الجزائر فوج کا جمہوریت پر شب خون

104

جمہوریہ الجزائر نے جو شمالی افریقہ میں واقع ہے، 1962ء میں فرانسیسی استعمار سے آزادی حاصل کی۔ ملک کی کل آبادی تقریباً چار کروڑ ہے اور آبادی کا 99 فیصد عرب یا بربرالنسل ہیں اور رقبہ چوبیس لاکھ مربع کلومیٹر (پاکستان سے تین گنا زیادہ) ہے۔ رقبے کے اعتبار سے بحرہ روم پر واقع سب سے بڑا اور عرب دنیا اور افریقی براعظم میں سوڈان کے بعد سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کے شمال مشرق میں تیونس، مغرب میں مراکش، جنوب مغرب میں مغربی صحارا، ماریطانیہ، مالی، جنوب مشرق میں نائیجیریا جبکہ شمال میں بحیرہ روم واقع ہے۔ الجزائر کے دارالحکومت کا نام بھی الجزائر ہے۔ اس کی معیشت کا انحصار تیل، گیس اور سیاحت پر ہے۔ خصوصاً قومی آمدنی کا تیس فیصد سے زیادہ حصہ تیل سے حاصل ہوتا ہے۔

الجزائر میں اسلام:
اسلام یہاں ساتویں صدی کے وسط میں آیا۔ 1510ء میں اسپین نے مختصر وقت کے لیے الجزائر پر قبضہ کیا لیکن 1516ء میں ترکوں نے اسے سلطنت عثمانیہ کا حصہ بنالیا۔1830ء میں فرانسیسیوں نے حملہ کردیا، یہ جنگ بہت طویل ثابت ہوئی اور بہت خون خرابا ہوا۔ چالیس برس تک جنگوں اور بیماریوں کی وجہ سے مقامی ایک تہائی آبادی کم ہوگئی، لاکھوں فرانسیسی الجزائر منتقل ہوگئے۔ فرانس کے علاوہ اسپین، اٹلی اور مالٹا سے بھی ہزاروں آبادکار الجزائر منتقل ہوئے اور الجزائر کے ساحلی میدانوں پر کاشتکاری کے علاوہ شہروں کے اہم حصوں پر بھی قابض ہوگئے۔ ان آبادکاروں کو حکومت فرانس کی پشت پناہی حاصل تھی۔

ریفرنڈم اور آزادی:
ریفرنڈم کے انعقاد کے بعد بھاری اکثریت سے عوام نے آزادی کا انتخاب کرلیا۔ الجزائر کے پہلے صدر احمد بن بِلّا تھے جنہیں بعد میں ان کے معتمد بومدین نے اقتدار سے ہٹادیا۔ ان کے زمانے میں 1976ء کا آئین نافذ ہوا جس کے تحت ایک کے سوا تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگادی گئی۔ بومدین کے جانشین شاذلی بن جدید نسبتاً کھلے ذہن کے مالک تھے، تاہم ان کے دور میں افسر شاہی کا غلبہ ہوا اور رشوت ستانی عام ہوگئی۔ دسمبر 1991ء میں الجزائر میں انتخابات کا پہلا مرحلہ دینی جماعت اسلامک سالویشن پارٹی نے جیت لیا تو فوج نے مداخلت کرکے دوسرا مرحلہ منسوخ کردیا۔ اس کے بعد فوج نے اسلام پسند عناصر سے وہی برتائو کیا جو حال ہی میں مصر کی سیکولر فوج نے صدر مرسی اور اخوان کے ساتھ کیا ہے۔ اس وقت کے صدر بن جدید کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا اور ہر دینی سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دے دیا۔ سیاسی چپقلش بڑھتی رہی اور خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ سترہ جنوری 1992ء سے لے کر جون 2002ء کے دوران ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ الجزائری مارے گئے۔ ان کی اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ فوجی حکومت نے اپنی فوج اور غیرملکیوں کی مدد سے شہریوں کو مار کر ان کی ذمے داری مختلف اسلامی گروپوں پر ڈال دی۔

الجزائر اب بحالی کی راہ پر چل رہا ہے، ملکی معیشت ترقی کررہی ہے۔ تیل اور قدرتی گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے نئی حکومت کو ملکی ڈھانچے کی تعمیرنو میں مدد مل رہی ہے۔ الجزائر کی معیشت کا انحصار تیل، گیس اور سیاحت وغیرہ پر ہے، خصوصاً معدنی تیل ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتا ہے اور کل قومی آمدنی کا 30 فی صد سے زیادہ تیل سے حاصل ہوتا ہے۔ یہاں پر کُل 11.8 ارب بیرل تیل کے ذخائر کا تخمینہ لگایا جاچکا ہے تاہم اصل مقدار اس سے زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ الجزائر میں 160 کھرب مکعب فٹ قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہیں جو دنیا بھر میں آٹھویں نمبر پر آتے ہیں۔ یہاں کئی قدرتی بندرگاہیں بھی موجود ہیں۔ زیادہ تر ساحلی علاقہ پتھریلا اور چٹانی ہے، کہیں کہیں پہاڑ بھی ہیں۔ تاہم ساحل سے لے کر اطلس التلی تک کا علاقہ زرخیز ہے اطلس التلی کے بعد کا علاقہ گھاس کے وسیع و عریض میدانوں پر مشتمل ہے جو کوہِ اطلس کے مشرقی حصے تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے بعد صحرائے صحارا کا وسیع و عریض ریتیلا میدان ہے۔ 38459000 آبادی میں ننانوے فی صد عرب یا بربر النسل ہیں۔ الجزائر کے نوے فیصد سے زیادہ باشندے شمالی ساحلی علاقوں پر رہتے ہیں۔ آبادی کا کچھ حصہ صحرائے صحارا میں بھی رہائش پذیر ہے۔ تقریباً 83فیصد آبادی الجزائری عربی بولتی ہے جبکہ 15فیصد کے قریب لوگ بربر لہجے کو اپناتے ہیں۔ فرانسیسی بھی بڑے پیمانے پر سمجھی جاتی ہے۔

تیونس، مصر اور اب لیبیا میں جاری حکومت مخالف مظاہروں نے جہاں مختلف عرب اور افریقی حکومت کو پریشان کررکھا ہے وہاں الجزائر کی حکومت نے غیرمتوقع طور پر سرکاری ٹی وی کو حزب اختلاف کی ریلی کی رپورٹنگ کی اجازت دے دی ہے۔ الجزائر میں کم ہی ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ سرکاری ٹی وی یا رپورٹرز حکومت مخالف افراد کے جلسوں اور جلوسوں کی تشہیر کریں تاہم تیل برآمد کرنے والے شمالی افریقہ کے اس ملک کی حکومت کو خدشہ ہے کہ تیونس، مصر اور پھر لیبیا میں ہونے والے عوامی مظاہرے الجزائر میں بھی شورش کو ہوا دے سکتے ہیں۔ الجزائر کے عوام اشیائے خوردونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف احتجاج کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ الجزائر کے کئی شہر سال کے آغاز سے ہی کشیدگی کا شکار ہیں۔ مظاہروں میں اب تک دو افراد ہلاک بھی ہوچکے ہیں۔ الجزائر کے صدر عبدالعزیز بوطفلیقہ نے عوامی مظاہروں کی وجہ سے ملک میں جمہوری اصلاحات کا وعدہ کیا ہے، اس کے علاوہ انہوں نے کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی اور روزگار میں اضافے کے لیے اقدامات کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ الجزائر کی حکومت کے مطابق وہ انیس برس سے مسلسل نافذ ایمرجنسی کے خاتمے کا ارادہ بھی رکھتی ہے مگر یہ بات مشکل ہی نظر آتی ہے کہ یہ اعلانات اور اقدامات الجزائر کے عوام کو راضی کرپائیں گے۔ الجزائر کے سرکاری ذرائع ابلاغ، جن میں ٹی وی، ریڈیو اور کئی اخبارات شامل ہیں، الجزائر میں سرکاری کٹھ پتلی سے زیادہ شہرت نہیں رکھتے۔ اس کے مقابلے میں الجزائر کا غیرجانب دار میڈیا جو پوری عرب دنیا میں زیادہ غیرجانب دار تصور کیا جاتا ہے، صدر بوطفلیقہ اور فوجی حکومت کا ناقد تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری ذرائع ابلاغ کی جانب سے حزب اختلاف کے مظاہروں کی ترویج پر حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے۔ کئی اپوزیشن رہنمائوں کے انٹرویو سرکاری ٹی وی پر نشر کیے جارہے ہیں اور بعض اخبارات مظاہروں کی تصاویر نمایاں طور پر چھاپ رہے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کے ہمراہ آصف جیلانی کا دورہ الجزائر:
2014ء میں معروف صحافی جناب آصف جیلانی الجزائر کے بارے میں بیالیس برس پہلے کی پرانی یادتازہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کی باگ ڈور سنبھالتے ہی ایران، ترکی، مراکش، الجزائر، تیونس، مصر اور شام کا طوفانی دورہ کیا تھا۔ انقرہ سے میں اس دورے میں ان کے ساتھ رہا۔ رباط سے جب ہم الجزیرہ پہنچے تو چاند رات تھی۔ صدر بومدین ہوائی اڈے پر خیرمقدم کے بعد بھٹو صاحب کو اپنے ساتھ سرکاری مہمان خانے تک لائے جہاں ضیافت اور بات چیت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ صدر بومدین نے مہمانوں سے کہا کہ وہ قدرے سستالیں اور وہ اس دوران مہمان خانے کے استقبالیہ ہال میں ان کا انتظار کریں گے۔ (یاد رہے کہ1974ء میں صدر بومدین لاہور میں منعقد ہونے والی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس میں اس وقت کے حکمران بھٹو کی دعوت پر اس میں شریک ہوئے تھے)

صدر بومدین سے صحافی آصف جیلانی کا انٹرویو:
میرے لیے اور میرے چند ساتھیوں کے لیے الجزائر کے سربراہ سے گفتگو کرنے کا یہ نادر موقع تھا۔ صدر بومدین وہ شخص تھے جنہوں نے 1954ء سے لے کر1962ء تک فرانس کے تسلط سے آزادی کی جنگ میں نمایاں حصہ لیا تھا۔ ان کی آنکھوں میں بلا کی چمک تھی، ویسی ہی چمک جو میں نے بچپن میں ایک اور انقلابی مولانا عبید اللہ سندھی کی آنکھوں میں دیکھی تھی۔ میں نے گفتگو شروع کرتے ہوئے انہیں بومحی الدین کہتے ہوئے مخاطب کیا تو انہوں نے زوردار قہقہہ لگایا اور کہا ’’دراصل میرا نام محمد بن ابراہیم بوخروبا ہے، میں جب آزادی کی جنگ میں تلسمان میں لڑرہا تھا تو وہاں میرا ہیڈکوارٹر بارہویں صدی کے مشہور صوفی سدی ابومدیان شعیب ابن الحسین الانصاری سے ملحق تھا، اسی مناسبت سے میں نے بومدیان اپنے عرف کے طور پر اختیار کیا جو فرانسیسی میں بومدین ہوگیا‘‘۔

ابھی کافی وقت تھا اور گفتگو کے لیے لاجواب ماحول بن گیا تھا۔ میرے ذہن پر پاکستان کے دولخت ہونے کا المیہ طاری تھا۔ میں نے پوچھا کہ اس وقت الجزائر کو کن خطرات کا سامنا ہے؟ ایک لمحے کے توقف کے بغیر انہوں نے کہا کہ امریکا اور پرانی نوآبادیاتی قوت فرانس کی نظریں الجزائر کے تیل اور گیس کی دولت پر ہیں، ان کی ریشہ دوانیوں سے ہمیں سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ تیل اور گیس کے ذخائر کی دولت کے لحاظ سے الجزائر کا دنیا میں دسواں نمبر ہے اور ان ہی دو نعمتوں کی وجہ سے ہمارے ملک کو 69فی صد آمدنی ہوتی ہے۔ مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ یہی دولت ہماری آزادی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ میں نے کہا کہ مگر الجزائر کے عوام نے گیارہ سال تک مسلح جدوجہد کے بعد فرانس سے آزادی حاصل کی ہے انہیں زیر کرنا مغربی قوتوں کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ بومدین نے اس بات سے اتفاق کیا لیکن انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا خطرہ اس بات کا ہے کہ مغربی قوتیں الجزائر میں مسلم انتہا پسندی اور شدت پسندی کا ہوا کھڑا کرنے کی کوشش کریں گی اور اسے اپنی مداخلت کا جواز بنائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ فرانس سے آزادی کی جنگ سے بہت پہلے الجزائر کے علماء نے فرانس کے خلاف ثقافتی جہاد کیا تھا جس کی بدولت عوام میں بلا کا سیاسی شعور بیدار ہوا تھا اور اس کے نتیجے میں یک جہتی اور اتحاد کی بنا پر ہمیں آزادی کی جنگ میں فتح حاصل ہوئی تھی۔ حواری بومدین کا کہنا تھا کہ مغربی قوتیں کوشش کریں گی کہ یا تو اسلامی تنظیموں میں پھوٹ ڈالی جائے یا اسلامی اتحاد کو فوج اور عوام سے لڑایا جائے۔

اسلامی سالویشن فرنٹ (FIS) کی کامیابی اور فوج کا قبضہ:
ھواری بومدین نے 1972ء میں جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ انیس سال بعد (ان کے انتقال کے دس سال بعد) حرف بحرف درست ثابت ہوئے۔ دسمبر1991ء میں اسلامک سالویشن فرنٹ (FIS) نے عام انتخابی کے پہلے مرحلے میں 48فی صد سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے زبردست کامیابی حاصل کی۔ ایک اسلامی جماعت کے اقتدار میں آنے کا قوی امکان پیدا ہوگیا تو فوج نے جمہوریت کا تختہ الٹ دیا اور کوئی وجہ بتائے بغیر یہ انتخابات یکسر منسوخ کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اسلامک سالویشن فرنٹ کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔ جماعت کے دسیوں ہزار کارکنوں کو گرفتار کرکے صحارا کے ریگستان میں نظربندی کیمپوں میں پھینک دیا جہاں انہیں قتل اور ایذا کا نشانہ بنایا گیا۔

خونریز خانہ جنگی:
اس کے نتیجے میں ملک میں خونریز خانہ جنگی بھڑک اٹھی جو گیارہ سال تک جاری رہی جس میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ جانیں ضائع ہوئیں۔ بڑی تعداد میں علماء اور ستر سے زیادہ صحافی بھی فوج کا نشانہ بنے۔ اس دوران فوجی حکمرانوں نے مختلف اسلامی تنظیموں کو اسلحہ اور مالی امداد دے کر ایک دوسرے کو لڑایا۔ اصل مقصد اسلامک سالویشن فرنٹ کا قلع قمع کرنا تھا۔ اب یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ فرانس کی فوجی مدد سے الجزائر کی خفیہ ایجنسیوں نے بڑے پیمانے پر قتل عام کیا تاکہ اسلامک سالویشن فرنٹ کو بدنام کیا جائے اور اس کے خلاف کارروائی کا جواز پیدا کیا جائے۔ 1995ء میں فوج نے صدارتی انتخاب کا ڈھونگ رچاکر ایک ریٹائرڈ جرنیل الامین زراول کو صدر کے منصب پر بٹھادیا۔

فوجی حکمرانوں کو مغربی اتحادیوں کی بھاری امداد
الجزائر میں جمہوریت پر اس شب خون کی امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے بھرپور حمایت کی کیونکہ یہ کسی طور پر بھی تیل اور گیس کی دولت سے معمور الجزائر کو اسلامی جماعت کی حکمرانی میں دیکھنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ برطانیہ نے فوجی حکمرانوں کو بھاری مالی امداد دی اور یورپی یونین نے بھی الجزائر کی جمہوریت کش حکومت کو بڑے پیمانے پر امداد فراہم کی جیسے کہ اسے اسلامی جماعت کوا قتدار سے محروم رکھنے کا انعام دیا جارہا ہے۔ امریکہ اور فرانس نے اس حمایت کے عوض فوجی حکمرانوںسے الجزائر میں تیل اور گیس نکالنے کے بڑے ٹھیکے حاصل کیے۔ یہ حیرت انگیز بات ہے کہ تیل اور گیس کی دولت کے باوجود ملک پر غیرملکی قرضوں کا بوجھ جو 1992ء میں 26 ارب ڈالر تھا، اب بڑھ کر60 ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا ہے۔ عالم یہ ہے کہ ملک میں بے روزگاری دس فی صد تک پہنچ گئی ہے اور25 فی صد آبادی غربت کے خط کے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں سخت بے چینی پھیل رہی ہے اورعوام سیاسی تبدیلی کے لیے بے قرار ہیں لیکن فوج کے بل پر صدر بوطفلیقہ ملک پر مسلط ہیں۔ عبدالعزیز بوطفلیقہ آزادی کے بعد وزیر خارجہ تھے ان کے خلاف 1981ء میں وزارت خارجہ میں60 ملین دینار کے غبن کا مقدمہ چلا تھا اور انہیں قصور وار قرار دیا گیا تھا لیکن انہیں کچھ رقم ادا کرنے پر فوج نے معاف کردیا تھا اس کے عوض وہ فوج کے لیے جمہوری نقاب کا رول ادا کررہے ہیں۔ فوج عبدالعزیز بوطفلیقہ کو 1999ء سے اب تک تین بار صدر منتخب کراتی رہی ہے اور اب انہیں اگلے سال چوتھی بار صدر کا انتخاب جتانے کا انتظام کیا جارہا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ وہ اس وقت شدید علیل ہیں اور اس سال کے اوائل میں وہ تین ماہ تک فرانس میں زیرعلاج رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ملک سخت غیریقینی کی حالت سے دوچار ہے اور انتشار اور خلفشار سراٹھارہا ہے۔ فوج کے استبداد کے خلاف عوام میں اسی انداز کا طیش اور ناراضی ہے جیسی کہ2011ء میں مصر میں حسنی مبارک کی آمرانہ گرفت کے خلاف تھی جس نے آخرکار انقلاب کی صورت اختیار کی اور ساری زنجیریں توڑ دیں۔ اس وقت الجزائر کے عوام شدید اقتصادی بحران میں گرفتار ہیں۔ یہ اس بات پر سخت آگ بگولا ہیں کہ تیل اورگیس کی زبردست دولت کے باوجود وہ تنگ دستی کا شکار ہیں اس صورت حال کا سارا دوش وہ فوج اور اس کے مغربی حمایتیوں کو دے رہے ہیں۔ سن نوے کی خانہ جنگی میں ہلاک ہونے والے ڈیڑھ لاکھ افراد کے لواحقین فوج سے انتقام لینے کے لیے بے تاب ہیں۔ اس وقت ایسا لگتا ہے کہ انقلاب الجزائر کی دہلیز پر کھڑا ہے اور غالباً اسی خطرے کے پیش نظر امریکہ اور فرانس الجزائر میں القاعدہ کا ہوا کھڑا کرکے انقلاب کی راہ روکنے اور تیل اور گیس کی تنصیبات پر تسلط جمانے کے لیے بڑے پیمانے پر فوجی مداخلت کا جواز پیدا کررہے ہیں۔ امریکہ اور فرانس پڑوسی ممالک مالی اور نائیجیریا میں اپنی فوجیں اتار رہے ہیں۔

حصہ