دعا اور امید

199

احساس کمتری،شکست خوردگی فرد اور اقوام کو غلامی میں دھکیل دیتی ہے

’’اے ہمارے رب، ہمارے لیے آسانیاں کر، ہماری مشکلوں کو دور کر، اور خیر کا معاملہ کر۔ ہم تجھ سے دُعاگو ہیں۔‘‘

اس ضمن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لوگوں کو امید دلاؤ اور مایوسی نہ پھیلاؤ، اور اللہ سے خیر کے طالب رہو۔‘‘

یہ دُعا مایوسی میں امید کی کرن ہے، اندھیرے میں جگنو کی چمک ہے، حالتِ جبر میں حوصلہ ہے، اللہ سے لو لگانے اور امید بر آنے کا یقینِ محکم ہے۔ آج مسلم امہ عالمی طاغوت کی سفاکی اور جارحیت کا شکار ہے۔ گزشتہ تین صدیوں سے مسلمانانِ عالم آپس کی نااتفاقی، قرآن و سنت سے انحراف، نسلی، علاقائی، فرقہ وارانہ تعصبات و مسلکی جھگڑوں کی وجہ سے ذلت و رسوائی سے دوچار ہیں۔ مسلمانوں کے پاس زمین کا بہترین خطہ، تمام بحری گزرگاہیں، زمینی راستے، 70 فیصد معدنیات ، سمندر، دریا، پہاڑ، صحرائی و جنگلاتی علاقے، دیگر اقوام کے مقابلے میں نوجوانوں کی ساٹھ پینسٹھ فیصد آبادی موجود ہہ، پھر کیا وجہ ہے کہ

مسلماں آج بھی دنیا میں بے پندار ہے آقا
ذلیل و خوار ہے مست مئے اغیار ہے آقا
اس لیے کہ:
بھلا کر نصِ قرآنی یہود و نصرانی
شیاطینِ زمانہ کا یہ پیروکار ہے آقا

خود مذمتی ہمارا علاج نہیں ہے بلکہ ملتِ اسلامیہ کو بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ آج بھی سسکتی ہوئی انسانیت تمہاری منتظر ہے، ورنہ جن مغربی اقوام کے حکمران تم پر چڑھ دوڑے ہیں وہاں کیوں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے؟

اسلام اور اس کی تعلیمات، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ میں مقناطیسی کشش ہے۔ مخالف ترین بھی جب اپنی مخالفت کو زبان دینے کی کوشش میں قرآن وسنت کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کی کایا کلپ ہو جاتی ہے اور وہ پکے ہوئے پھل کی طرح اسلام کی گود میں گر پڑتا ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی جب سامنے آتی ہے اور حالات نہایت پُر آشوب ہو جاتے ہیں تو باری تعالیٰ آپؐ اورآپؐ کے اصحاب کو کامیابی و کامرانی کی بشارت دیتا ہے جس سے حوصلہ افزا صورتِ حال اور جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں بیٹے ابراہیمؓ اور قاسمؓ کا انتقال ہوا تو مکہ والے آپؐ کو بے اولاد ہونے کا طعنہ دینے لگے۔ امیہ بن خلف توآپؐ کی تاک میں لگا رہتا اور جب بھی آپؐ گھر سے نکلتے تو پیچھے لگ جاتا اور بے اولاد ہونے کی پھبتیاں کستا۔ آپؐ گھر سے نکلتے وقت دُعا کرتے کہااے اللہ، امیہ کا سامنا نہ ہو۔ طعنہ زنی ایک تکلیف دہ فعل ہے، آدمی اندر سے ٹوٹتا ہے۔ آپؐ بھی بشری تقاضوں کی وجہ سے کرب محسوس کرتے تھے۔ اللہ کو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حالت پر جوش آیا اور سورہ الکوثر نازل ہوئی، فرمایا:

’’اللہ نے آپؐ کو خیرِ کثیر (آبِ کوثر) عطا کیا، آپؐ نماز قائم کریں اور قربانی دیں، بے شک آپ کا دشمن نابود ہو جائے گا۔‘‘

سورہ الم نشرح میں اللہ نے خوش خبری دی، آپؐ کا ذکر بلند کر دیا۔ اہلِ مکہ جب مومنین کو طعنہ دے رہے تھے اللہ نے فرمایا ’’فلاح تو مومنوں کے لیے ہے۔‘‘

جنگِ بدر میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی فوج کے ذریعے دشمنوں کو شکست سے دوچار کیا۔ جنگِ احزاب (جنگ ِخندق) میں جب مدینہ محصور تھا اور حالات اتنے نازک تھے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پیٹ پر پتھر باندھنے پڑے، اُس وقت بھی آپؐ نے اصحابؓ کو قیصر و کسریٰ کی فتح کی بشارت دی جس سے مومنین کا ایمان بڑھ گیا اور منافقین دل برداشتہ ہوئے۔

تُو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بے زار کرے
موت کے آئینے میں دکھا کر رُخ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
دے کر احساس زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
فتنۂ ملّتِ بیضا ہے امامت اُس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے

علامہ اقبال کی یہ نظم میدانِ کارزارِ حیات میں ہر صاحبِ ایمان کے لیے جذبۂ استقامت کی حیثیت رکھتی ہے، اور ایسی قیادت جس کی گفتگو سے حوصلے کے بجائے مایوسی اور انتشار پھیلے وہ مسلمانوں کی رہنما نہیں بلکہ فتنہ اور منافق ہے جس کی نشاندہی قرآن مجید میں کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

’’جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد برپا نہ کرو تو یہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔‘‘ (البقرہ)

اے اہلِ وطن سوچو تو ذرا یہ کیسا عالم طاری ہے
کب رات ڈھلی کب صبح ہوئی یہ خواب ہے یا بیداری ہے
اس گلشن کی بربادی میں کچھ برق و خزاں کا ہاتھ نہیں
تم جس کو سمجھتے ہو مالی یہ پھولوں کا بیوپاری ہے

انسانی معاشرے کی ایک مشترکہ سماجیات یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی بیمار کی عیادت کو جاتا ہے، اگر بیمار شخص قریب المرگ بھی ہوتا ہے تو اُسے یہ تسلی دیتا ہے کہ آپ جلد صحت یاب ہوجائیں گے، جبکہ یہ پتا ہوتا ہے کہ یہ چند دنوں یا چند لمحوں کا مہمان ہے۔ یہی وصف قومی قیادت اور لیڈروں کا بھی ہونا چاہیے۔ ہر وقت صورتِ حال کی سنگینی کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنے سے قوم میں مایوسی اور انتشار پھیلتا ہے۔ ہر شر کے اندر خیر موجود ہوتا ہے۔ ہر تنگی کے بعد فراخی آتی ہے۔ قرآن کی سورہ الم نشرح میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ یقینا مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اس سورہ مبارکہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ صرف حالات کی بہتری کی بشارت دی بلکہ آپؐ کے ذکر کو بلند کرنے کی خوش خبری بھی دی۔ لہٰذا ہر مسلمان قیادت کو برے سے برے حالات میں بھی قوم کو مایوس کرنے والی تقاریر سے اجتناب برتنا چاہیے۔

نویدِ صبح دیتی ہے ستاروں کی تنک تابی
افق سے آفتاب ابھرا، گیا صبح گراں خوابی

جب ہر طرف سے انسان مایوس ہوجاتا ہے اور اللہ پر یقینِ محکم رکھ کر ڈٹا رہتا ہے تو غیب سے ایسی مدد آتی ہے کہ آدمی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ کہا جاتا تھا کہ روسی ریچھ جہاں جاتا ہے وہاں سے واپس نہیں آتا، مگر افغانستان میں جہاد کی برکتوں سے ایسا واپس ہوا کہ اس کا وجود ہی بکھر گیا۔ 20 سال تک امریکی افغانستان کو پامال کرتے رہے مگر ذلت و رسوائی ان کا مقدر بنی۔ غزہ مسمار ہوگیا، شہادتوں کا کوئی شمار نہیں، مگر اسرائیل اب اپنے وجود کے حوالے سے فکرمند ہے۔ کشمیر میں آٹھ لاکھ بھارتی فوجیوں کی موجودگی کے باوجود کشمیر کی آزادی کی تحریک جاری ہے اور اللہ کی ذات پر یقین رکھنے والوں کو یقین ہے کہ اس کی نصرت جلد یا بدیر آئے گی۔ پاکستان کا وجود بھی تو ایک معجزہ ہے۔

شیطان کو ابلیس اس لیے کہتے ہیں کہ وہ اللہ کی رحمتوں سے مایوس ہوگیا اور لعنتی ٹھیرا۔ عالمی طاغوت کا ایجنڈا ہے کہ وہ اسلام اور اس کے ماننے والوں کو روئے زمین سے مٹا دے گا۔ لیکن ہزار سال سے جاری صلیبی جنگوں کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلام امریکا اور یورپ کا دوسرا مذہب بن چکا ہے۔ 76 سال سے بھارت کے طول و عرض میں ہزاروں کی تعداد میں مسلم کُش فسادات کے باوجود مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے ہندوتوا کے پرچارک خائف ہیں اور بڑی تعداد میں ہندو لڑکیاں مسلمان لڑکوں سے شادی کرکے خوش و خرم زندگی گزار رہی ہیں۔ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ ہندوتوا کے چوٹی کے لیڈروں کی بہنیں اور بیٹیاں بھی مسلمانوں سے شادیاں کرکے اسلام قبول کررہی ہیں جس کو ’’لو جہاد‘‘ کا نام دے کر ہندوتوا کے پجاری روکنے کی ناکام کوششیں کررہے ہیں۔

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
یہ اتنا ہی ابھرے گا جتنا کہ دبادیں گے

آج کا مسلمان صرف اور صرف اپنے کردار کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھال لے تو دیکھتے ہی دیکھتے یہ پیاسی دنیا اسلام کے سرچشمے سے سیراب ہونے کے لیے دوڑ پڑے گی۔ اسلام کے سوا ہر مذہب اپنی اصل شناخت سے محروم ہوچکا ہے اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے دہریت کو اپنا چکے ہیں۔ سائنسی ترقی نے بہترین سہولیاتِ زندگی فراہم کردی ہیں مگر سکونِ قلب میسر نہیں، جس کی وجہ سے جاپان جیسے ترقی یافتہ اور خوش حال ملک میں لوگ سب سے زیادہ خودکشیاں کرتے ہیں۔

آسائشِ حیات تو مل جائے گی مگر
لیکن سکونِ قلب مقدر کی بات ہے

’’جو لوگ ایمان والے ہیں ان کو اللہ کے ذکر سے ہی اطمینان قلب ملتا ہے۔ سن لو اللہ کے ذکر سے ہی اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے۔‘‘(سورہ الرعد)

مومن کے دونوں ہاتھوں میں لڈو ہے، جب اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، اور جب اسے دنیاوی نعمتیں عطا ہوتی ہیں تو وہ رب العالمین کا شکر ادا کرتا ہے تو اللہ اسے مزید نوازتا ہے۔ یہ دنیا اور آخرت میں کامیابی عطا کرنے والے وہ اعمال ہیں جو صرف اور صرف مومنوں کے پاس ہیں۔

آج کے اس دورِ ابتلا میں ہمیں نجات اعمال کی درستی، آپسی اتحاد اور اخلاقی برتری سے ملے گی۔ احساسِ کمتری، شکست خوردگی فرد اور اقوام کو غلامی میں دھکیل دیتی ہیں۔

احساس کے پیروں میں شکستوں کے کڑے ہیں
ہم وقت کے دوراہے پہ چپ چاپ کھڑے ہیں
منزل کا پتا پوچھنے آتے ہیں مسافر
ہم سنگِ ہدایت ہیں مدت سے گڑے ہیں
طوفاں نے بکھیرا ہے ساحل کے مکینوں کو
نادان ہیں کشتی میں جو چپ چاپ پڑے ہیں
٭
جاگ مسلماں جاگ
گجرات کے مقتل سے
میرٹھ کے بازاروں سے
بابری مسجد تجھے دے رہی ہے یہ صدا
جاگ مسلماں جا

حصہ