پانی کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں۔ یہ ہماری انتہائی بنیادی ضرورت ہے، یعنی ایسی ضرورت جسے پورا کیے بغیر بقا کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ ہر دور کے انسان کے لیے پانی کا معاملہ انتہائی نازک رہا ہے۔ ہونا بھی چاہیے تھا۔ انتہائی قدیم زمانوں سے انسان پانی کے ذرائع کے نزدیک بستیاں بساتا آیا ہے تاکہ پانی کا حصول آسان بھی ہو اور ہمہ وقت بھی۔
آج کی دنیا میں پینے کے صاف پانی کا مسئلہ انتہائی سنگین شکل اختیار کرچکا ہے۔ بعض ممالک میں پانی کے مآخذ پر تصرف کی کشمکش انتہائی خطرناک شکل اختیار کرچکی ہے۔ چھوٹے رقبے پر بسے ہوئے بڑی آبادی والے ممالک میں پانی کے حصول کی جنگ شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جن ممالک میں بظاہر پانی کی کمی نہیں وہاں بھی پانی کی قلت عام سی بات ہوکر رہ گئی ہے۔ اس میں نیت کی خرابی کا بھی دخل ہے اور انتظامی امور کے حوالے سے پائی جانے والی خامیوں اور غفلت کا بھی۔ بہت سے ممالک میں پانی تو بہت ہے مگر پانی کی مؤثر ترسیل اور منصفانہ تقسیم یقینی بنانے والا بنیادی ڈھانچہ ناپید ہے یا انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں ہے۔ ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے انسان کے لیے پینے کے صاف پانی کا حصول مزید دشوار بنادیا ہے۔ یہ صورتِ حال بچوں کے لیے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ وہ پینے کے صاف پانی تک آسانی سے رسائی نہ ہونے کے باعث انتہائی نوعیت کی مشکلات سے دوچار ہیں۔ گندے پانی کی نکاسی کے نامعقول انتظام نے معاملات کو مزید الجھا دیا ہے۔
پینے کے صافی پانی کی کمی کے نتیجے میں ایک طرف تو انسان کے لیے پیاس ڈھنگ سے بجھانا ممکن نہیں ہوپاتا، اور دوسری طرف کھانا پکانے میں بھی غیر معمولی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پینے کا صاف پانی میسر نہ ہو تو ہیضہ اور دیگر وبائی امراض تیزی سے جڑ پکڑتے ہیں۔ کمیاب صاف پانی مہنگا بھی ہوتا ہے۔ یوں صحتِ عامہ پر انسان زیادہ خرچ نہیں کرپاتا کیونکہ اُس کے ماہانہ بجٹ کا ایک معقول حصہ پینے کے صاف پانی کے حصول پر صرف ہوجاتا ہے۔
پینے کے پانی کی شدید قلت کے نتیجے میں جتنی بھی مشکلات پیدا ہوتی ہیں اُن کا زیادہ بوجھ خواتین اور بچوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ دنیا بھر کے پس ماندہ ترین ممالک میں پینے کے صاف کو تلاش کرکے جمع کرنے کا کام خواتین اور بچوں کے متھے مارا جاچکا ہے۔ اگر پینے کا پانی بہت دور سے لانا ہو تو خواتین اور بچوں کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ اس سے اُن کا معیارِ زندگی بھی شدید متاثر ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں بچے اسکول میں کم اور پانی کے حصول کی جدوجہد پر زیادہ وقت صرف کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ افریقا، ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے بہت سے ممالک میں پینے کے پانی کی قلت اور اُس کے حصول کی جدوجہد کے باعث اسکولوں میں لڑکیوں کی انرولمنٹ خاصی کم ہوتی ہے۔ جو لڑکیاں اسکولوں میں انرولڈ ہوں اُن کی حاضری گھٹ جاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اُن کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ دیہی اور قدرے غیر آباد علاقوں سے پانی لانا بچوں کے لیے انتہائی نوعیت کی مشقت ہوتی ہے، اور اس میں ان کی زندگی کے لیے خطرات بھی ہوتے ہیں۔ اس صورت میں بچوں کے جنسی استحصال کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
عالمی آبادی اس وقت کم و بیش 8 ارب ہے۔ اس میں سے نصف سے بھی زیادہ کو پینے کا صاف پانی آسانی سے میسر نہیں۔ 2 ارب سے زائد افراد ایسے ممالک میں رہتے ہیں جن میں پینے کا صاف پانی آسانی سے میسر نہیں۔ لوگوں کو جو رسد ملتی ہے وہ انتہائی کم ہوتی ہے۔ یہ معاملہ دن بہ دن سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔
2030ء تک پانی کی شدید قلت کے ہاتھوں در بہ در ہونے والوں کی تعداد 70 کروڑ سے زیادہ ہوچکی ہوگی۔ اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار اور تخمینوں کے مطابق 2040ء تک دنیا بھر میں ہر چوتھا بچہ کسی ایسے ملک میں جی رہا ہوگا جہاں پینے کے صاف پانی کی شدید قلت پائی جاتی ہو۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں پینے کے صاف پانی کی قلت اور اُس تک رسائی کی راہ میں مشکلات پیدا کرنے والے عوامل مختلف النوع ہیں۔ اِن تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی ایک حکمتِ عملی کارگر ثابت نہیں ہوسکتی۔ بین الاقوامی ادارے پینے کے پانی کی شدید قلت سے دوچار علاقوں میں مقامی ضرورتوں سے مطابقت رکھنے والی ٹٰیکنالوجیز کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ لوگوں کو پانی کی قلت سے نپٹنے میں معقول حد تک مدد دینے کے لیے اقوامِ متحدہ کے ادارے جامع منصوبہ بندی اور حکمتِ عملی کے تحت کام کرتے ہیں۔
زیرِ زمین پانی کے ذخائر کی تلاش کے لیے اقوامِ متحدہ ریموٹ سینسنگ ڈیوائسز اور جیوگرافیکل سرویز سے مدد لیتا ہے۔ عالمی ادارہ فیلڈ انویسٹی گیشنز کے ذریعے بھی لوگوں کو بحران سے نپٹنے میں مدد دیتا ہے۔
ایک بڑا مسئلہ پانی کے دستیاب ذخائر سے کماحقہٗ استفادہ کرنے کا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ پانی کسی بھی سطح پر، کسی بھی مرحلے میں ضایع نہ ہو اور لوگ دستیاب پانی سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوں۔ اس کے لیے تقسیم کا طریقِ کار اور نظام بہتر بنانے پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس زیادہ تعداد میں لگانے اور اُن کی کارکردگی بہتر بنانے پر بھی توجہ دی جارہی ہے۔ پانی کو گندا ہونے سے بچانے کی حکمتِ عملی پر بھی زور دیا جاتا ہے۔ زیرِ زمین پانی کو ضایع ہونے سے بچانے کے لیے گھروں کے استعمال شدہ پانی کو ٹریٹمنٹ کے ذریعے کھیتی باڑی کے قابل بنانے کی حکمتِ عملی کارگر ثابت ہوئی ہے۔
فی زمانہ بڑے شہروں میں بھی پانی کا بحران شدت اختیار کررہا ہے۔ دنیا بھر میں بڑے شہر پانی کی شدید قلت کا سامنا کررہے ہیں۔ شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث پانی کی طلب بھی بڑھتی جارہی ہے۔ پینے کے علاوہ کھانا پکانے اور دیگر گھریلو استعمال کے لیے بھی پانی کی طلب بڑھ رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں پینے کے پانی کے دستیاب ذرائع اور مآخذ پر دباؤ بڑھا ہے۔ بہت سے موقع پرستوں نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پانی ہی کو دھندا بنا ڈالا ہے۔
پانی کے ایسے ذخائر کو پروان چڑھانا بھی لازم ہے جو ماحول پر منفی اثرات مرتب نہ کریں۔ زیرِزمین پانی نکالنے کے لیے شمسی توانائی سے چلنے والے سسٹم یا ٹیوب ویل لگائے جارہے ہیں تاکہ ماحول کو زیادہ نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کبھی کبھی زیرِزمین ذخائر میں پانی ڈالا بھی جاتا ہے تاکہ اُن کا معیار بلند ہو۔ بارش کے پانی سے زیرِزمین ذخائر بہتر ہوجاتے ہیں۔ بعض مقامات پر اس بات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے کہ بارش کا پانی زمین میں چلا جائے تاکہ زیرِ زمین ذخائر کی طاقت بڑھے۔
دنیا بھر میں اس بات کو بھی بہت اہمیت دی جارہی ہے کہ بچوں کو چھوٹی عمر سے بتایا جائے کہ پانی بہت احتیاط کے ساتھ بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کو پانی کے استعمال سے متعلق باشعور بنانے پر خاطر خواہ توجہ دی جاتی ہے۔ ترقی پذیر دنیا میں اس پہلو کو بہت حد تک نظرانداز کیا جارہا ہے، جبکہ پس ماندہ ممالک میں، جہاں بچوں کو پانی کے حوالے سے بہت کچھ بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے، پانی کے باشعور اور معقول استعمال کو یقینی بنانے پر برائے نام بھی توجہ نہیں دی جارہی۔ شدید مشکلات کا سامنا کرکے جو پانی حاصل کیا جاتا ہے اُسے سوچے سمجھے بغیر استعمال کرکے ضایع کردیا جاتا ہے۔
اس وقت ترقی پذیر اور پس ماندہ دنیا میں بچوں کو بالخصوص اور پوری پوری آبادیوں کو بالخصوص پانی کے حوالے سے باشعور بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ پینے کے صاف پانی کی کمیابی کی صورت میں اُس کے ضیاع سے بچ سکیں۔ اسکولوں کی سطح پر بچوں کو پینے کے صاف پانی کا ضیاع روکنے کے حوالے سے بہت کچھ سکھانے کی ضرورت ہے۔
دنیا بھر کے ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک میں علاقائی (صوبائی) اور قومی سطح پر پانی کے حوالے سے بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسٹیک ہولڈرز کو اپنی ذمہ داریوں کا اچھی طرح اندازہ ہو۔
پانی چونکہ انتہائی بنیادی چیز ہے اس لیے کوئی بھی ملک اس سے متعلق امور کو نظرانداز کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ترقی یافتہ دنیا بھی اس معاملے میں غیر معمولی شعور کا مظاہرہ کرتی ہے، محتاط رہتی ہے اور پانی کے دستیاب ذخائر کو معقول ترین طریقے سے بروئے کار لانے کی کوشش کرتی ہے تاکہ کسی بھی سطح پر کسی کے لیے مشکلات پیدا نہ ہوں۔
اس حقیقت سے اب کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ ہر انسان کو واٹر اسمارٹ ہونا پڑے گا۔ ماحول کو پہنچنے والے نقصان کا گراف نیچے لانے کے لیے ہر شخص کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ دنیا بھر میں ماحول کے پیٹرن میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے بہت کچھ بدل رہا ہے۔ کہیں بہت زیادہ بارش ہورہی ہے اور کہیں بہت زیادہ گرمی پڑ رہی ہے۔ انسان نے ماحول کو نقصان پہنچانے کا سلسلہ اب تک ترک نہیں کیا۔ اس کے نتیجے میں بہت کچھ الٹ پلٹ گیا ہے۔
ماحول کی تبدیلی سے موسموں کا پیٹرن بھی بدل گیا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی شہری آبادیاں سیلابی کیفیت کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں جسے اربن فلڈنگ کہا جاتا ہے۔ دبئی اور ٹورانٹو میں موسلا دھار بارش کے نتیجے میں اربن فلڈنگ اِس کی بہترین مثال ہے۔
دنیا بھر میں ایک طرف تو پینے کا پانی کم ہوتا جارہا ہے اور دوسری طرف جو پانی دستیاب ہے وہ گندا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال کروڑوں بچے گندا پانی پینے کے باعث مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ موسموں میں پیدا ہونے والی شدت نے پانی کی دستیابی کا معاملہ بھی مزید پیچیدہ کردیا ہے۔ اِس کے نتیجے میں خرابیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ ایسے میں صاف پانی کا حصول انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ جو لوگ زیرِ زمین ذخائر سے حاصل شدہ پانی کو صاف کرنے کی مالی سکت نہیں رکھتے وہ اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی کو داؤ پر لگاتے ہیں۔
2001ء سے 2018ء کے دوران دنیا بھر میں رونما ہونے والی قدرتی آفات میں سے 74 فیصد کا تعلق پانی سے تھا۔ کہیں خشک سالی سے تباہی ہورہی ہے تو کہیں سیلاب کے ہاتھوں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ محض چلتا نہیں رہے گا بلکہ اِس میں شدت بھی پیدا ہوتی جائے گی۔
اس وقت دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد افراد ایسے علاقوں میں مقیم ہیں جہاں پانی کی محض قلت نہیں ہے بلکہ پانی کا معیار بھی بہت گرا ہوا ہے۔ لوگ گندا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ 44 کروڑ بچوں کو اس صورتِ حال کا سامنا ہے جس کے باعث اُن کے لیے اپنی صحت برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوپاتا۔
جب بھی کہیں کوئی قدرتی آفت رونما ہوتی ہے تو پانی کی رسد کا نظام بھی متاثر ہوتا ہے۔ پانی گندا ہو جانے سے ہیضہ، میعادی بخار اور دیگر بہت سی بیماریاں تیزی سے پھیلتی ہیں۔ بچوں کے ان بیماریوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر کہیں پینے کا پانی بڑی مقدار میں میسر بھی ہو تو شدید گرمی پڑنے کی صورت میں اُس میں ایسے پیتھوجینز پیدا ہوجاتے ہیں جو اُسے پینے کے حوالے سے انتہائی خطرناک بنادیتے ہیں۔ مثلاً شدید گرمی پڑنے کی صورت میں تالاب کا صاف پانی بھی خراب اور مُضِر ہوسکتا ہے۔
قدرتی آفات کے نتیجے میں پانی کی نکاسی کا نظام بھی خراب ہو جاتا ہے اور یوں پینے کے پانی کے آلودہ ہو جانے کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ روزانہ پانچ سال سے کم عمر کے ایک ہزار بچے پانی کی کمی، مضر پانی کی فراہمی اور نکاسی کے نظام کی خرابی کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اترتے ہیں۔ یوں ہر سال کم و بیش 14 لاکھ افراد پانی سے متعلق پیچیدگیوں کے باعث لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔
دنیا بھر میں سمندروں کی بلند ہوتی ہوئی سطح بھی پینے کے پانی کو نمکین بناکر اس قابل نہیں چھوڑتی کہ اُسے پیا جاسکے۔ یوں پانی کی قلت مزید شدت اختیار کرتی جاتی ہے۔