آخر شب کے ہم سفر

129

صاحب عبدالغفور نے اندر اکر کہا۔ چارلس بار لو نے کتاب پر سے سر اٹھایا۔ عبدالغفور نے تازہ اخباروں کا پلندہ قریب کی میز پر رکھا، اور واپس چلے گئے۔ چار کس بار لو نے آگے پڑھنا شروع کیا۔

’’پوکس والا ز کا ڈنر… کلکٹرٹک کال، جو نز اس کا مغر در کمپی ٹیشن والا سب، ٹوم کنز سول اور مشن جج، نرم دل ڈاکٹر شارپ سول سرجن جس نے کالرا کے دنوں میں جب جیل کا لا والوں سے بھر گیا تھا دن رات کام کیا۔ اب ڈنر کے بعد ذرا اونگھ رہا ہے۔ ریورنڈ مائیکل دائن اداس بیٹھے ہیں۔ یہ سب بڑے معقول لوگ ہیں۔ گر مجھ پولس والے کو سال میں دودفعہ ان کی دعوت کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ باتیں شروع ہوتی ہیں۔ مون سون آنے والی ہے جانے کب آئے گی۔ دھان کی فصل شاید اس بار بھی فیل ہوجائے، مک کال کہتا ہے۔ بارش آئے تو چہے کا شکار شروع ہو۔ پھر شکار کے قصے۔ لیکن کمپی ٹیشن والا شکار کے بجائے ذرا انٹیلکچول باتیں کرنا چاہتا ہے۔ شیری اور خنجر کے بعد خاموشی، بڑے بڑے چرٹ سلگائے گئے۔ تاش ہوا۔ ڈاکٹر اب خراٹے لے رہا تھا۔ برانڈی پانی کا دور چلا۔ پھر ہم سب ڈسٹرب گپ سے بور ہو کر اپنے اپنے گھر چلے گئے‘‘۔

’’اجاڑ بنگلہ… سرنگا پٹم میں، کادیری کے کنارے ایک بنگلہ، جس سال ٹیپو گرا تب سے ویران پڑا ہے۔ باغ میں درخت آہیں بھرتے ہیں۔ لنگور شور مچاتے ہیں۔ الو بولتے ہیں۔ دریا کے کنارے قلعہ کی فصل ہے جو اولڈ انگلینڈ کی طاقت سے ٹکرا کر ٹوٹ پھوٹ گئی۔ آنے والی نسلوں کے لیے ایک سبق! وہ زمانہ جب ہمارے جری نوجوان شیر کی کچھار تک پہنچ گئے تھے، اور اس بنگلہ کے نزدیک وہ معرکہ ہوا تھا۔ محاصرے کے بعد اس بنگلے میں ایک کرنل اپنی بیوی بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ میں اب بھی تصور میں اس وقت کا نظارہ کررہا ہوں، خوبصورت بنگلہ، بچیوں کے قہقہے، صبح کی شہسواری، جب کرنل اس جگہ سے گزرتے ہوئے اس پھاٹک کو تکتا ہوگا۔ جہاں ٹیپو گرا تھا۔ شہسواری کے بعد درختوں کے نیچے بریک فاسٹ، خس کی ٹٹیوں کے پیچھے دن گزارنے کے بعد ٹفن اور گرینڈ پیانو کی آواز۔ اور پھر شام کالرانے دروازہ کھٹ کھٹایا اور ماں اور بیٹیاں اس کے ساتھ چلی گئیں۔ دل گرفتہ کرنل نے اس بنگلہ کو خیر باد کہا۔ اب ان کمروں میں کائی جمی ہے۔ اسّی برس سے وہ کمرے سنسان ہیں۔ پیانو اور قالین اور مسہریوں کے پردے گل چکے۔ کادیری کے کنارے…! جہاں ٹیپو گرا تھا…‘‘

اور آگے…’’آج کا اہم سوال…‘‘

’’…کیا روس کا اولڈ پیٹر، ہم کو ہڑپ کرنا چاہتا ہے؟ کمزور خیوا فتح کرکے اتنا اکڑ گیا! اولڈ پیٹر؟ کیا وہ سمجھتا ہے کہ ہمارا سکھ فوجی خیبر پر ہم سے نمک حرامی کرے گا؟ کیا اس نے غدر کے حقائق سے کوئی سبق نہیں لیا؟ کیا اولڈ پیٹر سمجھتا ہے ہمارے راجگان اس سے جاملیں گے؟ آنے دو… ذرا افغانستان سے گزر کر آنے دو۔ ہمارے سکھ کی تلوار خیوا کی تلوار سے زیادہ مضبوط ہے۔ ہم جو روس سے پہلے لڑچکے ہیں، پھر اسے شکست دیں گے۔ جس قوم پر حکومت کرنا خدا نے ہمیں سونپا ہم اس خدائی امانت کے ساتھ بددیانتی کرتے تو ہمیں ڈر تھا۔ اگر ہم اس ملک پر روس کی مانند کوڑے سے حکومت کرتے، اگر اس ملک کو ہم نے روندا ہوتا۔ اس کی آبادی سے محبت نہ کی ہوتی۔ سیاہ و سفید میں عدل نہ قائم کیا ہوتا، قحط کے زمانوں میں اپنی محبت نہ بوئی ہوتی۔ تب ہم دشمن سے ڈرتے، چالاک روس! اس سے قبل کہ تم ہمارے تاکستان کو تاکو خود اپنے ایشیائی قبائل کی حالت سدھارو۔ ان کو محسوس کرنے دو کہ ان پر حکومت کی جارہی ہے۔ ظلم نہیں۔ اپنے اہل خیوا اور اہل بخارا پر ثابت کرو کہ تم طاقتور ہونے کے ساتھ ساتھ انصاف پسند بھی ہو۔ وسط ایشیا کے ایسے نئے آقا بنو جو ماضی کے وحشی قبائلی ایشیائی سرداروں سے مختلف ہو۔ جو ان کو تہذیب سکھائے۔ اگر ہماری اور تمہاری فتوحات کا مقصد یہی ہو تو ہم مشرق میں تمہارے دوست ہیں۔ دونوں ترقی کے نقیب، دونوں خوابیدہ اقوام کو جگانے والے، لیکن اگر تمہارا مقصد کچھ اور ہے تو یاد رکھو، ہمارے ہاتھ میں شمشیر ہے۔ ہمیں خداوند تعالیٰ پر بھروسہ ہے جو بہادروں اور منصفوں کے ساتھ ہے۔ اور جو تمہارے مغرور عقاب کوسٹی میں ملاسکتا ہے…‘‘

ایک اور نظم…’’انگلینڈ ہو…! بمبئی کی بندرگاہ پر سورج چمک رہا ہے۔ گیلنٹ ئڑد پر گھڑیال پر میری رجمنٹ واپس جاری ہے۔ گیارہ برس پہلے ہم چھ سو آئے تھے، تین سو واپس جارہے ہیں۔ باقی دبائوں نے کھالیے۔ مشرق پر حکومت کی قیمت ہم بیماری اور موت کے ذریعے ادا کرتے ہیں… ہندوستان نیلاہٹ میں ڈوب رہا ہے، جہاں میرے تین سو دوستوں کی قبریں ہیں۔ میں اپنا ٹوپ ہلاتا ہوں۔ ہُرّے ہم گھر جارہے ہیں، ہم ہند کو بھول جائیں گے، خدا حافظ دوستو، دبائوں نے تمہیں کھالیا۔ انگلستان کی خاطر تم نے اپنی جانیں دیں۔ الوداع۔ سورج کے دیس، ہماری جلاوطنی ختم ہوئی‘‘۔

اگلی نظم… ’’اوٹی میں ٹہلتے ہوئے کونسل کا ممبر پیٹر اسٹریٹ جان مک ڈو سے کہتا ہے… پیٹر ہم کو خدا نے یہ ملک اس لیے دیا تھا کہ ہم اسے متمدن بنائیں، اور جب ہمارا یہ ارفع مشن ختم ہوجائے تو واپس چلے جائیں۔ لیکن ہم کر کیا رہے ہیں؟ ہم نیٹوز کو کالج جانے کے لیے کہتے ہیں۔ اور پھر ان کو ایسی نوکریاں دیتے ہیں، جن کے لیے تعلیم کی ضرورت نہیں۔ ہم انہیں شراب نوشی کو منع کرتے ہیں۔ مگر افیون کی کاشت کرتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں تم نگر لوگ اپنی عورتوں کو آزادی دو، اور وہ پوچھتے ہیں کیوں؟ اور گنز سے ہماری خواتین کی آزادی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ پیٹر اسٹریٹ جب ہم اپنی لڑکیوں کو ایماندار نیٹو جنٹل مین سے شادی کرنے کی اجازت دیں، جب بااثر بابوئوں کو معقول عہدے دیں، کونسل والوں کی تنخواہیں کم کریں، تب ہی اس ذمہ داری کو نبھا سکیں، جو خدا نے ہمارے کندھوں پر ڈالی ہے۔

’’تب پیٹر اسٹریٹ نے کہا:۔ تمہارا یہ پروگرام ممکن ہے بہت خوشگوار ہو، مگر مجھے تو یہ سب بکواس معلوم ہوتی ہے جو آپ نے فرمایا۔ آپ فرماتے ہیں ہم کچھ عرصے کے لیے اس ملک کے امین ہیں۔ مگر جناب عالی حقیقت یہ ہے کہ جب تک ممکن ہوگا ہم اس کو اپنے قبضے میں رکھیں گے‘‘۔

’’ہمیشہ آگے جائو…

’’ہمپٹی ڈسٹی فرمٹی چندر عاقل برہمن زمانے کی ترقی سے نالاں اور متحیر تھا، کیا ویدیوں اور شاستروں میں پہلے سے سارا علم موجود نہیں؟ مصلحین انہی سے متنفر ہیں اور ذات پات کے بندھن توڑنا چاہتے ہیں۔ فرنگی استادوں اور ان کی ایجوکیشن گرانٹس پر لعنت! انہیں کیا معلوم ہندو کی ضروریات کیا ہیں؟ ان براہمو سماجیوں پر لعنت جو کہتے ہیں خدا کا میدان بہت وسیع ہے کہ سب انسان بھائی بھائی ہیں۔ یہی سب لوگ کالج میں پڑھتے ہیں… یہی بات کیشپ چندر سین کہتا ہے…!

’’بابو اسمپل، بمبل بندر بھی ایک برہمن تھا، مگر ترقی کا جوشیلا حامی، وہ اور چندر شام کو دروازہ میں بیٹھ کر حُقہ پیتے اور باتیں کرتے۔ بازار کا بھائو، چاول کی قیمت اور کبھی کبھی زیادہ سنجیدہ موضوع، ذات پات دھرم وغیرہ اور اپنے متضاد خیالات پر بحث کرتے کرتے جھگڑنے لگتے۔ ایک روز بندر نے کہا… ’’میں ایک ودھوا سے بیاہ کرنے والا ہوں‘‘۔

’’گھاس تو نہیں کھا گئے ہو؟ حقہ پانی بند کردیا جائے گا‘‘۔ چندر نے کہا۔

’’زمانہ بدل چکا ہے، اب تہذیب ہمیں نئے راستے دکھا رہی ہے۔ تمہیں معلوم نہیں اب ہندوستان کا نعرہ ہے… ہمیشہ آگے جائو‘‘۔ بندر بولا۔

’’بکواس‘‘۔ چندر نے چادر سنبھال کر کہا۔ ’’برہمن ہو تم؟ غدار؟ ودھوا سے بیاہ؟ لعنت ہو‘‘۔ اتنا کہہ کر اس نے بندر کی چپل پر ٹھوکر لگائی تو وہ نیچے بہتی گندی نالی میں جا گری۔ بندر نے چندر کی ناک دبوچ لی۔ دونوں چیختے چلاتے ایک دوسرے کو زدوکوب کرنے لگے۔ حتیٰ کہ ایک انگریز فوجی نے آن کر ان کو چھڑایا اور چوکی لے گیا۔ اور ان کے احتجاج پر محض اتنا کہا۔ ’’آگے جائو‘‘۔

چارلس بارلو بے ساختہ ہنس پڑا۔ یہ بنگالی کی سچی تصویر تھی، لیکن ’’سرعلی بابا‘‘ نے بابو کے متعلق جو پیشن گوئی کی تھی وہ بھی آج لفظ بہ لفظ صحیح ثابت ہورہی تھی۔ بابو مغربی علوم اور مغربی خیالات سے پیٹ بھر کے اب دولتی جھاڑ رہا تھا۔ چارلس بارلو نے کاہلی سے سر اٹھا کر الماریوں پر نظر ڈالی۔ لیکن اسے یاد آیا کہ ’’سرعلی بابا کا سفرنامہ‘‘ مدتیں گزریں ڈیڈ نے نواب انوار الزماں کو تحفتہً دے دیا تھا۔

گرینڈ ڈیڈ۔ ڈیڈ۔ مما دونوں چچا سڈنی اور کرسٹفر۔ پھر گریٹ آنٹ میبل۔ آنٹ ماڈ آنٹ جیرلڈین۔ آنٹ۔ مٹیلڈا، خالص وکٹورین نام۔ بھولی برخود غلط وکٹورین ہستیاں… پورا بارلو خاندان اسٹڈی کے آتش دان اور دیواروں پر اپنی اپنی تصویروں کے بیش قیمت چوکھٹوں کے اندر محفوظ مامون موجود تھا۔

جبکہ باہر دو ردور بم پھٹ رہے تھے۔

گرینڈ ڈیڈ اور ڈیڈ سلطنت کی اس تباہی پر اپنی اپنی قبروں میں کروٹیں بدل رہے ہوں گے۔ کلکتے اور کُھلنا کے انگریزی قبرستان، بارش میں بھیگتے قبروں کے کتبے، سارا ہندوستان انگریزوں کا وسیع و عریض قبرستان ہے۔ اپنی جانیں دے کر ہم نے اس ملک کو سنوارا۔

گرینڈ ڈیڈ ہیلی بری سے ٹریننگ لے کر اڑیسہ آئے تھے۔ انہوں نے ایڈمنسٹریشن میں ان بڈھوں سے ٹریننگ لی تھی جن کی اپنی جوانی میں محمد رضا خاں اور شتاب رائے زندہ تھے۔ کلایو، ہسٹینگز، کارنوالس، ولیم بینٹنگ، میکالے…

کس جانفشانی اور محنت اور محبت سے گرینڈ ڈیڈ اور ان سے پہلے اور بعد کی پیڑھیوں کے سویلینز نے اس ملک کی حکومت کو دنیا کی بہترین حکومت بنایا۔ جلتی دھوپ، لُو، بارش، سیلابوں، وبائوں کی پروا کئے بغیر سیکڑوں میل کے فاصلے، گھوڑے پالکیوں اور کشتیوں کے ذریعہ طے کرکے یہ عظیم لوگ، آراضی کا بندوبست کرتے، مقدمے فیصل کرتے، درختوں کے نیچے بیٹھ کر کسانوں کی فریادیں سنتے، کسان ان کو مائی باپ کہتے، کمپنی کے اولین دور میں بے شک کرپشن تھا۔ مگر اس کے فوراً بعد…؟ اور کرپشن کیا اس ملک کی پرانی روایت نہیں تھی؟ نذرانہ اور رشوت؟ اب پہلی بار اہل ہند کو احساس ہوا ہے کہ مرکزی اور صوبجاتی حکومت قتل و غارت، لوٹ مار اور زبردستی کا نام نہیں، بلکہ یہ رعایا کی بھلائی اور حفاظت کے لیے قائم ہے، مغلوں کا ایڈمنسٹریشن…؟ اوکسفرڈ میں وہ مسعود علی سے بحث کیا کرتا تھا۔ اشوک، شیر شاہ، اکبر… ٹھیک ہے۔ مگر ان کے بعد؟ اور یہ لوگ بھی قانون کے تصور سے ناآشنا تھے۔ سارا مشرق قانون کے تصور سے نا آشنا ہے۔

سلطنت روم کی وارث مسیحی یورپین تہذیب کے بہترین نمائندے برطانیہ نے پہلی بار اہل ہند کو قانون عطا کیا۔

اولڈ کارنوالس نے تھانوں اور پولیس چوکیوں کا جال بچھادیا۔ کلیو لینڈ نے آدی باسیوں کو انسان بنایا۔ اٹھارویں صدی میں جیسور کا ایک کلکٹر نیکل اس قدر شفیق تھا کہ عوام نے اس کی مورتی بنا کر اس کی پوجا کی۔ نکلسن کو پنجاب کے کسان پیار سے نکل سائیں کہتے تھے۔ جوناتھن ڈنکن نے بنارس میں دُختر کشی کے خلاف مہم شروع کی۔ جیمز گرانٹ نے دن رات کی انتھک محنت کے بعد ایک دیانت دار اور انصاف پسند ایڈمنسٹریشن قائم کیا۔ یہ دو سو سال کی قربانیاں، عرق ریزیاں، جانفشانیاں سب رائیگاں جائیں گی…؟ اس عظیم کارنامے ’’برطانوی ہند‘‘ کو ہم لاقانونیت اور جذباتیت کے حوالے کریں گے؟ کوئٹ انڈیا اِن ڈیڈ…!

انڈیا ہے کہاں؟ نہرو کے شاعرانہ تخیل میں۔ انڈیا کو ایک بار اشوک نے متحد کیا۔ ایک بار اکبر نے (کوشش کی مگر فیل ہوگیا) اور اب واقعی اسے ہم نے متحد کیا ہے۔ پنجاب میں مقیم لیڈی دِلسن نے آج سے نصف صدی قبل بالکل صحیح لکھا تھا۔ کہ یہ ملک لکڑیوں کا ایک گٹھا ہے۔ ہر لکڑی چاہتی ہے کہ دوسری کو توڑ دے۔ ان سب کا بیرونی اتحاد محض برطانوی پرچم کے ذریعے قائم ہے۔

گرینڈ ڈیڈ اپنی اس تصویر میں جو شملہ کے ایک مشہور فوٹو گرافر نے ۱۸۸۱ء میں کھینچی تھی۔ قلم ہاتھ میں لیے کچھ لکھ رہے ہیں۔ یہ تصویر آتش دان پر رکھی ہے۔ گرینڈ ڈیڈ … ایڈورڈ بارلو، برطانوی سویلینز کی اس شاندار روایت کی ایک مثال تھے۔ جنہوں نے اپنی شدید مصروف زندگی کے باوجود اس ملک کے بارے میں ہزارہا محققانہ اور عالمانہ کتابیں لکھیں۔ یہ ہندوستانی جو آج کل ’’انڈین کلچر‘‘ کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ ان کی یہ ’’انڈین کلچر‘‘ ان کی بے چارے وکٹورین بڈھوں نے دریافت کرکے دنیا کے سامنے پیش کی تھی۔ آج ہم ان وکٹورین بڈھوں کو بددماغ، برخود غلط، سمجھتے ہیں۔ اور غالباً وہ ایسے تھے بھی۔ کیا قدیم رومن باقی دنیا کو وحشی نہیں سمجھتے تھے؟ انیسویں صدی کے برطانیہ کا ایک فرد ہونا مذاق تھوڑا ہی رہا ہوگا۔ برٹش امپائر…! پوری انسانی تاریخ میں اس سے زیادہ عظیم الشان، باجبروت سلطنت پہلے کہیں قائم نہ ہوئی تھی! چنانچہ بڈھے۔ گرینڈ ڈیڈ اور ڈیڈ اور ان کے ساتھی خر دماغ اور ذرا خبطی سے تھے۔ مگر کیا دولت اور طاقت کے بل بوتے پر امریکہ بد دماغ اور برخود غلط نہیں ہوگیا؟ اور مزید ہوتا جائے گا۔ جب کہ اس کے پاس تہذیب بھی نہیں ہے؟

امریکہ… وائلٹ… وائلٹ اس وقت کیا کررہی ہوگی۔ تمہاری صحت ڈارلنگ چارلس بارلو نے مگ اُٹھا کر چند گھونٹ بھرے۔ پھر ایڈورڈ بارلو کی تصویر کو دیکھا۔

گرینڈ ڈیڈ، پر کا قلم ہاتھ میں لئے، سیاہ ریشمی ڈورے والی عینک لگائے شدت کی سجیدگی سے کیا لکھ رہے ہو…؟

گرینڈ ڈیڈ نے بنگال کے کتنے اضلاع کے امپریل گزیٹرز پر کام کیا تھا۔ شام کو تھکے ہارے عدالت سے لوٹ کر پھونس کے چھپر والے کسی بنگلے کے برآمدے میں بیٹھ کر لیمپ کی روشنی میں تم یہ سب لکھا کرتے ہو گے۔ چوکرا، سگار لائو، چاند نکلتا ہوگا، مچھر بھنبھناتے ہوں گے، تم تنہا بنگلے میں بیٹھے امپریل گزیٹر کی جلدوں میں ایک جلد ایک باب کا اضافہ کرنے میں جتے رہتے ہوگے۔ اور ’’آسام کے ناگا قبائل‘‘ گرینڈ ڈیڈ کی مشہور کتاب تھی۔

(جاری ہے)

حصہ