طفل جانباز

103

تیرہ سال کی چھوٹی سی عمر میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ بے قرار تھے کہ اپنی جان کو اپنے اللہ پر نثار کردیں۔

جنگ بدر حق و باطل کا پہلا معرکہ خونچکاں تھا۔ اس معرکہ خونچکاں میں وہ کھلی آنکھوں یہ عجیب و غریب منظر دیکھ رہے تھے کہ اللہ کو اپنا حقیقی اور واحد معبود قرار دینے والے کس طرح اپنے ایمان کی دولت پر اپنا سب کچھ دائو پر لگاتے ہوئے بے جھجک آگے بڑھ رہے ہیں اور شدید بے سرو سامانی کے باوجود انہوں نے کس طرح اللہ کے نام پر زخم کھانے کے لئے سینہ کھول دیا ہے۔ یہ دیکھ کر حضرت عبداللہؓ بن عمر کے کم سن لہو میں جوانی کی سی آگ بھڑکنے لگی۔ وہ پرجوش عالم میں آگے بڑھے اور سیدھے رسولؐ خدا کی خدمت میں باریابی کا شرف حاصل کیا۔

’’میں بھی اے خدا کے رسولؐ! میں بھی جہاد کروں گا‘‘۔ وہ بے ساختہ پہنچتے ہی پکار اٹھے۔

تم… نہیں… تم ابھی بہت چھوٹے ہو۔ ’’خدا کے رسول نے خدا کے اس چھوٹے سے بندے کے دل میں اتنی بڑی آرزو پر دل ہی دل میں خوش ہوکر کہا۔

بارگاہ رسولؐ سے یہ جواب پاکر وہ کمال ادب کے ساتھ واپس تو آگئے مگر ایمانی جوس و خروش نے اس کے بعد انہیں چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ وہ ایک طوفان کو سینے میں دبائے ہوئے تھے اور بڑی بے چینی کے ساتھ اس دن کا انتظار کررہے تھے، جب ان کی عمر کا قافلہ ان کے جذبہ بندگی اور عزم جہاد کی برق رفتایوں تک پہنچ سکے۔ اس انتظار کے دوران میں اگلے ہی سال جنگ احد کا بگل بجا اور یہ جانتے ہوئے کہ مجھے ابھی جہاد کی اجازت نہ مل سکے گی، وہ در رسولؐ کے آگے مرنے کی آرزو میں اس طرح مچلنے لگے جیسے کوئی جاں بلب مایوس مریض کچھ دن اور جینے کی دعا کررہا ہو۔

’’اے خدا کے رسولؐ! مجھے بھی جہاد میں جانے دیجئے… مجھے بھی شہید ہونے کی تمنا ہے اے خدا کے رسولؐ…‘‘

’’ابھی نہیں!‘‘ زبان وحی ترجامن سے پھر انتظار ہی کا حکم صادر ہوا۔

انتظار!… انتظار!… آہ وہ حسین مگر جاں گسل اور ساتھ ہی جاں نواز انتظار!!

آخر انتظار کی یہ طویل مدت کٹ ہی گئی اور غزوۂ خندق میں جب کہ وہ پندرہ سال کی عمر پوری کرچکے تھے۔ ان کو جہاد و عزیمت کا پروانہ راہداری ملا۔ ڈھائی تین سال سے جو طوفان ان کے سینے میں موجزن تھا، وہ اس بندش انتظار کے بعد کس طرح باہر آیا ہوگا۔ اس کا اندازہ آخر کیسے کیا جائے؟ مدتوں سے اب تو اللہ کو اپنا اللہ ماننے والوں کے سینوں میں موت کا سا سناٹا طاری ہے… اب وہاں جنت کہاں، اینٹ پتھر کی دنیا بسی ہوئی ہے۔ دنیا کی چاہ عرصہ ہوا آخرت کی شیدائیت کو دیمک کی طرح چاٹ گئی اور گھن کی طرح کھاگئی۔ پھر بھلا کوئی وہ دل و جگر کہاں سے لائے جو اس آدمی کا تصور کرسکیں جو سجدے سے سر اٹھاتا تھا تو تڑپ جاتا تھا کہ کاش! یہ سر تن سے جدا ہوچکا ہوتا تو اس کی ساری زندگی ہمیشہ کے لیے اسی سجدے میں پڑی رہ جاتی۔

صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عبداللہ بن عمرؓ ہی تو تھے جو اپنے والد کے ارشاد پر گھوڑے پر سوار ہوکر نکلتے تھے مگر جب انہوں نے اچانک یہ منظر دیکھا کہ ایک پیڑ کی چھائوں میں خدا کے دیوانے خدا کے رسولؐ کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر خدا کے لیے مر مٹنے کی قسم کھا رہے ہیں تو وہ بھی سیماب وشو اسی کوئے یار کی طرف والہانہ جھکے تھے اور جاں نثار بندگی کے اس جذبہ بے تاب نے ان ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دے دیا تھا جن پر اس وقت خدا کا ہاتھ تھا۔ ہائے کہاں گئے وہ سب لوگ جنہوں نے فرط شوق و ادب سے لرزتے ہوئے اس دنیا میں اپنے اللہ سے مصافحہ کیا تھا اور باپ سے پہلے یہ شرف حاصل کرلینے کے بعد جب ان کا دل ٹھنڈا ہوا تو وہ کس بے تابی کے ساتھ اپنے باپ کو یہ خبر کرنے کے لیے دوڑے تھے کہ جلدی کیجیے وہاں اس درخت کے سائے میں آج اتنی بڑی دولت لٹ رہی ہے کہ جس کے آگے خزائن و حشم سے مالا مال شہنشاہ بھی سو فقیروں کے فقیر اور سو کنگالوں کے کنگال ہیں۔ اے میرے باپ! جلدی کیجیے!!

فتح مکہ کے عظیم الشان موقعہ پر یہ وجیہہ، گیسودراز، قد آور، جوان صالح، بیس سال کی بھرپور جوانی کو پہنچ چکا تھا۔ اس وقت اس کا باطنی شباب ایمان و عزیمت کی کن فلک بوس منزلوں سے ہم کنار تھا، یہ راز کی بات بھی ہمیں خود آنحضرتؐ نے بتادی ہے۔ فتح مکہ کی عہد آفریں مہم میں جب یہ سربکف مجاہد بڑے چائو اور بڑی محویت کے ساتھ اپنے ہاتھ سے اپنے گھوڑے کے لیے گھاس کاٹ رہا تھا اور اس طرح ایک اونچا انسان اس ’’جانور‘‘ کی خدمت سے لطف اندوز ہورہا تھا جو جاں آفرین کی راہ میں جان کی بازی لگانے والوں کے لیے جان کی بازی لگائے ہوئے تھا۔ تو ٹھیک اس ایمان افروز وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس ادھر سے گزرے۔ عمر بن خطاب کے جواں سال بیٹے کو اس والہانہ کیفیت میں دیکھا تو فخر اور خوشی کے مارے آپ کا مقدس چہرہ حریف لالہ و گل ہوگیا۔ بڑی ہی دل نواز مسکراہٹ آپ کے لبوں پر کھیلنے لگی اور خاص اشارۂ التفات کے ساتھ آپ نے لوگوں سے ارشاد فرمایا:

’’عبداللہ ہے عبداللہ!… بندۂ خدا ہے بندۂ خدا!!…‘‘

مکہ فتح ہوچکا تھا اور اب شکر و عبودیت کی انتہائی رقت انگیز حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں داخل ہورہے تھے۔ اس وقت اگر اسامہؓ بن زید، عثمانؓ بن طلحہ اور سیدنا بلالؓ وہ خوش بخت حضرات تھے جو رسولؐ کے ساتھ ساتھ ’’حرم‘‘ میں، ابراہیمی یادگار میں فاتحانہ داخل ہورہے تھے تو ان کے بعد، ان کے بالکل پیچھے لگا ہوا جو جواں سال ’’عبداللہ‘‘ اس خلوت توحید میں باریاب ہورہا تھا۔ وہ عبداللہ بن عمر ہی تھے۔ بڑے بڑے اولوالعزم صحابہؓ سے پہلے یہ کعبہ میں داخلے کی اولیت کیا کوئی معمولی نعمت تھی؟ یہ عبداللہ بن عمرؓ کے لیے ان کی زندگی کی وہ متاع ناز اور سرمایہ فخر شے تھی جس کا تذکرہ وہ بڑے خاص فخر و شکر بھرے لہجے میں رہ رہ کر فرمایا کرتے تھے، لیکن اس کا اظہار کرتے ہوئے ان کے انداز سے بچپن کی سی معصومیت ٹپکتی تھی۔

’’جی ہاں ان لوگوں کے بعد کعبہ میں، میں ہی سب سے پہلے داخل ہوا تھا‘‘۔

اس کے بعد جہاں کہیں شہادت حق کا غلغلہ بلند ہوا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ پروانہ وار ادھر جاپہنچے۔ وہ حق کی گواہی دینے کے لیے جی رہے تھے اور حق کی گواہی دیتے ہوئے جاں دے دینا چاہتے تھے۔

خیبر کی مہم میں انہیں سر بکفن اور جاں بکف دیکھا گیا تو حنین کے غزوے میں وہ صف آرا نظر آئے۔ طائف کے محاصرے میں وہ سینہ سپر دیکھے گئے۔ غزوۂ تبوک کی آتشیں مہم نے ان کو راہ خدا میں آبلہ پائیوں کے مزے لیتے ہوئے دیکھا۔ ان تمام مہموں میں ایک طرف وہ باطل کی یورش پر کڑی نظر رکھتے تھے تو دوسری طرف ان کی حق جوئی کی والہانہ دھن ان کے دیدۂ دل کو رسولؐ خدا کے ایک ایک لفظ اور ایک ایک عمل کی طرف ہمہ تن متوجہ رکھتی تھی۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری شخصیت اور اس شخصیت کی ایک ایک ادائے دل نواز کو اپنے دل و روح میں اتار لینے کے لیے بے تاب رہتے تھے۔ حضورؐ کی سنت سے ان کو عشق تھا۔ اس لیے بے قرار رہتے تھے کہ اپنے خون دل و جگر سے پائے رسولؐ کے نقوش راہ کو اجاگر کرتے چلے جائیں۔ رسالت کے ایک ایسے عظیم فدائی میں للہیت، اخلاص نیت اور بے لوث ادائے فرض کا جو عالم ہونا چاہیے۔ ٹھیک وہی عالم حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا تھا۔ جب تک کفر و طغیان کی تیرہ و تار گھٹائیں جزیرہ نمائے عرب پر مندلاتی اور امنڈ امنڈ کر آتی رہیں، وہ ان سیاہ گھٹائوں میں ایک بجلی کی طرح تڑپتے رہے اور کوندتے رہے۔ لیکن جوں ہی باطل کی یہ تاریکیاں صاف ہوئیں اور حق پوری آب و تاب کے ساتھ ناف زمین پر طلوع ہوکر سارے جہاں میں اپنی روشنی پھیلانے لگا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اپنی تمام قربانیوں کو اپنے نامہ اعمال میں محفوظ کرکے سجدۂ شکر کے لیے اعتکاف میں چلے گئے۔ اس کے بعد وہ گوشہ خلوت سے نہ اس وقت نکلے جب ان کی خدمات جلیلہ کی بنیاد پر دور عثمانی میں ان کو عہدۂ قضا کی پیشکش کی گئی اور نہ اس وقت باہر آئے، جب امت کی تاریخ میں پہلی بار مسلمانوں نے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔ یقیناً یہ بے لوث حق پسندی اور احتیاط کیشی ان کو اپنے والد ماجد سے ورثے میں ملی تھی۔

’’میں چاہتا ہو کہ اپ عہدۂ قضا کو قبول فرمالیں‘‘۔ حضرت عثمان غنیؓ نے ان سے خاص اشتیاق و اصرار کے ساتھ کہا:

’’میں معافی چاہتا ہوں‘‘۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے گھبرا کر کہا: ’’میں نہ دو شخصوں کے درمیان فیصلہ کرتا ہوں اور نہ دو شخصوں کی امامت۔ کیوںکہ آنحضرت صلی اللہ عیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں، ایک جاہل جس کا ٹھکانہ دوزخ ہے، دوسرا وہ عالم جس کا جھکائو دانائی کی طرف ہو، اس کی قرار گاہ بھی دوزخ ہے، تیسرا جو اجتہاد کرتا ہے اور صحیح رائے قائم کرتا ہے اس کے لیے نہ عذاب ہے نہ ثواب‘‘۔

’’آخر‘‘ حضرت عثمانؓ نے حیرت و شفقت اور عقیدت بھری نظروں سے اس جواں صالح کو دیکھا۔ ’’آخر… تمہارے باپ بھی تو عہدۂ قضا پر کام کرچکے ہیں!‘‘

’’جی ہاں… یہ ٹھیک ہے‘‘۔ عبداللہ بن عمرؓ نے انتہائی سنجیدگی اور ادب کے ساتھ عرض کیا۔ ’’لیکن جب کوئی گتھی الجھتی تھی تو وہ اللہ کے رسولؐ کے پاس دوڑ کر چلے جاتے تھے اور اگر رسولؐ خدا کو کچھ دقت ہوتی تھی، تو آپ حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھ لیتے تھے، مگر، آخر میں کس کے پاس دوڑ کر جائوں گا!‘‘ یہ کہہ کر وہ ذرا دیر کے لیے چپ ہوگئے۔ شاید ماضی کی مقدس یادیں دل کی درد شناس نسوں کو چھو رہی تھیں یا شاید اس پیش کش کے اندر چھپے ہوئے وہ اندیشے روح کو اپنی گرفت میں لے رہے تھے جن کا تعلق اللہ کو زندگی کا حساب دینے سے ہے۔

’’کیا آپ نے آنحضرتؐ سے نہیں سنا؟‘‘ آخر آہ سرد کے ساتھ وہ پھر گویا ہوئے کہ: ’’جس نے خدا کی پناہ مانگی تو اس نے پناہ کی جگہ پناہ مانگی۔ پس خدارا مجھے آپ کہیں کا عامل نہ بنایئے‘‘۔

دونوں طرف گہرا سناٹا چھا گیا۔ حضرت عثمانؓ چپ چاپ اس آدمی کو تک رہے تھے جو آخرت کے گھاٹے کے خوف سے دنیا کا اتنا بڑا اعزاز ٹھکرا رہا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے مزید اصرار کرنا بے کار اور تکلیف دہ سمجھا۔ جب حضرت عبداللہ بن عمرؓ جانے لگے تو ان سے اتنا وعدہ ضرور لیا کہ ان جذبات کا اظہار کسی اور سے نہ کریں گے۔

وہ شے جس میں ہاتھ ڈالنا ان کے نزدیک آگ سے کھیلنے کے ہم معنی تھا۔ امت کے اختلاف باہمی تھے۔ وہ فتنہ و فساد سے خدا کی زمین کو پاک کرنا اپنا مقصد حیات ضرور سمجھتے تھے، مگر فتنہ و فساد کا ایک خاص تصور ان کے ذہن میں تھا اور اس کے دائرے میں اس قسم کے امت کے اختلافات نہیں آتے تھے۔ چنانچہ امت کا شیرازہ جمع رکھنے کے لیے انہوں نے یہاں تک کیاکہ حضرت معاویہؓ بن سفیان کے بعد ان کے بیٹے یزید کے ہاتھ پر بھی بیعت کرلی اور یہ بیعت اس قدر سنجیدگی اور شدت کے ساتھ کی کہ جب مدینے میں فتح بیعت کا مسئلہ کھڑا ہوا تو انہوں نے اپنے گھر والوں کو بلاکر اپنا یہ اٹل فیصلہ سنادیا۔

’’دیکھو! میں نے اس شخص کے ہاتھ پر خدا اور رسولؐ کی بیعت کی ہے اور میں نے آنحضرتؐ کو فرماتے سنا ہے کہ قیامت کے دن ہر دھوکے باز کا ایک جھنڈا کھڑا کیا جائے گا کہ یہ ہے فلاں کی فریب کاری!، اور سب سے بڑا فریب یہ ہے کہ خدا کا شرک کیا جاے کہ ایک شخص کسی کے ہاتھ پر خدا اور رسولؐ کے لیے بیعت کرلے اور پھر اس کو فتح کر ڈالے۔ اس لیے تم میں سے کوئی شخص فسخ بیعت میں حصہ نہ لے۔ اگر کسی نے حصہ لیا تو میرے اور اس کے درمیان تلوار فیصلہ کرلے گی‘‘۔

امت کے اختلاف میں پڑتے ہوئے انہیں کسی آدمی کا نہیں اللہ رب العالمین کا خوف بے قرار کردیتا تھا۔ ماسوا اللہ سے اس شخص کو کیا خوف ہوسکتا تھا۔ جس نے تیرہ سال کی عمر میں کفر کی قہرمانی طاقتوں کے خلاف تلوار اٹھانے کی آرزو کی تھی، جس نے تلواروں کی چھائوں میں جوانی کے دن رات کاٹے اور جو اپنی موت تک بڑے بڑے ارضی جباروں کے آگے اعلائے کلمتہ الحق کرنے میں ذرا بھی نہ چوکا۔ اختلافات امت کے اس نازک دور میں ان کو میدان جنگ میں لانے کے لیے ایک شخص نے قرآن کی آیت سے استدلال کیا کہ:

’’خدا فرماتا ہے کہ فتنہ کو مٹانے کے لیے جہاد و قتال کرو… تو پھر آپ…‘‘

’’ہاں ہاں!‘‘ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فوری جواب دیا۔ ’’جب فتنہ تھا تو ہم لڑے۔ فتنہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو کفار یہ امان نہیں دیتے تھے کہ وہ اپنے خدا کی عبادت کرسکیں۔ اب جو یہ خانہ جنگی چھڑی ہے، یہ جہاد نہیں ہے۔ تم لوگ اس لیے لڑنا چاہتے ہو کہ فتنہ پیدا ہو اور دین غیر خدا کے لیے ہوجائے‘‘۔

وہ جس بات کو حق سمجھتے تھے اس کے اظہار میں نہ ماحول کے دبائو سے دبتے تھے اور نہ شخصیتوں کا بھاری بھرکم پن آڑے آسکتا تھا۔ حجاج کی بے رحمانہ سختیوں کو جب انہوں نے دیکھا تو بالکل نڈر ہوکر برسر عام اس کی اچھی طرح خبرلی اور پوری قوت سے لتاڑا۔ جب اس نے ابن زبیرؓ پر یہ الزام لگایا کہ ’’انہوں نے کلام اللہ میں معاذ اللہ تحریف کی تھی‘‘۔ تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے گرجدار آواز میں اس کی تردید کرتے ہوئے کہا:

’’تو جھوٹ بولتا ہے! … نہ ابن زبیرؓ میں یہ طاقت ہے اور نہ ہی تجھ میں یہ مجال ہے کہ ایسا کرسکے!‘‘

ان کی اس قسم کی بے باکی و حق گوئی کے نتیجے میں اپنی جان سے انہیں ہاتھ دھونے پڑے۔ کہا جاتا ہے کہ حجاج نے خفیہ طریقہ پر ایک شخص کے ذریعہ حج کے اژدہام میں ایک زہریلے نیزے سے زخم لگوادیا۔ اور اسی زخم کے زہرباد سے ان کی وفات ہوگئی۔ مرتے مرتے بھی آپ نے حق گوئی میں ذرا لچک گوارا نہ کی۔ وفات کے قریب جب حجاج خود عیادت کو آیا اور کہا:

’’اگر حملہ آور کسی طرح ہاتھ آجاتا تو میں اس کی گردن اڑا دیتا‘‘۔

’’کیا کہتے ہو!‘‘ حضرت عبداللہ نے تلخ و تند آواز میں لتاڑ سنائی۔

’’سب کچھ تمہارا ہی کیا دھرا ہے۔ نہ تم حرم میں اسلحہ باندھنے کی اجازت دیتے اور نہ یہ نوبت آتی‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ