”ارے مینا جلدی کرو تمہیں تو تھکنا آتا ہی نہیں تھا۔“ نملہ نے مینا کو دوسرے چکر میں آواز لگائی۔
وہ دونوں چیونٹیاں سردیوں کے لیے اناج کا ذخیرہ جمع کرکے گودام میں پہنچانے کی ذمہ داری پر مامور تھیں۔ جبکہ ان کی سہیلی سونی گودام میں ذخیرے کی کھیپ کو طریقے سے پیک کروار رہی تھی۔ اور یہاں ”بی مینا“ جلد ہی تھک کر پائوں پسار کر لیٹ گئی تھیں، ساتھ ہی وہ اپنی دوست کو بھی اس کام چوری کی ترغیب دے رہی تھیں۔
”ارے نملہ! سب ہی تندہی سے کام میں لگی ہیں اگر میں کچھ آرام کرلوں تو کیا فرق پڑ جائے گا۔ بلکہ میں تو کہتی ہوں کہ تم بھی آجائو کچھ دیر باتیں ہی سہی۔“ یہ کہہ کر جب مینا نے مندی ہوئی آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ نملہ اپنے کام میں مصروف ہو چکی ہے۔ مینا نے لاپروائی سے اپنے ننھے ننھے شانے اچکائے اور انکھیں موند کر کچھ گنگنانے لگی۔
…٭…
رات کو جب نملہ اور مینا کھانا کھانے بیٹھیں تو کچھ ہی دیر میں سونی بھی اپنا کھانا وہیں لے آئی ۔
”آج تم کافی سست لگ رہی تھیں مینا۔ کیا ہوا؟ تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟“ سونی نے فکرمندی سے پوچھا۔
”ارے بھئی تمہارا ہدف تو پورا ہوگیا نا، یا میری وجہ سے کچھ کمی رہ گئی۔“ مینا نے جیسے برا منایا ۔
اس کے لہجے پر اس کی دونوں سہیلیاں حیران رہ گئیں۔ سونی ان کی دوست تو تھی ہی لیکن عہدے میں کچھ بڑی تھی ذرا غصّے سے کہنے لگی۔”بات یہ ہے مینا کہ تم کچھ دن سے کافی لاپروائی اور سستی برت رہی ہو جسے میں اب تک نظرانداز کرتی رہی ہوں ۔لیکن اب جبکہ تمہاری سستی دوسری ساتھیوں نے بھی محسوس کرلی ہے تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں تمہاری شکایت ملکہ عالیہ تک نہ پہنچ جائے۔ “اس نے نوالہ منہ میں ڈالا اور ذرا رکی ۔
اس لیے میں تمہیں ایک اچھی دوست ہونے کے ناطے سمجھارہی ہوں کہ سنبھل جائو۔“ سونی نے نوالہ نگل کر بات پوری کی۔
نملہ نے سونی کے لہجے میں تنبیہ محسوس کرتے ہوئے مینا کو دیکھا لیکن مینا کا اطمینان ٹس سے مس نہ ہوا۔ اس کی یہ ڈھٹائی دیکھ کر سونی اٹھ کر ہی چلی گئی لیکن نملہ سوچ میں پڑ گئی ۔ وہ اپنی پیاری دوست کے لیے فکرمند تھی۔
…٭…
اگلے دن نملہ نے پہلے سے اٹھ کر مینا کی ڈیوٹی کی جگہ کا جائزہ لیا اور انچارج سے کہہ کر اپنی ڈیوٹی مینا کی جگہ لگوالی۔ جبکہ مینا کو اس دن نملہ کی جگہ کام کرنا پڑا۔ نملہ نے مینا کی جگہ کام کرکے اس بات کا اندازہ لگالیا تھا کہ مینا کی سستی اور کاہلی کی اصل وجہ کیا ہے؟
…٭…
آج لنچ ٹائم پر سونی مینا کے ساتھ کھانا کھانے پر تیار نہ تھی لیکن نملہ کے اصرار پر وہ بھی اس وقت مینا کے ساتھ ہی بیٹھی ہوئی تھی۔
”معلوم ہے آج میری ڈیوٹی مینا کی جگہ پر تھی اور جانتی ہو میں نے وہاں کیا دیکھا؟“ نملہ نے ڈرامائی انداز میں بات شروع کی ۔
” مجھے پتا ہے تم نے وہاں بہت سارا کھانا دیکھا ہوگا، ہے نا؟ وہاں اتنا کچھ ہوتا ہے کھانے کو کہ مجھے زیادہ ڈھونڈنا نہیں پڑتا بلکہ میں تو ساتھ کھاتی بھی جاتی ہوں۔“ مینا نے جلدی جلدی کہا۔
”اگر آج نملہ تمہاری جگہ پر تھی تو تم کہاں تھیں؟“ سونی نے مینا سے پوچھا۔
” ارے میں نملہ کی جگہ پر تھی نا۔“پھر اس نے نملہ کی طرف منہ موڑ کر کہا” نملہ بھئی! تم میری جگہ مجھے واپس کردو۔ میری پرانی جگہ ہی اچھی تھی۔ آج تو مجھے اتنی محنت کرنی پڑی کہ میں تو تھک ہی گئی۔“ مینا نے جماہی لیتے ہوئے کہا۔
مینا کی بات پر نملہ ہنس دی۔ ”میرا نہیں خیال کہ وہ جگہ اب کسی اور کو الاٹ ہو سکتی ہے۔“ اس نے مینا کے سر پہ بم پھوڑا۔
”کیوں، کیا ہوا؟“مینا اٹھ کر بیٹھ گئی۔ ”دراصل آج جب میں کام پر پہنچی تو دیکھا کہ زیادہ تر میٹھی ہی چیزوں کے ٹکڑے آگے پیچھے بکھرے ہوئے تھے کام کا کچھ اناج میں نے بڑی مشکل سے تلاش کرکے گودام تک پہنچایا اور تو اور آج اس گھر میں بہت افراتفری تھی۔ دراصل اس گھر کے ایک مکین کی طبیعت خراب ہوگئی تھی۔ جو ڈاکٹر اس کے علاج کے لیے آئے تھے انہوں نے اس کمرے کا حال (جہاں پر آج نملہ کی ڈیوٹی تھی) دیکھ کر ہی کہہ دیا بچہ صحت بخش خوراک کھانے کے بجائے پیکٹ کے چپس اور ٹافیاں بہت کھاتا ہے اس غیر معیاری خوراک نے اسے کاہل اور بیمار کردیا ہے۔“ نملہ سانس لینے کو رکی۔
”اب تو وہ ایک ہفتہ اسپتال میں رہے گا تاکہ پرہیزی خوراک اور دوائوں سے اس کی طبیعت بہتر ہو سکے ۔ “ نملہ نے بات پوری کرکے جب مینا کو دیکھا تو مینا ساکت بیٹھی نظر آئی۔ اب سونی نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔
”ہاں جبھی تو میں کہوں کہ مینا کا لایا گیا سارا غلّہ غیر معیاری کیوں ہے؟ اب سمجھ میں آئی کہ اس میں مینا کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی تو ڈیوٹی ہی غلط جگہ پر لگائی گئی تھی۔“ سونی نے مینا کا دل رکھنے کے لیے کہا۔
”ہاں تو اور کیا، وہ کھانا ہی نقصان دہ ہے ۔اس کی وجہ سے ہی میں اتنی سست ہوگئی ورنہ مجھے تو تم دونوں جانتی ہی ہو کہ دس ساتھیوں جتنا کام میں اکیلے ہی کر لوں اور تھکوں بھی نہ۔“ مینا نے فخریہ لہجے میں کہا تو اس کی دونوں سہیلیاں اپنا مشن کامیاب ہوتے دیکھ کر ہنس دیں ۔
”اور ہاں نملہ! اب میں اسی جگہ ٹھیک ہوں جہاں آج میں نے کام کیا تھا۔ تم انچارج کو بتادینا۔“ مینا کی بات پر نملہ نے سر ہلایااس دوران لنچ ٹائم کےاختتام کی گھنٹی بج اٹھی اور وہ تینوں بھی تازہ دم ہوکر اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے اٹھ گئیں۔