سفر میں ہم سفر

98

زندگی ایک سفر ہے اور اس سفر میں ہمارے ساتھ بہت سے ہم سفر ہوتے ہیں۔ زندگی کا یہ سفر ہم سفروں کے بغیر ممکن نہیں۔ کچھ ہم سفر ایسے ہوتے ہیں جن کا انتخاب اللہ تعالیٰ ہمارے لیے کرتے ہیں، اور کچھ ہم سفر ایسے ہوتے ہیں جن کا انتخاب ہم کرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک ساتھی جس کا انتخاب ہم خود کرتے ہیں وہ ہمارا شریکِ حیات ہوتا ہے۔

کہتے ہیں کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں مگر تلاش زمین پر کیے جاتے ہیں۔ ہم سفر کی تلاش زندگی کا سب سے اہم موڑ ہوتا ہے۔ خالقِ کائنات نے اس زمین پر زندگی کا آغاز ایک جوڑے سے کیا۔ دو مختلف اجناس پیدا کیں، جن کے مزاج، جسمانی خد و خال، جذبات اور سوچ میں بہت فرق رکھا۔ لیکن ان میں ایک جنسی کشش رکھ کر دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت بنادیا اور دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔

سورہ روم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی، یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔‘‘

اسی طرح ایک حدیثِ مبارکہ ہے ’’نکاح میری سنت ہے، جس نے میری سنت پر عمل نہ کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘

شادی وہ رشتہ اور تعلق ہے جس کے ذریعے معاشرے میں خاندان کی بنیاد پڑتی ہے۔ شادی ایک ایسا معاہدہ ہوتا ہے جس کا آغاز ایجاب و قبول اور اعلان و اظہار سے ہوتا ہے۔ اس لیے اس معاہدے سے قبل فریقین پر شادی کے مقاصد واضح ہونے چاہئیں۔ شادی کے ذریعے عملی زندگی کا آغاز ہوتا ہے اور یہ زندگی کا وہ اہم موڑ ہوتا ہے جس پر آنے والی زندگی کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار ہوتا ہے۔

شادی سے چونکہ عملی زندگی کا آغاز ہوتا ہے جو کہ ذمہ داریوں سے عبارت ہوتی ہے اس لیے سب سے پہلے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ فریقین کو ان ذمہ داریوں کے لیے ذہنی طور پر تیار ہونا چاہیے۔

دوسری اہم چیز، زندگی کا ساتھی تلاش کرتے ہوئے حقیقت پسند ہونا چاہیے۔ دنیا کا کوئی انسان مکمل نہیں ہوتا، ہر انسان کی شخصیت میں کوئی نہ کوئی خلا ہوتا ہے اور ہمیں اس خلا کے ساتھ ہی اپنے ساتھی کو قبول کرنا ہوتا ہے، بلکہ اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کرنا ہوتی ہے۔

نکاح کے تین بول کے اندر ایک بڑی حقیقت چھپی ہوتی ہے یعنی ہم تین دفعہ ’’قبول‘‘ کہہ کر صرف اس شخص ہی کو قبول نہیں کرتے بلکہ اس کے اندر موجود کمی، کوتاہی اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے رشتے اور ذمہ داریوں کو بھی قبول کرتے ہیں۔

مشکل اُس وقت پیش آتی ہے جب ہم دوسرے فریق کو زوج کے طور پر تو قبول کرلیتے ہیں مگر اس کی کمزوریوں، ذمہ داریوں، مسائل اور رشتوں کو قبول نہیں کرتے، اور یہیں سے ازدواجی زندگی کی مشکلات شروع ہوجاتی ہیں جب فریقین ایک دوسرے کو اپنی ملکیت سمجھ کر اپنا حق جتانے لگتے ہیں۔

شادی صرف دو افراد ہی نہیں بلکہ دو خاندانوں کا بندھن ہوتا ہے، اس لیے اس میں تمام رشتوں کی گنجائش رکھنا ضروری ہوتا ہے، کیوں کہ یہ سارے رشتے مل کر ہی ایک خاندان کو مکمل کرتے ہیں۔

سورہ نسا میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا، اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورت دنیا میں پھیلا دیے۔ اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو، یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کررہا ہے۔‘‘

یہ وہی آیات ہیں جو خطبۂ نکاح میں بھی پڑھی جاتی ہیں۔ جب ہم خاندان کو ایک بنیادی ادارہ کہتے ہیں تو یہ بات ذہن میں رکھیں کہ کوئی ادارہ بغیر تنظیم کے نہیں چلتا، اور تنظیم کے لیے سربراہ کا ہونا ضروری ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مرد کو خاندان کا سربراہ بنایا۔ یہ وہ تنظیم ہے جو میرے رب نے کی، اور کوئی تنظیم اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوتی جب تک سربراہ کی اطاعت نہ کی جائے، چاہے وہ وقتی طور پر پسند نہ بھی ہو لیکن ادارے کی بہتری کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ لیکن مرد کو سربراہ یا قوام مقرر کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عورتوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا، بلکہ اگر عورت کو اطاعت شعار بنایا گیا تو اسے برابر کے حقوق بھی دیے گئے، بلکہ ایک طرح سے دیکھا جائے تو اس کے حقوق مرد سے زیادہ ہیں، کیوں کہ مرد کو اُس کے نان نفقہ کا ذمہ دار ٹھیرایا گیا اور عورت کو معاش کی ذمہ داری سے آزاد کردیا گیا، کیوں کہ اسے اللہ تعالیٰ نے تخلیق کی بہت بڑی ذمہ داری سونپی تھی جس کے لیے ضروری تھا کہ وہ معاشی ذمہ داریوں سے آزاد ہو۔ عورت کو جو عزت، احترام اور تحفظ اسلام نے دیا، دنیا کے کسی مذہب، تہذیب اور معاشرے نے نہیں دیا ۔

حصہ