بچوں کی تعلیم و تربیت

294

میں ہومیو پیتھک اسپتال کی انتظارگاہ میں اپنی باری کا انتظار کررہی تھی جہاں مجھ سے بھی پہلے آئے ہوئے مریض اپنی باری کے منتظر تھے۔ یہاں عموماً باری آنے میں ایک گھنٹہ تو لگ ہی جاتا تھا۔ خیر میں بھی دوسرے مریضوں کی طرح اپنی باری کا انتظار کرنے لگی۔ کچھ کے ساتھ چھوٹے بچے بھی تھے جو کھیلنے میں مصروف تھے۔

زناٹے دار آواز سن کر میری نظر سامنے بیٹھی تیس پینتیس سالہ خاتون پر پڑی جو اپنی آٹھ نو سالہ بیٹی کو ڈانٹ رہی تھیں کہ ’’کیا اِدھر اُدھر دیکھنے میں لگی ہوئی ہو، ابھی سوال جواب یاد کرکے سنائو ورنہ دوسرا تھپڑ اس سے بھی زوردار پڑے گا۔‘‘

سارے لوگ اُن کی طرف متوجہ تھے لیکن وہ خاتون اس بچی کو ڈانٹنے میں مصروف تھیں۔ کیا اس خاتون کو جو خود بھی پڑھی لکھی لگ رہی تھیں، اس طرح سب کے سامنے اپنی بچی کو مارنا اور ڈانٹنا چاہیے تھا؟

مجھ سے نہ رہا گیا، لہٰذا تھوڑی دیر کے بعد میں اُٹھ کر اُن کے برابر والی کرسی پر بیٹھ گئی۔

’’آپ کی بچی کے شاید امتحانات ہورہے ہیں؟‘‘

خاتون: ’’ہاں پرسوں اس کا سائنس کا پیپر ہے اور اس کی تیاری کچھ نہیں، اور اب بھی دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے میں لگی ہوئی ہے۔‘‘

میں نے اُن کی بات سن کر مسکراتے ہوئے کہا ’’یہ اِس وقت یہاں نہیں پڑھے گی، آپ اسے گھر پر کسی کے پاس چھوڑ کر آتیں تو شاید وہاں کچھ پڑھ لیتی۔‘‘

خاتون: ’’اس کی دادی تو گھر پر تھیں لیکن یہ وہاں نہیں پڑھتی، اس لیے میں اسے یہاں لے کر آئی کہ چار پانچ سوال تو یاد ہو ہی جائیں گے۔‘‘

میں نے کہا ’’وہ شاید ایک آدھ سوال یاد بھی کرلیتی لیکن اِس وقت اس کے سامنے اس کے ہم عمر بچے کھیل کود میں مصروف ہیں، لہٰذا آپ کتنی بھی کوشش کرلیں، یہ اِس وقت بالکل نہیں پڑھے گی بلکہ تھکی ہاری گھر پہنچے گی تو وہاں بھی نہیں پڑھے گی، لہٰذا اس وقت اسے بچوں سے کھیلنے دیں۔‘‘

خاتون کو شاید میری بات سمجھ میں آگئی اور انہوں نے اپنی بچی کو اُن بچوں کے درمیان بھیج دیا۔ وہ بچی ماں کی اجازت ملنے پر کھل اٹھی اور ’’تھینک یو مما‘‘ کہہ کر بچوں کے ساتھ کھیلنے لگی۔

مذکورہ بالا قسم کی صورتِ حال میں نے پڑھے لکھے والدین کی بھی دیکھی ہے کہ وہ بچوں پر بے موقع محل اپنی مرضی مسلط کرتے ہیں کہ بچہ وہی کرے جو وہ چاہتے ہیں، جس کی وجہ سے بچے اس کام کو بغیر دل چسپی کے کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بلکہ اس زبردستی کی کوشش میں وہ اس کام سے نہ صرف بے زار ہوجاتے ہیں بلکہ ان کی دل چسپی بھی ختم ہوجاتی ہے، خصوصاً پڑھائی کے لیے تو بچوں کو ایک مؤثر اور سازگار ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اس ماحول میں جب دوسرے بچے کھیل کود میں مصروف ہوں، انہیں کہا جائے کہ سبق یاد کرو اور وہ بھی سائنس کا، تو کیا نتیجہ نکلے گا؟

پھر ایک اہم بات کا ضرور تذکرہ کروں گی کہ بچوں کو سب کے سامنے ڈانٹنا یا مارنا اُن کی عزتِ نفس کو مجروح کرتا ہے۔ یہ چیز انہیں آپ سے دور بھی لے جاسکتی ہے۔ والدین تو کیا اساتذہ کرام کا بھی یہ طریقہ سراسر غلط ہے۔

کچھ والدین کو اپنے بچے کو یہ کہتے بھی سنا گیا کہ ’’یہ کہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکے گا، بالکل کند ذہن ہے، اسے تو کسی کاروبار وغیرہ میں لگانا پڑے گا۔‘‘ اور پھر واقعی ایسے بچے تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔

سمجھ دار والدین اپنے بچوں کے ساتھ تعلقات اس طرح استوار کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی ترجیحات اور خواہشات کو اہمیت دیتے ہیں۔ میرا چھوٹا بیٹا عبداللہ ماشاء اللہ بہت ذہین تھا، میں اسے اس کے بڑے بھائی کی طرح سی اے کروانا چاہتی تھی لیکن اس کی دل چسپی انجینئرنگ کی طرف تھی، لہٰذا اس پر اپنی مرضی مسلط نہیں کی اور اسے انجینئر بننے دیا۔

میرا بڑا عرصہ درس و تدریس میں گزرا، جہاں مجھے بچوں کی نفسیات کو پرکھنے کا موقع بھی ملا۔ استاد بھی والدین کی طرح ہی ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے بچے جو پڑھنے میں بالکل دل چسپی نہیں لیتے تھے، جب ہم نے اُن پر خاص توجہ دی اور ان کے کسی بھی کام کو سراہا تو انہوں نے واقعی کامیابی حاصل کرکے اپنے والدین کو بھی حیران کردیا۔ یہ گُر بچوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر عمر کے افراد کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔

اس لیے میں صرف والدین سے ہی نہیں بلکہ اساتذۂ کرام سے بھی یہی کہوں گی کہ بچے بڑے معصوم لیکن حساس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں، اس لیے ان کے ساتھ مثبت رویہ اختیار کیا جائے۔ ہر وقت اور خصوصاً دوسروں کے سامنے انہیں مسلسل ڈانٹنے ڈپٹنے، روک ٹوک کرنے اور ان کے ہر کام میں نقص نکالنے سے اُن پر برا اثر پڑ سکتا ہے۔ اگر بچے سے کوئی غلطی سرزد ہو بھی جائے تو اس کی اصلاح کرنا والدین اور اساتذۂ کرام کا فرض ہے، لیکن اگر اکیلے میں مثبت طریقے سے اسے سمجھائیں تو بہتر ہے۔ اگر دوسروں کے سامنے اس کی غلطی کی اصلاح چاہتے ہیں تو اس طرح کہیں کہ ’’آپ نے صحیح کیا ہے، لیکن آپ اس سے بہتر صلاحیت رکھتے ہیں، اور اس چیز کو اگر اس طرح لکھتے یا کرتے تو اور زیادہ اچھا ہوجاتا، امید ہے اِن شاء اللہ اگلی مرتبہ آپ اس سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔‘‘

اس کے برعکس اس موقع پر ہمارا منفی رویہ، سب کے سامنے اس کی خامیوں کو بیان کرنا اُسے مزید پیچھے کی جانب لے جاسکتا ہے۔

تمام بچے ذہنی طور پر یکساں نہیں ہوتے لیکن ہمارے منفی رویّے کی وجہ سے ان کی صلاحیتیں مزید کمزور پڑ سکتی ہیں۔ اس لیے آپ کا اپنے رویّے میں اس بات کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ آپ کا مثبت رویہ بچے کو آپ کے قریب لا سکتا ہے اور کامیابی کی طرف بھی لے جاسکتا ہے۔

حصہ