آزاد مجھ کو کردے

97

’’جنابِ صدر! میں آزاد وطن کا شہری ہوں، یہ آزادی میرے اسلاف کی قربانیوں، لاکھوں شہادتوں اور محنتوں کے نتیجے میں مجھے ملی، مگر مجھے خبر ہی نہ ہوئی کہ سازشی جال میں جکڑتا گیا، ہر جگہ میں مصیبتوں میں پھنسا ہوا ہوں۔ ہاں جناب والا! میں ایک پاکستانی شہری، جہاں میرا جینا ہی وہ جرم ہے جس کی سزا میں کاٹ رہا ہوں۔ فلسطین کے بے بس پُرعزم لوگ قید ہوتے ہوئے بھی غلام نہیں، مگر میں آزادی سے صرف باجا بجا سکتا ہوں یا سائلنسر نکال کر بائیک چلاسکتا ہوں، اس لیے کہ میں عیاش، لٹیروں، غاصبوں اور قاتلوں کی زد میں ہوں… مگر میرے محترم اساتذہ! مجھے بتائیں کہ کیا واقعی ہم آزاد ہیں؟‘‘

زنیر یومِ آزادی کی تقریر کی ریہرسل کررہا تھا۔ دس دن بعد یوم آزادی تھا۔

’’اب ایسا بھی نہیں، بچے مایوسی مت پھیلاؤ۔ فلسطین کے حالات دیکھو اور شکر ادا کرو… شکر۔‘‘ سر جبران نے اسے ٹوکا۔

’’جی سر! صبر شکر کی تلقین اچھی ہے مگر ایک تلخ سچائی کو ہم اور آپ کیسے جھٹلا سکتے ہیں جو بجلی، پانی اور گیس کی قلت سے ہمارا حشر کررہی ہے، جینا عذاب ہوچکا ہے، اوپر سے بجلی کے بلوں میں جو ٹیکس لگ کر آرہے ہیں یہ تو ایک کھلا ڈاکہ ہے۔ اور آپ فلسطین کی بات کیسے کررہے ہیں! ہماری حکومت معصوم بچوں اور نہتے شہریوں کے وحشیانہ قتل پہ خاموش رہی، پھر عوام نے بھرپور احتجاج کیا، ان کے لیے راستے کھولنے کی اجازت مانگی تو ان سے مجرموں کی طرح کا سلوک کیا، کتنے نوجوان اسی جرم میں گرفتار ہوئے اور احتجاج پہ بیٹھے لوگوں کی جانیں بھی لی گئیں۔ کیا قبلۂ اوّل سے حکمرانوں کی دشمنی ہے یا اسرائیلی دہشت گردوں کے غلام ہیں یہ؟ سر بتایئے نا مجھے اس بارے میں، میرے قائدِ محترم محمد علی جناح کا فرمان مجھے سنائیے نا۔‘‘

زنیر بپھرا ہوا تھا، اس کے ساتھ حذیفہ اور حیدر بھی اپنی تقاریر لیے بیٹھے تھے اور متفق نظر آرہے تھے۔

’’سر ہماری حکومتیں چاہے نیلی ہوں یا پیلی، ہری ہوں یا لال… ہمیں غلاموں کی طرح فتح کررہی ہیں۔ کیا ہمارے اسلاف نے ان کی غلامی کے لیے ہمیں آزاد کرایا تھا؟‘‘ یہ حذیفہ کی آواز تھی۔

’’دیکھو بچو! اتنے باغی ہوکر بات نہ کرو، تم لوگ اپوزیشن کے نمائندے نہیں ہو، یہ بڑوں کے مسائل ہیں بیٹا!‘‘انگلش کے سر محمد علی جیسے حکومتی نمائندے بن رہے تھے۔

’’ٹھیک ہے سر! یہ بڑوں کا مسئلہ ہے نا! تو پھر ہم اسٹوڈنٹس کے لیے اسکول فیس اور چنگ چی کا کرایہ آدھا کردیں، لوڈشیڈنگ ہو تو ہماری پڑھائی کے لیے الگ سے روشنی اور جگہ کا انتظام کردیں۔ ہم بچے بڑوں کے ساتھ پوری طرح بدحال ہوجاتے ہیں۔ بچوں کو مراعات دیں الگ سے۔‘‘حیدر جیسے جلا بیٹھا تھا۔

’’ارے بچو! تمھاری باتیں تسلیم، مگر ہم نے چیف گیسٹ کے طور پر ایک ایم پی اے کو بلوایا ہے، وہ اسکول کی فلاح کے لیے ایک بڑی رقم مختص کریں گے، یہ شکایتوں کا دفتر کھول کے بیٹھو گے تو کیا تاثر لیں گے! کچھ مثبت باتیں کرو۔ دیکھو سمجھا کرو۔‘‘ مطالعۂ پاکستان کے سرتنویر دھیمے لہجے میں بولے۔

’’ٹھیک ہے، میں ایم پی اے صاحب کے سامنے سچائی لازمی بیان کروں گا، یہ نئی نسل کی آواز ہے، جمہوری ملک کے شہری کی حیثیت سے یہ میرا حق ہے۔ سر! یہ پابندیاں جوآپ لگا رہے ہیں وہ تو بادشاہت میں ہوتی ہیں نا۔‘‘

بالک ہٹ بھی کچھ کم نہیں تھی، اس لیے کہ تینوں بچوں کے گھر میں شدید گرمی میں گھنٹوں لائٹ نہیں ہوتی تھی، پانی کا بحران الگ سر اٹھائے کھڑا تھا، پھر بھاری بل، گویا بلڈوزر سے کچلے جارہے تھے۔ ایسے میں آواز بلند کرنے کا حق بھی نہ دیا جانا ان کو مزید باغی بنا رہا تھا۔

’’ایسا کرو تم تینوں تقریر چھوڑ دو، ٹیبلو اور ترانوں میں حصہ لو، زنیر کی آواز بھی سریلی ہے اور ملّی نغموں میں اسے انعام بھی مل چکا ہے۔‘‘ سر شیراز بولے۔ وہ ان تینوں باصلاحیت بچوں کے بغیر تقریب نہیں رکھنا چاہ رہے تھے۔

’’سوری سر! ہم میں سے کوئی ظالم بادشاہوں کے دربار میں قصیدے نہیں پڑھ سکتا۔‘‘حیدر کے کہتے ہی باقی دونوں بھی کھڑے ہوگئے۔

’’گیٹ آؤٹ لڑکو! تمھاری بحث بدتمیزی میں بدل رہی ہے، تم حد سے گزر رہے ہو، لہٰذا تم کو کسی چیز میں نہیں لیا جائے گا۔‘‘ سر شمسی کی گرج دار آواز نے جیسے فیصلہ سنادیا۔

ہاں کچھ اساتذہ بچوں کے حق میں دبی زبان سے سفارش بھی کررہے تھے مگر زنیر اور اس کے فیلوز جا چکے تھے۔ یہ ایک خواب سے ہجرت کی جان لٹا دینے والی انوکھی داستان تھی۔ صرف آزادی کے لیے خوں چکاں عہد کی تاریخ کا حاصل نسلوں کی آزادی تھی فقط، مگر بعد میں جال جکڑتے گئے اور اب قید کی ایسی انتہا تھی جہاں موت ایک پناہ لگتی ہے۔ ایسے میں قید کے ستائے یہ بچے اس کڑوے سچ پہ آواز بھی نہیں اٹھا سکتے تھے، جمہوری ملک میں ایسی آمریت تھی۔ جال اَن گنت تھے… دہشت اور راہزنی کے جال، قلتوں سے ذلتوں تک کے جال۔ پانی کو ترستے، بجلی کی بندشوں میں گرمی کے عذاب سہتے لوگ اب چیخ رہے تھے۔ مہنگائی کی انتہا نے احتجاج لازم کردیے تھے، جہاں ظالم اور ڈاکو حکمرانوں نے نہتے، بے قصور شہریوں کو خوں خوار کتوں کے حوالے کردیا تھا، حتیٰ کہ ان موذیوں کو مارنا ممنوع کردیا تھا۔ انسانی جان کتنی سستی تھی۔

’‘کوئی بات نہیں یار! ہم انہی اندھیروں میں ننھے تاروں کی طرح سہی، چمکنا نہیں چھوڑیں گے۔‘‘ سب نے امام صاحب سے لے کر دکان داروں تک سے بات کی۔ سب پہلے ہی دل جلے تھے، موٹی موٹی گالیاں اکثر کی زبانوں پہ تھیں۔

تینوں بچوں کا کہنا تھا کہ یہ گالیاں مسئلے کا کوئی حل نہیں نکال سکتیں۔ اب نکلنا ہوگا، آواز اٹھانی ہوگی۔ ہم پہلے منظم ہوکر کچھ پوسٹر لگائیں گے قومی پرچم کے ساتھ، پھر یومِ آزادی کا پروگرام محلے کی چوک پہ رکھیں گے۔ وطن کی دھجیاں اڑانے والے ہم کو قید کرتے ہیں، ہمیں اُن سے آزادی حاصل کرنی ہے۔ وطن کو نعمتوں سے نوازا گیا مگر اس پہ قابض ڈاکوؤں سے نجات کی تحریک میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ مایوس ہوکر کب تک مُردہ بنے رہیں۔

تینوں بچوں کے ساتھ بڑے بھی شامل تھے۔ کیسے نہ ہوتے، بجلیاں تھیں جو غریبوں کے گھر بلوں کی صورت گررہی تھیں، پانی کی قلت شدید گرمی میں دن میں تارے دکھا رہی تھی، مہنگائی کی افزائش بیلوں کی طرح بڑھائی جارہی تھی۔ اتنا زیادہ تو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اسکول میں کی جانے والی تقاریر اب یہاں ہوں گی۔ دکان دار، رکشہ ڈرائیور، تنخواہ دار افراد بھی اظہار خیال کریں گے مگر سب تمیز کے دائرے میں ہوگا۔ آئین اور ریاست کا احترام رہے گا کہ یہ وطن اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے۔ وطن کے پرچم کے ساتھ فلسطین کے پرچم بھی ہوں گے، اسرائیلی جارحیت کی مذمت لازمی ہوگی… بس سب قرینے اور حوصلے سے اپنا کام کریں گے۔

مگراسکول میں ٹیچرز بھی دو حصوں میں بٹ گئے۔ زنیر اور اس کے دونوں ساتھیوں کی پرنسپل صاحب کے سامنے پھر پیشی ہوئی۔

’’آئو بچو! ادھر آرام سے بیٹھ جائو۔‘‘ وائس پرنسپل سر زوار نے محتاط انداز میں کہا۔

’’جی سر؟‘‘ زنیر سوالیہ انداز سے مخاطب ہوا۔

’’بیٹا تم لوگ اپنی تقریریں بالکل تیار رکھو، کچھ بچوں نے کلامِ اقبال پہ ٹیبلو بھی بنایا ہے، سب کچھ ہوگا ویسے ہی۔‘‘ انھوں نے یوٹرن لیا تھا۔

’’مگر سر! آپ اچانک کیسے مان گئے؟ بتانا پسند کریں گے۔‘‘ حذیفہ سے نہ رہا گیا۔

’’ہاں حب الوطنی اور آئین کے اندر رہتے ہوئے تم بچوں کو بھی اپنی رائے دینے کا حق ہے۔ دراصل ہمارے سرکاری مہمان کی اسلام آباد دوڑیں لگ گئیں، حکومتی پارٹی سے کچھ جھگڑے چل رہے ہیں وہ نہیں آسکیں گے، پھر کہاں کی گرانٹ!‘‘ سر مبشر نے بچوں کو اعتماد میں لیا۔

’’واقعی! تھینک یو سر! اب ہماری بھی سنی جائے گی یہاں۔‘‘

’’ہاں بیٹا! اور کچھ فلاحی اداروں سے لوگ مہمانانِ گرامی کے طور پہ مدعو کیے گئے ہیں۔‘‘ ایک اور آواز آئی۔

’’آزادی بچانے کے لیے تحریک یومِ آزادی سے چلے گی، پہلا قدم اٹھے تو قدم اٹھتے جاتے ہیں۔ کل پاکستان بنانا عظیم ترین تھا، آج پاکستان کو قاتلوں، ڈاکوؤں اور قبضہ گیروں سے چھڑانا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ ہم آزاد ہوسکیں۔

تقاریر کے ساتھ نظم ’’پرندے کی فریاد‘‘ پہ ٹیبلو کی ریہرسل ہورہی تھی۔ چوک کا پروگرام الگ تھا مگر باجا ممنوع تھا اور والدین نے اس کی تاکید کی تھی۔

آزاد مجھ کو کردے او قید کرنے والے
میں بے زباں ہوں قیدی، تُو چھوڑ کر دعا لے

حصہ