہیں تھا۔ سو انہوں نے بچوں کو قرآن پاک پڑھانے کا ارادہ کیا اور گھر میں مدرسہ کھول لیا۔ وہ اس سے پہلے بھی کئی بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دے چکی تھیں۔ تین بچوں سے مدرسے کا آغاز ہوا اور پھر الحمدللہ اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔
رابعہ خالہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا، کیوں کہ ان کی زندگی کا اہم مقصد پورا ہورہا تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ زندگی میں خیر کا کوئی ایسا کام کرجاؤں جو صدقۂ جاریہ بن جائے، اور یہ علم تو ایسا ہے جس کی روشنی جتنی دور تک جائے اچھا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکر کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کی مخلوق کو فیض پہنچایا جائے اور جو علم انسان کے پاس ہے اس کو پھیلایا جائے ناکہ سمیٹ کر رکھا جائے۔
وہ انتہائی توجہ اور شفقت سے بچوں کو پڑھاتیں اور ان کی اخلاقی اور اصلاحی تربیت بھی کرتیں۔ وہ عملی طور پر بچوں کو نماز کا طریقہ بھی سکھاتیں اور اس کے بعد دعائیں اور تسبیحات بھی یاد کرواتیں۔ انہیں بچوں سے اُنسیت سی ہوگئی تھی، وہ طبیعت کی خرابی میں بھی بچوں کو پڑھاتی رہتیں۔
ایک دفعہ طبیعت کچھ زیادہ ناساز ہوگئی تو انہوں نے بچوں کو چار، پانچ دن کی چھٹی دے دی۔ لیکن یہ کیا؟ چھٹیاں ختم ہوئیں تو کئی بچے بھی غائب۔ بچوں کو یہ کہتے سنا گیا کہ ’’آنٹی! چھٹیاں بہت کرتی ہیں۔‘‘
رابعہ خالہ کے دل کو دھچکا سا لگا۔ وہ سوچنے لگیں کیا استاد کو بیمار ہونے کا بھی حق نہیں ہے؟ بچے خود بھی بغیر اطلاع کے خوب چھٹیاں کرتے ہیں۔ گزشتہ دور میں یہ بھی تربیت کا ایک حصہ ہوتا تھا کہ بچوں کو استاد کا ادب سکھایا جاتا تھا۔ والدین اپنے سے زیادہ استاد کو ترجیح دیتے تھے… اور اب وقت کتنا بدل گیا ہے؟ یہی سوچتے سوچتے ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
محلے کے بچے مختلف اسکولوں میں پڑھتے تھے لیکن زیادہ تر بچے ایک ہی وین میں اسکول جاتے تھے۔ ایک دن وین ڈرائیور نے کسی وجہ سے معذرت کرلی کہ وہ کل نہیں آسکے گا۔ مدرسہ چھوڑنے والے بچوں کی ماؤں کے فون آنا شروع ہوگئے کہ انکل سے کہیں ہمارے بچوں کو کل پک اینڈ ڈراپ کرلیں۔
رابعہ خالہ کے شوہر سلیم صاحب ایک شریف النفس اور سلیم الفطرت انسان تھے۔ کسی کام کو منع کرنا ان کی سرشت میں نہ تھا۔ خیر کے کاموں میں تو وہ پیش پیش رہتے تھے۔ انہوں نے فوراً ہامی بھرلی۔
رابعہ خالہ کی بہو شرمین انتہائی افسوس کے ساتھ بولی ’’دنیا کتنی بدل گئی ہے، لوگوں کو ہوا کیا ہے؟ دیکھو بھلا مدرسہ چھوڑ دیا اب انکل کو پک اینڈ ڈراپ کا کہا جارہا ہے… توبہ توبہ۔‘‘
سلیم صاحب بہو کو سمجھاتے ہوئے بولے ’’بس بیٹا! ایسے نہ کہو، ان کا عمل ان کے ساتھ، ہمارا عمل ہمارے ساتھ۔ ہمیں اللہ کے ہاں اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ ہم ان کی وجہ سے اپنا عمل کیوں ضائع کریں! انسان کو ہر وقت خیر ہی سمیٹتے رہنا چاہیے۔‘‘ اور رابعہ خالہ بھی سوچ میں پڑگئیں۔