ریڈیو کا پہلا مشاعرہ

132

ابھی چند ہی دن کی بات ہے کہ ایک اخبار میں یہ واقعہ بطور لطیفہ شائع ہوا کہ نواب سائل دہلوی کی آخری عمر میں ان کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی، چلنے پھرنے سے معزور ہو گئے تھے۔ ایک رکشا خرید لیا، اس پر سوار ہونے میں بھی ان کو دشواری ہوئی تھی۔ ایک دن لال کنوئیں پر ٹرام کی لیکھ میں رکشا پھنس کر الٹ گیا۔ لوگوں نے بڑھ کر نواب صاحب کو اٹھایا تو انھوں نے شکریہ ادا کیا اور کہا، ایک وقت تھا جب ابا حضور کا ہاتھی ڈیوڑھی پر آتا تو میں لپکتا اور اس کی دم پکڑ کر او پر جا بیٹھتا، اور اب یہ حال ہے ’’ ہمت تری زندگی کی ایسی تیسی۔‘‘

لکھنے والے نے اپنی طرف سے یہ لطیفہ لکھا اور پڑھنے والوں نے یہ لطیفہ پڑھا۔ اس نے ہنسایا اور یہ جسے، اب یہ کیا معلوم کہ ہنسانے والے کو وہ آنسو بھی نظر آیا یا نہیں جو اس لطیفے کی تہ میں جھلک رہا ہے اور بننے والوں نے وہ آہ بھی سنی یا نہیں جو اس قسم کے پردے میں چھپی ہوئی ہے۔ خیر محتسب را درون خانہ چہ کار۔ نواب سراج الدین سائل کے بارے میں مجھے تو اپنی بات سناتا ہے۔ نواب صاحب مرحوم کی خدمت میں مجھے شرف باریابی حاصل تھا۔ شام کو اکثر ’’مچھلی والاں‘‘ میں جناب یوسف خوش نویس کے بھائی جناب قدیر کی دکان پر آیا کرتے تھے۔ کسب فیض کے لیے میں بھی وہیں حاضری دیا کرتا تھا۔ صدر الصدور کی حویلی کے مشاعروں میں بھی نواب صاحب کی ہم رکابی میں جایا کرتا تھا۔ حویلی کے آگے چتلی قبر کے پاس ڈاکٹر مجیب کا مطب تھا۔ وہاں بھی نواب صاحب کبھی کبھی رک جایا کرتے تھے۔ مطب کے برابر کی دکان ’’مرزا چپاتی‘‘ یہ شہزادگان دہلی میں سے تھے مگر گردش روزگار کہ پتنگ بنا بنا کر پیٹ پالا کرتے تھے۔

جن کے طویلے بیچ کئی دن کی بات ہے
ہرگز عراقی و عربی کا نہ تھا شمار
اب دیکھتا ہوں میں کہ زمانے کے ہاتھ سے
موجی سے کفش پا کو گٹھاتے ہیں وہ ادھار

نواب صاحب اس اپنے پٹے ہوئے مہرے یعنی مرزا چپاتی کے سامنے یوں کھڑے ہوتے تھے جیسے بادشاہ وقت کے دربار میں حاجت مند سائل کھڑا ہو۔

بیخود رو ہوئی اور نواب سائل میں داغ کی جانشینی کے مسئلے پر یا کسی اور مسئلے پر آپس میں کچھ آور تھی تھی۔ دونوں بزرگ ایک دوسرے سے بھیجے ہوئے تھے۔ چناں چہ بیخود کی ٹولی الگ اور نواب صاحب کے حاشیہ نشین الگ۔ میں بیخود صاحب کی ٹولی سے وابستہ ہو گیا۔ ویسے تو نواب ان کا ذاتی اور خاندانی وجاہت کے سامنے جھک کر سلام کیا کرتا تھا لیکن دل میرا بیخود کی طرف تھا۔

ایک دن نواب صاحب کی ایک غزل ’’اثر جام شراب نظر جام شراب‘‘ میری نظر سے گزری۔ میں نے قلم برداشتہ اس پر تنقید لکھ دی۔ عزیز حسن بقائی کو ایسا موقع خدا دے، اس نے وہ خرافات اپنے رسالے پیشوا میں چھاپ دی ، گو یہ مضمون کسی فرضی نام سے شائع ہوا تھا، مگر تاڑنے والے تاڑ گئے کہ یہ مضمون کس کا ہے۔

اس مضمون میں تنقید کم تھی اور گستاخی زیادہ۔ اس لفظ پر پھبتی، اْس مصر پر فقرہ۔ مضمون چھپنے کوتو چپ گیا مگر میری یہ حالت کہ کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہ رہا۔ میں نے یہ مضمون محض یاروں میں اپنی پڑھ بنانے کے لیے لکھا تھا ، میرا منشا ہر گز یہ نہ تھا کہ چھپ جائے۔

نتیجہ میری اس حماقت کا یہ ہوا کہ میں نے بھائی قدیر کی دکان پر روز کا بیٹھنا اٹھنا ترک کر دیا اور دہلی میں منہ چھپائے پھرتارہا۔ ایک دن محض اتفاق کہ مٹیا محل کے موڑ پر نواب صاحب سے آمنا سامنا ہو گیا۔ میں آداب بجا لایا۔ نواب صاحب نے حسب معمول خندہ پیشانی سے جواب دیا اور فرمایا ’’کہاں رہتے ہو دکھائی نہیں دیتے۔‘‘

میرے سان گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ نواب صاحب یوں تلطف سے پیش آئیں گے۔ میں کچھ نہ کہہ سکا، شرم کے مارے گردن جھکائی۔ نواب صاحب بھی خاموش اور میں بھی چپ۔ آخر نواب صاحب نے فرمایا ’’چلو ہمارے ساتھ ہمیں ٹرام تک پہنچا دو۔‘‘

نواب صاحب آگے آگے اور میں پیچھے پیچھے۔ بارہا دل نے چاہا کہ نواب صاحب سے اپنی گستاخی کی معافی مانگوں، پھر سوچا کہ شاید نواب صاحب کی نظر سے وہ مضمون گزرا ہی نہ ہو جس کو لکھ کر میں نے اپنا نامہ اعمال سیاہ کیا ہے۔ میں اسی کش مکش میں تھا کہ ہم ٹرام کے پاس پہنچ گئے اور نواب صاحب فرسٹ کلاس کے درجے میں سوار ہو کر تشریف لے گئے۔

اس واقعہ کے کوئی ایک سال بعد شملے میں سر رضا علی مرحوم کی صدارت میں مشاعرے کے انتظامات ہوئے۔ اعلانات سے معلوم ہوا کہ حضرت سائل بھی اس مشاعرے میں شرکت کریں۔

مشاعرے کے کچھ انتظامات میرے بھی سپرد تھے۔ مگر کسی کام میں میرا جی نہ لگتا تھا۔ رہ رہ کر یہ خیال ستاتا تھا کہ مجھ سے نواب صاحب کی شان میں گستاخی سرزد ہوئی ہے۔ ان کو کیوں کر منہ دکھاو?ں گا۔ اور تو کچھ نہ سوجھا، جب نواب صاحب کی ا?مد کی اطلاع شملے پہنچی تو میں ان کے استقبال کے لیے کا لکا پہنچا۔ انبالے کی گاڑی سے اترے تو میں نے عرض کیا کہ میں اپنی حرکت پر سخت تادم ہوں، مجھے معاف فرمادیجیے ورنہ ا?پ شملے تشریف لے جایئے اور بندہ اگلی گاڑی سے دہلی جارہا ہے۔ فرمایا دلی میں ہمارے سوا تمھارا ہے ہی کون۔

ان کا یہ فقرہ تیر کی طرح سینے میں لگا اور اب تک اس کی چبھن دل میں پاتا ہوں۔ یہ واقعہ 1930ء سے پہلے کا ہے۔ اس کے پانچ چھ سال بعد جب دہلی میں ریڈیو کی بنیاد پڑی اور میں نے دہلی میں مستقل اقامت اختیار کر لی تو نواب صاحب کی خدمت میں اکثر حاضر ہونے کی سعادت نصیب ہوتی تھی اور میں زبان کے بارے میں ان کے ارشادات عالیہ سے استفادہ کرتا تھا۔ اس زمانے میں ریڈیو سے مشاعرہ نشر کرنے کا ہم کو خیال بھی نہ آیا تھا۔ ہم ریڈیو کو موسیقی، تقریروں، خبروں اور ڈراموں کے لیے استعمال کرتے تھے اور بس۔ مشاعرے بہت بعد میں شروع ہوئے اور فیچر پروگرام بھی۔ ان پروگراموں کا ذکر تو بعد میں ہوگا پہلے یہ عرض کرنے کی اجازت دیجیے کہ فن کاروں کو معاوضہ کیوں کر دیا جاتا تھا۔

یہ وہ زمانہ ہے جب فن کاروں سے کانٹریکٹ پر دستخط کرانے کے معمول پر عمل درآمد شروع نہ ہوا تھا اور نہ اسٹاف آرٹسٹ کا نام وضع ہوا تھا۔ آرٹسٹ روز کے روز اپنے پیسے لے جاتے، چاہے اس میں ایکٹر ہوں یا سازندے یا کوئی اور۔ آرٹسٹ حضرات جس دن بھی چاہا، سارنگی اٹھا کر ریڈیو اسٹیشن آگئے اور جب جی چاہا گھر پر سوتے رہے۔ ان لوگوں کی بے نیازیاں ریڈیو کے کام میں خلل انداز ہوئیں تو میں نے ترکیب یہ سوچی کہ ان لوگوں کو روز کے روز پیسے نہ دیے جائیں بلکہ مہینہ بھر کی ساری رقم پہلی تاریخ کو دی جائے۔ یہ تدبیر کارگر ہوئی اور سازندوں نے پابندی وقت کے ساتھ ریڈیو پر حاضری دینا شروع کی۔

گورنمنٹ آڈٹ محکمے کو یہ تدبیر پسند نہ آئی۔ انھوں نے فرمایا کہ ماہ بہ ماہ خواہ انے والا باقاعدہ سرکاری ملازم ہوتا ہے اور اسٹیشن ڈائریکٹر یا کنٹرولر آف براڈ کاسٹنگ کو بغیر وزارت مالیات کی منظوری کے باقاعدہ ملازم رکھنے کی اجازت نہیں۔

ہم نے اس کا جواب یہ دیا کہ سرکاری حکم سر آنکھوں پر لیکن ہر سازندے سے ہر روز رسید لینے میں اور ہر روز عارضی اقرار نامہ کرنے میں اور ہر روز اس کا اندراج کرنے میں بڑی قباحت ہے اس لیے اجازت دی جائے کہ ان لوگوں کے ساتھ ایک ہی دفعہ مہینہ بھر کا اقرار نامہ کر لیا جائے اور ان کو مہینے میں ایک ہی دفعہ تنخواہ دی جائے۔

آڈٹ نے اجازت دے دی مگر ساتھ ہی یہ پخ بھی لگا دی کہ ان لوگوں پر یہ امر بخوبی واضح کر دیا جائے کہ ان کو وہ مراعات حاصل نہ ہوں گی جو دیگر با قاعدہ ملازمین سرکار کو حاصل ہیں۔ میں نے آڈٹ کے اس فیصلے پر اعتراض کیا تو جواب ملا کہ پھر یوں کرو کہ:

-1ہر نوع کے سازندوں کی تعداد کا جواز محکمہ مالیات کے سامنے ثابت کرو۔

-2ہر نوع کے سازندوں کی استعداد علمی و عملی ضبط تحریر میں لائو۔

-3ر نوع کے سازندوں کا گریڈ تجویز کرو اور اس امر کا لحاظ رکھو کہ آیا دہ سازندہ گزیٹیڈ افسر ہو گا کہ نان گزیٹیڈ افسر۔ ہر دو حالتوں میں اس کے ساتھ اور کون سا عملہ وابستہ ہوگا۔مثلا ًکلرک وغیرہ۔

-4ہر نوع کے سازندے کی استعداد فن کو پر رکھنے کا معیار مقرر کرو اور نیز یہ بتائو کہ سازندہ میٹر کولیٹ ہوگا یا نہیں ، اگر نہیں تو کیوں نہیں؟

-5یہ امر بھی واضح کرد کہ سازندوں کا انتخاب پبلک سروس کمیشن کرے گا یا نہیں۔ اگر نہیں توکیوں نہیں؟

میں نے کان پکڑے اور سرکار کولکھ بھیجا کہ بخشو بی بلی ، چو ہا لنڈھورا ہی بھلا۔ اْدھر سر کار تو یہ جواب پا کر خاموش ہوگئی اور ادھر میں نے سازندوں اور دیگر فن کاروں کا اقرار نامہ ایک مہینے سے دو مہینے کا کر دیا۔ دو سے چار کا اور پھر رفتہ رفتہ سال بھر کا۔ فن کاروں کی بھی جان میں جان آئی اور ہم بھی خوش ہوئے کہ روز روز کے جھنجھٹ سے چھوٹے۔

آڈٹ کی عقابی نظر کا قائل ہونا ہی پڑتا ہے۔ ان کے ہاتھ ہمارا کوئی اقرار نامہ آ گیا۔ بس پھر کیا تھا ، وہ پوچھ کچھ کا طوفان اٹھا کہ ریڈیو کی کشتی ڈگمگا گئی مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔ اقرار ناموں کو تسلیم کرتے ہی بنی اور یوں اسٹاف آرٹسٹ کے عملے کی بنیاد پڑی۔

یہ حال تو آپ نے اسٹاف آرٹسٹ عملے کا سنا۔ اب یہ سینے کہ ان شاعروں کو کیا ملتا تھا جن کا کلام ہم نشر کرتے تھے۔ صاحبو! اس زمانے میں شاعر کو کچھ نہیں ملتا تھا بلکہ معاملہ یہاں تک سادہ اور آسان تھا کہ شاعر خود اسی بات کے خواہاں رہتے تھے کہ ان کا کلام کسی گویے سے گوایا جائے۔ کچھ عرصے تک تو یہ ’’مفت راچہ گفت‘‘ کا سلسلہ چلتا رہا مگر اس کے بعد اکا دکا شاعر نے ہم سے کیفیت طلب کی کہ میرا کلام بغیر اجازت اور بغیر معاوضے کے کیوں نشر ہوا اور اصرار کیا کہ معاوضہ دلوایا جائے۔ جب ایسے خطوط کا تانتا بندھنے لگا تو ہم نے ایک ہمہ گیر قسم کا جواب لکھ کر چھپوا لیا۔ جو شاعر معاوضہ طلب کرے اسے یہ چھپا ہوا خط بھجوا دیتے تھے۔ اس خط کا مضمون یہ تھا:

’’جناب عالی! آپ کا خط مورخہ فلاں موصول ہوا۔ ازراہ کرم اندازہ لگا کر بتائیے کہ آپ کے کلام کے نشر ہو جانے سے آپ کو کیا مالی نقصان ہوا تاکہ آپ کی شکایت پر مزید غور کیا جا سکے۔‘‘

یہ خط پانے کے بعد شکایت کنندہ خاموش اور ہم خوش ہو جاتے تھے۔ لیکن آخر کار ہمارے ضمیر نے ہم کو ملامت کرنا شروع کی۔ ہم نے کہا، ساری دنیا میں غریب شاعر کو کچھ نہ کچھ ریڈیو والوں سے مل جاتا ہے دہلی ریڈیو ہی کیوں خست کرے۔ چنانچہ شاعروں کے ساتھ کنٹریکٹ کا سلسلہ جاری ہوا۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ دنیا بھری پڑی ہے۔ کس کس شاعر سے کنٹریکٹ کیا جائے اور انتخاب کا معیار کیا مقرر کیا جائے۔ بہت غور و خوص کے بعد تجویز یہ قرار پائی کہ جو شاعر بھی نظر آئے اس کے ساتھ کنٹریکٹ کر لو اور اس طویل فہرست میں سے جس کے کلام کی ضرورت ہو، نشر کیا کرو اور اس کا معاوضہ صاحب تصنیف کو دو۔ چلیے اس حساب سے کسی شاعر کو سال بھر میں دس روپے ملے، کسی کو سو اور کسی کو کچھ بھی نہیں۔ اللہ بس ، باقی ہوس۔

کاپی رائٹ کا اصول یہ ہے کہ اگر مصنف مر بھی جائے تو بھی اس کی کتاب کے شائع ہونے کے بعد لواحقین اس کتاب کے مالک متصور ہوتے ہیں۔ اس اصول کے زد سے حضرت داغ کا حق تصنیف ابھی قائم تھا۔ اور وراثت میں یہ کلام حضرت نواب سائل کی ملکیت تھا، چناں چہ ہم کنٹریکٹ اور دست خط کرانے حضرت سائل کے پاس پہنچے۔ وہ کنٹریکٹ ان کی خدمت میں پیش کیا جس میں حضرت داغ کی ایک غزل کا حق نشر حاصل کرنے کے لیے آٹھ آنے کی خطیر رقم پیش کی گئی تھی۔

نواب صاحب نے اس کنٹرکیٹ کو دیکھا اور دیکھتے ہی رہ گئے۔ ان کا عالم خاموشی بلکہ سکتے کا عالم ہم کو کھائے جاتا تھا۔ بہت ڈرتے ڈرتے کہا کہ حضور اس حقیر رقم کا خیال نہ کیجیے۔ سال بھر میں یہی قطرہ قطرہ دریا ہو جائے گا۔ نواب صاحب ہم کو یوں دیکھنے لگے جیسے ہم پاگل ہو گئے ہیں۔ پھر فرمایا، یہ سوال نہیں کہ دریا ہو جائے گا یا سمندر، مگر یہ بتائو کہ تم داغ کے کلام کا معاوضہ لگانے والے کون ہوتے ہو۔ یہ فرما کر نواب صاحب نے ہم کو تشریف لے جانے کا حکم صادر فرمایا اور ہم اپنا سا منہ لے کر چلے آئے لیکن دل میں رہ رہ کر یہ سوال اٹھتا تھا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ داغ کا کلام نشر نہ کیا جائے اور اگر بغیر کنٹریکٹ کے نشر کیا جائے تو کل کلاں کو ہزاروں لاکھوں کے دعوے ہو جائیں تو کیا ہوگا۔

آخر پھر نواب صاحب کی خدمت میں حاضر تمام کیفیت بیان کی اور التفات کی درخواست کی۔ نواب صاحب نے ہماری معروضات کو سن کر فرمایا کہ ہمیں دو وہ اقرار نامہ، اور جو کچھ ہم لکھیں، اسے منظور کرو۔ ہم نے کانپتے ہاتھوں سے وہ اقرار نامہ نواب صاحب کے حضور پیش کیا۔ نواب صاحب نے آٹھ آنے کی رقم کاٹ دی۔ ادھر انھوں نے آٹھ آنے کی رقم کاٹی، ادھر ہماری یہ حالت کہ کا تو تو بدن میں لہو نہیں۔ گمان گزرا کہ کیا معلوم سو ہزار یا لاکھ لکھ دیں ، ہم ان کا ہاتھ تھوڑا ہی پکڑ سکتے ہیں۔ کچھ دیر تامل کے بعد نواب صاحب کا قلم چلا۔ آٹھ آنے کی رقم تو کٹ ہی چکی تھی اور کٹی ہوئی رقم کے اوپر نواب صاحب نے لکھا ’’مفت۔‘‘

اس کے بعد نواب صاحب نے اس کنٹریکٹ پر اپنی بیگم صاحبہ کے دست خط کرائے اور ہم پرانے زمانے کے بزرگوں کا مقابلہ اپنے آپ سے کرتے ہوئے اور جبیں سے پسینہ پونچھتے ہوئے نواب صاحب سے رخصت ہوئے۔

ایک دن میں یوں ہی بیٹھا شعرا کے تذکرے کی کوئی کتاب دیکھ رہا تھا۔ اس میں حضرت داغ کی تاریخِ وفات لکھی تھی۔ مجھے خیال آیا کہ اس موقع پر حضرت داغ کی برسی منائی جائے اور مشاعرے کا بندوبست کیا جائے جس میں حضرت داغ کے سب شاگرد مدعو ہوں۔

اس کے انتظام و انصرام کے لیے میں حضرت سائل کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انھوں نے میری تجویز پر صاد کیا اور حضرت داغ کے ان تمام شاگردوں کے نام لکھوائے جو اس وقت حیات تھے۔ ان میں حضرت بیخود کا نام بھی تھا۔ یہ نام دیکھ کر میں ٹھٹکا کیوں کہ حضرت سائل ان مشاعروں میں تشریف نہیں لاتے تھے جن میں حضرت بیخود موجود ہوں۔ میں نے پوچھا بیخود صاحب تشریف لائیں گے۔ فرمایا وہ نہیں آئے گا تو مشاعرہ بھی نہیں ہوگا۔ یہ سن کر ہماری باچھیں کھل گئیں۔ ہم سیدھے حضرت بیخود کے پاس پہنچے۔ ساری کیفیت بیان کی۔ سن کر فرمایا، دیکھا استاد کے نام کی برکت، اتنے عرصے کے بچھڑے ہوئے بھائیوں کو پھر ملا دیا۔

حضرت نوح، حضرت شاعر، حضرت سیماب، حضرت جوش ملسیانی اور دیگر تمام شاگردان داغ کو دعوت نامے بھیجے گئے کہ فلاں تاریخ کو دہلی تشریف لائیے اور حضرت داغ کی یاد میں ریڈیو کے مشاعرے میں شرکت فرمائیے۔ یہ تمام حضرات اپنے اپنے خرچ پر دہلی تشریف لائے۔ داغ کی یاد میں مشاعرہ، حضرت سائل اور حضرت بیخود کا قران السعدین اور پھر تمام ہندوستان کے مانے ہوئے داغ کے شاگرد شاعر۔ وہ مشاعرہ جما کہ اس کی یاد اب تک دل سے محو نہیں ہوئی اور نہ کبھی محو ہوگی۔ یہ ریڈیو کا پہلا مشاعرہ تھا۔ مشاعرے کے اگلے دن میں نے سوچا کہ ان حضرات کی خدمت میں کچھ نذرانہ ضرور پیش کرنا چاہیے تاکہ کم از کم ان کے سفر کا خرچ تو پورا ہو جائے۔ یہ سوچا اور کچھ حساب لگا کر تین ہزار کا چیک حضرت سائل کی خدمت میں پیش کیا۔ حضرت نے چیک دیکھ کر کیفیت سنی اور چیک چاک کر ڈالا۔ شاعر اور شعر پڑھنے کا معاوضہ لے؟ یہ وہ بات ہے جو سائل صاحب کو ہم نہ سمجھا سکے اور نہ سائل صاحب سمجھ سکے۔

حصہ