مبارک ثانی کیس اور ڈیجیٹل دہشت گردی

434

2015 کی بات ہے :
بات شروع کرتے ہیں 6 سال قبل 6 مارچ 2019 کے دن سے۔حسن اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر اسکرول کررہا تھا کہ ایک ٹوئیٹ پر چونک گیا۔وہ ٹوئیٹ ایک ’’سرگرمی ‘‘ کے بارے میں اطلاع کی تھی ۔ حسن نے اُس کو کئی بار پڑھا وہ تصاویر اور اِس کے ڈسکرپشن کو پڑھتا رہا ، اُس کی تیوریوں پر بل بڑھتے چلے گئے اُس کی حیرت، غصے میں بدل گئی۔ حسن نے ٹوئیٹ کا اسکرین شاٹ لیا، لنک محفوظ کیا، ایک درخواست لکھی اور مقامی تھانے میں جمع کرادی کہ ِاس غیر قانونی سرگرمی کو روکا جائے۔حسن ایک ذمہ دار مسلمان پاکستانی شہری تھا جو پاکستان کے آئین و قانون کو اہمیت دیتا تھا۔ مسلمان ہونے کے ناطے وہ اصل میں 2015 سے کوششیں کر رہا تھا کہ کسی طرح مسلم معاشرت میں تحریف شدہ قرآن کی اشاعت کو ختم کرادیا جائے۔اُس نے صدر، وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ سمیت تمام حکام کو درخواستیں لکھنے کے بعد ،مجبور ہوکر لاہور ہائیکورٹ میں2018میں اس عمل کے خلاف رٹ پٹیشن بھی دائر کی تھی۔اتفاق سے اُس پٹیشن پر ایک دن قبل یعنی 5 مارچ 2019کو ہی فیصلے میں حکم ہوا تھا کہ ’’تحریف شدہ ترجمہ قرآن چھاپنے والے ملزمان کے خلاف کارروائی کی جائے ‘‘۔اس لیے حسن نے فوری طور پر عدالتی فیصلے کاحوالہ دے کر چناب نگر تھانے اور متعلقہ حکام کو درخواست لکھی ۔ اُس نے کوشش کی کہ پولیس کارروائی کرے اور ایسی خطرناک غیر قانونی سرگرمی کو ہونے سے قبل روک دے۔کئی دن گزر گئے مگر پولیس نے کوئی کارروائی نہ کی۔ حسن کے ٹوئٹر پر اَب اُس ’غیرقانونی‘ سرگرمی کے انعقاد کی تصاویر کی پوسٹیں آئیں جو حسن کا دل چیر رہی تھیں۔6 مارچ کو اُس نےدرخواست دی تھی کہ ’’تحریف شدہ قرآن کی تقسیم و ترویج کی تقریب کو روکا جائے۔‘مگر یہ کیا ؟آج تو بڑے دھڑلے سے اُس ادارے کے ملعون پرنسپل نے تقریب کی تصاویر اور پوسٹ شیئر کر دی تھیں۔حسن نے غصہ کو قابو کیا اپنے وکیل دوست سے مشاورت کی۔ ملکی آئین و قانون ،اُس میں موجود اسلامی شقوں پر یقین رکھا۔اُس نے دن بھر لگا کر معلومات، ثبوت، گواہی ، پوسٹیں جمع کیں ۔ ایف آئی آر درج کرنے کی ایک اور درخواست چناب نگر کے تھانے اور ڈویژنل پولیس افسر کو 14 مارچ 2019 کو جمع کرادی۔اُس نے تھانے میں یہ مقدمہ پیش کیا کہ ’’تحریف شدہ قرآن مجید کے نسخوں کو تقسیم کیا جا رہا ہے اور تقریب کو تصویر کے ساتھ عام کیا گیا ہے۔‘‘ جو پاکستان کی حدود میں کئی دفعات کے تحت سزائے موت کی حد تک سنگین جرم ہے۔

تھانہ گردی:
چناب نگر تھانے نے 2درخواستوں کے بعد اپنی کارروائی شروع کی اور اس میں 7 مہینے گزار دیئے۔ جی، سات مہینے ۔اس میں حسن کو تھانے اور دفاتر کے اتنے چکر لگوائے گئے ، اتنی بار بلایا، بٹھایا گیا جس کا مقصد یہی تھا کہ حسن اپنی ہمت سے ہار جائے ۔مگر یہ تو ناموس رسالت ﷺ کے تحفظ سے جڑا ہوا قرآن مجید کی تحریف اور جھوٹے نبی کے افکار کی ترویج کا معاملہ تھا۔پولیس نے درخواست کو اپنے کندھے سے اتارنے کے لیے یہ معاملہ سائبر کرائم کو بھیج دیا ۔جسے 3 دسمبر 2019 کو سائبر کرائم نے واپس ڈپٹی کمشنر چنیوٹ کو واپس کردیا ۔اس کے بعد حسن کو اِن دفاتر کے دوبارہ چکر لگانے پر مجبور کیا گیا ، حسن نے ہمت نہیں ہاری۔ ڈی سی چنیوٹ کوئی قدم اٹھانے کی ہمت ہی نہیں کر رہا تھا اور اُس نے 8 اگست 2021 ۔یعنی 2سال بعد یہ کیس دوبارہ سائبر کرائم بھیج دیا۔آپ یہ دفتر ی پنگ پانگ دیکھ رہے ہیں ۔ایک صاف سیدھا صریح جرم ہے جو سب کو نظر آرہا ہے، سب جانتے ہیں ، ٹوئٹر پر پوسٹ ڈالی گئی ۔ اس کے علاوہ حسن نے ایونٹ کے اندر کی تصاویر بھی جمع کرلیں۔ یہ نہ صرف ’غیر قانونی اشاعت ہے‘ اس کی تقسیم بھی غیر قانونی ہے اور یہ تحریف قرآن اور توہین کے ضمن میں سنگین جرم ہے ۔‘مگر کوئی پرچہ کاٹنے کی ہمت نہیں کررہاتھا۔17-جون 2020 کو حسن نے آئی جی پنجاب کو درخواست دی کہ پولیس پرچہ نہیں کاٹ رہی ۔ آئی جی پنجاب نے ایس ایس پی کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنا دی۔ کمیٹی نے ثبوتوں کا جائزہ لیا ،اکتوبر 2020 کو مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔مگر مقدمہ پھر بھی درج نہیں ہوا۔حسن ڈیڑھ سال سے قرآن مجید کی حفاظت کی خاطر مستقل تعاقب کر رہاتھا۔کئی بار شیطان نے ، کئی دوستو، پولیس والوں نے اُس کو سمجھایا کہ چھوڑو ، تمہاارا کام تو درخواست دینا ہے۔تم کیوں اپنا وقت برباد کر رہے ہو؟مگر حسن نے ٹھان لی تھی کہ وہ مسلم معاشرت کوتحریف شدہ قرآن اور جھوٹے مدعی نبوت کے گندےاَفکار سے آلودہ نہیں ہونے دے گا۔آپ تصور کریں کہ لاہور ہائی کورٹ سے حسن 5-3-2019 کو فیصلہ لے چکاتھا کہ تحریف شدہ قرآن کی اشاعت اور تقسیم مکمل غیر قانونی ہے ، پولیس کو حکم تھا کہ کارروائی کرے مگر ۔۔۔۔

دوبارہ عدالت کا دروازہ:
2021 آگیا ۔حسن پولیس گردی سے تنگ آکر دوبارہ لاہور ہائی کورٹ پہنچ گیا۔ آئی جی کی کمیٹی کی رپورٹ، پولیس کی لاپرواہی پر نوٹسز جاری ہوگئے۔مئی 2021 کو پنجاب قرآن بورڈ سے ’’تحریف شدہ قرآن کی اشاعت ‘‘ کے قانون سے متعلق رائے لی گئی ، مطلب 2 سال بعد ۔پنجاب بورڈ نے رائے دینے میں ڈیڑھ سال لیا اور دسمبر2022 کو یہ رائے دی۔ ایک بندے نے جرم سے قبل 6 مارچ 2019 کو مطلع کیا کہ ’’جرم کو روکے ‘‘مگر جرم سرزد ہوگیا تو اُس کے خلاف 6-12-2022 یعنی ساڑھے تین سال بعد ایف آئی آر کاٹی گئی مگر مجرم کو سزا دلانے کے لیے گرفتاری بھی ضروری تھی۔اِس کے لیے حسن کو دوبارہ عدالت میں 12 دسمبر 2022کو درخواست دینی پڑی کیونکہ تحریف شدہ قرآن ، کی اشاعت و تدریس اَب بھی جاری تھی۔اب 7 جنوری 2023 کو بالآخراُس اِدارے کے پرنسپل قادیانی ’مبارک ثانی ‘کو اِس جرم میں 7 جنوری 2023 کو گرفتار کرلیا گیا۔جی ۔ 2019مارچ سے جنوری 2023۔پھر لوگ کہتے ہیں کہ ’’سزا ریاست دے گی، قانون ہاتھ میں نہ لیں۔‘‘اَب جو قانون کا ساتھ دیتا ہے ، اُس کو جرم رپورٹ کرتا ہے،ثبوت بھی لا کر دیتا ہے ۔ وہ ذرا قانون کے طریقۂ کار کو بھی دیکھ لے ۔عدالت میں 18گواہان کے بیانات ، سوشل میڈیا پوسٹیں ،تحریف شدہ قرآن کے نسخے، و دیگر ثبوت سب کے سب جمع ہیں۔اس ادارے میں نہ صرف تحریف شدہ قرآن بلکہ مرزا کی لکھی گئی ترجمہ و تشریح کی تعلیم دی جاتی ہے، حکومت پنجاب سے پابندی شدہ کتاب ’روحانی خزائن‘ کی بھی تعلیم دے کر لوگوں کو باہر تبلیغ کے لیے نکالاجاتاہے۔

چکر پہ چکر ۔ چکر پہ چکر۔ فائل کا چکر۔ کاغذ کا چکر۔ رپورٹ کا چکر۔ کمیٹی کا چکر۔ صاحب کی چھٹی کا چکر۔ گرمیوں کی چھٹی کا چکر۔ آج فلاں مسئلہ ۔ کل فلاں کا چکر۔ ایسے چکر لگا لگا کر حسن کو اب 6سال ہو چکے۔مجرم کو فاضل عدالت نے یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ اِس جرم کی سزاتو بس 6 مہینے تھی جو وہ کاٹ چکا ہے۔ باقی تحریف قرآن اور اُس کو بانٹنے وغیرہ کا’جُرم اُس پر نہیں لگتا، چاہتے جتنے ثبوت، گواہ آپ لے آئیں، چاہے جتنا علما کہتے رہیں۔اَب اگر ایسا ہوگا تو کیسے لوگ قانون پر یقین کریں گے۔یہ کوئی جھوٹا الزام ، جھوٹا مقدمہ ، ذاتی رنجش پر پھنسانے کا کوئی کیس نہیں ہے ۔ پنجاب قرآن بورڈ نے تفصیلی اجلاس میں بیٹھ کر اپنی رپورٹ میں تصدیق کر دی کہ جمع شدہ ثبوتوں میں تحریف شدہ قرآن ، اسلامی شعائر کا استعمال سمیت سارے جرائم ہو رہے تھے۔

مسئلہ ہے کیا:
مسئلہ یہ ہے کہ ’قادیانی‘ پاکستان کے آئین کے مطابق غیر مسلم قرار دیئے جا چکے ہیں ، مگر وہ اپنے آپ کو غیر مسلم نہیں مانتے ، چنانچہ وہ اَصلاً تو آئین کے غدار ہیں۔ جب تک وہ اپنے آپ کو ’غیرمسلم ‘کے طور پر ظاہر نہیں کریں گے اور اپنے مذہب کی تفصیلات نہیں دیں گے اُن کو کوئی حقوق نہیں مل سکیں گے۔ اِس لیے وہ اسلام، پاکستان کے آئین و قانون کے مطابق کوئی اسلامی شعائر استعمال نہیں کر سکتے۔ تو اب اُنکا جھوٹا نبی ’ مرزا غلام قادیانی‘ یا اُس کا کوئی ساتھی قرآن مجید کا کوئی ترجمہ کرکے ’تفسیر صغیر‘ کے نام سے شائع نہیں کر سکتا ،نہ استعمال کر سکتا ہے، نہ بانٹ سکتا ہے ، نہ گھر کے اندر، نہ اپنے ادارے کے اندر ،کسی بھی جگہ یہ کام نہیں ہوسکتا۔یہ ملعون مبارک ثانی تو اس تقسیم کی تقریب کو ٹوئٹر پر شیئر کر رہا تھا۔4 سال بعد کیس درج ہوا ، 2023 میں وہ گرفتار ہوا۔ قادیانی مبارک ثانی کیس میں اُس گستاخ مجرم کو سپریم کورٹ کی جانب سے فروری 2024 میں ضمانت دینے کے فیصلے پر احتجاج ہوا۔ فیصلے پر نظر ثانی کرانے اور قرآنی آیات کے غلط استعمال کے خلاف درخواستیں جمع کرائی گئیں۔ اِس میں جماعت اسلامی، جمعیت علما اسلام، جمعیت اہل حدیث، تحفظ ختم نبوت ، سنی تحریک سمیت کئی اور ادارے بھی شامل ہوئے ۔سپریم کورٹ نے بھی علما سے رائے مانگی ۔اِس پرتین سماعتیں سپریم کورٹ میں ہوئیں۔بدھ ۲۴ جولائی کو فیصلہ سنا دیا گیا ۔ سپریم کورٹ میں پاکستان میں مقیم تمام مسالک کے علمائے کرام کی جانب سے ایک ہی بات ، ایک ہی موقف پیش کیا گیا اور واضح کیا گیا کہ چیف جسٹس نے غلطی کی ہے۔اِس کے باوجود 24 جولائی کے فیصلے میں غلط بیانی سے کام لیکر ، علمائے کرام کے سارے دلائل ، احکامات شرع، مکمل رد کر دیئے گئے۔ بلکہ توجہات کے باوجود قرآنی آیات کو زبردستی ڈال کر انتہائی غلط مفہوم میں استعمال کیا گیا۔حالیہ فیصلے سے سوشل میڈیا پر سب جماعتوں کی جانب سے سخت رد عمل آرہا ہے۔تمام دینی جماعتیں ، تنظیمیں، ادارے اِس فیصلے پر حیران ہیں۔ سب فیصلہ پڑھ کراس میں تضادات کی بھرمار قرار دے رہے ہیں ، توجہ کے باوجو داس بار بھی فیصلے میں قرآنی آیات سے غلط استدلال کیا گیا۔پیراگراف۱۷ اور ۱۸ میں خود مانگے گئے اکابر علماء کے شرعی فتویٰ کو بھی مکمل نظر انداز کر دیا گیا ۔سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک ایسا فیصلہ دیا گیا جس کی آڑ میں نہ صرف قادیانیوں کو تحریف قرآن کا لائسنس بانٹ دیا گیا اور ایسا کردیا گیاکہ وہ سزا سے بھی بچ سکیں گے کیونکہ عدالت میں تو عدالتی فیصلوں کی مثال چلتی ہے، شریعت کے ساتھ کیا سلوک ہوا ہے وہ سب نے دیکھ لیا۔

ڈجیٹل دہشت گردی:
اِس ہفتے ڈی جی آئی ایس پی آر فرماتے ہیں’ڈجیٹل دہشت گردی ‘ سے لڑنا ہے تو کیا یہ دہشت گردی صرف ’آرمی چیف کی توہین ‘ ہے ؟ نبی کریم ﷺ ، قرآن مجید ، صحابہ کرام ؓ اِن کے بارے میں جو سوشل میڈیا پر ہوگا ،اُس سے کون لڑے گا؟تفسیر صغیر جیسی غلیظ ،ناپاک کتب کی اشاعت کون روکے گا؟ یہ کتب ڈجیٹل ورژن میں بھی موجود ہیں ، 5 مارچ کے عدالتی فیصلے میں پی ٹی اے ، پیمرا سب کو پابند کیا گیا ہے مگر آج 2024 میں چیف صاحبان سے ہمارا سوال بنتا ہے کہ اس ’’ڈجیٹل دہشت گردی ‘‘کا کیا علاج ؟ کونساآپریشن ہے؟آئین، دستور کو نہ ماننے والوں کے درمیان ایسا امتیازی سلوک کیوں؟

(نوٹ: قادیانی بھی آئین نہیں مانتے اور وہ جن کے خلاف شمالی علاقہ جات میں آپریشن کی بات ہو رہی ہے وہ بھی نہیں مانتے )۔قانون ، آئین پر عمل کون کرائے گا؟ 4 -4 سال اگر پرچہ کاٹنے میں لگیں گے تو کیسے لوگ قانون پر یقین کریں گے؟دین کے متفقہ اجماعی موقف کے خلاف عدالت جاکر تحریف شدہ قرآن کو ، جھوٹے نبی کے دعوؤں پر مبنی تعلیمات کو کسی بھی انداز سے بانٹنے کے لائسنس جاری کرےگی تو مسلمان کیا کریں گے؟ڈجیٹل دہشت گردی کے خلاف آپریشن ہونا چاہیے ، مگر دین کو قربان کرکے ،جھوٹے مدعیان نبوت کو سر پر بٹھا کر یہ کام نہیں ہوسکتا۔قادیانیوں کے ’شہری حقوق ‘جب ہی ملیں گے جب وہ آئین کے مطابق اپنے آپ کو غیرمسلم تسلیم کریں گے۔جو لوگ آئین ، قانون کو مان رہے ہیں وہ 4 سال تک پرچہ کٹوانے کے لیے دھکے کھائیں ، جو آئین و قانون کے مخالف ہیں فیصلے اُن کے حق میں کیسے آجاتے ہیں؟جناب عالی۔ایسا نہیں ہے کہ تحفظ ناموس نبی ﷺ کے لیے جنگ یمامہ کے بعد معاملہ ختم ہو گیا۔ آج بھی پوری امت صدیق اکبر ؓ کے نقش قدم پر کٹنے کوتیار ہے، امت گنہگار ہے نبی کی اطاعت میں کوتاہی ہو جاتی ہے مگر ابھی ’غداری‘ کی سطح پر نہیں ہےکہ کسی جھوٹے نبی کو ایسے برداشت کرلے ، تحریف شدہ قرآن کو ’مذہبی آزادی‘ کے نام پر ایسے ہی برداشت کرلے ۔ملعونہ آسیہ سمیت دسیوں کیسز میں قانون کو ، عدلیہ کو اہمیت دی گئی مگر جو ہوا سب نے دیکھا۔ عدالت سے گستاخوں کو پھانسی کی سزائیں ہو چکی ہیں ، جرم ثابت ہو چکے مگر مجال ہے جو 20-20 سال ہو گئے کسی ایک کو بھی سزا دی گئی ہو۔

حصہ