عوام بدحال،حکمران خوشحال

99

’’بہت ہوگیا، اب سب کو ٹیکس ادا کرنا پڑے گا،کسی کو نہیں چھوڑیں گے، ایف بی آر میں اصلاحات لائیں گے، ٹیکس ریونیو دگنا کریں گے، چھوٹے کاروبار سے منسلک لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لائیں گے، ملک کی دولت لوٹنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی، ایک سو نوّے ملین پاؤنڈ کا حساب لیا جائے گا، توشہ خانہ کے چوروں سے ایک ایک پیسہ وصول کریں گے،کمیشن اور کک بیک کے پیسوں سے بیرونِ ملک بنائی جانے والی جائدادوں اور بے نامی اثاثوں کو ضبط کیا جائے گا، ترقی کی شرح کو تیزی سے بڑھاوا دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، اسٹاک مارکیٹ کو معاشی ماہرین کی مشاورت سے دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹ کے برابر لائیں گے، شرح نمو بہتر، جبکہ گردشی قرضے ختم کریں گے، بے روزگار نوجوانوں کو روزگار، اور چھوٹے کاروباری طبقے کو کاروبار کرنے کے لیے آسان شرائط پر قرضے بھی دیے جائیں گے، ملک میں یکساں تعلیمی نظام کے نفاذ کے ساتھ ساتھ صحت اور زراعت کے شعبوں پر بھی خصوصی توجہ دی جائے گی، غریب اور امیر کے لیے ایک قانون ہوگا، سب کو اپنے کیے کی سزا بھگتنی پڑے گی، طبقاتی تفریق کا خاتمہ کرکے تمام شہریوں کو انصاف کے حصول کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں گے، عوام کو بہترین سفری سہولت کی فراہمی سمیت ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے پورے ملک میں کروڑوں درخت لگائے جائیں گے، عوام کو سرمایہ دارانہ، جاگیردارانہ اور آمرانہ سوچ رکھنے والے سیاسی شعبدہ بازوں کے چنگل سے آزاد کروائیں گے، جمہوریت کو اس کی اصل روح کے مطابق بحال کریں گے، کسی کی بھی سفارش پر دہشت گردوں اور حساس تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو نہیں چھوڑا جائے گا، خاص طور پر ایف بی آر سن لے اگر تم نے اپنا قبلہ درست نہ کیا تو تمہارے خلاف سخت ایکشن ہوگا، میں کسی کے دباؤ میں نہیں آئوں گا، اگر میری بات نہ مانی گئی تو میں استعفیٰ دے دوں گا۔‘‘

یہ کسی جلسے میں کی جانے والی تقریر نہیں، اور نہ ہی ملک میں انتخابات ہورہے ہیں جن میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کوئی امیدوار یا کسی جماعت کی جانب سے چوروں، ڈاکوؤں، ملک کا پیسہ لوٹنے والوں اور کرپشن میں ملوث اداروں کو للکار کر ووٹ حاصل کرنے کے لیے سبز باغ دکھائے جارہے ہیں، بلکہ یہ بڑھکیں تو موجودہ حکومت کی جانب سے ماری جارہی ہیں۔ وزیراعظم پاکستان محمد شہبازشریف کی جانب سے: ٹیکس وصول کریں گے، چوروں کو پکڑیں گے، کسی کو نہیں چھوڑیں گے، ملک کو کرپشن سے پاک کریں گے وغیرہ وغیرہ جیسے جملے بولنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اب تک اس بات کا یقین نہیں کہ ملک میں ان کی جماعت کی حکومت آچکی ہے، اور جنابِ شہبازشریف خود وزیراعظم پاکستان ہیں۔ وہ اب بھی کسی اپوزیشن لیڈر کی طرح ہر بات پر ’’…کریں گے‘‘ کی گردان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

موجودہ حکمرانوں کی جانب سے عوام کو دی جانے والی سہولتوں کی قلعی تو پہلے ہی کھل چکی تھی، رہی سہی کسر آئی ایم ایف کی فرمائش کے عین مطابق عوام پر ناجائز ٹیکس لگا کر پوری کردی گئی ہے۔ پاکستان کو خوشحال بنانے کے دعوے کرنے والوں نے آئی ایم ایف کی بجلی اور پیٹرول مہنگا کرنے کی شرائط مانتے وقت اتنا بھی نہ سوچا کہ ان کا یہ اقدام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے تو کجا، ایک عام شہری کے لیے بھی زہرِ قاتل ثابت ہوگا۔ جہاں مہنگائی اور غربت کے ستائے مجبور عوام پہلے ہی خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوں، وہاں ٹیکسوں کے نام سے مانگا جانے والا بھتہ عوام کو تنگ آمد بجنگ آمد تک لے جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے جس کے گھر دو وقت کی روٹی نہ ہو وہ اپنے بچوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتا، اسے اپنے گھرانے کی زندگیاں زیادہ عزیز ہوتی ہیں۔ ان حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہی ملک دشمن قوتیں غربت اور افلاس سے تنگ لوگوں کو چند سکوں کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن اس قسم کے کئی واقعات ہمیں سننے اور دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ ایک طرف اشیائے خورونوش پر حکومت کی جانب سے ٹیکس لگائے جارہے ہیں، تو دوسری جانب عوام پر ٹیکس ادا نہ کرنے جیسے بھونڈے الزامات لگا کر اپنے ہی ملک کے شہریوں کو دنیا بھر کے سامنے ٹیکس چور ثابت کیا جا رہا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان کے ہر شہری کو نہ چاہتے ہوئے بھی زبردستی بھتے کی صورت میں ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے، جبکہ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں ٹیکس آمدنی پر وصول کیے جاتے ہیں اور اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ٹیکس نیٹ میں آنے والے اشخاص صاحبِ حیثیت ہیں یا نہیں۔ جن لوگوں کے پاس کوئی ذریعہ معاش نہ ہو، یعنی جو لوگ بے روزگار ہوں، یا جن کی سالانہ آمدن انتہائی کم ہو، ایسے لوگوں کے لیے وہاں کی حکومتوں کی جانب سے مختلف فنڈز رکھے جاتے ہیں، مثلاً ایسے لوگوں کو بے روزگاری الائونس سمیت دیگر مراعات دی جاتی ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں اس بات کی کوئی تمیز نہیں رکھی جاتی کہ ٹیکس ادا کرنے والے کی آمدنی اُس کی ضروریات کو پورا کرپا رہی ہے یا نہیں؟ یا کہیں وہ خود مستحق تو نہیں؟ لیکن پھر بھی حکومت ملکی وقومی ضروریات پوری کرنے، بلکہ حکمران و اشرافیہ اپنی جیبیں بھرنے کے لیے انتہائی بھونڈے انداز میں عوام الناس سے مختلف ٹیکس وصول کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ بظاہر کچھ ٹیکس صنعت کاروں اور تاجروں سے وصول کیے جاتے ہیں، لیکن ان کا اصل بوجھ عام آدمی پر ہی پڑتا ہے، جس کی وجہ سے عوام الناس پر عرصۂ حیات تنگ ہوتا جارہا ہے اور معاشرہ معاشی طور پر تباہی و بربادی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں اِس وقت آبادی کا ایک تہائی حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، جنہیں دو وقت کی روٹی تک میسر نہیں ہے۔ ایسی صورت میں جب کھانے کے لالے پڑے ہوں،کوئی مزید ٹیکس کیا دے گا! یعنی پاکستان میں پہلے ہی سارے کا سارا ٹیکس غریب عوام کا خون نچوڑ کر نکالا جاتا ہے۔ مثلاً انکم ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، دولت ٹیکس، سیلزٹیکس، ایکسائز ٹیکس، صابن اورماچس کی تیلی پر ٹیکس، تعلیم پر ٹیکس، صحت پر ٹیکس، انصاف کے حصول کے لیے خریدے گئے اسٹامپ پیپر پر ٹیکس، شادی کروانے پر ٹیکس، مرنے پر ٹیکس،کفن کے کپڑے پر ٹیکس، قبر پر ٹیکس، حج اور عمرہ کرنے پر ٹیکس، چھت رکھنے پر ٹیکس، اپنے پیسوں سے ٹی وی خرید کر دیکھنے پر ماہوار ٹیکس، پانی پینے پر ٹیکس، نہا کر پانی بہانے پر ٹیکس،کسی بھی سڑک پر سفر کریں تو راہداری یا ٹول ٹیکس،کوئی گاڑی خریدے تو کئی گنا ٹیکس، بچوں کو تعلیم دلوانے پر ٹیکس، بازار سے اشیائے خورونوش کی خریداری پر ٹیکس، بجلی اورگیس کے بلوں میں شامل مختلف ناموں سے درجنوں ٹیکس… اگر صرف بجلی کے بلوں پر ٹیکسوں کے نام پر وصول کیے جانے والے بھتے پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بجلی کے بل میں13 قسم کے ٹیکس شامل ہیں۔ پہلی قسم کا ٹیکس بجلی کی قیمت پر جنرل سیلزٹیکس ہے۔ دوسری قسم کا ٹیکس فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر جنرل سیلز ٹیکس کی صورت میں وصول کیا جا رہا ہے۔ تیسرا ٹیکس فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر الیکٹریسٹی ڈیوٹی ہے۔ اسی طرح چوتھا ٹیکس جو وصول کیا جا رہا ہے وہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ نامی ٹیکس ہے۔ اسی طرح بجلی کے بلز پر مزید نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ ایک پانچواں ٹیکس ہے جو بجلی کے استعمال شدہ یونٹس کی قیمت پر الیکٹریسٹی ڈیوٹی کی مد میں وصول کیا جارہا ہے۔ پھر چھٹا ٹیکس ہم ٹیلی ویژن فیس کی صورت میں ادا کررہے ہیں۔ ساتواں ٹیکس جو بلز میں شامل ہے وہ کوارٹرلی ایڈجسٹمنٹ چارجز ہیں۔ آٹھواں ٹیکس فنانشل کاسٹ چارجز نامی ہے۔ نویں نمبر پر ایکسٹرا ٹیکس چارجز آتے ہیں۔ دسویں نمبر پر فردر ٹیکس چارجز ہیں، یہ فردر نامی ٹیکس وہ ہے جس کی سمجھ آج تک کسی پاکستانی کو نہیں آسکی۔ اسی طرح گیارہواں ٹیکس جو بلز میں شامل ہے وہ ود ہولڈنگ ٹیکس ہے۔ بارہویں نمبر پر ہمیں میٹر رینٹ بھی ادا کرنا ہوتا ہے جبکہ میٹر کی پوری قیمت صارفین بجلی کے حصول کے وقت بھی ادا کرچکے ہیں، اس کے باوجود بھی ماہانہ بنیادوں پر اس کا رینٹ وصول کیا جارہا ہے۔ مطلب یہ کہ ایک چیز مکمل طور پر خریدنے کے باوجود بھی اسے کرائے پر دی گئی چیز بتایا جارہا ہے۔ اسی طرح تیرہویں قسم کا ٹیکس انکم ٹیکس کی صورت میں صارفین کو ادا کرنا ہوتا ہے۔ ان بھاری بھرکم ٹیکسز کے بعد بجلی کے بِل میں 200 یونٹ تک استعمال کرنے پر آپ کا بِل 300 روپے سے 3500 روپے تک آتا ہے۔ جبکہ اگر آپ 201 یونٹ استعمال کریں تو اسی بِل میں پانچ ہزار روپے کا اضافہ ہوجاتا ہے اور آپ کو 8500 روپے سے لے کر 9000 روپے کا بِل ادا کرنا پڑتا ہے۔ اب اتنے ٹیکس ادا کرنے کا سوچ کر اگر بیمار پڑ جائیں تو اپنا علاج نجی اسپتال میں کروانے پر بھی ٹیکس دینا ہوتا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اتنے ٹیکس ادا کرنے کے بعد بھی ہم سے ہی مزید ٹیکس وصول کرنے کی پالیسیاں بنائی جارہی ہیں۔ خدارا ذرا سوچیے ہم کس بات کا اور کون سا ٹیکس دیں؟ کیا اس بات کا کہ ہم پر حکومت کی جائے؟ ہمیں سوچنے سمجھنے سے عاری کیا جائے؟ یا پھر اس بات کا ٹیکس دیں کہ ہم پر مزید ٹیکس لگانے کے طریقے سوچے جاسکیں؟ اور یہ کیا کم ظلم ہے کہ ہم اپنے ہی پیسے اگر بنک میں رکھیں اور ان کو نکلوائیں تو اس پر بھی ٹیکس ادا کریں! یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ پاکستان میں اس وقت 45 سے زائد ٹیکس ہیں جو غریب عوام سے بھتے کی صورت وصول کیے جاتے ہیں۔ ماضیِ بعید کی حکومتوں کی بات چھوڑئیے، ماضیِ قریب میں اقتدار میں آنے والے خان صاحب تو ریاست مدینہ طرز کی حکومت بنارہے تھے، کیا انہیں خبر نہیں تھی کہ ریاست مدینہ میں جب کسی اجتماعی ضرورت کے لیے پیسہ جمع کرنے کی ضرورت پیش آتی تو اس مقصد کے لیے ریاست کی طرف سے اپیل کی جاتی تھی، جس پر مسلمان دل کھول کر اپنی جمع پونجی لٹا دیتے تھے، مگر ایسے حالات میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاست مدینہ کے مسلمان شہریوں پر زکوٰۃ کے سوا کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا، بلکہ ضرورتیں پوری کرنے کے لیے مسلمانوں سے اپنی مقدور بھر اعانت کرنے کی اپیل کی۔ اس صورت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ہمیں یہی رہنمائی ملتی ہے کہ ریاست اپنے مسلمان شہریوں سے مالی اعانت کی اپیل کرے۔ ہاں غیر مسلموں سے ٹیکس وصول کرنے کی تاریخ ضرور ملتی ہے۔ خان صاحب بھی روایتی حکمران ثابت ہوئے، اُن کے دور میں بھی سبزباغ ہی دکھائے گئے۔ خیر جو وقت گزر گیا اس پر کیا بات کی جائے! اب موجودہ حکومت ہی بتادے کہ وہ 25کروڑ پاکستانیوں کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے؟ پاکستان کو کس نہج پر لے جارہی ہے؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی گردان کرنے والے حکمرانوں کو یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ اسلامی ریاست سوائے زکوٰۃ کے، کسی بھی قسم کا کوئی دوسرا ٹیکس وصول نہیں کرتی بلکہ اس کے لیے لوگوں سے اپیل کی جاتی ہے۔ اسلامی ریاست میں جائز ذرائع سے پیسہ اکٹھا کیا جاتا ہے۔

اگر پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے جو سچ ہے تو پھر یہاں کے حکمران عملی طور پر کیوں اس راستے کا انتخاب نہیں کرتے جس کا حکم اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا۔ حکمران غریبوں پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے صنعت کاروں اور سرمایہ داروں سے مالی مدد مانگنے سے کیوں کتراتے ہیں؟ کیوں ایسے ذرائع تلاش نہیں کیے جاتے جن سے اربوں روپے کا زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔ ہمارا ملک قدرتی طور پر مالامال ہے، خدا نے اسے بڑے ذخائر سے نوازا ہے۔ ان ذخائر کی تلاش اپنی جگہ، اگر حکومت صرف اپنے اخراجات کم کرلے تو اربوں روپے بچائے جا سکتے ہیں۔ میرا اشارہ ارکان اسمبلی کو ملنے والی تنخواہوں اور دی جانے والی مراعات کی جانب ہے۔ ایک طرف ملکی معاشی صورتِ حال ابتری کا شکار ہے تو دوسری جانب ارکانِ اسمبلی یعنی مراعات یافتہ طبقے کو نوازنے کے لیے بجٹ میں خطیر رقم مختص کی گئی ہے جس کے مطابق ارکانِ اسمبلی کو مراعات کی مد میں 25 بزنس کلاس ائر ٹکٹ،3لاکھ مالیت کے ٹریولنگ واؤچر، مع فیملی بلیو پاسپورٹ کی سہولت میسر ہوگی۔ ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں پر سالانہ 41 کروڑ 11 لاکھ، دیگر الاؤنسز کے لیے 13کروڑ، ریگولر الاؤنس کے لیے 9کروڑ 60لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ ارکان کی ٹریولنگ اور ٹرانسپورٹیشن کے لیے 89 کروڑ 5 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں، جبکہ ارکان اسمبلی کو ایک لاکھ 50 ہزار ماہانہ بنیادی تنخواہ اور 38ہزار رو پے اضافی الاؤنسز کی مد میں ملیں گے۔ اس کے علاوہ ٹیلی فون کی مد میں 10ہزار، آفس الاؤنس کی مد میں 8 ہزار، ایڈہاک ریلیف کی مد میں15ہزار، اور اضافی الاؤنس کی مد میں5ہزار ملیں گے۔ اراکینِ اسمبلی اجلاس میں شرکت کی صورت میں ڈیلی اور کنونس الاؤنس حاصل کرنے کے مجاز ہوں گے۔4ہز ار800 روپے اسپیشل، 2 ہزار800 عام الاؤنس، جبکہ 2000 روپے یومیہ کنونس الاؤنس کی مد میں بھی حاصل کیے جا سکیں گے۔ ملک کے اندر سفر پر بزنس کلاس، بیرونِ ملک سرکاری دورے پر فرسٹ کلاس میں مفت سفر کی سہولت میسر ہوگی۔ دورانِ ڈیوٹی ارکان اسمبلی یومیہ 2 ہزار روپے گھریلو الاؤنس بھی حاصل کرنے کے حق دار ہوں گے، اور تو اور سالانہ3 لاکھ روپے کے ٹریول واؤچرز،25 بزنس کلاس مفت ریٹرن ٹکٹ بھی فراہم کیے جائیں گے۔ ہر رکن اسمبلی اور ان کے فیملی ممبرز سرکاری پاسپورٹ پر سفر کرنے کے مجاز ہوں گے۔ ان کے فیملی ممبرز کو بلیو پاسپورٹ کا اجراء کیا جائے گا۔ قائمہ کمیٹی کا چیئرمین بننے پر 25ہزار روپے اعزازیہ دیا جائے گا۔ چیئرمین کمیٹی بننے پر رکن کو پرائیویٹ سیکرٹری، اسٹینو، نائب قاصد اور ڈرائیور بھی دیا جائے گا۔ رکن اسمبلی کو بطور چیئرمین کمیٹی 1300 سی سی گاڑی کے ساتھ 600 لیٹر فیول بھی فراہم کیا جائے گا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ بیوروکریسی کو ملنے والی مراعات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ غریب عوام کو ناجائز ٹیکسوں کے بوجھ سے نجات دلانے کے لیے اقدامات کرے، خاص طور پر بجلی اور گیس کے بلوں پر لگائے جانے والے درجن بھر سے زائد ٹیکسوں کی وصولی پر آئی پی پیز سے بات کرے اور ان زہر قاتل معاہدوں پر نظرثانی کرے، سستی بجلی بنانے کے نئے منصوبوں پر کام کرے، سولر پینل کے لیے عوام کو آسان قرضے فراہم کرے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چلنے سے بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسے اقدامات کرنے سے ہی ملک کی گرتی ہوئی معاشی صورتِ حال اور غربت و بے روزگاری جیسے بڑے مسائل سے خاصی حد تک نمٹا جاسکتا ہے۔

حصہ