اسماعیل ہنیہ کی شہادت: فیصلہ کن جنگ کی گھڑی آپہنچی؟

197

غزہ میں اسرائیل نے جنگ کے نام پر نہتے فلسطینیوں کو شہید کرنے کا سلسلہ گزشتہ اکتوبر سے اب تک کسی بھی مرحلے پر روکا نہیں۔ اس دوران کم و بیش 40 ہزار فلسطینی موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ اِس وقت 12 لاکھ سے زائد فلسطینی اپنے گھروں سے دور بے سر و سامانی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔

حماس اور دیگر مزاحمتی گروپوں کی طرف سے اسرائیل کے خلاف حملے جاری رہے ہیں مگر اب معاملات فیصلہ کن موڑ تک آگئے ہیں۔ ایران میں نومنتخب صدر مسعود پزشکیان کی تقریبِ حلف برداری میں شریک ہونے کے لیے حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ بھی تہران پہنچے تھے۔ وہ ریاست کے مہمان تھے اس لیے اُن کی سیکیورٹی کا بھرپور اہتمام کیا گیا ہوگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی ہائی پروفائل شخصیت کے لیے سیکیورٹی کا کیسا انتظام کیا گیا کہ اسرائیلی فوج یا اُس کے ایجنٹوں نے اُنہیں ایرانی کی حدود سے باہر رہتے ہوئے بھی نشانہ بنالیا۔

اسماعیل ہنیہ کو 31 جولائی کی صبح 2 بجے یعنی بدھ منگل اور بدھ کی درمیانی شب میزائل سے نشانہ بنایا گیا۔ ابتدا میں ایرانی حکومت خاموش رہی۔ پھر کہا جانے لگا کہ اسماعیل ہنیہ اور اُن کے محافظ وسیم ابو شعبان پر فائرنگ کی گئی۔ پھر ایرانی میڈیا پر اطلاعات نمودار ہونے لگیں کہ اسماعیل ہنیہ کو میزائل سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ مزید یہ کہ میزائل ایران کی حدود سے نہیں داغا گیا۔

ایرانی حکومت یہ وضاحت نہیں کر رہی کہ کوئی بھی ملک اُس کی حدود سے باہر سے کسی کو بھی کہیں بھی نشانہ کیسے بناسکتا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہوا ہے تو ایران کا دفاعی نظام کیا گھاس کھود رہا تھا؟ اسماعیل ہنیہ ہائی پروفائل مہمان تھے۔ عام حالات میں بھی اُن کی سیکیورٹی کا بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے۔ اور اِس وقت تو اُن کی سیکیورٹی کے معاملے کو زیادہ دیکھا جانا چاہیے تھا کیونکہ حماس اسرائیلیوں سے آل آؤٹ جنگ کی سی لڑائی میں مصروف ہے۔

سوال اور بھی بہت سے ہیں۔ اسرائیل نے محض ایک دن میں ایک طرف حماس کے سربراہ کو ختم کیا اور دوسری طرف لبنان کے دارالحکومت بیروت میں فضائی حملے کے ذریعے ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کے ہائی پروفائل کمانڈر فواد شُکُر کو شہید کیا۔ یہ دونوں واقعات انتہائی اہم ہیں کیونکہ اِن کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال مزید سنگین ہوسکتی ہے اور معاملات وسیع البنیاد جنگ کی طرف بھی جاسکتے ہیں۔

صہیونی فوج دس ماہ سے جو کچھ کر رہی ہے وہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے۔ غزہ کے نہتے شہریوں کو اندھا دھند اور بلا جواز حملوں کے ذریعے شہید کرنے کا عمل جاری ہے۔ دنیا یہ تماشا دیکھ رہی ہے اور مذمت کے دو چار الفاظ ادا کرکے چپ ہو جاتی ہے۔ خواتین اور بچوں کو انتہائی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ ہو رہا ہے مگر مغربی میڈیا اپنا حق ادا نہیں کرہا۔ گزشتہ دنوں مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں میں فٹبال گراؤنڈ پر میزائل گرنے سے 10 بچوں کی ہلاکت پر مغربی میڈیا نے چیخ چیخ پر آسمان سر پر اٹھالیا ہے۔ یہ دوغلاپن کب ختم ہوگا؟

اسماعیل ہنیہ کی شہادت اس بات کا بین ثبوت ہے کہ امریکا اور یورپ نے اس وقت صہیونی فوج کو کُھل کر کھیلنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ مغربی میڈیا یہ تاثر پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں کہ اسرائیل کی فوج ناقابلِ تسخیر ہے اور اُسے کوئی بھی ہرا نہیں سکتا۔ اور اِس سے بڑھ کر یہ کہ وہ کسی کو بھی، کہیں بھی نشانہ بناسکتی ہے۔

مشرقِ وسطیٰ میں عدم استحکام برقرار رکھنا امریکا اور یورپ دونوں ہی کا بنیادی ایجنڈا رہا ہے۔ دونوں کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ اِس خطے میں کبھی حقیقی امن اور استحکام نہ ہو، ترقی کی راہ ہموار نہ ہو، لوگ سُکون سے جی نہ سکیں۔ اس کے لیے اسرائیل کو بروئے کار لانے میں کبھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی۔

اسرائیل ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ کوئی ملک کتنی ہی ترقی کرلے، کتنی ہی دولت جمع کرلے، کتنی ہی تکنیکی برتری حاصل کرلے، اگر اُس کا رقبہ معمولی ہو تو وہ زیادہ دیر کسی کے سامنے ٹِک نہیں سکتا۔ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل اگر مسلم ممالک سے گِھرا ہوا ہوتے ہوئے بھی سلامت ہے اور من مانی کر رہا ہے تو یہ کسی بھی صورت اُس کی اپنی طاقت کا نتیجہ نہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ ع

کوئی معشوق ہے اِس پردۂ زنگاری میں

امریکا اور یورپ ہمیشہ اسرائیل کی پُشت پر رہے ہیں۔ اسرائیل مجموعی طور پر اِتنی طاقت بھی نہیں رکھتا کہ وہ کسی ایک مسلم ملک کے سامنے زیادہ دیر ٹِک سکے۔ تکنیکی برتری کی بنیاد پر وہ کچھ دن تو ڈرا سکتا ہے مگر زیادہ دیر یہ عمل جاری نہیں رکھ سکتا۔ اسرائیل کی من مانیوں کے باوجود مسلم ممالک اگر خاموش رہتے ہیں تو یہ اُن کی بُزدِلی ضرور ہے مگر ساتھ ہی ساتھ کچھ اور معاملات بھی تو ہیں۔ یہ بھی تو دیکھنا پڑتا ہے کہ اگر اسرائیل کو منہ توڑ جواب دیا تو امریکا اور یورپ منہ توڑنے کے لیے آگے آئیں گے۔

امریکا کُھل کر سامنے آچکا ہے۔ اُس نے کہہ دیا ہے کہ اسرائیل کو سبق سکھانے والوں کو ایسا سبق سکھایا جائے گا کہ وہ عبرت کا نشان بن کر رہ جائیں گے۔ امریکی وزیرِدفاع نے اسماعیل ہنیہ کے شہادت والے دن ہی کہا کہ مشرقِ وسطیٰ میں کسی جنگ کی گنجائش نہیں یعنی جو کچھ بھی اسرائیل کر رہا ہے وہ فلسطینیوں کو جھیلنا پڑے گا اور اگر اُن کی مدد کے لیے کوئی آگے بڑھے گا تو اُس کا بھی بُرا حشر ہوگا۔ اب اِس سے زیادہ بدمعاشی کیا ہوسکتی ہے؟ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کسی باکسر کے دونوں ہاتھ باندھ کر اُسے رِنگ میں اتارا جائے۔ فلسطینیوں کو بے دست و پا کرکے اُن پر مظالم کی انتہا کردی گئی ہے اور عالمی ضمیر پر کچوکے نہیں لگ رہے۔ بنیادی حقوق کا رونا رونے والے اور کتوں بلیوں سے معمولی سی بدسلوکی پر تڑپ اٹھنے والے اہلِ یورپ کہاں ہیں؟ اُن کی غیرت کب جاگے گی؟ وہ کب حقیقت پسندی کو اپناتے ہوئے اسرائیل کو روکنے اور جنگی جرائم کے ارتکاب پر اُس کے خلاف قانونی کارروائی کا ڈول ڈالیں گے؟

ہم ایک زمانے سے سُن رہے ہیں کہ دنیا کا آخری دور شروع ہونے والا ہے یا ہوچکا ہے۔ اب واقعی ایسا لگتا ہے کہ دنیا کی بساط لپیٹے جانے کی تیاری ہے۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف عمومی تاثر قائم کردیا گیا ہے کہ وہ دہشت گرد ہیں، اُن سے کسی بھی معاملے میں قانون پسندی کی توقع نہیں رکھی جاسکتی اور یہ کہ وہ آج بھی ڈیڑھ ہزار سال پہلے کی دنیا میں جی رہے ہیں۔ مختلف بہانوں سے مسلمانوں کو مطعون کرکے اُن کے بارے میں طرح طرح کی بدگمانیاں پیدا کرنے اور پھیلانے کا سلسلہ کم و بیش ڈیڑھ سو سال سے جاری ہے۔ جب سے عالمی معاملات پر مغربی طاقتوں کا مکمل تصرف قائم ہوا ہے، صلیبی جنگوں کا بدلہ لینے کا ایسا سلسلہ شروع ہوا ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔

دوسری جنگِ عظیم کے دوران بڑی طاقتوں نے جب دنیا کی آپس میں بندر بانٹ کی تو کئی خطوں کے لیے نامکمل ایجنڈوں کا اہتمام کیا۔ مسلم دنیا کو خاص طور پر ایسے معاملات میں الجھادیا گیا جو بڑھتے بڑھتے بحران بنتے چلے گئے۔ دوسری جنگِ کے خاتمے پر جب بھارت کو آزادی دی گئی اور پاکستان کی شکل میں برِصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست قائم کی گئی تو کشمیر کا معاملہ رہنے دیا گیا تاکہ نوزائیدہ پاکستان اور آزاد بھارت آپس میں دست و گریبان رہیں۔ بالکل ایسا ہی معاملہ مشرقِ وسطیٰ کا بھی رہا ہے۔

اسرائیل کے قیام کی صورت میں امریکا اور یورپ نے مل کر مسلم دنیا کے بیچوں بیچ یعنی مشرقِ وسطیٰ میں اپنا بیورو یا کیمپ آفس کھول رکھا ہے۔ اسرائیل کا رقبہ برائے نام ہے مگر اُسے اِس قدر مضبوط کردیا گیا ہے کہ وہ دنیا بھر کے لیے مثال کی حیثیت اختیار کرگیا ہے یا ایسا ماحول پیدا کردیا گیا ہے کہ اُسے مثال کے طور پر پیش کیا جائے۔ پوری دنیا میں یہ تاثر عام کیا گیا ہے کہ اسرائیل ایک ایسی سرزمین ہے جہاں قدم قدم پر جینیس چلتے پھرتے ملتے ہیں۔ پوری دنیا کو باور کرایا گیا ہے کہ یہودیوں سے زیادہ ذہین اور قابل قوم پوری دنیا میں کوئی نہیں۔ امریکا اور یورپ کی کوشش رہی ہے کہ اسرائیل محض معاشی طور پر مضبوط نہ رہے اور اُس کی صرف فوج ہی مستحکم نہ ہو بلکہ ثقافتی اعتبار سے بھی وہ بہت مستحکم ہو۔ امریکا اور یورپ میں یہودیوں کو ایک بار پھر پوری قوت کے ساتھ ابھرنے کا موقع دیا گیا ہے یا ابھارا گیا ہے۔ اس وقت بھی ایسی فضا پیدا کردی گئی ہے کہ یہودیوں کے خلاف زبان کھولنے سے پہلے لوگ ڈرتے ہیں۔ دنیا میں عیسائی سب سے زیادہ ہیں مگر وہ ایک کروڑ سے بھی کم یہودیوں سے یوں خوفزدہ رہتے ہیں جیسے اُن کی ناراضی دنیا سے چلتا کردے گی۔

یہ ناٹک ہے، صرف ناٹک۔ یہودی کل مضبوط تھے نہ آج مضبوط ہیں۔ اُنہیں مسلم ممالک کو باندھے رکھنے کے لیے کِلّے کی طرح مشرقِ وسطیٰ کے سینے میں گاڑا گیا ہے۔ ایک طرف تو مسلمانوں کو یہودیوں کی طاقت سے ڈرایا جاتا رہا ہے اور دوسری طرف عسکریت پسندی کو ہوا دے کر پورے خطے کو مستقل بنیاد پر عدم ِ استحکام سے دوچار رکھا گیا ہے۔ ذرا سا غور کرنے پر یہ بات کوئی بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ یہودی وہ نہیں ہیں جو کچھ وہ بناکر پیش کیے جارہے ہیں۔ نہ تو یہودیوں کی اکثریت عبقری ہے نہ وہ کاروبار میں بہت زیادہ چالاک اور مضبوط ہیں۔ امریکا اور یورپ نے مل کر اُنہیں ٹُول کے طور پر استعمال کیا ہے۔ مسلم دنیا کو قابو میں رکھنے اور اُس کا مستقبل مخدوش رکھنے کے لیے ماضی کو بحسن و خوبی بروئے کار لایا گیا ہے۔ اسرائیلیوں کے دلوں میں مسلمانوں سے بغض نئی بات نہیں مگر اس نکتے پر کم لوگ غور کرتے ہیں کہ مسلمان تو بعد میں آئے، یہودیوں کی مذہبی، ثقافتی اور تاریخی برتری پر پہلی اور بڑی ضرب تو عیسائیوں نے لگائی تھی۔ یہودیوں سے یہ برداشت ہی نہیں ہوسکا تھا کہ کوئی مذہب کے معاملے میں اُن سے برتر ہو۔ اور وہ خود کو اللہ کے منتخب بندے بھی کہتے ہیں یعنی یہ کہ اللہ کے حقیقی بندے وہ ہیں اور جنت پر صرف اُن کا حق ہے۔ یہی سبب ہے کہ اُنہوں نے عیسٰی علیہ السلام کو بھی اپنی دانست میں تو قتل کر ہی دیا تھا۔ اگر عیسائیوں کو نفرت ہونی چاہیے تو یہودیوں سے ہونی چاہیے جو، اُن کے عقیدے کے مطابق، عیسٰی علیہ السلام کے قاتل ہیں۔

سوال مسلمانوں کو زوال پذیر رکھنے کا ہے تو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے یہودی اور عیسائی ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہیں اور مسلمانوںکو نشانے پر لیے ہوئے ہیں۔ یہ تماشا سات عشروں سے چل رہا ہے۔ اب منطقی طور پر اس تماشے کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔

امریکا اور یورپ نے مسلم دنیا کے ہاتھ باندھ کر اسرائیل کو بے لگام کر رکھا ہے۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کا بیان بروقت ہے۔ وہ اسرائیل کو اُس کی حدود میں گھس کر سبق سکھانے کے قائل ہیں۔ اُن کی دھمکی کے اگلے ہی دن اسرائیل نے، یقیناً امریکا اور یورپ کی پشت پناہی کی بدولت، حماس اور حزب اللہ دونوں پر کاری ضرب لگائی ہے۔

امریکا کہتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ نہیں چھیڑی جاسکتی۔ سوال یہ ہے کہ اگر مسلمان جنگ چھیڑنے پر آ ہی جائیں تو کیا کسی سے اجازت لینا پڑے گی؟ اور کیا آج تک کوئی بھی جنگ کسی سے اجازت لے کر چھیڑی گئی ہے؟ یہ وقت محض تماشائی بنے رہنے کا نہیں بلکہ آگے بڑھ کر اسرائیل کو سبق سکھانے کا ہے۔

روس اس وقت یوکرین میں الجھا ہوا ہے اور چین کسی جنگ میں فریق بننے سے گریزاں ہے۔ ایسے میں مسلم دنیا کے قائدین کو مل بیٹھ کر حکمتِ عملی ترتیب دینا ہوگی۔ یہ حکمتِ عملی حکومتی یا ریاستی سطح پر ہونی چاہیے۔ تنظیموں یا نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ذریعے اسرائیل کے خلاف بارش کی چند بوندوں جیسے حملوں سے بات نہیں بن سکتی۔ اسرائیل پر کاری ضرب لگانے کی ضرورت ہے۔ وہ ایٹمی قوت ہے۔ عالمی برادری کہتی ہے کہ آل آؤٹ جنگ کی صورت میں ایٹمی جنگ بھی چھڑسکتی ہے۔ تو کیا ایٹمی جنگ کے چھڑنے کے خوف سے انتہائی نوعیت کے مظالم برداشت کیے جاتے رہیں، خواتین اور بچوں کی شہادتوں کا تقدیر سمجھ کر قبول کیا جاتا رہے اور چُپ سادھ لی جائے؟ جماعتِ اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن کی بات بالکل درست ہے کہ اسرائیل کے ہاتھ نہ کاٹے گئے تو وہ ہمارے گلے کاٹے گا۔

لازم ہوچکا ہے کہ رجب طیب اردوان جیسے جوشیلے قائدین سے تحریک پاکر مسلم دنیا کے پژمردہ قائدین اپنے خیالات اور جذبات کے لیے زندگی کا اہتمام کریں۔ امریکا اور یورپ اسرائیل کو ٹُول کے طور پر استعمال کرکے مسلم دنیا میں خرابیاں پیدا کرتے ہی رہیں گے۔ اِس سلسلے کو روکنے کی ایک معقول صورت یہ ہے کہ ریاستی سطح پر اسرائیل کو بھرپور اور منہ توڑ جواب دیا جائے۔ ہم اسرائیل کی طرف سے جن کارروائیوں کا خوف رکھتے ہیں وہ کارروائیاں تو وہ کر ہی رہا ہے۔ جو کچھ ہو جانے کا خوف ہے وہ تو ہو ہی رہا ہے تو پھر ڈٹ کر کچھ کرنے سے کون اور کیوں روک رہا ہے؟

عرب دنیا کو جگانے کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور دیگر متمول عرب و خلیجی ریاستیں اپنا شیشے کا گھر بچانے کی بھرپور کوششیں کر رہی ہیں۔ اُن کی بے ضمیری اُمت کے لیے پورس کے ہاتھیوں کا جیسا معاملہ ہے۔ لازم ہوچکا ہے کہ اب اِن ریاستوں پر بھی واضح کردیا جائے کہ وہ امریکا اور یورپ کی غلامی کے دائرے سے نکلیں اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی نیا بلاک تشکیل دیں یا پھر چین اور روس کی شکل میں ابھرتے ہوئے نئے اور مضبوط تر بلاک کا حصہ بنیں۔

مسلم دنیا کے قائدین کا ضمیر جھنجھوڑے بغیر بات نہیں بنے گی۔ ترکیہ ایک ترقی یافتہ ملک ہے۔ وہ اگر واقعی جھکتا تو اب تک یورپی یونین کا حصہ بن چکا ہوتا۔ جب ترکیہ اپنی ترقی کے باوجود، نتائج کی پروا کیے بغیر، اسرائیل یا کسی اور ملک کو للکار سکتا ہے، لیبیا میں مغربی طاقتوں کے حمایت یافتہ باغیوں سے لڑ سکتا ہے یا آرمینیا میں گھس کر اُس کی فوج کو سبق سکھا سکتا ہے تو پھر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور دیگر متمول ممالک اسرائیل کے خلاف سخت موقف اختیار کرکے امتِ مسلمہ کے معاملات کو درست کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرسکتے؟

یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ اسرائیل اس وقت اگر بہت مضبوط ہے تو یہ اُس کے وسائل، صلاحیت، سکت اور مہارت کا کمال نہیں۔ اُسے مضبوط بناکر رکھا گیا ہے تاکہ مسلم دنیا اُس سے ڈرتی رہے۔ خوف کا سامنا صرف بے خوفی سے کیا جاسکتا ہے۔ اگر اِس مرحلے پر اسرائیل کو منہ توڑ جواب نہ دیا گیا تو اُس کے حوصلے مزید بڑھیں گے اور وہ غزہ کے لوگوں پر مزید مظالم ڈھائے گا۔ مسلم دنیا کو یہ خوف بھی دل و دماغ سے نکال دینا چاہیے کہ اسرائیل کے خلاف جانے کی صورت میں امریکا اور یورپ کی طرف سے بہت شدید ردِعمل سامنے آئے گا۔ اگر وہ دونوں کچھ زیادہ کریں گے تو خرابی اور بڑھے گی۔ اِس کا اُنہیں بھی اندازہ ہے۔ یورپ کو یوکرین میں روس نے پریشان کر رکھا ہے۔ امریکا کی اندرونی مشکلات بھی کم نہیں۔ اگر اسرائیل کو سبق سکھانے پر امریکا نے سبق سکھانے کا سلسلہ شروع کیا تو خود اس کے ہاں مسلمانوں کے جذبات انتہائی بھڑک سکتے ہیں اور یوں اُسے محض بیرونی نہیں، اندرونی خطرات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ کسی بڑی جنگ کی صورت میں یورپ کے مسلمانوں کے لیے بھی اپنے جذبات پر قابو پانا بہت مشکل ہوجائے گا۔

اسرائیل کے خلاف زیادہ ڈٹ کر کھڑے ہونے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ اس مرحلے پر اُسے ڈرانا اور سبق سکھانا لازم ہے۔ اگر امریکیوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دینے کی ٹھانی تو امریکی ایوانِ صدر میں ایک ایسا شخص بیٹھ جائے گا جو امتِ مسلمہ کے لیے ناسور بن سکتا ہے۔ ٹرمپ کے آنے کی صورت میں اسرائیل مزید مضبوط ہوگا اور امریکا میں مسلمانوں کے لیے ناقابلِ تصور مشکلات پیدا ہوں گی۔

امریکا کہتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں کسی جنگ کی گنجائش نہیں جبکہ گنجائش وہ خود پیدا کر رہا ہے۔ اسرائیل کو بے لگام کرکے اُس نے واضح پیغام دے تو دیا ہے کہ ہم جو چاہیں گے کریں گے، ہمت ہے تو روک لو۔ مسلم دنیا اگر عواقب ہی کے بارے میں سوچتی رہے گی تو کچھ نہیں کر پائے گی۔ فرانس کے عظیم بادشاہ اور جرنیل نپولین بوناپارٹ نے کہا تھا کہ کچھ بھی کرنے سے پہلے سو بار سوچنا چاہیے لیکن جب کرنے کا وقت آجائے تو سوچنے کا عمل ختم کرکے میدان میں اُترنا چاہیے۔

اسرائیل اسماعیل ہنیہ تک کیسے پہنچا؟

حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت نے جہاں دنیا بھر میں مسلمانوں کا افسردہ کردیا ہے وہیں اب یورپی مبصر برائے مشرق وسطیٰ ایلیا جے میگنیئر نے اہم دعوٰی کیا ہے۔
ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں ایلیا جے میگنیئر نے بتایا کہ کس طور اسرائیل نے جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے ہنیہ کی لوکیشن معلوم کی۔ میگنیئر کا مزید کہنا ہے کہ اسپائنگ سوفٹ ویئر کی مدد سے اسماعیل ہنیہ کو ٹریک کیا۔ اسرائیلی ایجنٹوں نے واٹس ایپ میسیج کے ذریعے لوکیشن معلوم کی۔ یہ سوفٹ ویئر کسی جگہ مطلوب شخص کی موجودگی بھی ظاہر کردیتا ہے۔
میگنیئر کا کہنا ہے کہ اسماعیل ہنیہ واٹس ایپ پر اپنے بیٹے سے بات کر رہے تھے کہ اسرائیلی ایجنٹس کو اُن کی لوکیشن معلوم ہوگئی۔
اسپائی سوفٹویئر اسرائیلی سائبر انٹیلی جنس فرم ایس ایس او گروپ کا تیار کردہ پیگاسس سافٹویئر ہے۔ یہ اسپائنگ سوفٹویئر اسمارٹ فونز کے صارف کے میسجز، تصاویر، لوکیشن ڈیٹا اور یہاں تک کہ موبائل کیمرا تک رسائی حاصل کرسکتا ہے اور اس کے لیے اُسے اجازت بھی نہیں لینا پڑتی۔
میگنیئر کا مزید کہنا تھا کہ یہ جدید ترین ٹیکنالوجی کسی بھی شخص یا چیز کو ریئل ٹائم ہدف بنانے میں غیر معمولی معاونت کرتا ہے۔

 

ہنیہ سے اسرائیل خوفزدہ کیوں رہتا تھا؟

اسرائیل کے لیے ہر وہ مسلم لیڈر خطرناک اور خوفناک ہے جو موت سے نہ ڈرتا ہو اور اپنے کاز کے لیے کسی بھی قربانی کے لیے تیار رہتا ہو۔ اسماعیل ہنیہ کا یہی تو معاملہ تھا۔ ان کے خاندان کے درجنوں افراد کو شہید کیا گیا مگر اُن کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔
عیدالفطر کے موقع پر غزہ میں صہیونی فوج کے ایک حملے میں اسماعیل ہنیہ کے گھر کے 10 افراد شہید ہوئے تھے۔ ان میں بہن، تین بیٹے اور پوتا بھی تشامل تھا۔ الجزیرہ کو انٹرویو میں اسماعیل ہانیہ نے صہیونی فوج کے حملے میں بیتوں ہازم، عامر اور محمد کی شہادت کی تصدیق کرتے وقت کہا تھا اسرائیلی قیادت یہ خیال ذہن سے نکال دے کہ ہم ڈر جائیں گے۔
اسماعیل ہانیہ کا شمار حماس کے انتہائی اولوالعزم رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے زندگی بھر فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے خلاف جدوجہد کی اور کسی بھی مرحلے پر اُن کے قدم ڈگمگائے نہیں۔ اسرائیلی قیادت اور فوج دونوں ہی اسماعیل ہنیہ کی سرگرمیوں کی خبر رکھتی تھیں اور ان کی نقل و حرکت کو باقاعدگی سے مانیٹر کیا جاتا تھا۔
چند ہفتوں کے دوران غزہ میں اسرائیلی جارحیت بھی بڑھ گئی تھی اور اسرائیلی فوج پر حملوں میں بھی شدت آگئی تھی۔ حماس کے علاوہ اب یمن کی حوثی ملیشیا اور لبنان کی حزب اللہ ملیشیا بھی میدان میں ہیں۔ ان سب نے باری باری اسرائیل کی حدود میں متعدد مقامات کو نشانہ بنایا ہے۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل میں خوف بڑھا ہے اور اسرائیلی قیادت کی بدحواسی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
اسماعیل ہانیہ نے کسی بھی موڑ پر اپنی جدوجہد کے کسی بھی موڑ پر سمجھوتے یا اصولوں پر سودے بازی کی بات نہیں کی۔ اُن کی زندگی اس اصولی موقف کے گرد گزری کہ فلسطین کی آزادی پر کسی حال میں سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا۔ یہی سبب ہے کہ اسرائیلی حکومت اور فوج دونوں ہی اُنہیں شہید کرنے کے درپے رہتی تھیں اور بالآخر اُنہوں نے اپنا یہ مقصد حاصل کرہی لیا۔
اسماعیل ہانیہ کی قیادت میں حماس نے اپنے آپ کو اسرائیلی جارحیت کے خلاف ثابت قدم رہنے کے لیے اچھی طرح تیار کیا۔ حماس کے کارکنوں کے لیے اسماعیل ہانیہ کا حوصلہ مشعلِ راہ کے مانند تھا۔ وہ اپنی تقریروں میں انتہائی جوش و خروش کے ساتھ اس نکتے پر زور دیتے تھے کہ کامیابی یا ناکامی کے بارے میں زیادہ سوچے بغیر ہمیں اپنے کاز پر دھیان دینا چاہیے۔
خیال کیا جارہا تھا کہ اپنے بیٹوں، بہن اور پوتے کی شہادت سے اسماعیل ہانیہ کے پائے استقامت میں لغزش پیدا ہوگی اور وہ اب اپنے موقف میں کسی حد تک نرمی پیدا کرنے پر مائل ہوں گے مگر ایسا نہ ہوا۔ اسماعیل ہانیہ کا یہ موقف مرتے دم تک برقرار رہا کہ اسرائیل سے فلسطینی مقبوضہ علاقے خالی کرانے تک سُکون سے نہیں بیٹھا جاسکتا اور فلسطینی شہدا کے خون سے کسی طور غداری نہیں کی جائے گی۔

 

کیا ایرانی فوج اسرائیل پر حملہ کرے گی؟

ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد اسرائیل پر براہ راست حملے کا حکم دے دیا ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق علی خامنہ ای نے اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے جوابی کارروائی کا حکم جاری کیا ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر نے یہ حکم سپریم نیشنل سیکیورتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کے دوران دیا۔
امریکی میڈیا کے مطابق ابھی یہ واضح نہیں کہ ایران کے حملے کی شدت اور نوعیت کیا ہوگی۔ یہ اندازہ لگانا بھی مشکل ہے کہ ایران کتنی قوت کے ساتھ حملہ کرے گا۔ مغربی میڈیا کے مطابق ایرانی فوج اسرائیل کے دارالحکومت تل اییب اور حیفہ کے نزدیک فوجی اہداف پر حملوں کے حملوں اور اُن کے ممکنہ عواقب کے بارے میں غور کر رہی ہے۔
علی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا بدلہ لینا ایران پر فرض ہے۔ اور یہ کہ اسرائیل نے اپنے لیے سخت سزا کی بنیاد فراہم کردی ہے۔
ابھی پورے یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ ایرانی فوج اسرائیل کو نشانہ بنائے گی کیونکہ ماضی میں کئی مواقع پر ایران نے اسرائیل کو نشانِ عبرت بنانے کی دھمکی دی مگر معاملات ’’کَکھ نہ ہِلیا‘‘ ثابت ہوکر رہ گئے۔

 

حصہ